اناہیتا — تنزیلہ احمد

مگر پانی تو بہ ذات خود زندگی ہے۔ گہری نظر اس نے ساکن بے جان پانی پر ڈالی۔ کوئی سرگوشی ہوئی جیسے کوئی ہولے ہولے سسک رہا تھا۔ کسی خیال کے تحت اس نے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا اور جیسے کایا ہی پلٹ گئی۔ پانی رواں ہو گیا تھا رنگین مچھلیاں چھب دکھانے لگی تھیں۔ شفاف پانی میں اسے اپنا عکس نظر آیا اور وہ چونک گئی۔ حقیقت کے در ایک ایک کر کے کھلتے گئے تھے۔ وہ کرنٹ کھا کے سیدھی ہوئی اور ایک سمت بھاگی اور ایک جگہ رک گئی۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اس نے دیکھا تھا۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ اس محل نما کھنڈر کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ قدآور مجسمہ مانوس سا تھا۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ مجسمے پر رکھا اور جیسے صدیوں پرانا طلسم ٹوٹ گیا۔ آن کی آن میں بہار اور زندگی نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کھنڈر ایک دم ہی روشن ہو گیا تھا۔ بے رونقی کی جگہ زندگی اور روشنیاں آگئی تھیں۔ ویران وادی اور جھاڑ جھنکار کی جگہ ہریالی نے لے لی۔
’’اناہیتا تم آگئی۔‘‘ پیار میں لپٹی مدھم آواز اس کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی۔ وہ جانتی تھی اسے کس نے پکارا ہے۔ آواز کی سمت بھاگنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔
٭…٭…٭





قیامت صغراں کا منظر تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہاں رنگین پیراہن کی بہار تھی، قہقہے گونج رہے تھے، تصویریں لی جا رہی تھیں اور اب آن کی آن میں وقت نے کایا پلٹ دی تھی۔ ہنستے مسکراتے چہروں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہونی انہیں لے ڈوبنے والی ہے۔ دریا نیلم کی بپھری لہریں منہ پھاڑے انہیں نگلنے کو تیار کھڑی ہیں۔
چیخ و پکار، آہ و بکا سننے والوں کے دل دہلا رہی تھی۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔
آخری پل جو اسے یاد آرہا تھا وہ ان تمام اسٹوڈنٹس کا دریائے نیلم کے آر پار جاتے لکڑی کے پل پر کھڑے ہو کے کمبائن فوٹو لینے کا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا، پل کیسے ٹوٹا، اس کے ساتھی کہاں کہاں گرے، کس نے کسے تھاما، اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ وہ دریا کی موجوں کے رحم وکرم پر تھی اسے محسوس ہوا کہ دریا اسے اپنے ساتھ بہا نہیں رہا بلکہ پھولوں کی طرح اسے نزاکت سے تھاما ہوا ہے۔ نہ اسے پانی کی ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی دریا کے نوکیلے پتھر۔ اس نے دیکھا ایک ہاتھ سے اس نے کسی پتھر کا سہارا لے رکھا ہے۔
دماغ میں جھماکا ہوا۔ پل پر کھڑے ہوئے اس نے لیلیٰ کا ہاتھ بھی تو تھام رکھا تھا کیوں کہ وہ جھولتے پل سے کافی ڈری ہوئی تھی۔
’’اوہ لیلیٰ۔‘‘ اپنے دوسرے ہاتھ میں ابھی تک ایک ہاتھ پیوست تھا، مگر اس کا وجود پانیوں میں کہیں گم ہو چکا تھا۔
’’لیلیٰ!‘‘ اس نے بے قراری سے اپنی پیاری اکلوتی سہیلی کو پکارا اور اس کے بے دم ہوتے وجود کو پانی سے اوپر کھینچنے کی کوشش کی۔ ایک جھٹکے سے لیلیٰ کا سر پانی کو چیر کر نمایاں ہوا۔ وہ سرد پڑ رہی تھی۔ آکسیجن اس کے پھیپھڑوں نے اپنے اندر اتاری۔
’’لیلیٰ آنکھیں کھولو پلیز تم ٹھیک ہو۔ تم میرے ساتھ ہو۔‘‘ اناہی کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ یہ شاید اس کی آواز کا اثر تھا کہ کچھ لمحوں کے بعد لیلیٰ نے پلکیں جھپکی تھیں۔
’’اناہی…‘‘ مری مری آواز لیلیٰ کے حلق سے برآمد ہوئی۔ اناہی نے شکر کا سانس لیا۔ لہریں اس کے وجود کو اپنے ساتھ کھینچنے کے سر توڑ جتن کر رہی تھیں۔ وہ اسے نہیں کھو سکتی تھی۔
’’نہیں رک جا۔‘‘ وہ چیخی اور لہروں کا زور ٹوٹ گیا۔ پانی نے لیلیٰ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ تب ہی اسے اپنے پتھر والے ہاتھ پر کوئی گرفت محسوس ہوئی۔
’’باجی باجی ہمت نہیں چھوڑنی۔ میں نے پکڑ لیا ہے آپ کو۔ آپ اوپر آنے کی کوشش کریں۔‘‘ وہ لوکل پٹھان بچہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ان انجان لڑکیوں کو بچانے آپہنچا تھا۔ کون کہتا ہے کہ انسانیت ناپید ہو گئی ہے۔ اپنی پوری جان لگا کے وہ اس کا بازو پکڑ کر اوپر کھینچ رہا تھا۔ اللہ نے انہیں بچا لیا تھا۔
٭…٭…٭
مگر اس کا دل کیوں ڈوب رہا تھا؟ دور کہیں سے پھوٹتی روشنی براہ راست اس تک پہنچی تھی۔
روشنی کے تعاقب میں اس کی نظریں اٹھیں اور طلسم زدہ ہو گئیں۔ وہ… ہاں وہ ہی تو تھا جو خدا جانے کب سے اس کے دل میں جاگزین تھا۔
’’آجا اناہیتا، اب انتظار نہیں ہوتا۔‘‘ سرگوشی اس کے کانوں تک پہنچی اور اسے بے خود کر گئی۔ نہ جانے کتنی صدیوں سے ایک سراپا بانہیں وا کیے بے تابی سے اس کا منتظر کھڑا تھا۔ ہر چیز بیک گراوؑنڈ میں چلی گئی تھی۔ اسے اور نہ کچھ سنائی دے رہا تھا نہ دکھ رہا تھا۔ کیا وہ کھلی آنکھوں سے دن میں بھی خواب دیکھ رہی تھی؟ کیا وہ ایک بار پھر اسے کھو سکتی تھی؟ بے قراری سی بے قراری تھی۔ اناہی کو اپنے وجود میں عجب سی سنسناہٹ محسوس ہوئی اور ایک دم ہی اس نے لیلیٰ کا تھاما ہوا ہاتھ مدد کے لیے آئے بچے کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’اناہی…‘‘ لیلیٰ بے یقین سی ہوئی۔
’’یہ تم کیا کر رہی ہو اناہی؟‘‘
اس کی منزل اسے اپنے جانب بلا رہی تھی اسے ہر حال میں اپنی منزل کو پانا تھا۔
’’مجھے اسی زندگی کے پاس لے چلو جس سے کبھی دور لے آئے تھے۔ ہاتھ پاوؑں ڈھیلے چھوڑ کے اس نے خود کو پانی کے سپرد کیا۔ حکم کے انتظار میں ساکت مودب لہروں نے اناہی کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا تھا۔
’’اناہی، نہیں، اناہی، پلیز، لیلیٰ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپی۔‘‘ اناہی نے مسکراتی الوداعی نظر اس پر ڈالی۔
آخری خیال اس کے ذہن میں ماما، بابا اور ریان کا آیا تھا۔ ریان ان کے ساتھ ہے یہ سوچ کر پرسکون ہو کے اناہی نے آنکھیں موند لیں۔ وہ ہوا کے دوش پہ تھی، ہر سو اندھیرا چھا گیا تھا۔ صرف ایک نور تھا جس نے اس کے نازک وجود کے گرد حصار باندھ رکھا تھا۔
٭…٭…٭
گولڈن کلر کا انتہائی ملائم، نفیس گاوؑن اور ہیرے جواہرات کے زیور اس کے وجود پر سج کے اور بیش قیمت ہو گئے تھے۔ ہر طرف روشنیاں اور خوشیاں بکھری پڑی تھیں۔ بچے کھلکھلا رہے تھے، عورتیں چہچہا رہی تھیں، مرد انتظامات کی نگرانی میں جتے ہوئے تھے۔ عالی شان محل کی معطر فضا میں دائمی خوشحالی اور خوشیوں کے گیت گونج رہے تھے۔ سر پر تاج جمائے باندیوں کے گھیرے میں اکڑی گردن اور جھکی نگاہوں سے وہ دھیرے دھیرے چلتی آرہی تھی۔ دریہ نے اس کے لمبے گاوؑن کا کونہ تھام رکھا تھا کہ اسے چلنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ ہاں وہ اس کی خاص باندی تھی جس کی زندگی کا واحد مقصد دیوی کی سیوا کرنا تھا۔
’’اناہیتا…‘‘ دل موم کرنے والی سرگوشی انتہائی قریب سے ابھری تو ہونٹوں پر شرمگین مسکراہٹ آٹھہری۔ اس نے جھکی پلکیں اٹھائیں اور وقت تھم گیا۔ مردانہ طرز کا گولڈن گاوؑن زیب تن کیے، سر پر ہیرے یاقوت جڑا تاج، ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرا ہاتھ اس کی طرف بڑھائے وہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنانے کے لیے منتظر کھڑا تھا۔ کتنی صدیوں کا فاصلہ طے کر کے وہ آج پھر سے ایک ہونے جارہے تھے جو پریم کہانی زمانوں پہلے ادھوری رہ گئی وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والے تھے۔
آنکھوں کی الوہی روشنی زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کر رہی تھی۔ عین ان جگمگاتی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے پورے حق سے اپنی طرف بڑھا ہوا ہاتھ تھاما۔ رعایا اپنی دیوی اور دیوتا کی راہ میں پلکیں بچھائے کھڑی تھی۔ تالیوں اور شہنائیوں سے پورا محل گونج اٹھا۔
ہاں وہ ہی تو تھی ایرانی، فارسی سلطنت کی سب سے طاقتور، عزیز از جان اناہیتا دیوی جسے وہ پوجتے تھے، سب سے اعلیٰ اور برتر گردانتے تھے اور اسے ہی دیویوں کی ماں ہونے کا رتبہ حاصل تھا۔ اناہیتا دیوی کے دم سے ہر طرح کی زرخیزی، افزائش نسل، خوشحالی، عقل و فہم اور آزادی تھی، تمام پانیوں پر اُن کا راج تھا، اس کے حکم کے تابع تھے۔
اناہیتا دیوی نے صدیوں کا فاصلہ طے کر کے بالآخر اپنی لازوال محبت کو پا لیا اور وہ رہتی دنیا تک امر ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھر — مدیحہ ریاض

Read Next

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!