اناہیتا — تنزیلہ احمد

ان کا پہلا پڑاؤ باغ آزاد کشمیر میں تھا۔ یونہی گھومتے پھرتے وہ جنگل والی سائیڈ پر نکل آئیں۔ پانچ لڑکیوں کے اس گروپ میں اناہی اور لیلیٰ بھی تھیں۔ چلتے چلتے وہ تھک گئی اور ایک بڑے پتھر پہ سانسیں ہموار کرنے کے لیے بیٹھ گئیں۔
’’کیسی جگہ تھی وہ؟‘‘ جنگل کے بیچ و بیچ چھوٹا سا ہموار میدان اور اس کے بیچ میں بڑا سا پتھر، سامنے ہی دیو قامت درخت اور عین اس کے ساتھ پہاڑی کا کچھ ہموار حصہ۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ اس حصے تک پہنچنے کے لیے جیسے پہاڑی نے سہولت سے پاؤں دھرنے کی جگہ چھوڑ رکھی تھی۔ وہ ایک ٹرانس میں اُٹھی۔
واقعی اوپر تک چڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ ہموار حصے پر نظر پڑتے ہی وہ دنگ رہ گئی۔ پہاڑی کا وہ حصہ زمین کا چھوٹا سا ہموار ٹکڑا تھا جو نرم سرسبز گھاس سے ڈھکا ہوا تھا اور ایک کونے میں ترتیب سے درمیانے سائز کے پتھر جڑے ہوئے تھے۔ وہاں آرام سے تین چار افراد لیٹ سکتے تھے اور ظاہر ہے بیٹھنے میں بھی کوئی ہرج نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کا عالی شان تخت ہو۔ ایک دبیز خاموشی اور سردپن تھا جو اسے وہاں محسوس ہوا اور اس نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس کی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اوپر جا کہ بیٹھے مگر اس کے پاؤں جم گئے۔ وہ اپنے جسم کو ایک انچ بھی آگے لے جانے سے قاصر تھی۔ وہ کوئی شاہرائے عام نہیں تھی اور نہ ہی انہیں وہاں پیر دھرنے کی اجازت تھی۔ کافی دیر وہ اسی کشمکش میں کھڑی رہی۔ نیچے سے ملی جلی آوازیں آرہی تھیں۔
’’کیا ہے وہاں، کیا دکھ رہا ہے، رک کیوں گئی، اوپر کیوں نہیں چڑھ رہی؟‘‘ وہ نظریں جھکا کے چپ چاپ نیچے اتر آئی۔
’’کیا ہے وہاں؟ لیلیٰ نے کریدا۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’ہم بھی تو دیکھیں۔ اتنی دیر تم وہاں کھڑی رہی ہو۔‘‘ ایک ایک کر کے وہ جاتیں اور ناکام لوٹتی رہیں۔ وہ پتھر پر چپ چاپ بیٹھی تماشا دیکھ رہی تھی جو وہ سمجھ سکتی تھی ان میں سے کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ انہیں کیسے سمجھاتی کہ اس دنیا کے پیرالل ایک اور دنیا بھی سانس لیتی ہے۔ وہاں انسانوں کا اختیار نہیں چلتا اور نہ ہی وہ وقت کے تابع ہیں۔
اونچائی سے نیچے دیکھنے پر وادی گول چکر کے مانند دکھتی اور پہاڑیوں کے کٹ چوڑے چوڑے سٹیپس کے مانند جو پہاڑ انہیں اپنے ریسٹ ہاوؑس سے دکھتا تھا پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ پہاڑ زلزلہ متاثرین میں سے ہے۔ اگلے دن وہ چکرا دینے والے چھوٹے رستوں سے گھومتے گھماتے وہاں جا پہنچیں۔
وہ ایک بڑا اونچا سا پہاڑ تھا جو چھوٹے بڑے ہر سائز کے پتھروں کی صورت زمین بوس ہوا پڑا تھا۔ کبھی وہ بھی شان سے کھڑا ہو گا، مگر ایک جھٹکے نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔ بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ ریزہ شدہ پتھروں کے عین سامنے جیسے ایک چھوٹا سا کنواں بنا ہوا تھا اس میں سے ہرا مائل پانی نکل کر آگے جا کے چشمہ کی صورت اختیار کر رہا تھا۔





’’اس گول دائرے میں پانی کہاں سے آرہا ہے، اس کی گہرائی کتنی ہو گی؟‘‘ اس نے سوال پوچھے تھے۔
’’پتا نہیں باجی ہم نے ایسے ہی دیکھا ہے یہاں۔‘‘ ان کے ساتھ آئے گائیڈ نے بتایا۔
اس نے بے اختیار جھرجھری لی۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی سرگوشیوں میں اسے کچھ بتانا چاہ رہا ہو۔ وہ جگہ بھی عام نہیں تھی۔ انہوں نے کئی تصویریں لیں اور دن کی اچھی خاصی روشنی کے باوجود کوئی تصویر بھی صاف نہیں آرہی تھی۔ ایک کہر سی تھی جو ان کی ہر تصویر کو بلر کر رہی تھی۔
’’باجی واپس چلنا چاہیے جاتے جاتے وقت لگے گا۔ جو اترائی آتے ہوئے آسان تھی اب چڑھائی کی صورت مشکل لگے گی۔‘‘
واقعی، اس کا اندازہ انہیں پچھلے دو دن میں بہ خوبی ہو گیا تھا۔
باتیں کرتے کرتے سب آگے چل دیں اور اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کیسے سب سے پیچھے رہ گئی۔ موڑ مڑ کر چشمہ کے پاس آتے ہی اس کے قدم کسی نادیدہ قوت نے تھام لیے تھے۔ کوئی اسے پکار رہا تھا جو اسے جانے نہیں دے رہا تھا۔ حلق میں پھنسی آواز اور جکڑے گئے قدموں کے ساتھ اس نے اپنی ساتھیوں کو دیکھا۔ کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا وہ سب کافی آگے جا چکے تھے۔
اپنی پوری قوت جمع کر کے وہ پکاری۔ لیلیٰ اس کی آواز پر پلٹی اور طلسم ٹوٹ گیا۔ وہ اب آزاد تھی۔ رہائی ملتے ہی وہ لیلیٰ کی طرف بھاگی۔ گروپ کے ساتھ مل کر اس نے پلٹ کر ایک سہمی نظر پیچھے ڈالی تھی۔ اب یہاں نہیں آنا وہ طے کر چکی تھی۔
٭…٭…٭
اب کے جھیل میں نظر آنے والے عکس سے اُس نے نگاہیں نہیں پھیری تھیں۔ زرق برق سرخ لباس جو پیروں کو چھو رہا تھا، تیکھے نقوش میں عجیب سا غرور، گھنگھریالے لمبے بال اور سر پر دھرا سونے کا ہیرے جواہرات سے مزین بڑا سا تاج۔ اسے لگا پانی، چرند پرند، ہریالی، پھول بوٹے، جنگل سمیت قدرت کا ہر نظارہ ہر ذی روح اسے مبارک ہو، مبارک ہو کہہ رہا ہے۔
’’اناہیتا کہاں ہو؟‘‘ ہوا کے دوش پر ایک سرسراتی آواز اس کے کانوں تک پہنچی۔ وہ بے ساختہ آواز کی سمت پلٹی اور بھاگتی چلی گئی۔ باغ کے اس پار وہ ٹھٹک کے رک گئی۔ سامنے ہی وہ پرشکوہ محل اپنی پوری شان و شوکت سے اس کا منتظر کھڑا تھا۔ باہر آویزاں ایک مجسمے کو اس نے انسیت سے چھوا اور بے چینی سے سرخ روش پر بھاگتی ہوئی اندر داخل ہو گئی۔ اندر کی تزئین و آرائش نے اسے مبہوت کر دیا تھا، ایسا کچھ اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ چھت اتنی اونچی تھی کہ اسے پوری گردن اٹھا کے اس میں آویزاں کھڑکیوں کو دیکھنا پڑ رہا تھا۔ وہ چیزوں میں مگن تھی جب اس کے کانوں کے انتہائی نزدیک مانوس سی سرگوشی ہوئی، اناہیتا۔
وہ پلٹی اور اپنی جگہ جم گئی۔ ہاں وہ وہی تھا، بالکل وہی جیسا اس کے دل نے چاہا تھا، لمبے سے گولڈن گاوؑن اور سر پر بیش قیمت تاج پہنے اپنی روشن آنکھیں اس پر مرکوز رکھے وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ اسے لگا اس کی آنکھوں سے پھوٹتی روشنی اس کی روح تک کو منور کر رہی ہے۔ اسی روشنی نے اپنی طرف اس کا بڑھا ہوا ہاتھ نمایاں کیا۔ وہ ہاتھ تھامنے کے لیے ہی تھا۔ دو قدم اُٹھا کے وہ اس کے نزدیک آگئی، وہ مکمل ہونے جا رہی تھی۔ اپنا مخملی ہاتھ بغیر کسی جھجک کے اس نے اسے تھما دیا۔ ابھی وہ اس جادوئی پل کو ٹھیک سے محسوس بھی نہیں کر پائی تھی کہ سب کچھ لڑکھڑانے لگا۔ کوئی بھونچال تھا جو انھیں اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار تھا۔
آسمان پھٹنے اور زمین دھنسنے لگی۔ وہ ہونقوں کی طرح سر پر پڑی مصیبت کو دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
یہ تو شکر ہوا کہ وہ لوگوں کی باتیں یونہی ہوا میں اڑا دیتی تھی ورنہ تو نہ جانے کس کس پر آئے روز مصیبتیں ٹوٹتیں۔ اس دن وہ کینٹین میں موجود تھیں۔ لیلیٰ سے تو اس کی بچپن کی دوستی تھی اور وہ اسے بہ خوبی جانتی اور سمجھتی تھی۔ ان کا اسکول ایک تھا، کالج بھی اور اب یونیورسٹی بھی، مگر فروا زبردستی کی دوست بن بیٹھی تھی۔ انہیں کینٹین میں بیٹھا دیکھ فواد بے اختیار اس کی طرف کھنچا چلا آیا۔
’’ہائے اناہیتا کیسی ہو؟‘‘ اناہی نے ذرا کی ذرا پلکیں اٹھائیں وہ عین سامنے موجود تھا پوری تیاری کے ساتھ۔
’’ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟‘‘
’’میں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘ کہتے ہی وہ لیلیٰ کے ساتھ والی خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’اور ہیرو کیا خبریں ہیں؟‘‘
’’کچھ خاص نہیں تم لوگ بتاوؑ؟‘‘ لیلیٰ کے ساتھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے وہ گاہ بہ گاہ اس دشمن جاں کا جائزہ لیتا رہا۔
تمہارے دوست انتظار کر رہے ہیں یقینا تم انہیں ابھی آتا ہوں کہہ کر آئے ہو گے۔‘‘ اناہی کے آہستگی سے کہنے پر وہ خجل ہوا۔
ارے ہاں۔ بس جا رہا ہوں۔ جاتے ہوئے درزیدہ نظر وہ اس پر ڈالنا نہیں بھولا تھا۔ جتنی جاذبیت اس کے نقوش اور سراپے میں تھی۔ اس سے زیادہ ٹھہراوؑ اور کشش اس کی شخصیت میں تھی۔ دیکھنے والوں کو اس کے ماورائی حسن سے نظریں ہٹانے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
’’ہائے! کتنا اچھا لڑکا ہے۔ سارے ڈیپارٹمنٹ کو اندازہ ہے کہ مرتا ہے وہ تم پر… مگر تم تو ایسی پتھر دل ہو کہ اس کی فیلنگز سمجھتی ہی نہیں۔‘‘ فروا نے تبصرہ کیا۔
’’اس کی فیلنگز سمجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہماری منزلیں جدا ہیں۔‘‘
’’لو یہ کیا بات ہوئی اور کیا چاہیے ہوتا ہے لڑکیوں کو۔ وہ خوش شکل ہے، ذہین ہے، ویل آف فیملی سے ہے اور محبت بھی کرتا ہے تم سے۔ مجھے ملتا ایسا لڑکا تو میں اسے سنبھال کے رکھتی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھر — مدیحہ ریاض

Read Next

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!