امّی — شاکر مکرم

’’امی!‘‘ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’جی بیٹا؟‘‘ وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھیں۔
’’میں آجاؤں؟‘‘
’’آجاؤ پوچھ کیوں رہے ہو؟‘‘
’’لائٹ جلا دوں؟‘‘ وہ اب کمرے میں داخل ہوچکا تھا۔
’’جلا دوا تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولیں اور سیدھی ہو کے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
’’آپ تو روتے ہوئے بھی بہت اچھی لگتی ہیں۔‘‘ انہوں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مذاق اڑا رہے ہو؟‘‘ انہوں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مذاق کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے گویا ان کی تصحیح کی۔
’’پریشان ہیں؟‘‘ وہ ان کے گھٹنے پہ سر رکھ کے بیٹھ گیا۔
’’نہیں تو۔‘‘ وہ بے تاثر لہجے میں جواب دے رہی تھیں۔
’’مائیں جھوٹ کیوں بولتی ہیں؟‘‘
اس نے ان کے کان میں سرگوشی کی تو وہ خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔
’’پتا نہیں!‘‘ ان کالہجہ اب بھی سپاٹ تھا۔
’’اچھا ایک وعدہ کریں‘‘ اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘





آئندہ آپ نہیں روئیں گی آپ، جو بیت گیا، وہ بیت گیا اب ان لمحات کو ماضی کے نام کرنا عقل مندی تو نہیں نا؟ اس نے جیسے تصدیق چاہی۔
’’کوشش کروں گی‘‘ انہوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’اوہ گڈ! ذرا مسکرا کے تو دکھائیں۔ وہ انہیں چھپڑتے ہوئے بولا۔
’’کس خوشی میں؟ وہ بہ مشکل جواب دے پارہی تھیں۔
’’اچھا تو ہماری فرمائش کی کوئی حیثیت نہیں؟ اچھا یہ آنکھیں تو بند کریں ذرا۔ اس نے مضوعی ناراضی سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ اس اچانک مطالبے پر چونک گئیں۔
’’بند تو کریں‘‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ لو بند کرلیں۔‘‘ انہوں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
’’امی cheating نہیں کرنی اچھا‘‘
’’اچھا بابا!‘‘ انہوں نے جیسے ہار مانتے ہوئے کہا۔
ارقم نے اس کے ہاتھ پر ایک لفافہ رکھ دیا۔
’’اب آنکھیں کھولیں۔‘‘
’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے لفافے کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کھول کے دیکھیں۔‘‘ وہ بھی بہ ضد تھا۔
’’میرا پاسپورٹ تمہارے پاس کدھر سے آیا۔‘‘ انہوں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
’’چوری کیا تھا آپ کے بیگ سے‘‘ وہ اب ہلکا ہلکا مسکرا رہا تھا۔
’’اور یہ کیا ہے‘‘ انہوں نے گھورتے ہوئے پوچھا۔
کل رات نو بجے کی ٹکٹ، کل ہم عمرہ پر جا رہے ہیں‘‘ وہ مسکرا کر انہیں بتا رہا تھا۔
’’کیا؟‘‘ وہ خوشی اور حیرت میں تقریباً چیخ پڑی
’’جی ہاں! کل ہم عمرہ پر جا رہے ہیں۔ وہ تو اپ کے برخوردار نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ورنہ یہ سرپرائز تو اپ کو کل ائیرپورٹ پہ ملتا۔ اس نے منہ بناتے ہوئے کہا تو انہوں نے پاسپورٹ سے اسے کندھے پہ مارا۔ اور وہ اس سے لپٹ کرذور ذور سے رونے لگیں۔ آنسو جب تھم گئے تو دھیرے سے بولیں: بیٹا واقعی ہم جارہے ہیں؟‘‘
’’جی امی۔‘‘ ان کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔
’’ویسے کچھ پہلے بتایا ہوتا تم نے، اب اتنے تھوڑے وقت میں میں تیاری کیسے کروں؟‘‘ وہ یک دم پریشان ہو گئی تھیں اور اسے بے اختیار ہنسی آئی۔
’’ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘
’’ویسے ہی۔ پھر وہ ان کا ہاتھ تھامے الماری کی طرف لے آیا۔
امی یہ رہے آپ کے سوٹ اور یہ جوتے اور یہ بیگ، اب میں ہوں نہ امی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں‘‘ اس نے برُے پیار سے ان کا ہاتھ میلاتے ہوئے کہا۔
وہ بس اسے دیکھے گئی۔ آنسو پھر سے پلکوں پہ جمع ہونے لگے تھے۔ کہنا بہت کچھ تھا لیکن لفظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ کبھی کبھی الفاظ بھی احساسات کی ترجمانی نہیں کر پاتے۔
’’امی!‘‘ وہ ایک بار ان سے مخاطب تھا۔
’’ہاں!‘‘ وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’اپ بہت اچھی ہیں۔‘‘ ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ بڑے پیار سے بولا۔
’’کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے مجھے پتا نہ ہو۔ اور فضا میں ابھرنے والا قہقہہ تعلق کو اور بھی مضبوط کر گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Read Next

تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!