امّی — شاکر مکرم

’’تم تو کہتے تھے کہ تمہاری بیوی چاند جیسی ہے لیکن گرہن لگا ہوا، یہ تو اتنی خوبصورت ہے۔‘‘ انہوں نے نبیلہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’اب اس کو نہ بتا دیجئے گا ورنہ آپ کی رات ادھر اور میری باہر۔‘‘ اور دونوں کے قہقہے نے ماحول کو اور بھی خوش گوار بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ پاپا کی مما ہیں؟‘‘ ولید ان کی گود میں بیٹھ کر ان سے پوچھنے لگا۔
’’نہیں! وہ بولیں تو ارقم کی سانسیں رکنے لگی۔
’’میں پاپا کی امی ہوں۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے گھٹنوں پہ پڑے ارقم کے ہاتھ پہ گرفت مضبوط ہونے لگی۔ ایسا لمس جس میں اپنائیت تھی تحفظ کا احساس تھا۔
اور وہ فیصلہ جو بہت مشکل لگ رہا تھا چند لمحوں نے آسان کر دیا۔
ارقم کے گھر آئے ہوئے انھیں دو ہفتے ہونے کو تھے۔ زندگی کی رعنائیاں لوٹ آئی تھی ہنسی مسکراہٹیں، خوشیاں، چاہتیں، محبتیں سب کچھ اس کے ارد گرد موجود تھا۔ زندگی اتنی خوبصورت ہوا کرتی ہے یہ تو وہ بھول ہی چکی تھیں۔ پہلے اگر ان کے پاس صبر تھا تو اب شکر بھی اسے آ ملا تھا۔
’’اچھا تو میں بتا رہی تھی کہ جب وہ پانچ سال کا تھا تو اس کا سر پھٹ گیا۔‘‘ وہ اپنی دھن میں اپنے بیٹے کی باتیں کر رہی تھیں۔
انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ ارقم کب آ کے ان کے سر میں تیل لگانے لگا ہے۔ بے اختیار اس کا دل بھر آیا۔ وہ جھکا اور آہستہ سے ان کے بالوں پہ بوسہ دیا، وہ حیران ہو کے پیچھے کو مڑیں تو اس نے آنکھوں میں اترتے آنسو چھپانے کے لئے منہ موڑ لیا۔
’’بیٹا تم کب آئے؟‘‘
’’بس ابھی آیا ہوں۔‘‘ اس نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے کہا اور پھر سے اُن کی مالش میں لگ گیا؟
’’ماں جی کو اطلاع دے دیں کہ میں ملنے آیا ہوں۔‘‘ اس نے ریسپشن پر آکر کہا۔
’’وہ تو یہاں سے چلی گئی ہیں ‘‘





’’کیا ؟؟ What do you mean?‘‘ اسے جیسے اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا ہو۔
’’جی وہ اب یہاں نہیں ہیں، کوئی ارقم عباس صاحب ان سے بہت ملنے آتے تھے پھر کارروائی پوری کر کے وہ انہیں لے گئے آپ کی والدہ بہت خوش تھیں۔‘‘ ریسپشن پر بیٹھا ہوا شخص خوش دلی سے بتا رہا تھا۔
’’بکواس بند کرو۔‘‘ وہ یک دم اس پہ جھپٹ پڑا۔
’’تم لوگوں نے میری اجازت کے بغیر کیسے جانے دیا۔‘‘
’’جی وہ اپنی مرضی سے گئی ہیں۔۔۔۔‘‘
لیکن اس نے کب سننا تھا، مار مار کے اس کو لہولہان کر دیا۔
’’اماں اپ کیا کر رہی ہیں کچن میں؟ اس نے ان کے قریب آکر پوچھا۔
’’نمازپڑھ رہی ہوں۔‘‘ اس جواب پر وہ کھلکھلا کہ ہنس پڑا۔
’’ماں پہ ہنستے ہو۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’اچھا کیا بنا رہی ہیں؟‘‘ اس نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔
بریانی… تمہیں پسند ہے نا؟ ارسلان کو بھی بہت پسند تھی اور وہ بھی میرے ہاتھ کی بنی ہوئی، انگلیاں نا کھا جانا آج وہ ہنستے ہوئے بولیں۔
’’لیکن میں تو چمچ سے کھاتا ہوں‘‘ وہ شرارت سے بولا اور پھر دونوں کے قہقہے کی گونج پودے کچن میں گونج اٹھی۔
’’امی!‘‘ اس نے کچھ سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’بولو بیٹا‘‘ وہ بڑے پیار سے بولیں۔
’’وہ آج ارسلان آفس آیا تھا۔‘‘ ہاتھ اس کا چمچ ہلاتا ہاتھ رک گیا۔
’’پھر؟‘‘ وہ آگے کچھ نہیں کہہ سکی۔
’’ملنا چاہ رہا تھا آپ سے۔‘‘ وہ ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہے جارہا تھا۔
’’تو کیا کہا تم نے؟‘‘ انہوں نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں بیٹے کو ماں سے ملنے سے تو نہیں روک سکتا تھا، تو اس کو ساتھ لے آیا، ڈرائنگ روم میں آپ کا انتظار کر رہا ہے آپ ادھر چلی جائیں۔ وہ کہے جارہا تھا اور وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے جارہی تھیں۔
لیکن ادھر جانے سے پہلے وہ ماضی کے اندھیروں میں چلی گئیں، ذہن کے دریچے پہ بہت سی یادیں، بہت سے باتیں ابھرنے لگیں۔ ماضی، ماضی اور صرف ماضی ان کے سامنے تھا، بے چینی اور بے قراری بڑھ گئی، دل کی جلن میں اضافہ ہوا، پلکیں بھیگنے لگیں۔ اور اس ٹرانس سے وہ تب نکلی جب ارقم کی انگلیاں اس کے آنسو پونچھنے لگیں، وہ ان کا ہاتھ تھام کے بڑے پیار سے ساتھ لے جانے لگا اور ان کا ذہن صرف ایک گتھی سلجھانے میں لگا ہوا تھا کہ ایسا کیا ہوا مجھ سے کہ اپنا بیٹا کسی اور کے گھر میں مل رہا تھا؟ کہاں کمی رہ گئی؟ کس جرم کی سزا ملی؟
’’مما کیسی ہیں آپ؟ وہ کانپتے وجود کے ساتھ جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی ارسلان ان کی طرف بڑھا گلے سے لگایا اور پھر اپنے ساتھ بٹھا کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر باتیں کرنا شروع ہو گیا۔
ارقم بڑے غور سے اس کارروائی کو دیکھ رہا تھا۔ ارسلان کا رویہ اس کو بہت سطحی لگا، وجود قریب تھے لیکن دل دور دورمحسوس ہوئے۔ لوگوں سے ملتے ملتے اب چہروں کے تاثرات جاننا اس کے لئے کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ ارسلان کے چہرے اور آنکھوں کی سرد مہری اور اس کے لب و لہجے کی مٹھاس اس کے دل کے بوجھ کو بڑھا رہی تھی۔ وہ وہاں سے اٹھ آیا، آج بڑے عرصے بعد اسے اپنی ماں کی بہت یاد آئی پتا نہیں کیوں ہم والدین کی قدر نہیں کر پاتے انہوں نے کون سا ہمیشہ رہنا ہوتا ہے آج اگر ہیں تو کل کس نے ہونا ہے؟ ہم تو اگر سب کچھ ان پہ قربان کر دیں پھر بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ وہ جاگتی راتیں اور سلگتے تڑپتے دن نجانے ہم کیسے بھول جاتے ہیں جن کی عمر ہماری راحت رسائی میں گزر جاتی ہے ،جو ہماری راحت کے لئے اپنی راحت کو قربان کر دیتے ہیں وہ کیوں ہمارے لئے بوجھ بن جاتے ہیں؟ واقعی نعمت کی قدر اس کے جانے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ چائے دینے گیا تو ارسلان اسے چیک دیتے ہوئے بولا:
’’میں نے تو ماں جی سے واپس جانے کی لئے کہا ہے لیکن وہ یہی رہنا چاہ رہی ہیں، یہ چیک آپ رکھ لیں کام آئے گا۔‘‘
ارقم نے ایک نگاہ کاغذ پر ڈالی، دوسری اس پر اور تیسری بے حس و حرکت بیٹھی امی پر۔
’’کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میں اپنے تعلق کی توہین نہیں کرنا چاہتا، آپ یہ رکھ لیں اور ان کی طرف سے بے فکر ہو جائیں۔‘‘ دھیمے لہجے میں
اس نے جواب دیا
’’چائے لے لیں ٹھنڈی ہو رہی ہے ‘‘
ارسلان آیا اور آ کے چلا گیا، لیکن اپنے ساتھ مسکراہٹیں بھی لے کے چلا گیا، گھر کے ماحول میں ایک تناؤ در آیا تھا جہاں چہرے بے تاثر اور ہونٹ خاموش ہو گئے تھے۔




Loading

Read Previous

اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

Read Next

تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!