اناہیتا — تنزیلہ احمد

گزرتے وقت نے یہ بات ثابت کر دی کہ اناہیتا صرف گہری ہی نہیں بلکہ مختلف بھی ہے۔ اس میں بچپنا نہیں صرف بردباری اور معاملہ فہمی تھی۔ وہ عام بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر واویلا نہ مچاتی اور نہ ہی فضول ضدیں کرتی۔ اس نے کبھی کسی بھی چیز میں مین میخ نہیں نکالی تھی کیوں کہ اس کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
وہ جیسے چاہتی ویسے ہی ہوتا چلا جاتا اور جو چاہتی وہ مل جاتا۔ اس کی چھٹی حس بہت شارپ تھی۔
نہ جانے کیسے اسے الہام ہو جاتا کہ کس کے گھر بے بی آئے گا۔ اس کی ماما اپنی جان پہچان کے بے اولاد جوڑوں کے لیے اکثر اس سے دعا کا کہتیں اور اناہی جیسا اُنہیں بتاتی ویسا ہی ہو جاتا۔ اس پر اللہ کی خاص نظرکرم تھی۔ اس کی زبان سے نکلے لفظ حرف آخر ثابت ہوتے بلکہ شاید یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اس کے منہ سے بات وہی نکلتی تھی جو ہونی ہوتی۔
وہ نڈر اور دلیر تھی۔ کبھی بھی کسی جانور اور حشرات الارض سے اس نے خوف نہیں کھایا۔ قدرت کی ہر شے سے اسے بے حد لگاؤ تھا۔ کتنا شوق تھا اسے جنگلوں، پہاڑوں، وادیوں اور نئی نئی جگہیں ڈسکور کرنے کا اور یہ بھی محض ایک اتفاق ہی تھا کہ جہاں وہ جاتی اسے محسوس ہوتا کہ وہ وہاں پہلے بھی آچکی ہے بلکہ شاید وہ جگہ خواب میں دیکھ چکی ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہوتی کہ وہاں موجود ہونے والوں اور ان کے بیچ ہونے والی گفتگو پر بھی گمان ہوتا کہ ہاں یہ ہی دیکھا تھا، ایسے ہی سنا تھا۔
٭…٭…٭





کتنی مسحور کن جگہ ہے اور کتنا سکون ہے جو اس کی روح تک کو سیراب کر رہا تھا۔ وہ بغیر سوچے سمجھے اس حسین وادی میں گھومتی پھرتی رہی۔ ہر موڑ، ہر جگہ، ہر چیز سے جیسے وہ پہلے ہی سے آگاہ اور مانوس تھی۔ اس کے ساتھ جنگلی ہرن کلانچیں بھر رہے تھے، پرندے چہچہا رہے تھے۔ اوپر نیلا آسمان اور سامنے ہرے پانی کی جھیل۔ واہ وہ ایک مکمل منظر تھا۔ سب کچھ ہی تھا وہاں جو اسے دیوانہ بنانے کے لیے کافی تھا۔ پیاس محسوس ہوتے ہی وہ جھیل کے قریب چلی آئی۔ پانی اتنا صاف شفاف تھا کہ اس میں تیرتی رنگ برنگ مچھلیاں اور تہ میں بیٹھے چھوٹے پتھر اسے بہ خوبی نظر آرہے تھے۔ ہاتھ کی اوک بنا کے ذرا سا آگے کو جھک کے اس نے پانی منہ میں ڈالنا چاہا اور کرنٹ کھا کے پیچھے پلٹی۔ اوک میں آیا پانی پیاس بجھانے کے کام آہی نہیں سکا تھا۔
یہ اس نے کیا دیکھا تھا؟ وہ ایسی تو نہ تھی۔ جھجکتے ہوئے اس نے جھک کے پھر پانی میں جھانکا اور فوراً سیدھی ہو گئی۔ عکس ابھی بھی وہی تھا۔ آنکھیں بند کر کے اس نے گہری سانس بھری اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے سر کو چھوا۔ اس کی انگلیاں وہ محسوس کر پا رہی تھیں جو اس نے دیکھا تھا۔ پٹ سے اس نے آنکھیں کھول دیں ہر چیز جوں کی توں تھی۔ چند قدم آگے بڑھ کر وہ جھیل کنارے یوں سیدھی کھڑی ہوئی کہ خود کو سر تا پا پانی میں دیکھ سکے۔
٭…٭…٭
’’ماما میں کدھر پیدا ہوئی تھی؟ ناشتے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پز بیٹھتے ہی اس نے پوچھا۔ یہ اس کا فیورٹ سوال تھا جس کا کچھ عرصے بعد اسے جواب چاہیے ہوتا تھا۔
’’آپ کو نہیں پتا کیا؟‘‘
’’آپ سے سننا چاہ رہی ہوں۔‘‘
’’پھر سے؟‘‘ انہوں نے ابرو اچکائے۔
’’ہاں دل چاہ رہا ہے۔‘‘
’’میری جان کیلاش میں پیدا ہوئی تب تمہارے بابا کی پوسٹنگ وہاں جو تھی۔ طے تو ہم نے یہ کیا تھا کہ تمہاری پیدائش سے دو ماہ پہلے پنڈی آجائیں گے مگر تمہیں دنیا میں آنے کی کافی جلدی تھی۔‘‘ ہلکی سی مسکراہٹ ماما کے ہونٹوں پر کھل رہی تھی۔
’’اچھا۔‘‘ ہمیشہ کی طرح مسکان اس کے ہونٹوں پر بھی آئی۔ بہت مشکل رہا ہو گا آپ کے لیے ماما سب۔
’’ہاں بہت مشکل تھا اور اس سے کٹھن وہ رات تھی۔ اس شام تمہارے بابا کو انویسٹی گیشن ٹیم کے ساتھ جانا پڑا۔ جنگل میںلکڑی کی چوری ہو رہی تھی۔ وہ آدھی رات گزرنے کے بعد واپس آئے ہی تھے کہ میری طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ شدید سردی کے باعث کہیں سے مدد ملنا بھی مشکل ہو رہا تھا اور کچھ میل کے فاصلے پر جو ڈاکٹر تھی اس تک پہنچنا بھی ناممکن لگ رہا تھا۔ مجھے لگا شاید میں نہ رہوں، تمہیں کبھی دیکھ ہی نہ پاؤں۔ ان کی آنکھوں میں نمی لہرائی تھی۔
’’پھر کیا ہوا ماما؟‘‘ اپنے ننھے ہاتھوں میں اس نے ماں کے ہاتھ تھامے۔
’’میں تکلیف سے نڈھال ہو گئی تو تمہارے بابا مدد ڈھونڈنے گھر سے نکلے ہی تھے کہ انہیں ایک عورت مل گئی۔ رات کے دو بجے سنسان علاقے میں کسی عورت کی موجودگی نے تمہارے بابا کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ پاس کے گاؤں سے ہے اور راستہ بھٹک گئی ہے۔ اس نے پتا نہیں کیسے ہماری مشکل بھانپ لی اور مدد کی آفر کی۔
’’وہ عورت کون تھی ماما؟‘‘ اس نے ماں کی بات بیچ سے اچک کر سوال داغا۔
’’پتا نہیں، ہمیں تو لگتا ہے جیسے اللہ نے خاص ہماری مدد کے لیے اسے بھیجا تھا۔‘‘
’’مجھے تو لگتا ہے وہ پاس کے گاؤں کی دائی تھی۔‘‘
’’میں کس وقت پیدا ہوئی تھی؟‘‘
’’یہ ہی کوئی تین سوا تین کے بیچ۔‘‘
’’میرا نام کس نے رکھا؟‘‘
’’جب اس نے تمہارا ننھا وجود تمہارے بابا کو تھمایا، تو کہا تھا بہت مبارک ہو آپ کے گھر اناہیتا آئی ہے۔‘‘
’’کچھ تھا اس عورت کے ایسا کہنے میں جس کے اثر سے تمہارے بابا نکل ہی نہیں سکے۔‘‘
’’اس عورت کا نام کیا تھا؟‘‘
’’پتا نہیں۔ وہ چپکے سے ہی چلی گئی تمہیں تمہارے بابا کو تھما کے۔ وقت ہی نہ ملا اس سے کچھ پوچھنے کا۔‘‘
’’اس کا نام دریہ تھا۔‘‘
اناہی کے کہنے پر وہ چونکیں۔
’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟‘‘
’’میں نے خواب میں دیکھا ہے اسے، اس نے خود بتایا۔‘‘ انہیں حیران پریشان چھوڑ کے وہ سکون سے ناشتا کرنے لگی۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا وہ ہمیشہ انہیں چونکا دیتی تھی۔ ایک بار انہوں نے اس کے بابا کو کہا تھا کہ کبھی کبھی اناہی بہت گہری اور پراسرار لگتی ہے، تو انہوں نے مذاق سے کہہ دیا کہ کیلاش اور وہاں کے جنگلوں کا اثر ہے۔
٭…٭…٭
کالج پہنچتے ہی اسے پر لگ گئے۔ وہ آزادانہ اُڑنے اور اپنی آنکھوں سے دنیا دیکھنے لگی تھی۔ وہ پانچ دن کی کیمپنگ کے لیے آزاد کشمیر گئے تھے۔ کھڑکی سے چپک کر بیٹھتے ہوئے اس کی تمام تر توجہ دلکش نظاروں، آسمان کو چھوتے پہاڑوں، دیو قامت درختوں اور سانپ کی طرح بل کھاتی سڑکوں پر تھی۔ وین ایک جھٹکے سے رکی تو وہ چونکی۔ آگے انتہائی خطرناک موڑ تھا جس سے بیک وقت ایک گاڑی ہی گزر سکتی تھی۔
اس کی نظر پہاڑ کی ڈھلوان سے سرکتی ہوئی چوٹی پر جا رکی۔
’’خدایا…‘‘ چوٹی پر ٹکے انتہائی بڑے اور وزنی پتھر نے اسے چونکا دیا۔
’’وہ کیسے وہاں پر آ کے ٹک گیا تھا اور اگر…‘‘ سوچ پر اس نے جھرجھری لی۔ موڑ مڑنے تک وہ خوفناک نظروں سے اس پتھر کو دیکھتی رہی۔
انہیں وہاں آئے تیسرا دن تھا جب افسوس ناک خبر ملی کہ ایک لوکل وین لینڈ سلائیڈنگ کے باعث پہاڑ سے لڑھک کر آنے والے اس بڑے پتھر کا شکار بن گئی تھی۔ ڈرائیور سمیت پندرہ مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھر — مدیحہ ریاض

Read Next

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!