”عمر جہانگیرکی بیوی بھی ایک بہت خوش قسمت لڑکی ہو گی۔” اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”نہیں عمر جہانگیر کی کوئی بیوی کبھی بھی نہیں ہوگی کیونکہ مجھے شادی میں سرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” عمر نے لاپروائی سے کہا۔
”کیوں؟”
”بس ویسے ہی… مجھے یہ آزادی اچھی لگتی ہے۔ بیوی سے خاصے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور میرے پاس مسائل کی پہلے بھی کمی نہیں ہے۔”
”یہ تو بڑی فضول بات ہے۔” علیزہ کو اس کی رائے پر اعتراض ہوا۔
”نہیں فضول بات نہیں ہے، حقیقت ہے… میں کسی کی بھی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے سکتا اور بیوی ایک بڑی ذمہ داری ہے… بہرحال اس موضوع پر دوبارہ کبھی بات کریں گے… فی الحال تو میں
تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں واپس امریکہ جا رہا ہوں۔”
اس نے بات کا موضوع بدل دیا۔ علیزہ کو ایک دھچکا لگا۔
”کیوں؟”
”انٹرویو دے چکا ہوں میں اب رزلٹ کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے مجھے، اور رزلٹ میں چند ماہ لگ جائیں گے۔ پھر ٹریننگ شروع ہوتے ہوتے سات آٹھ ماہ تو لگ ہی جائیں گے اور اتنا لمبا عرصہ میں یہاں تو نہیں رہ سکتا۔ واپس جا کر سکون سے کچھ وقت گزاروں گا۔ وہاں میرے فرینڈز ہیں۔ ہو سکتا ہے چند ماہ کے لئے اسپین چلا جاؤں یا پھر انگلینڈ لیکن کچھ چینج چاہتا ہوں۔ پاکستان میں اتنے ماہ ایک ہی طرح کی روٹین سے تنگ آگیا ہوں۔” اس نے تفصیل سے اپنا پروگرام بتاتے ہوئے کہا۔
”آپ مت جائیں۔”
”کیوں بھئی، کیوں نہ جاؤں۔ تمہیں یاد ہے جب میں یہاں آتا تھا، تو شروع میں تم مجھے رکھنا نہیں چاہتی تھیں۔”
عمر نے اسے یاد دلایا۔ وہ کچھ خجل سی ہو گئی۔
”تب اور بات تھی۔”
”اب کیا ہے۔”
”اب مجھے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ مجھے اچھا لگے گا آپ کا یہاں رہنا۔”
”مجھے واپس آنا ہی ہے بس کچھ ماہ کی بات ہے پھر یہیں لاہور میں ٹریننگ ہو گی اور میں لاہور میں ہی ہوں گا۔” عمر نے اسے تسلی دی۔
”میں آپ کو بہت مس کروں گی۔”
”میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے یہ کہ علیزہ سکندر مجھے مس کرے گی۔”
”میں سیریس ہوں۔”
”اگر تم سائیکالوجسٹ سے دوبارہ اپنا علاج شروع کرواؤ تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں جلدی واپس آجاؤں گا۔”
”میں علاج کرواؤں گی۔”علیزہ نے بلا توقف کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں بہت جلد یہاں واپس آجاؤں گا۔” عمر نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے کچھ بے جان انداز میں اس سے ہاتھ ملا یا۔
”تو کل ہم دوبارہ پہلے والی علیزہ سے ملیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟” عمر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرا دی۔ ”کرسٹی کو تمہارے کمرے میں چھوڑ دوں؟” عمر نے جاتے جاتے پوچھا۔
”نہیں، میں خود اسے لے آتی ہوں۔” علیزہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
***