اناہیتا — تنزیلہ احمد

جتنا وہ کیلاشیوں اور ان کے رسم و رواج کو جان رہی تھیں اتنا ہی دنگ ہو رہی تھیں۔ کافرستان کیسا حیرت کدہ تھا۔ کسی کی وفات پر سوگ عجیب خوشیوں اور مسرتوں کا موقع ہوتا جس میں میت کو اجتماعی ناچ گاہ جستگھان میں رکھ دیا جاتا۔ مالدار کی وفات پر میت کو چار دن تک کمرے میں رکھ کر اس کے گرد ناچنا، گانا، ڈھول بجانا اور کھلی آزادی کے ساتھ سگریٹ وغیرہ پینا کیلاش قبیلہ کا سوگ ہوتا اور اس میں ہوائی فائرنگ چھوٹی موٹی لڑائی کا منظر پیش کرتی۔
انہیں وہاں کھانے کے معاملے میں کافی احتیاط کرنی پڑی کیوں کہ کیلاشی باشندے مردہ جانوروں کو بھی کھا جاتے ہیں جن میں کتے اور بلیاں بھی شامل ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو جانوروں کا کچا گوشت انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔
سطح زمین سے دو، ڈھائی ہزار فٹ بلندی پر واقع کیلاش کی حسین اور پر اسرار وادیوں میں انہوں نے زندگی کے مختلف اور انوکھے رنگ دیکھے تھے۔ اناہی وہاں چند گتھیاں سلجھانے گئی تھی مگر وہ مزید الجھ گئی تھی۔
٭…٭…٭
گھپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ چت لیٹی تھی۔ اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ نہ کہیں کوئی دروازہ تھا نہ ہی کہیں روشنی۔ کہیں وہ قبر میں تو نہیں تھی؟ زندہ بھی تھی یا نہیں؟ پریشانی میں اس نے جگہ کا اندازہ کرنے کے لیے ہاتھ پاوؑں مارے مگر بے سود۔ حواس باختہ ہو کر وہ بغیر پانی کی مچھلی کی طرح تڑپی۔
٭…٭…٭





اور کسی چیز سے جا ٹکرائی۔ درد کی لہر اس کے سر میں اٹھی تھی۔ دماغ آہستہ آہستہ جاگ رہا تھا۔
وہ نیند میں دیوار سے ٹکرائی تھی، مگر وہ کہاں تھی؟ کس جگہ پر؟ دھیرے دھیرے سب واضح ہوتا چلا گیا۔ وہ اپنے بیڈ پر سوئی تھی اور اپنے کمرے میں ہی تھی۔ راستہ تلاشنے اور روشنی کی تلاش میں وہ اپنے کمرے میں ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔
ریڑھ کی ہڈی میں ابھی تک سنسناہٹ ہو رہی تھی۔ رات کے آخری پہر وہ اپنے کمرے میں ہی قبر سی وحشت چکھ چکی تھی۔ اس کیفیت سے وہ پہلی بار روشناس ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
وادی نیلم کے تھری ڈیز ٹرپ پر جانے کے لیے وہ تیار کھڑی تھی۔
’’کیا ضروری ہے جانا؟‘‘ ماما نے پوچھا۔ پتا نہیں ان کا دل کیوں گھبرا رہا تھا حالاں کہ نہ ہی وہ پہلی بار کہی جا رہی تھی اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے جا رہی تھی، مگر وہ خود اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھیں۔
’’کم آن ماما۔ سمجھائیں نا بابا ماما کو۔‘‘ اس کے چہرے پر ازلی سکون تھا۔ وہ ان کے گلے آلگی پھر گالوں کو چوما۔
’’اپنا خیال رکھیے گا۔‘‘
’’تم بھی۔‘‘ انہوں نے اس کا ماتھا چوما، ڈھیر ساری ہدایات دیں اور آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونکی۔ اسے اللہ کی امان میں دے کے وہ مطمئن ہو گئی تھیں۔
بابا اور ریان اسے ڈراپ کرنے آئے تھے۔ سارے راستے وہ ریان کے فضول چٹکلوں پر زیرلب مسکراتی رہی۔ گاڑی سے اترتے ہی اس نے سامنے دیکھا کوسٹر پر سامان لادا جا رہا تھا۔
’’بابا تھینک یو سو مچ فار ایوری تھنگ۔‘‘ ان کے کندھے سے لگ کر اس نے ہولے سے کہا۔
’’ارے میرا بچہ۔ اتنا فارمل کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ اناہی میں ان کی جان تھی اور شاید اسے بھی سب سے زیادہ پیار انہی سے تھا۔
’’خوش رہیے گا بابا۔ آئی ول مس یو۔‘‘
’’آئی ول مس یو ٹو بچے۔ کم سون۔‘‘انہوں نے اپنا دست شفقت اس کے ملائم بالوں پہ پھیرا۔
’’تم بھی اپنا خیال رکھنا۔ وہ ریان سے مخاطب تھی۔‘‘
’’فار شور۔ یو ڈونٹ وری سو۔‘‘
انہیں الوداع کہہ کے اس نے چند قدم اٹھائے اور پھر ریان کو دیکھا۔
’’ماما کا خاص خیال رکھنا۔‘‘ تم نے ہی ہمیشہ ان کا خیال رکھنا ہے۔ وہ اس سے کوئی وعدہ لے رہی تھی۔ بابا کو نظر بھر دیکھ کے وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کوسٹر کی طرف چل دی تھی۔
سفر طویل تھا اور پُرخطر بھی۔ تمام راستے اس نے نگاہیں باہر نظاروں پر جمائے رکھیں۔ کبھی تیز دھوپ آجاتی، تو کبھی بادل، کبھی چٹیل میدان، تو کبھی آبادی، کبھی اونچے ترچھے تراشیدہ پہاڑ اور کبھی دیودار کے آسمان کو چھوتے درخت۔ کوئی بھی نظارہ مستقل نہ تھا۔
٭…٭…٭
کشمیر واقعی روح زمین پر جنت ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نظارہ تھا جو انہیں مبہوت کر رہا تھا۔ آنکھیں ابھی ایک خوبصورتی سے سیر نہیں ہوئی ہوتیں کہ اس سے بڑھ کر حسین و جمیل منظر نگاہوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتا۔ تاحد نگاہ پھیلی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہریالی، نیلا پانی، دیدہ زیب گل بوٹے، سنگلاخ چٹانیں۔ خدا کی قدرت اپنے جوبن پہ تھی۔
تنگ راستے، انتہائی خطرناک پرپیچ موڑاور کھائیاں اتنی گہری تھیں کہ کئی بار ڈر کے مارے لیلیٰ کی سانسیں رکی تھیں۔ شام سے پہلے ان کا قافلہ تازہ دم ہونے کے لیے دریائے نیلم کے نزدیک رکا۔ بہت سوں کو چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ کچا پکا سا ڈھابا ان کے وہاں بیٹھنے سے آباد ہو گیا تھا۔ دو پٹھان بچے پھرتی سے آڈر لینے میں مصروف تھے۔ دریائے نیلم کے شور مچاتے پانی کی آواز کے آگے ان کی آوازیں دب رہی تھیں۔
’’اُف دیکھو تو کتنا خوف محسوس ہو رہا ہے۔ اتنا تیز بہا ہے پانی کا۔ یہ تو ہر چیز کو بے جان تنکے کی طرح بہا کر لے جائے۔‘‘ لیلیٰ کے خدشات بجا تھے۔
’’ہاں سنا ہے اس کا پانی سرد بھی بہت ہے اور دریا کے پتھر بھی نوکیلے ہیں۔ یہ ظالم دریا ہے۔ اب تک کئی جانیں نگل چکا ہے۔‘‘ فروا نے تبصرہ کیا۔
اناہی نے ٹکٹکی باندھ کے پتھروں سے ٹکراتی بپھری لہروں کو جانچا۔ نہ جانے کس بات پر انہیں طیش چڑھا ہوا تھا اور وہ سر پٹخے جا رہی تھیں۔
ساری رات کا سفر کر کے صبح صادق کے وقت انہوں نے ہوٹل پہنچنا تھا۔ چائے پی کے تازہ دم ہو کر اب وہ آگے کے سفر کے لیے تیار تھے۔
٭…٭…٭
’’کبھی یہ سب بھی آباد ہوتا تھا۔ یہاں بھی ہنسی اور باتوں کی آوازیں گونجتیں تھیں، زندگی سانسیں لیتی تھی اور روشنیاں جگمگاتی تھیں مگر۔‘‘
’’مگر کیا؟ کیسے برباد ہو گیا سب؟‘‘ اناہی نے کریدا۔
’’کیا آپ کو کچھ محسوس ہو رہا ہے۔ کوئی یاد کوئی احساس؟‘‘ اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں اور لہجہ مؤدبانہ تھا۔ اناہیتا نے محسوس کیا کہ دریہ اس سے نظریں ملائے بغیر بات کرتی تھی اور باڈی لینگوئج ایسی کہ جیسے وہ اس کی ذاتی خدمت گزار ہو۔
’’کیا میں یہاں پہلے آچکی ہوں؟‘‘ سوال کے بدلے کھوئے کھوئے انداز میں سوال ہی کیا گیا تھا۔ تاحد نگاہ ہر شے سے اسے انسیت محسوس ہو رہی تھی۔ ٹنڈمنڈ درخت، سوکھی سڑی جھاڑیاں، بوجھل فضا اور ہر شے پر چھائی عجیب سی سوگواریت۔ اس کے چلتے قدم یکلخت رک گئے۔ دور سامنے اسے جھیل دکھائی دی تھی۔ وہ بے ساختہ پانی کی طرف بھاگی۔
’’ارے پانی کے ہوتے ہوئے بھی ہریالی نہیں ہے۔ کیوں؟‘‘ وہ خود ہی سوالوں میں الجھ رہی تھی۔
’’اسے حکم نہیں ہے۔‘‘ دریہ گویا ہوئی۔
’’مگر کیوں؟‘‘
اس سے انجانے میں وہ گستاخی ہوئی جو سب کچھ ختم کر گئی تھی۔
٭…٭…٭
روتے روتے وہ ہلکان ہو گئیں۔ جب سے پل ٹوٹنے کی اندوہناک خبر انہوں نے سنی اور دیکھی تب سے ہی اس کا چہرہ آنکھوں سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔
’’آپ تسلی رکھیں، ریسکیو ٹیمز پہنچ گئی ہیں۔ ان شااللہ ہماری اناہی مل جائے گی۔ ہماری بیٹی بہت بہادر ہے اور مقدر والی بھی۔ کچھ نہیں ہو گا اسے۔ ‘‘وہ پرامید تھے۔
’’لیکن لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ مشکل ہے کوئی بچ پائے۔ فون بھی تو نہیں لگ رہا اس کا۔‘‘
اٹکتے اٹکتے انہوں نے بات پوری کی۔
’’اللہ نہ کرے۔ آپ بھی کن باتوں میں آ گئی ہیں۔ اچھی امید رکھیں اللہ سے۔‘‘ گو کہ دل تو ان کا بھی ڈرا ہوا تھا۔ اس وقت بہت سے والدین کے دل پر قیامتیں گزر رہیں تھیں۔ کتنا کہا تھا اسے نہ جائے مگر وہ سنتی ہی کہاں ہے۔ ہائے میری پھول سی بچی۔ یا اللہ مدد کر۔‘‘ ان کے دل سے ہوک نکلی۔
’’پلیز ماما۔ حوصلہ رکھیں۔ بابا کہہ رہے ہیں نا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور دیکھیں میں ہوں نا آپ کے پاس۔ آپ مت روئیں مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ اناہی کو پتا چلا تو خفا ہو گی مجھ سے۔ جاتے جاتے اس نے مجھے آپ کا خاص خیال رکھنے کو کہا تھا۔‘‘ ریان کی بات پر وہ چونکیں۔
’’کیا کہا تھا اس نے؟‘‘ انہوں نے کریدا۔
’’اس نے خاص تاکید کی تھی کہ میں ہمیشہ آپ کا بہت خیال رکھوں۔‘‘ لفظ سیسے کی طرح ان کے کانوں میں انڈیلے گئے تھے۔ یہ ہی الفاظ بہت وثوق سے کبھی اناہی نے بھی ان سے کہے تھے اور آج وہی الفاظ وہ جاتے ہوئے چھوٹے بھائی سے کہہگئی جو خالصتاً اس کی فرمائش پر ہی دنیا میں آیا تھا۔ اپنے سائیں سائیں کرتے کانوں پر ہاتھ رکھے وہ بے یقینی سے اپنے بیٹے کو دیکھے گئیں۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی ایک دم رک گئی تھی۔ انہیں اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔ اب کوئی معجزہ نہیں ہونے والا تھا۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ وہ انہیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا چکی ہے۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آسکتی۔ انہونی ہو چکی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھر — مدیحہ ریاض

Read Next

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!