امّی — شاکر مکرم

’’کوئی خاص لمحہ؟‘‘ اس نے انہیں نرم پڑتے ہوئے دیکھا تو اگلا سوال کیا۔
’’ہاں! جب پہلی بار اس نے ماں کہا تھا اور ۔۔۔۔ اور جب آخری بار ماں کہا تھا۔‘‘ انہوں نے اٹک اٹک کر کہا اور دیکھنے لگی ہتھیلیوں کو۔
’’دونوں دفعہ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔‘‘
اس نے دیکھا کہ آج بھی ان لمحوں کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔
’’آخری بار وہ کب۔۔۔‘‘
’’میرا خیال ہے اتنا کافی ہو گا‘‘ سوال کاٹتے ہوئے وہ کہنے لگیں۔
’’کوئی ایک نصیحت؟‘‘
والدین سے اتنا کہوں گی کہ بچوں سے زیادہ امیدیں اور توقعات وابستہ نہ کریں، کیوں کہ جب امیدیں اور توقعات ٹوٹتی ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ پھر انسان کے پاس کچھ نہیں رہتا جسم کے زخم بھر بھی جائیں ،دل اور احساس کے زخم نہیں بھرا کرتے۔ اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’اور بچوں کے لئے؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘ اس نے حیرانی سے آنکھیں اُٹھا کر انہیں دیکھا۔
’’جو خاموشی نہ سمجھ پائیں، آنکھوں اور چہرے کو نہ پڑھ سکیں ان کے سامنے الفاظ کو شرمندہ نہیں کیا جاتا۔‘‘ وہ آہستہ سے بولیں۔
’’آپ کا بہت شکریہ‘‘ وہ پین بند کرکے اٹھتے ہوئے بولا:
آپ کے ساتھ بیٹھنا ، اپ کو سننا بہت اچھا لگا، کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے کہہ سکتی ہیں۔‘‘ اس نے اپنائیت سے انہیں کہا۔
’’بیٹا خوش رہو ،مجھے بھی تم سے ملنا بہت اچھا لگا۔‘‘
سالوں بعد پہلی بار اتنی باتیں کی ہیں میں نے‘‘ انہوں نے آنکھوں کے بھیگے گوشے پونچھتے ہوئے کہا۔
’’دل کہہ رہا ہے کہ کبھی کبھار ملنے آ جایا کروں آپ سے، کیا آ جایا کروں؟‘‘ اس کے لہجے میں واقعی اپنائیت تھی۔
’’ہاں! کیوں نہیں ، بس اپنے کام کا حرج نہ کرنا‘‘ ان کے لہجے میں بھی اچانک ممتا امڈ آئی۔
’’جی ٹھیک ہے‘‘ پھر وہ بے اختیار جھکا، ان کے ہاتھ چھومے اورخدا حافظ کہہ کے وہاں سے چل پڑا۔
وہ اس کے فعل پہ حیران ہوئی اور دور تک اسے جاتا دیکھتی رہیں۔ کچھ تھا اس میں جو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ پھر وہ تیز قدموں سے کمرے کی طرف لپکیں اور کمرے میں پہنچتے ہی بیڈ پر لیٹ کر زور زور سے رونے لگی۔
لوگ ،واقعات ،ماضی ،باتیں ،طنز ،طعنے سب آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگا، ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، کسی دوسرے کے سامنے ضبط کرناآسان ہوتا ہو گا لیکن تنہائیاں ،یادیں ماضی بے بس کر دیتی ہیں۔
بہت دیر وہ بستر پہ لیٹی خالی خالی نظروں سے چھت کو گھورتی رہی، پھر اٹھ کے مصلیٰ اٹھایا اور کسی کی کامیابی ،چین ،آرام اور سکون مانگنے کے لئے رب کے حضور کھڑی ہوگئیں لیکن آج ان کی دعاؤں میں ایک اور نام کا اضافہ ہو گیا تھا جو پہلی ملاقات میں ہی ان کے دل اور دعاؤں میں بس گیا تھا۔
٭…٭…٭





بیڈ پہ تکیہ لگائے بیٹھا ارقم ہاتھ میں کاغذ تھامے اسے دیکھے جا رہا تھا۔ گھر لوٹنے کے بعد کوئی آٹھویں دفعہ وہ اس انٹرویو کو پڑھ رہا تھا اور دل کے درد کی ترجمانی چہرے کے تاثرات کر رہے تھے۔
’’کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ کھانا بھی آپ نے صحیح سے نہیں کھایا۔‘‘ نبیلہ ابھی اس کے پاس آ کر بیڈ پہ بیٹھی تھی۔
’’کچھ نہیں! بس آج ایک انٹرویو لیا ہے اسی کو دیکھ رہا ہوں، ایک ماں کے الفاظ میں چھپے درد کو ڈھونڈھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے کاغذ پر نظریں جما کر ہی کہا۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’کیسے ہو بیٹا؟ کافی دنوں بعد آئے ہو‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔
’’بس وہ خاص نمبر کی اشاعت کی مصروفیات تھیں اس لئے، آپ سنائیں آپ کیسی ہیں۔‘‘ اس نے ان کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں ٹھیک ہوں بیٹا۔‘‘ پیار اور شفقت ان کے لہجے سے عیاں تھی۔
یہ کچھ گفٹس لایا تھا میں آپ کے لئے اس نے گفٹس کے پیکٹ اُن کے قریب کرتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا ان کی کیا ضرورت تھی؟ سب کچھ مل جاتا ہے یہاں۔‘‘ انہوں نے حیرانی سے اسے دیکھتے
دینے والے کی محبت بھی؟
اس نے اپنائیت سے کہا تو وہ خاموش ہو گئیں۔
’’کیا میں اپ کو امی کہہ سکتا ہوں؟‘‘ اس کے اچانک سوال پر کچھ دیر کے لیے وہ لاجواب ہوگئیں۔
’’جیسے تمہاری مرضی‘‘
پھر ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ارقم ہر تیسرے چوتھے دن چکر لگاتا۔ انہیں بھی اب ارقم کی عادت ہو گئی تھی۔ اس کا لیٹ ہو جانا یا نہ آنا انہیں پریشان کر دیتا اور اس کا آنا سکون اور راحت کا ذریعہ بنتا۔
’’امی یہ کھیر میں نے خود بنائی ہے آپ کے لئے۔‘‘ ایک دن کھیر کا ڈبہ انہیں پکڑاتے ہوئے وہ بولا۔
’’او ہو‘‘
’’کیا ہوا؟ وہ پریشان ہوا۔
’’تم نے بنائی ہے تو پتا نہیں کھانے لائق ہوگی بھی یا نہیں۔‘‘ ہنسی چھپاتے ہوئے وہ انتہائی سنجیدگی سے بولیں۔
’’امی!!!‘‘ وہ احتجاجاً بولا۔
’’اچھا سوری! ناراض نہ ہو مذاق کر رہی تھی بابا۔‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تو وہ بھی ہنس پڑا۔
ہر ملاقات ان کو قریب سے قریب تر کرتی جا رہی تھی۔ ماں اور بیٹے کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا تھا۔
’’تم نے اپنی والدہ کے بارے میں بتایا ہی نہیں اب تک؟‘‘ ایک دن انہوں نے اس سے کہا۔
’’آپ نے پوچھا کب ہے؟‘‘ وہ ان کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔
’’اچھا تو اب بتا دو‘‘
’’میری ماں!‘‘ اس نے ایک آہ بھری ایک لمحے کے لئے رکا پھر بولا:
’’میری بھی ایک ماں تھی جسے میں گھر سے دور چھوڑ آیا تھا۔‘‘ اس نے سر جھکا لیا۔




Loading

Read Previous

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Read Next

تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!