اناہیتا — تنزیلہ احمد

لیلیٰ کی توقع کے عین مطابق اناہی نے فروا کی بات پر کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا تھا۔
’’چھوڑو فروا۔ تم کیا باتیں لے بیٹھی ہو۔‘‘ لیلیٰ نے بات سنبھالی۔
’’مجھے پتا ہے کہ تم اس کے لیے فیل کرتی ہو۔‘‘ اناہی کے کہنے پر فروا گڑبڑائی۔
’’نہیں تو، میں تو یونہی کہہ رہی تھی۔‘‘ دل کا چور پکڑے جانے پر وہ جزبز ہوئی۔
’’ویسے تم کیا کسی خوابوں کے شہزادے کا انتظار کر رہی ہو؟‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘ اناہی نے متانت سے کہا۔
فروا قہقہہ لگا اٹھی۔
’’آج کل ایسا نہیں ہوتا محترمہ کس صدی میں جی رہی ہیں۔ اپنے خوابوں سے نکلیں جو سامنے ہے وہ دیکھیں۔ خواب منہ کے بل گرا دیتے ہیں۔‘‘ اس کا استہزائیہ انداز لیلیٰ کو کھلا۔
’’فروا بس بھی کرو۔‘‘
’’منہ کے بل تو کوئی بھی گر سکتا ہے دھیان رکھنا۔‘‘ اناہی کا لہجہ کچھ جتا گیا تھا۔
’’تمہاری کوئی کل سیدھی بھی ہے کیا؟‘‘
’’تم مجھے اونٹ سے تشبیہ دے رہی ہو؟ ‘‘اناہی نے آنکھیں اُچکائیں۔
’’دی تو نہیں مگر دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔‘‘ فروا سیدھے سیدھے اناہی کے دراز قد پر ٹانٹ کر رہی تھی۔
اناہی نے گہری خاموش نظر اس پر ڈالی۔ شوارما ختم کرنے تک ان کے درمیان مزید کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
صرف تین سٹیپس تھے ڈیپارٹمنٹ کے۔ پتا نہیں کیا ہوا اور کیسے آخری سٹیپ پر اس کا پاوؑں پھسلا وہ دھڑام سے منہ کے بل فرش پر آپڑی۔ کتنی ہی آنکھیں ان کی طرف متوجہ تھیں۔ کسی نے اوہ کہا، تو کوئی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش میں تھا۔ شرمندگی کے احساس سے فروا کی آنکھیں آنسووؑں سے بھر گئیں۔ آنسووؑں کی دھند کے اس پار مدد کے لیے اپنے اوپر جھکا عکس جو اسے نظر آیا وہ اناہیتا کا تھا۔ بے اختیار اس نے مدد کے لیے بڑھا ہاتھ تھام لیا تھا۔
٭…٭…٭





چترال سے قریباً 38 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے وہاں قدم دھرنے تک وہ بہت ایکسائیٹڈ تھی۔ پرپیچ رستوں سے گزر کر جتنی دشواری وہاں تک پہنچنے میں ہوئی اتنی ہی ٹھنڈک اونچے پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی وادی کیلاش کو دیکھ کر اناہی کے دل میں اتری تھی۔ وہ ایک بھٹکی روح تھی جس کے اصل کی تلاش اسے وہاں کھینچ لائی تھی۔
واہ یونہی نہیں یہ وادی اپنی خوب صورتی اور رعنائی کے سبب دنیا بھر میں جانی جاتی۔ لیلیٰ سمیت سب دنگ رہ گئے تھے۔ سبز پوش پہاڑ، کسی حسینہ کی الجھی لٹ کے مانند بل کھاتے پانی، مکئی کے لہلہاتے کھیت اور خوشبو لٹاتی فضائیں۔ وہ ایک مکمل جہاں تھا۔ وہ دونوں ایک گروپ کے ساتھ کافرستان میں مئی کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہونے والے بہار کے تہوار چیلم جوشٹ کا حصہ بننے آئی تھیں۔
٭…٭…٭
موسمِ بہار کی آمد مارچ کے مہینے سے شروع ہو جاتی اور آبادی کا ایک حصہ 21 مارچ کو جشن نوروز منا کر بہار کا باقاعدہ استقبال کرتا۔
وہاں پہنچتے ہی لیلیٰ نے وادی کیلاش کی تاریخ اور تہذیب و تمدن پر مبنی کتاب نکالی جو وہ اپنے ساتھ لائی تھی اور پھر وہ دونوں وادی کا چپہ چپہ چھاننے کے لیے تیار تھیں۔
کیلاش قوم کا تعلق قدیم آریائی نسل سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب زرتشتی ایران سے نکل کر اپنے مذہب کو غیر ممالک میں پھیلانے نکلے، تو کچھ یہاں آبسے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ ان کافروں کا تعلق قدیم یونانیوں سے ہے۔ اس نے پڑھ کر اناہی کو آگاہ کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بعض عادات قدیم یونانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ جیسا کہ گھروں کے دروازوں اور ستونوں پر سورج دیوتا اور مینڈھے کی شبیہ کندہ ہیں۔ اناہی نے گھروں کی طرف اشارہ کیا۔
گھر کے اندرونی ستونوں اور مذہبی گھر جستگھان کے دروازوں سمیت اندر کے ستونوں پر بھی سورج دیوتا، پھول اور ستارے کی علامات کندہ کی جاتی ہیں۔ لیلیٰ نے کتاب سے پڑھ کر مزید بتایا۔
گھروں کے آگے بیٹھی چند خواتین کو دیکھ کر اناہی مسکرائی اور ’’ایش پاتا‘‘ کہا۔ جواب میں عورتوں نے بھی کچھ کہا تھا۔
’’کیا کہا ہے تم نے ان سے؟‘‘ لیلیٰ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔
’’بس ان کا حال احوال دریافت کیا ہے۔‘‘
’’تمہیں ان کی زبان آتی ہے کیا؟‘‘
اناہی نے زیرلب مسکرانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔ وہاں قدم قدم پہ پراسراریت بکھری پڑی تھی۔ وہ دیو مالائی دنیا کا حصہ تھی۔
’’شاید بابا ٹھیک ہی کہتے تھے۔‘‘
٭…٭…٭
ہمارے رہتے آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایک وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ پرسکون ہوئی۔ ہاتھ تھامے ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایک ٹک دیکھتے ہوئے وہ پورے محل سمیت زمین بوس ہو رہے تھے۔ تب ہی پتا نہیں کہاں سے پانی کا تیز ریلا تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا قد آور کھڑکی سے اندر داخل ہوا۔ آپ کو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ سرگوشی اس کی تو نہیں تھی جس کا ہاتھ اس نے تھام رکھا تھا۔ پانی کا ریلا اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے دھنستی زمین سے باہر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑنے لگی تھی۔
’’نہیں…‘‘ وہ پوری قوت سے چلائی۔ پانی نے اسے نہیں چھوڑا تھا، مگر دو پریمیوں کے ہاتھ ضرور چھوٹ گئے تھے۔ ان آنکھوں کی بے یقینی روشنی پر حاوی ہوئی۔
’’اناہیتا…‘‘ آخری بار بے بسی سے پکارا گیا تھا۔
وہ پانی کی موجوں کے رحم و کرم پر تھی جو اسے شاید زندگی کی طرف لے جانے کی کوشش میں تھیں۔ اس کا عکس آخری بار آنکھوں نے جذب کیا۔ مدھم پڑتی آنکھوں کی روشنی کے ساتھ اس کا دل بھی بیٹھ رہا تھا۔ لہریں اسے وادی میں بہا لائیں اور مخملی گھاس پر نرمی سے یوں لٹا دیا جیسے وہ اس کا شاہی بستر ہو۔ آنکھوں سے نمکین پانی بہ کر لہروں سے ٹکرایا اور پانی تڑپ اٹھا۔
’’آپ رو کیوں رہی ہیں؟ اب تو آپ محفوظ ہیں۔ زندگی مبارک ہو۔‘‘ سرگوشی ہوئی۔
’’زندگی تو دفن ہو گئی بہت پیچھے۔ میری زندگی سے کیوں دور کر دیا مجھے؟ کچھ نہیں رہا کچھ بھی نہیں۔‘‘
آخری آواز جو اس نے سنی وہ لہروں کے ماتم کی تھی۔ وہ پتھروں سے سر پٹخ پٹخ کر اپنی کج فہمی پر واویلا کر رہی تھی۔
کہیں اس کا عکس بھی نا بہ جائے اس ڈر سے اس نے آنکھیں آہستگی سے بند کیں۔ دل اور دماغ میں گمبھیر اندھیرا چھا رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا وہ ہوا میں معلق ہو گئی ہے۔
ایک چیخ کے ساتھ وہ نیند سے جاگی۔ سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔
’’میں نے اسے کھو دیا۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔ غیرارادی طور پر اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے جو گالوں پر لڑھکتے چلے گئے۔ بالوں کے کنڈلوں میں اٹکی نمی اسے حیران کر رہی تھی۔ بے اختیار اس کی نظر اپنی دائیں ہتھیلی پر پڑی۔ کسی کی مضبوط گرفت کی سرخی ابھی بھی انگلی کی پوروں پر نمایاں تھی۔ وہ ہتھیلی اس نے بے ساختہ اپنے بے ہنگم دھڑکتے دل پہ رکھ دی۔ کیا وہ واقعی کسی خواب سے جاگی تھی؟
٭…٭…٭
روایتی کپڑے زیب تن کیے نیلی آنکھوں والی حسیناوؑں کی چھب ہی نرالی تھی۔ ڈھول کی لہو گرماتی تیز تھاپ پر کیلاشی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انتہائی پرجوش انداز میں بھنگڑے ڈالتے، ناچ گا رہے تھے جو جسے پسند کرتا تھا آج اسے آزادی تھی کہ اس کا ہاتھ تھام کر نئی زندگی کا آغاز کر لے۔
’’پسند کی شادی وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر۔ کمال ہے بھئی۔ اگر کسی کی بیوی بھی پسند آئے تو اس سے بھی شادی کی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ لڑکی بھی اسے پسند کرتی ہو۔ بس کرنا یہ ہے کہ شادی کے بعد اس عورت کے پہلے شوہر کو دگنا مال دینا پڑے گا جسے ’’دکن‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ کتاب سے پڑھی معلومات لیلیٰ نے من و عن اناہی کے دماغ میں انڈیلیں۔
’’مکمل عجوبہ ہے یہ کافرستان۔ شراب نوشی کی ان کے مذہب میں کوئی پابندی نہیں۔ دیسی شراب گھروں میں خود بناتے ہیں اور مرد و عورت سب ہی پیتے ہیں۔ جھگڑا اور فساد سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ قتل کا ان کے مذہب میں تصور ہی نہیں ہے۔‘‘ اناہی نے لیلیٰ کی معلومات میں اضافہ کیا۔
شام سے پہلے وہ لیلیٰ کو آرام کرنے کا مشورہ دے کر ہوٹل سے اکیلے ہی نکل پڑی۔ بہت کچھ تھا جو اسے اکیلے ہی جاننا اور سمجھنا تھا۔ ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ایک خوب صورت پل پر نظر پڑی اور وہ بنا سوچے سمجھے ادھر چل پڑی۔ پل کے بیچ میں پہنچ کر اس نے محسوس کر لیا تھا کہ اِس سے آگے درختوں کے جھنڈ میں کچھ خوف ناک ضرور ہے۔ پل کراس کر کے وہ چھوٹے سے تنگ راستے سے ہوتی ہوئی ٹھیک وہاں جا پہنچی۔ سامنے ہی کیلاش قبائل کا قدیم و مشہور قبرستان تھا۔ ہر طرف تابوت ہی تابوت نظر آ رہے تھے۔ کیلاش قوم اپنے مردوں کو دفناتی نہیں بلکہ یہ لوگ انہیں کھلے تابوت میں لٹا کر قبرستان میں رکھ آتے ہیں جہاں بعد میں ان لاشوں کو پرندے اور جانور نوچ کھاتے تھے۔
کیلاش قوم نے بھی اب مردوں کو دفنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے دماغ میں لیلیٰ کی فراہم کی گئی انفارمیشن گونجی۔
اناہیتا نے ذرا سا آگے ہو کے کھلے پڑے تابوتوں میں جھانکا بعض میں انسانی اعضا کی ہڈیاں پڑی نظر آئیں۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔ وہ عجیب سی وحشت کے زیر اثر تھی۔
اس نے محسوس کیا جیسے درختوں کے جھنڈ میں کوئی اسے فوکس کیے ہوئے ہے۔ ایک ٹرانس میں وہ اس طرف چلتی گئی۔ اس نے ایک چھب دیکھی اور سانس سینے میں رکنے لگی۔ وہ مکمل دیکھے بغیر بھی بتا سکتی تھی کہ وہاں دریہ تھی۔ اس کی وہاں موجودگی کیا ثابت کر رہی تھی؟
’’کون ہوں میں؟ کیا میں بھی یہیں سے ہوں؟‘‘
اس سے بھی آگے سے۔ وقت آنے پر سب کھل جائے گا۔ ہوا کے دوش پہ ایک پیغام اس تک پہنچا۔ یعنی وہ اس کی سوچ تک پڑھ چکی تھی۔
سراسیمہ ہو کر وہ اندھا دھند وہاں سے بھاگی۔ پیچھے مڑ کر اگر دیکھتی تو پتھر کی بن جاتی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھر — مدیحہ ریاض

Read Next

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!