امّی — شاکر مکرم

’’کیا؟ ارقم تم نے بھی۔‘‘ ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
’’اوہو! بات تو پوری سن لیا کریں ، گھر سے دور مارکیٹ چھوڑا تھا، آپ بھی نا بہت جلد emotional ہو جاتی ہیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ایک چپت اس کے سر پہ رسید ہوئی اور وہ کھلکھلا کے ہنسنے لگیں۔
’’بڑی چیز ہو تم مجھے تو ڈرا ہی دیا تھا۔‘‘
’’آہستہ مارا کریں، سر پھڑوانے نہیں آتا ادھر‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا
پھر دیر تک وہ باتیں کرتے رہے۔
یوں ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ ارقم اکثر وہاں آنے لگا، کبھی گفٹ لاتا، کبھی کھانے کی کوئی چیز لاتا، کبھی ان کو ساتھ لے لیتا اور گھما پھرا کے واپس ڈراپ کر دیتا، دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں لیکن اس نے کبھی ان کے ماضی، ان کے خاندان کے بارے میں نہیں پوچھا کیوں کہ وہ ماضی کی کھرچ، کرید میں لگ کر انہیں مزید زخمی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’صاحب جی آپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘
’’ہاں بولو خالہ کیا کہنا ہے پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں صاحب جی!‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’صاحب جی آپ زیادہ آیا کریں۔‘‘
وہ ویٹنگ روم میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا جب وہاں کام کرنے والی خالہ اس کے پاس آئی۔
آپ کے آنے سے بی بی صاحبہ کی طبیعت بہت اچھی رہتی ہے ،بہت خوش رہتی ہیں وہ ،ہر کسی سے آپ ہی کی باتیں کرتی ہیں اور انتظار بھی بہت کرتی ہیں آپ کا پچھلی دفعہ اپ جو سوٹ لے کر آئے تھے بڑی مشکل سے منتیں کر کر کے ہفتے بعد اتروایا ورنہ وہ تو کہہ رہی تھی کہ رہنے دو مجھے ارقم کے قرب کا احساس ہوتا ہے صاحب جی آپ نے تو جادو کر دیا ہے ہے ان پہ، قسم سے اور ایک ان کا بیٹا ہے پورا سال ہو گیا ہے نہیں آیا۔ ’’کیا؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’جی صاحب جی! وہ تو پورے سال کا خرچہ اکھٹا جمع کرا کے پھر نہیں آئے، وہ تواللہ میاں نے آپ کو فرشتہ بنا کے بھیجا ہے ان کے پاس۔‘‘ اس نے اپنی بات مکمل کی۔
وہ عجیب کشمکش میں پھنس گیا تھا ، پورا سال ارسلان ملنے نہیں آیا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ اس کی طبیعت بجھ گئی اور پھر ادھر بیٹھے بیٹھے ہی اس نے فیصلہ کیا۔
’’امی weekend پہ تیار رہئے گا باہر چلیں گے۔‘‘
’’کدھر؟‘‘
’’ویسے ہی، گھومنے پھرنے میں سات بجے تک اپ کو پک کر لوں گا۔‘‘
ٹھیک ہے وہ بولیں۔
٭…٭…٭





’’واہ! آج تو اپ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘ ان کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ بولا
’’شکریہ‘‘ وہ بیٹھتے ہوئے پیار سے بولیں۔
یہ شکریہ اپنے پاس رکھیں اور مجھے آئس کریم کھلائیں۔
’’مطلب؟‘‘ وہ حیرانی سے بولیں۔
’’مطلب یہ کہ بل آج آپ پے (Pay) کریں گی۔‘‘ وہ بھی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ میں کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’زبردستی ہے‘‘ وہ اس نوک جھونک سے اب وہ محظوظ ہونے لگی۔
’’نہیں! مان ہے‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ اس کے علاوہ وہ کچھ بول نہیں سکی۔
’’میڈم کام نکلوانا ہمیں آتا ہے‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا اور پھر دونوں ہنسنے لگے۔
’’امی اپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘ آئس کریم کھا کے ابھی وہ فارغ ہوئے تھے۔
’’ہاں کہو بیٹا۔‘‘
امی! وہ میں۔۔۔۔ میں اپ کو گھر لے جانا چاہتا ہوں ، آپ میرے پاس رہیں گی۔‘‘
ان کا ہاتھ رک گیا، چمچ گر گیا اور آنکھیں آئس کریم کپ پہ جم گئیں۔
’’امی میں نہیں چاہتا کہ آپ مزید وہاں رہیں ، میں آپ کی۔۔۔‘‘
’’ترس کھا رہے ہو‘‘ انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ حیران رہ گیا۔
’’نہیں امی! اپنے گھر کو جنت بنا رہا ہوں۔‘‘ حیرانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
’’بیٹا شکریہ، لیکن میں اپنی وجہ سے تمہاری زندگی بے سکون نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ انہوں نے اپنی نظریں اس پر سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’اس میں بے سکونی کی کیا بات ہے؟‘‘
’’بس! میں نہیں جاؤں گی۔‘‘ ان کے لہجے میں قطعیت تھی۔
’’امی میری طرف دیکھ کے بات کریں‘‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔ انہوں نے آنکھیں اٹھائیں تو آنسو پلکوں کی باڑ توڑ گئے۔
’’کیا میں اپ کا بیٹا نہیں؟‘‘ اس نے بڑے پیار سے ان کا ہاتھ تھاما۔
’’اگر بیٹا نا سمجھتی تو اس وقت کیوں تمہارے ساتھ آتی؟‘‘
’’تو پھر میرے گھر رہنے میں کیا اعتراض ہے۔‘‘
’’نہیں بیٹا تمہاری اپنی فیملی ہے اور۔۔‘‘
’’اور آپ اس فیملی کا حصہ ہیں‘‘ اس نے ان کی بات کاٹ دی۔
’’میں فیصلہ کر چکا ہوں امی، آئیں چلیں‘‘ پورا راستہ گاڑی میں خاموشی رہی۔
’’یہ کہاں لے آئے ہو۔‘‘ انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’گھر۔۔۔!‘‘
’’لیکن؟۔۔۔‘‘
’’امی آج آپ یہاں رات گزاریں، میری فیملی سے ملیں ان کو سمجھیں اور آرام سے خوب سوچ کے فیصلہ کریں۔ میں آپ پر زور نہیں ڈالوں گا۔‘‘ اس نے بڑے پیار اور خلوص سے کہا۔
’’لیکن وہ…‘‘
’’نعیم صاحب کو بتا دیا ہے کہ آج آپ ادھر ہیں۔‘‘ اس نے گویا ان کی بات سمجھ لی تھی، اس لئے ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے جواب دے دیا۔
’’آئیں امی اندر آ جائیں۔‘‘ اس نے دروازہ کھولے ہوئے کہا۔
’’نبیلہ۔۔۔۔۔! اس نے آواز دی اور وہ کچن سے نکل کر ان کی طرف آئی۔
’’السلام علیکم امی، کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں بیٹا آپ کیسی ہو؟‘‘ انہوں نے نبیلہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’جی ٹھیک‘‘ ان کو بٹھا کر وہ کچن میں واپس چلی گئی۔




Loading

Read Previous

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Read Next

تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!