ونڈا سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے، وہ جو کچھ اس تک پہنچانا چاہ رہا تھا، پہنچ رہا تھا۔ اس کانچ سے وہ بھی گزری تھی۔ نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ، گردن سیٹ کی پشت سے ٹکائے، وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
’’میں سارا راستہ بس یہی سوچتا رہا کہ میں اب کروں گا کیا۔ کیا کروں گا میں زندگی میں سوچ رہا تھا۔ اللہ نے مجھے ضرورت سے زیادہ زندگی دے دی ہے… تمہارے ساتھ برا کیا تھا… برا تو ہونا ہی تھا میرے ساتھ… یاد ہے نا، میں نے تمہارے ساتھ سفر میں کیسی باتیں کی تھیں۔‘‘
اس نے عجیب سے انداز میں ہنس کر ایک لمحہ کے لیے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ایک لمحہ کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھی، پھر سالار نے نظریں چراتے ہوئے گردن سیدھی کر لی۔ سفر پھر خاموشی سے طے ہونے لگا تھا۔ وہ تعلق جو ان کے بیچ تھا، وہ جیسے خاموشی کو بھی گفت گو بنا رہا تھا۔ لفظ اس وقت خاموشی سے زیادہ بامعنی نہیں ہو سکتے تھے۔
امامہ بھی گردن سیدھی کرکے سڑک کو دیکھنے لگی۔ دھند اب گہری ہو رہی تھی۔ جیسے وہ سڑک پر نہیں بلکہ اپنے ماضی کی دھند میں داخل ہو رہے تھے۔ گہری، معدوم نہ ہونے اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی گہری دھند… کیا کیا اپنے اندر چھپائے ہوئے تھی، لیکن جو کچھ تھا، وہ ابوجھل ہو گیا تھا، فراموش نہیں ہوا تھا۔
سیل فون کی رنگ ٹون نے ان دنوں کو چونکا دیا۔ سیل پر سکندر کا نمبر چمک رہا تھا۔ سالار ہنس پڑا۔ امامہ اس کی بے مقصد ہنسی کو نہیں سمجھی۔
’’ہیلو!‘‘ سالار نے کال ریسیو کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا تھا۔ اسے حیرت تھی، سکندر عثمان کی کال اتنی دیر سے نہیں آنی چاہیے تھی۔ شاید ڈرائیور نے ان کے گھر پہنچنے پر ہی انہیں سالار کے ایڈونچر کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ سالار نے آواز کچھ کم کر دی تھی۔ جو کچھ سکندر اسے فون پر کہہ رہے تھے، وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ امامہ تک پہنچتا۔
’’جی…جی۔‘‘وہ اب تابع داری سے کہہ رہا تھا۔ سکندر اس پر بری طرح برس رہے تھے اور کیوں نہ برستے وہ، انہیں بے وقوف بنانا جیسے سالار کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور یہ احساس سکندر کے غصے میں اضافہ کر رہا تھا۔ انہوںنے کچھ دیر پہلے طیبہ کے پرس میں پڑے اپنے سیل پر ڈرائیور کی مسڈ کالز دیکھی تھیں اور اس سے بات کر کے وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے تھے۔ بائی روڈ لاہور جانا، اس وقت ان کے لیے اس کی حماقت کا اعلیٰ ترین مظاہرہ تھا لیکن اس نے جتنی اطمینان سے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی تھی، وہ ان کے لیے زیادہ اشتعال انگیز تھا۔
’’اب غصہ ختم کر دیں پاپا! ہم دونوں بالکل محفوظ ہیں اور آرام سے سفر کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے بالآخر سکندر سے کہا۔
’’تم ظفر کو دھمکیاں دے کر گئے تھے کہ وہ مجھے انفارم نہ کرے؟‘‘
’’دھمکی… میں نے ایک مؤدبانہ درخواست کی تھی اس سے کہ وہ آپ کو فی الحال انفارم نہ کرے… آپ ڈنر چھوڑ کر خوامخواہ پریشان ہوتے۔‘‘ وہ بڑی رسانیت سے ان سے کہہ رہا تھا۔
’’میری دعا ہے سالار! کہ تمہاری اولاد بالکل تمہارے جیسی ہو اور تمہیں اتنا ہی خوار کرے، جتنا تم ہمیں کرتے ہو، پھر تمہیں ماں باپ کی پریشانی کا احساس ہو گا۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’پاپا! اس طرح کی باتیں کریں گے تو میں اولاد ہی پیدا نہیں کروں گا۔‘‘
امامہ نے اس کے جملے پر چونک کر اسے دیکھا۔
’’پاپا دعا کر رہے ہیں کہ ہماری اولاد جلد پیدا ہو۔‘‘
امامہ کو چونکتے دیکھ کر سالار نے فون پر بات کرتے ہوئے اسے بتایا۔ وہ بے اختیار سرخ ہوئی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ اس طرح کی دعا کا کون سا وقت اور طریقہ ہے۔ دوسری طرف سکندر فون پر اس کا جملہ سن کر کچھ بے بسی سے ہنس پڑے تھے۔ ان کا غصہ کم ہونے لگا تھا۔ کئی سالوں کے بعد انہیں سالار سے اس طرح بات کرنا پڑی تھی۔ وہ اب اس سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کہاں ہے۔ سکندر کو اپنے حدود اربعہ کے بارے میں بتا کر سالار نے فون بند کر دیا۔
’’پاپا ناراض ہو رہے تھے…؟‘‘ امامہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’خوش ہونے والی تو کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’تم جھوٹ کیوں بولتے ہو؟‘‘ امامہ نے جیسے اسے شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔
’’کیوںکہ اگر میں سچ بولوں تو لوگ مجھے وہ نہیں کرنے دیتے، جو میں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ کمال کی منطق تھی اور بے حد سنجیدگی سے پیش کی گئی تھی۔
’’چاہے تمہارے جھوٹ سے کسی کو دکھ پہنچے۔‘‘
’’میرے جھوٹ سے کسی کو دکھ نہیں پہنچاتا، بلکہ غصہ آتا ہے۔‘‘
اسے سمجھانا بے کار تھا، وہ سالار تھا۔ وہ اب اندازہ لگا سکتی تھی کہ سکندر نے اسے فون پر کیا کہا ہو گا۔
رات کے تقریباً پچھلے پہر وہ اس سروس اسٹیشن پر پہنچے تھے۔
’’یہ جگہ یاد ہے تمہیں؟‘‘ سالا رنے گاڑی روکتے ہوئے اس سے پوچھا۔ امامہ نے دھند زدہ اس جگہ کو دیکھا، جہاں کچھ لائٹس دھند اور اندھیرے کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھیں۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے سالار سے کہا۔
’’یہ وہ جگہ ہے جہاں تم نے رک کر نماز پڑھی تھی۔‘‘ وہ دروازہ کھولتے ہوئے نیچے اُتر آیا۔
امامہ نے قدرے حیران نظروں سے اس جگہ کو دوبارہ دیکھنا شروع کیا۔ اب وہ اسے کسی حد تک شناخت کر پا رہی تھی۔ وہ بھی دروازہ کھول کر اتر آئی۔ ایک کپکپی اس کے جسم میں دوڑی۔ وہ آج بھی ایک سویٹر اور چادر میں ملبوس تھی۔
وہ کمرا بدل چکا تھا، جہاں انہوں نے بیٹھی کر کبھی چائے پی تھی۔
’’چائے اور چکن برگر۔‘‘ سالا رنے کرسی پر بیٹھے ہوئے اس آدمی سے کہا، جو جمائیاں لیتے ہوئے انہیں اندر لے کر آیا تھا اور اب آرڈر کے انتظار میں کھڑا تھا۔ امامہ اس کے آرڈر پر اسے دیکھ کر مسکرائی۔
’’اب کھا لو گے؟‘‘ وہ جانتا تھا، اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر مسکرا دیا۔
’’لاسٹ ٹائم ہم وہاں بیٹھے تھے۔ تم نے وہاں نماز پڑھی تھی۔‘‘
وہ ہاتھ کے اشارے سے اس کمرے کی مختلف اطراف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو یاد نہیں تھا، کمرے میں جگہ جگہ ٹیبلز اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔
فجر کی اذان میں ابھی بہت وقت تھا اور فی الحال اس جگہ پر کام کرنے والے چند آدمیوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا۔
اب اس جگہ پر چائے اور برگر اتنے برے نہیں تھے جتنے اس وقت تھے۔ پریزنٹیشن بھی بہت بہتر تھی، لیکن ان دونوں میں سے کوئی نہ ذائقے کو دیکھ رہا تھا نہ پریزنٹیشن کو۔ دونوں اپنے اپنے ماضی کو زندہ کر رہے تھے۔ یہ چند گھونٹ اور چند لقموں کی بات نہیں تھی، زندگی کی بات تھی جو نہ جانے ریل کی پٹڑیوں کی طرح کہاں کہاں سے گزر کر ایک اسٹیشن سے لے آئی تھی۔ وہ اس مقام پر کھڑے تھے، جہاں ان پٹڑیوں کا کانٹا بدلا تھا۔ دور قریب… ایک دوسرے میں مدغم … اور اب ایک دوسرے کے ساتھ۔
اس راستے پر کچھ نئی یادیں بنی تھیں۔ ان کی شادی کے بعد سڑک کے راستے ان کا پہلا سفر اور ان نئی یادوں نے پرانی یادوں کو دھندلانے کے عمل کا آغاز کر دیا تھا۔
ٹیبل پر بل کے پیسے رکھنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ امامہ نے بھی اس کی پیروی کی۔ سالار نے چلتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ آئی تھی۔
’’امامہ! وہ پسٹل کہاں ہے؟‘‘
وہ عمارت سے باہر آتے ہوئے اس کے سوال پر چونکی۔ اسے کیا یاد آیا تھا، وہ ہنس پڑی۔
’’ابو کے پاس ہے۔‘‘ اس نے سالار سے کہا۔
’’تم واقعی چلا سکتی تھیں؟‘‘ سالار نے پتا نہیں کیا یقین دہانی چاہی۔
’’ہاں۔‘‘ امامہ نے سر ہلایا۔
’’لیکن اس میں گولیا ںنہیں تھیں۔‘‘ وہ اس کے اگلے جملے پر بے اختیار ٹھٹکا۔ ’’میرے پاس بس پسٹل ہی تھا۔‘‘ وہ اطمینان سے کہہ رہی تھی۔
اس نے بے اختیار سانس لیا۔ اس کی آنکھوں میں دھول اس نے جھونکی تھی یا اللہ نے، وہ اندازہ نہیں کر سکا۔ اس پسٹل نے اسے جتنا شاک اور غصہ دلایا تھا اگر اسے اندازہ ہو جاتا کہ وہ بلٹس کے بغیر تھا تو سالار اس دن امامہ کو پولیس کے ہاتھوں ضروراریسٹ کروا کر آتا۔ وہ پسٹل ہاتھ میں لیے کیوں اتنی پر اعتماد نظر آئی تھی اسے… یہ اسے اب سمجھ میں آیا تھا۔
’’تم ڈر گئے تھے۔‘‘ امامہ ہنس رہی تھی۔
’’نہیں… ڈرا تو نہیں تھا، مگر شاکڈ رہ گیا تھا۔ تم سارا راستہ روتی رہی تھیں۔ میں توقع بھی نہیں کر سکتا تھا کہ تم مجھ پر پسٹل نکال لو گی۔ تمہارے آنسوؤں نے دھوکا دیا مجھے۔‘‘
وہ اب کچھ خفگی سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کھلکھلا کر ہنسی۔
٭٭٭٭