”زیادہ؟… بہت زیادہ… پچھلے اٹھارہ سال سے میں بالکل اکیلی ہوں کیا میری کسی کو ضرورت ہے… میرے پیرنٹس کو، نہیں۔ وہ اپنی زندگی جی رہے ہیں۔… نانو اور نانا کو، نہیں ان کے لئے اور بہت سے لوگ ہیں… شہلا کے پاس بھی اور بہت سے فرینڈز ہیں… ہر شخص کے پاس میرا نعم البدل ہے… پھر میری کیا ضرورت ہے۔” وہ پھر اسی ذہنی انتشار کا شکار نظر آئی۔
”تمہاری زندگی میں یہ Meaninglessnessاس لئے ہے کیونکہ تم اپنی زندگی کو سوچے سمجھے بغیر گزارنے کی کوشش کر رہی ہو… زندگی کو پازیٹو طریقے سے دیکھو گی تو دنیا کے اسٹیج پر تمہیں اپنی جگہ نظر آجائے گی۔ مگر نیگیٹو طریقے سے دیکھو گی تو تم خود کو کہیں بھی دیکھ نہیں سکو گی۔” عمر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
علیزہ پلکیں جھپکے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔
”تمہیں ایک بہت لمبی اور اچھی زندگی گزارنی ہے… پر سکون اور با مقصد زندگی۔” عمر بولتا رہا۔ ”کس کس کے لئے روتی رہو گی… اور کب تک… پھر ایک دن تو تمہیں چپ ہونا ہی ہے… مگر تب تم اتنا وقت ضائع کر چکی ہو گی کہ تم کہیں بھی کھڑی نہیں ہو پاؤ گی۔ ذہنی طور پر تم ایک اندھی گلی کے آخری سرے پر ہو گی۔ تب واپسی کا راستہ تم بھول چکی ہو گی، اور تمہارے آگے کوئی رستہ نہیں ہو گا۔ پھر تم کیا کرو گی…؟”
علیزہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ عمر اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔
”آپ ایک انتہائی عجیب انسان ہیں۔” وہ علیزہ سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ” آپ مجھے وہ چیزیں سکھانا چاہتے ہیں جو خود آپ کو نہیں آتیں۔” عمر ساکت رہا۔ ”زندگی کے اسٹیج پر آپ کی جگہ کہاں ہے؟ کیا آپ خود یہ جانتے ہیں؟” عمر کچھ بول نہیں سکا۔
”علیزہ اب جیسے اسے کھوجنے کی کوشش کر رہی تھی۔” آپ کو پتا ہے بعض دفعہ مجھے آپ پر کتنا ترس آتا ہے؟”
عمر کا چہرہ سرخ ہوا۔” کتنی ہمدری محسوس ہوتی ہے آپ کے لئے۔” وہ انتہائی بے رحمی سے اس کی شخصیت کی پرتیں اتار رہی تھی۔ ”آپ اور میں دونوں زندگی میں ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ آپ کو خود کو چھپانا آتا ہے… مجھے نہیں آتا۔” عمر کو وہ یک دم بہت میچیور لگی۔ وہ اس کی بات میں مداخلت کئے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
”کیا آپ نے خود ہر چیز کے ساتھ کمپرومائز کر لیا ہے؟” وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی۔
”کس چیز کے ساتھ؟”
”اپنے پیرنٹس کی علیحدگی کے ساتھ؟” وہ کچھ نہیں بولا۔ علیزہ کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔
”اور آپ چاہتے ہیں میں یہ بھول جاؤں کہ میرے پیرنٹس اپنی الگ دنیا بسا چکے ہیں۔” وہ اب اسے تکلیف پہنچانا چاہتی تھی۔ ”آپ دس سال کے تھے جب آپ کے پیرنٹس میں طلاق ہوئی۔ کیا آپ نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا؟ کیا آپ کو کوئی ڈپریشن نہیں ہوا۔” وہ اب اس کو چیلنج کر رہی تھی۔ ”پھر جہانگیر انکل کو ناپسند کیوں کرتے ہیں آپ؟… اپنی ممی کی شکل دیکھنے پر تیار کیوں نہیں؟… اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کا کبھی نام تک نہیں لیاآپ نے۔۔۔”
”تم مجھ سے کیا جاننا چاہتی ہوں علیزہ؟” عمر کا لہجہ پر سکون تھا۔ علیزہ چڑ گئی۔
”سچ… صرف سچ… وہ سچ جو آج تک آپ نے مجھے نہیں بتایا۔”
”سچ یہ ہے کہ مجھے اپنے ماں باپ سے نفرت ہے۔ … سچ یہ ہے کہ میں آج تک ان دونوں کو معاف نہیں کر سکا۔ سچ یہ ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی کی بھی عزت نہیں کرتا… سچ یہ ہے کہ میرے سوتیلے بہن بھائی میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے… سچ یہ ہے کہ مجھے ان لوگوں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا… سچ یہ ہے کہ سولہ سال پہلے ان دونوں کے درمیان ہونے والی علیحدگی کی یاد ابھی بھی ایک گرم سلاخ کی طرح میرے وجود میں اتر جاتی ہے۔” وہ اب بولتا جا رہا تھا۔
”سچ یہ ہے کہ تمہاری طرح مجھے بھی دنیا میں اپنے ماں باپ سے زیادہ خودغرض کوئی نہیں لگتا۔ سچ یہ ہے کہ تمہاری طرح میں بھی بہت عرصہ یہ سب کچھ بھلانے کے لئے ایک سائیکالوجسٹ کے زیر علاج رہا… سچ یہ ہے کہ تمہاری طرح میں نے ایک بار سلیپنگ پلز کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔ سچ یہ ہے کہ اب بھی تمہاری طرح مجھے بھی اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا… اور سچ یہ بھی ہے کہ اس سب کے باوجود اب میں زندہ رہنا چاہتا ہوں… کیا اتنا سچ کافی ہے یا تم کچھ اور سچ بھی سننا چاہتی ہو؟” اس کا چہرہ یہ سب بتاتے ہوئے اتنا بے تاثر اور لہجہ اتنا مطمئن تھا کہ علیزہ کو یوں لگا جیسے وہ اپنے بارے میں بات کرنے کے بجائے کسی دوسرے کی بات کر رہا ہو… یا پھر کسی ایکٹ کے ڈائیلاگ اسکرپٹ…… دیکھ کر پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
”میں تمہیں صرف تکلیف سے بچانا چاہتا ہوں۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔ ”میں اس رستے سے پہلے گزر چکا ہوں، جانتا ہوں کہاں گڑھا ہے۔ کہاں پتھر… کہاں پیر زخمی ہوسکتے ہیں ۔ کہاں گھٹنوں کے بل گرنے کا خدشہ ہے اور میں چاہتا ہوں تم اس رستہ سے گزرتے ہوئے وہاں ٹھوکر نہ کھاؤ… جہاں میں کھا چکا ہوں۔” وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
”ہم Lost generationہیں علیزہ… ہمارے پیچھے کیا تھا ہم بھلانا چاہتے ہیں ہمارے آگے کیا ہے ہمارے لئے ڈھونڈنا مشکل ہے۔ مگر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو ہمارے لئے ہے۔”
اسے عمر کی آواز میں افسردگی محسوس ہوئی۔
”ہم بڑے گھروں میں رہتے ہیں۔ زندگی میں ان آسائشات سے محظوظ ہوتے ہیں جو اس ملک کی ٩٨ فیصد آبادی کے پاس نہیں ہے… شاندار لباس سے لے کر بہترین اداروں میں ملنے والی تعلیم تک… کوئی بھی چیز ہماری رسائی سے باہر نہیں ہوئی، لیکن جب سوال رشتوں کا آتا ہے تو ہمارے چاروں طرف ایسی تاریکی چھا جاتی ہے جس میں کچھ بھی ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے… لیکن ہمارے لئے اس زندگی سے باہر بھی کچھ نہیں ہے۔ ہمارا مقدر یہی ہے کہ ہم ان ہی رشتوں کے ساتھ رہیں۔ جو ہمیں مصنوعی لگتے ہیں۔” وہ بول رہا تھا۔
”دنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا جسے کھول کر ہم اس سے باہر نکل جائیں۔” اس نے علیزہ کا جملہ دہرایا علیزہ نے سر جھکا لیا۔ ”دنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دنیا سے باہر کے منظر دکھاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ اپنے اندر کے منظر دکھانے لگتی ہیں۔ مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں۔”
وہ جیسے فلسفہ بول رہا تھا۔ علیزہ کو حیرت ہوئی اس نے عمر کو اس طرح کی باتیں پہلے کبھی کرتے نہیں سنا تھا۔
”زندگی ذوالقرنین سے شروع ہوتی ہے نہ اس پر ختم ہوتی ہے… ذوالقرنین تمہارے لئے وہ تجربہ ہے جس پر کبھی تم بہت ہنسو گی… یہ سوچ کر کہ کیا تم اس شخص کے لئے خودکشی کر رہی تھیں۔”
”زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہئے جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اسے بھول جانے کی عادت۔ یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچا دیتی ہے۔” وہ اب لا پروائی سے کہہ رہا تھا۔
”انسان چیزیں نہیں ہوتے آپ نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں… لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ آپ کو کسی نے میری طرح ریجیکٹ نہیں کیا ہو گا… اس طرح کسی نے آپ کے احساسات کا مذاق نہیں اڑایا ہو گا۔ جیسا ذوالقرنین نے میرے ساتھ کیا۔”
عمر اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”یہ غلط فہمی دور کر لو علیزہ… مجھے کس کس طرح اور کتنی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ تم نہیں لگا سکتی کیونکہ اس کا اندازہ خود مجھے بھی نہیں ہے۔ ریجیکشن انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ کبھی ہم کسی کو ریجیکٹ کرتے ہیں پھر کوئی ہمیں ریجیکیٹ کر دیتا ہے۔ اس چیز کے بارے میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے اسے تو بہت نارمل لینا چاہئے۔ تمہیں کسی دن بتاؤں گا کہ مجھے کتنی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا۔” وہ اب بالکل نان سیریس نظر آرہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اب وہ علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے محظوظ ہو رہا ہو۔
”تم اتنی خوبصورت ہو کہ آج سے پانچ سال بعد ذوالقرنین اور میرے جیسے بہت سے تمہارے لئے لائن میں لگے ہوں گے، اور تب تم کہو گی، نہیں اس قسم کے لوگ نہیں چاہئیں مجھے۔ ان سے بہتر چیز ہونی چاہئے۔ جیسے دکان پر جوتا پسند کرتے ہیں نابالکل ویسے۔” وہ کس کا مذاق اڑا رہا تھا،علیزہ اندازہ نہیں کر سکی۔
”اور علیزہ سکندر کا شوہر ایک بڑا خوش قسمت شخص ہو گا۔”
اس نے بچوں کی طرح سر اٹھا کر دیکھا۔ عمر کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔