’’آپ سے کوئی ملنے آیا ہے‘‘ آنے والے نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’کہاں؟ ویٹنگ روم میں ہے ؟‘‘ اس نے سر اُٹھا کر پوچھا۔
’’ہاں!‘‘
’’اچھا میں آتی ہوں۔‘‘ تو آج اسے میری یاد آ ہی گئی۔ مصلیٰ لپیٹتے ہوئے وہ کھڑی ہوئی، چہرے پہ ہلکی ہلکی مسکراہٹ ابھری اور آنکھوں میں امید و محبت کے دیے جلنے لگے۔
وہ سوچ رہی تھی، کہ کتنے عرصے بعد وہ آیا تھا لیکن پھر دل نے کہا اب ایسی باتوں کا کیا فائدہ؟ دیر سے آیا ہے لیکن آیا تو سہی، اب کیا گلے شکوے کرنے اور کیا دل برا کرنا، لیکن چوکھٹ پار کرتے ہی اس کی ساری مسکراہٹ غائب ہوگئی آس، امید جواب تک اسے جوڑے ہوئے تھی، ٹوٹ گئی۔
’’السلام علیکم‘‘ اس کے کانوں میں آواز آئی لیکن یہ آواز وہ نہیں تھی، جس کی وہ منتظر تھی، اور نہ ہی یہ چہرہ وہ شناسا چہرہ تھا جسے دیکھنے وہ ویٹنگ روم کی طرف چلی تھی۔ آنکھوں میں جلتے محبتوں کے دیے بجھ گئے۔
’’اپ کیسی ہیں‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا، پھر پوچھا:
’’آپ کون؟‘‘ وہ اب سنبھل گئی تھی۔
’’میرا نام ارقم عباس ہے، ماؤں کے عالمی دن کے لئے آپ کا انٹرویو کرنا تھا انتظامیہ نے آپ کو بتایا ہو گا۔‘‘ اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا۔
’’جی ہاں! نعیم صاحب نے بتایا تھاانہوں نے کچھ بے پروائی سے کہا۔
’’جی میں اسی سلسلے میں آیا تھا دراصل اس دفعہ ہمارا ماہنامہ ماؤں کے عالمی دن پہ ماں کے عنوان سے خاص نمبر۔‘‘
’’نام بہت پیارا ہے تمہارا۔‘‘
انہوں نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ لی۔
’’جی!‘‘ پہلے تو وہ حیران ہوا پھر بے ساختہ بولا:
’’میں خود بھی پیارا ہوں۔‘‘
’’اور باتیں بھی اچھی کر لیتے ہو‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولیں۔
’’شکریہ‘‘ اس نے اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا۔
’’کیا پوچھنا ہے؟‘‘ وہ بولی۔
’’آپ یہاں کب سے؟‘‘
’’دوسال، آٹھ ماہ اور بائیس دنوں سے‘‘ انہوں نے بے تاثر لہجے میں کہا
’’آنے کادن کون سا تھا ؟‘‘ اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’منگل۔‘‘
’’ٹائم؟‘‘
’’نوبج کر انتالیس منٹ‘‘
’’چھوڑنے کون کون آیا تھا؟‘‘
’’بیٹا، بہو اور پوتا‘‘
’’دن کیسے گزرتا ہے یہاں؟‘‘
’’کچھ یادوں میں، کچھ مصلے پہ ،کچھ واک میں۔‘‘
وہ اتنے مختصر جوابات سے گھبرا گیا تھا۔ اگر یہ مائی اتنے ہی مختصر جواب دیتی رہی تو انٹرویو تو دو منٹ میں ہی ختم ہو جائے گا، وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا۔
’’گھر والوں کی یاد آتی ہے؟‘‘
اس سوال پر پہلے تو اس نے لڑکے کو گھور کے دیکھا پھرہنستے ہوئے کہنے لگی:
’’ہاں! چوں کہ بہت سا وقت ساتھ گزرا ہے اس لئے کبھی کبھی یاد آجاتی ہے۔‘‘
’’کیا چیز آپ زیادہ مس کرتی ہیں ؟‘‘
’’آلو پراٹھے‘‘ اس نے یک دم کہا۔
’’کیا؟‘‘ وہ حیرت سے بول پڑا۔
’’ہاں! بہو رانی بہت اچھے پراٹھے بناتی تھی، کبھی کبھار کھانے کو بہت دل چاہتا ہے لیکن اب یہاں ہر چیز تو نہیں مل سکتی نا۔‘‘ اس کے لہجے سے افسردگی صاف ظاہر تھی۔
’’عجیب عورت ہے پتا نہیں نعیم صاحب نے کس کے پاس بھیج دیا ہے لگتا ہے کسی اور کا انٹرویو بھی کرنا پڑے گا‘‘ اس نے سوچا۔
’’آنے سے پہلے بیٹے نے کیسے بتایا کہ وہ اپ کو یہاں شفٹ کرے گا؟‘‘ اس نے چاروناچار اس سے پوچھا۔
’’یہاں چھوڑنے کا تو میں نے کہا تھا اسے، ورنہ وہ کہاں لانے والا تھا۔‘‘ انہوں نے صاف جھوٹ بولا۔
اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھری‘‘ ’’روایتی ماں‘‘، زیرِ لب بولا پھر ان کے قریب ہو کے سرگوشی کی:
’’یہ مائیں جھوٹ کیوں بولتی ہیں؟‘‘
انہوں نے بھی اسی انداز میں ابرو اٹھائے مسکراتے ہوئے سرگوشی کی:
’’تم انٹرویو کرنے آئے ہو یا مجھے رلانے ؟ سوری بیٹا میں ایموشنلی بلیک میل نہیں ہوا کرتی۔‘‘ انہوں نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔
ایک خفیف سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ بکھری۔ اب اسے سامنے بیٹھی ہوئی عورت کی شخصیت میں دل چسپی پیدا ہونے لگی۔
سوال پر سوال ہوتے رہے۔ کسی old people’s home میں ملنے والی یہ پہلی ایسی خاتون تھیں جس کا ہر جواب ارقم عباس کے تجسس میں اضافہ کرتا جا رہا تھا۔
’’آپ کا بیٹا اکلوتا تھا تو کوئی ایسا واقعہ یا لمحہ جو آپ کو یاد رہ گیا ہو، بھلائے نہ بھولتا ہو؟‘‘
’’کوئی ایسا لمحہ نہیں‘‘ لہجہ پھر سے بے تاثر ہوچکا تھا۔
’’جی۔‘‘ حیرت اس کے لہجے سے جھلک رہی تھی۔
او ہو! بات تو پوری سن لیا کرو۔ ’’انہوں نے اسے ٹوکا تو اس نے شرم سے سر جھکاتے ہوئے کہا: ’’جی بولئے۔‘‘
’’کوئی ایسا لمحہ نہیں جو میں بھولی ہوں، سب کچھ یاد ہے مجھے حرف حرف، لفظ لفظ اور یہاں آنے کے بعد تو میرے پاس بہت وقت تھا ماضی کریدنے کے لئے تو میں نے پچھلے سال انہی یادوں کی نذر کئے ہیں، ایک ایک بات یاد کرکے میں نے اسے سینے سے لگایا ہے کیوں کہ جب اپنے پاس نہ ہو تو کم از کم ان کی یادیں تو پاس ہونی چاہئیں۔‘‘ ان کے لہجے میں اب درد اتر آیا تھا۔