اناہیتا — تنزیلہ احمد

آنکھیں کھولتے ہی اس کا پالا گھپ اندھیرے اور سیلن زدہ بو سے پڑا تھا اور یہ عجیب بات تھی کہ پہلی بار اندھیرے میں اسے خوف یا گھٹن محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
’’آہ میں زندہ ہوں۔‘‘ اپنے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر اس نے خود کو تسلی دی۔
’’مگر میں کہاں ہوں؟‘‘ اس نے ٹٹول کر اندھیرے میں کچھ تلاشنے کی کوشش کی۔
’’آپ بالکل محفوظ ہیں اور ٹھیک وہیں ہیں جہاں آپ کو ہونا چاہیے۔‘‘ مہیب سناٹے میں سرگوشی نما آواز کانوں کے پاس سرسرائی۔ وہ دبک کے پیچھے ہوئی۔ چراغ ہاتھ میں تھامے دبے پاؤں چلتی اپنے قریب آتی اس عورت کو وہ پلکیں جھپکے بنا دیکھتی رہی۔
’’کیا میں تم سے پہلے مل چکی ہوں؟‘‘ اس کے چہرے کو خودبہ خود جانچتے ہوئے وہ خود سے الجھی۔
اناہی کے سوال پر اس مؤدب کھڑی عورت کے ہونٹ ذرا سے مسکائے۔ یکلخت دماغ میں جھماکا ہوا وہ تڑپ کے اُٹھ بیٹھی۔
’’تم… تم تو دریہ ہو۔ بولو تم وہی ہو نا؟ ‘‘وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی کہ وہ دریہ ہی ہے جس نے اسے دنیا میں لانے میں مدد کی اور اب وہ اسے اس جہاں میں لے آئی جدھر ہر شے نے وقت کے دھارے سے بے نیاز ہو کر اُس کی راہ تکی تھی۔
٭…٭…٭





گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ ماما کے ساتھ اپنے ماموں کے گھر آئی ہوئی تھی۔
’’لائیں بے بے میں آپ کے ٹرنک کی صفائی کر دوں۔‘‘ ماما نے نانو سے کہا اور ساتھ ہی ان کے پسندیدہ جہیز میں آئے چھوٹے سے پرانے ٹرنک کا ڈھکن اٹھایا۔ اس میں سے گنی چنی چیزیں نکلی تھیں۔ وہ ذرا فاصلے پر چارپائی پر بیٹھی اپنے گڈے سے کھیل رہی تھی۔ اس کے پاس کوئی گڑیا نہیں تھی۔ بابا جب اسے ٹوائے شاپ پر لے گئے تو اس نے ایک بڑا سا خوب صوت گڈا پسند کیا جو اس کے سائز سے کچھ زیادہ چھوٹا نہ تھا۔ وہ گڈا اسے بے حد عزیز تھا۔ اسے لینے کے بعد اسے کوئی گڑیا خریدنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔
’’بے بے اس میں کیا ہے؟‘‘ ایک سرخ رنگ کی پوٹلی ٹرنک سے برآمد کر کے ماما نے نانو سے پوچھا۔
’’اس میں پرانے سکے ہیں۔‘‘ اس نے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا۔ نانو نے اسے چونک کر دیکھا جب کہ ماما نے کوئی پروا نہیں کی تھی۔ وہ اس کی اکثر باتوں کو سیریس نہیں لیتی تھیں۔ پوٹلی کھولتے ہی ان کی حیران آواز سنائی دی۔
’’ارے اس میں تو پرانے سکے ہیں۔‘‘
’’تمہیں دیکھ کے پتا چلا جب کہ تمہاری چار سالہ بیٹی تو بغیر دیکھے ہی بتا چکی تھی۔‘‘
’’ارے بے بے دیکھیں یہ تو وہی سکے ہیں جو میں بچپن میں جمع کیا کرتی تھی۔ یاد ہے آپ کو؟‘‘
’’ہاں یاد ہے۔‘‘
ماما لگاوٹ سے ایک ایک سکے کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر آئی چمک سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اُن سکوں سے جڑی ان کے بچپن کی تمام یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ دبے پاؤں چلتی ہوئی وہ ماما کے سر پر آکھڑی ہوئی۔
’’کیا یہ سکے میں لے سکتی ہوں؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ تمہاری ماں کے جمع کیے ہوئے ہیں تو تمہارے ہی ہوئے۔‘‘ نانو کے کہنے پر ایک مطمئن نظر اُس نے پوٹلی پر ڈالی اور اسے لیے چارپائی پر دھرے اپنے گڈے کے پاس آبیٹھی۔
’’آپ کا ٹرنک تو صاف ہے اس میں اتنی چیزیں ہی نہیں ہیں۔‘‘ ماما نے نکالی ہوئی چیزیں واپس ڈالتے ہوئے کہا۔
’’چلو یہ اچھا ہوا کہ سکے مل گئے مجھے تو بالکل بھی یاد نہیں تھا۔ کئی دنوں سے اناہی مجھے کہہ رہی تھی کہ اسے پرانے سکے کولیکٹ کرنے ہیں۔لگے ہاتھ اس کا کام تو ہوا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ نانی ہلکے سے مسکرا دیں۔
’’یوں لگتا ہے جیسے تم نے ٹرنک کھولا ہی سکے تلاشنے کے لیے تھا۔ تمہاری بیٹی بہت گہری ہے۔‘‘ مطمئن بیٹھی اناہی پر انہوں نے ایک نظر ڈالی تھی۔
٭…٭…٭
پتا نہیں وہ وہاں کیسے پہنچی تھی۔ اندر داخل ہونے پر کوئی ذی روح نظر نہیں آیا تھا۔ اس عالی شان محل کی اونچی کھڑکیوں کے مخملی پردے سرسرا رہے تھے شاید باہر ہوا چل رہی تھی۔ خنک ہوا اسے اپنے گالوں پر مس ہوتی محسوس ہوئی اور بے اختیار جھرجھری لینے پر مجبور کر گئی۔ ایک دم وہ نیند سے جاگی تھی۔
کبھی وادیاں، کبھی جنگل، کبھی جھیل اور اب یہ محل۔ ہوش سنبھالتے ہی یہ خواب کسی قسط وار سلسلے کی طرح اس کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ وہ ہر وقت ان کے زیر اثر رہتی۔ یہ کیسی حیرانی کی بات تھی کہ اگر اس کے علاوہ کوئی بھولا بھٹکا خواب اسے آبھی جاتا، تو دماغ دھندلا جاتا اور کوئی بات اسے یاد نہ ہوتی مگر یہ مخصوص خواب پوری جزیات سے یاد رہتے۔ اس کا دل کہتا کہ جو اس نے دیکھا ہے۔ کاش وہ اصل میں اس کے سامنے آجائے۔ وہ اپنے خوابوں میں خوش دلی سے جینا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
’’مامامجھے چھوٹا بھائی چاہیے۔ اپنی چھٹی برتھ ڈے پہ اس نے انوکھا گفٹ مانگا تھا۔
’’ارے۔‘‘ اس کی بات پر کئی قہقہے چھوٹے۔ سب مہمانوں کے سامنے وہ بلش کر کے رہ گئیں۔ اسی رات جب وہ اپنا گڈا لیے اپنے بیڈ پر سونے کے لیے لیٹ چکی، تو وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر اس کے بیڈ روم میں داخل ہوئیں۔کچھ تھا جو اپنی بیٹی سے شیئر کرنا چاہتی تھیں۔
’’آپ کو آج کیسے خیال آگیا چھوٹے بھائی کا؟ پہلے تو آپ چھوٹے بے بی کے حق میں نہیں تھی۔‘‘ اس کے نرم و ملائم بال سہلاتے ہوئے انہوں نے برملا بات کا آغاز کیا۔
وہ کئی بار آزما کے دیکھ چکی تھیں کہ اناہی سے گھما پھرا کے بات کرنا فضول ہے کیوں کہ وہ ان کے دل کی بات تک خود ہی پہنچ جاتی تھی۔
اناہیتا کی چھٹی حس اور انٹیوشن کا اعتراف خاندان تو خاندان تمام ملنے جلنے والے بھی کرتے تھے۔
’’مجھے لگتا ہے کہ چھوٹا بھائی ہونا چاہیے جو ہمیشہ آپ کا خیال رکھ سکے۔‘‘
کیوں میری بیٹی نہیں رکھے گی میرا خیال کیا؟‘‘ انہوں نے اسے چھیڑا۔
بیٹیاں ہمیشہ تھوڑی نا پیرنٹس کے گھر بیٹھی رہتی ہیں۔‘‘ اس نے ان کی ہی کہی ہوئی بات ان کے سامنے دہرائی۔ وہ لاجواب ہوگئیں۔
’’اصل میں بیٹا شاید اب آپ کا کوئی اور چھوٹا بھائی یا بہن نہ آسکے۔ وہ دراصل کبھی کبھی کچھ پرابلمز آجاتی ہیں۔‘‘ سنبھل سنبھل کر انہوں نے بات پوری کی۔ وہ اپنی چھوٹی سی بچی کو صاف الفاظ میں نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کی پیدائش ہی انتہائی مشکل سے ہوئی تھی اور تب کی ہوئی پیچیدگیوں کی بنیاد پر ڈاکٹرز نے انہیں کہہ رکھا تھا کہ اب ان کے لیے مزید بچہ پیدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
’ڈونٹ وری ماما۔ کوئی کامپلیکیشن نہیں ہے۔‘‘ ہمیشہ کی طرح وہ ان کے دل کی بات پڑھ چکی تھی۔ وہ اس کے مدبرانہ انداز پر پھیکا سا ہنس دیں۔
’’پر بچے یہ تو اللہ کی دین ہے کیا پتا بھائی نہیں بہن آجائے۔‘‘
’’بھائی ہی آئے گا۔ میری نیکسٹ برتھ ڈے پر ہوگا۔‘‘ اس نے مزید کہا۔ اس کے کہے پر ثبت ہوئی۔ مہر کی طرح عین اس کی نیکسٹ برتھ ڈے والے دن ان کی زندگیوں میں فجر کے وقت ایک ننھا وجود آشامل ہوا جسے دیکھتے ہی اناہیتا نے اُس ریان کہہ کر پکارا تھا۔
٭…٭…٭
میلاد شریف کے لیے وہ اناہی کی خالہ کی طرف موجود تھے۔ وہ سب کزنز کے ساتھ پچھلے لان میں پھول پودوں سے کھیلتی رہی۔ خالہ نے دعا کے لیے خاص طور پر اپنے خاندانی پیر شاہ صاحب کو بلایا تھا۔ دوسرے بچوں کے ساتھ انہیں سلام کر کے اور سر پر پیار لے کر وہ سکون سے صوفے پر جا بیٹھی۔ ملازم سالن کے ڈونگے اٹھائے اندر داخل ہو رہا تھا۔ شاہ صاحب کو کھانا کھلانے کی تیاری ہورہی تھی۔
’’اس میں کیا ہے؟‘‘ ایک ڈونگے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے کزن نے اپنی ماں سے پوچھا۔
’’اس میں حلیم ہے۔‘‘ جواب اناہی کی طرف سے آیا تھا۔
’’جی وہی ہے۔‘‘ ملازم نے تائید کی۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟ گھر میں دو تین سالن بنے ہوئے تھے۔‘‘ ایسے میں اُس کا بالکل درست اندازہ پیر صاحب کو چونکا گیا۔
’’اسے الہام ہوتے ہیں۔‘‘ ماما نے انہیں انفارم کیا۔
’’ہممم…‘‘انہوں نے اسے سوالیہ نظروں سے پرکھا۔
’’نماز پڑھتی ہیں بیٹا آپ؟‘‘
وہ چپ رہی۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
’’جی میں کہتی ہوں اسے تو پڑھ لیتی ہے۔‘‘
’’ہوں۔ اچھا۔ ‘‘اناہی کو لگا وہ اس کا سچ جان چکے ہیں۔ اس کا نماز میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔
ماما کے بار بار کہنے پر وہ جھوٹ موٹ کا وضو کر کے مصلہ بچھا کے بیٹھ جاتی اور ان کے دیکھنے پر ایکٹنگ کرتی کہ وہ نماز پڑھ رہی ہے۔ ہے تو یہ غلط مگر وہ مجبور تھی کہ اسے نماز کی توفیق ہی نہیں ہوتی تھی۔
ان کی گہری نظر اس کی طرف اٹھی عین اسی وقت اناہی کی نظر بھی شاہ صاحب کی طرف اٹھی۔ دونوں کی نگاہوں میں مختلف پیغام تھے۔ جاتے سمے انہوں نے اسے ’’سلامت رہو بیٹا‘‘ کی دعا سے نوازا۔
’’آپ بھی۔‘‘ اس نے دوبدو کہا۔ وہ آہستگی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کے چلے گئے تھے۔
دس سال کی بچی نے انھیں ششدر کر دیا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھر — مدیحہ ریاض

Read Next

اگر ہو مہربان تم — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!