”یہ کام کسی ایجنسی کے آدمیوں کا ہے اتنی دیدہ دلیری سے صرف وہی شہباز کے دفتر کو آگ لگا سکتے ہیں اور انکل ایاز اس وقت انٹیرئر منسٹری میں ہیں۔ ایسی غنڈہ گردی وہی کروا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہوں نے پاپا کے کہنے پر ہی شہباز کو قتل کروایا ہو مگر شہباز کو ٹریس آؤٹ صرف انکل ایاز ہی کروا سکتے ہیں اور شاید وہ اس وقت یہ کام کروا چکے تھے جب انہوں نے فون پر مجھ سے بات کی تھی۔ پاپا کو اندازہ ہو گا کہ اخبار میں میرے بارے میں یہ سب کچھ آنے پر میرا فوری ردعمل کیا ہوگا… اس لئے وہ پہلے ہی شہباز منیر کو ٹریس آؤٹ کئے بیٹھے تھے، جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں ان کے سمجھانے پر باز نہیں آؤں گا اور جب وہ یہ بھی جان گئے کہ ڈاکو منٹس شہباز تک پہنچ چکے ہیں تو انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر اسے مار دیا… مجھے اگر انکل سے بات کرتے ہوئے ذرہ برابر بھی شک ہو جاتا کہ وہ شہباز کے بارے میں جانتے ہیں تو میں کبھی شہباز کو وہ ڈاکو منٹس نہ دیتا یا کچھ دن انتظار کر لیتا ۔ ” اس کی آواز میں پچھتاوا تھا۔
”تم وقت سے پہلے نتائج اخذ کر لیتے ہو۔ اتنی بدگمانی ٹھیک نہیں ہوتی اور وہ بھی اپنے باپ اور انکل کے بارے میں ۔”
نانو کو اس کی بات پر اب بھی یقین نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا، عمر جذباتی ہو کر سوچ رہا ہے، اس لئے اس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔
”گرینی ! میں اپنے خاندان کو آپ سے بہتر جانتا ہوں۔ آپ صرف ماں بن کر سوچتی ہیں، آپ کو پاپا اور انکل ایاز یا کسی بھی دوسرے انکل کی کوئی خامی نظر نہیں آسکتی۔ نہ آج… نہ ہی آئندہ کبھی۔”
”مگر عمر۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عمر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”انکل کل لاہور آرہے ہیں… یہیں آپ کے سامنے میری ان کے ساتھ ملاقات ہو گی۔ آپ دیکھ لیجئے گا… آپ کا بیٹا کتنا معصوم ہے۔” عمر نے جیسے بات ختم کر دی۔
لاؤنج میں اب مکمل خاموشی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے تینوں کردار جیسے اپنی اپنی سوچ میں گم تھے۔
”تم آج رات یہیں رکو گے؟” نانو نے ایک لمبے وقفے کے بعد اس خاموشی کو توڑا۔
”ہاں !” عمر نے مختصر جواب دیا۔
”علیزہ! عمر کا کمرہ کھلوا دو۔۔۔” ایک بار خود بھی دیکھ لو، کسی چیز کی ضرورت نہ ہو۔ ” نانو نے اس بارعلیزہ کو مخاطب کیا۔ وہ کچھ کہے بغیر کافی کے مگ سمیت وہاں سے اٹھ گئی۔
عمر کا کمرہ کھلواتے اور بیڈ شیٹ چینج کرواتے ہوئے وہ خود بھی بری طرح الجھی ہوئی تھی۔ اس کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ انکل ایاز اس طرح کسی کا قتل کیسے کروا سکتے ہیں، اور وہ بھی اتنی معمولی سی بات پر… کیا چند خبروں کو شائع ہونے سے روکنا ان کے لئے اتنا اہم ہو گیا تھا کہ انہوں نے ایک انسانی زندگی کو ختم کرنا ضروری سمجھا۔ یا پھر یہ سب عمر کی بدگمانی اور غلط فہمی ہے…
”ہو سکتا ہے یہ سب واقعی کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو۔”
اس نے جیسے سوچتے سوچتے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”ہو سکتا ہے نانو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں کہ عمر وقت سے پہلے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے… اس کے تو ہر ایک کے ساتھ اختلاف ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بارے میں بھی اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے… جو شخص ہر ایک کے بارے میں خراب رائے رکھتا ہو اس کی رائے کو آخر کتنی اہمیت دی جا سکتی ہے… اور دینی بھی نہیں چاہئے۔”
وہ اس کے کمرے سے نکلنے والی تھی جب عمر وہاں آگیا۔
”کیا ریفریجریٹر میں پانی کی بوتل ہے؟”اس نے اندر آتے ہی پوچھا۔
”نہیں، میں لا دیتی ہوں۔” وہ کمرے سے نکل گئی۔
کچن میں موجود فریج سے پانی کی بوتل نکال کر وہ جب واپس کمرے میں آئی تو وہ بیڈ پر بیٹھا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ اس نے پہلی بار عمر کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھا تھا۔ مگر اسے حیرانی نہیں ہوئی۔ جو ڈرنک کر سکتا ہے وہ اسموکننگ تو یقیناً کرتا ہوگا۔ اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے اس نے سوچا اور روم ریفریجریٹر کی طرف بڑھ گئی۔ ریفریجریٹر کو آن کرنے کے بعد اس نے پانی کی بوتل اندر رکھی اور کچھ کہے بغیر دروازے کی طرف بڑ گئی۔
”علیزہ!” عمر نے اس کو آواز دی تھی۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ ”کچھ دیر میرے پاس بیٹھ سکتی ہو۔” اسے تھپڑ مارے جانے والے واقعہ کے بعدآج پہلی بار وہ اسے مخاطب کر رہا تھا۔
”علیزہ کا دل چاہا وہ کہے ۔ ”نہیں” مگر وہ کچھ بھی کہے بغیر اس کی طرف آگئی۔ اس سے کچھ فاصلے پر وہ بیٹھ گئی۔
”میں تم سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔” عمر نے بلا توقف کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عمر اب جیسے کچھ لفظ تلاش کر رہا تھا۔
”میں تم سے معذرت کرنا چاہتا تھا۔” اس نے کہا۔ علیزہ کو اس جملے کی توقع نہیں تھی۔ اس نے عمر کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
”مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔” وہ اس وقت سے یہ سب کہہ رہا تھا جب وہ اس معذرت کی توقع کرنا بھی چھوڑ چکی تھی۔
”کیا نہیں کرنا چاہئے تھا؟” مدھم آواز میں کہتے ہوئے اس نے عمر کے چہرے کو ایک بار پھر دیکھنے کی کوشش کی۔
”تم پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔”
”آپ کو ہاتھ اٹھانے پر افسوس ہے؟”
”نہیں… صرف ”تم” پر ہاتھ اٹھانے پر افسوس ہے۔”
وہ جان نہیں پائی، اس کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے تھے۔ کیا اسے خوشی ہوئی تھی کہ وہ اس سے معذرت کر رہاتھا یا پھر اسے یہ ملال ہوا تھا کہ وہ اتنے لمبے عرصے کے بعد اس سے معذرت کر رہا تھا۔ اس نے عمر کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں کم از کم وہ اب اس کے سامنے بچوں کی طرح رونا نہیں چاہتی تھی۔
”میں تم سے بہت پہلے معذرت کرنا چاہتا تھا مگر مجھے تم سے اتنی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ… وہ کہتے کہتے رک گیا۔
”شرمندگی؟” علیزہ نے سوچا۔
”کم از کم تم وہ واحد ہستی ہو جسے میں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔”
علیزہ نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ عمرنے یہ جملہ اس سے کتنی بار کہا تھا۔ ”واحد ہستی؟” وہ اس بار کسی الیوژن کا شکار نہیں ہوئی۔ وہ اب خاموش تھا شایداس سے کچھ سننا چاہتا تھا۔
”مجھے تھپڑ مارنا پسند کرو گی؟” علیزہ نے بے اختیار اسے دیکھا، اس کے چہرے پر سنجیدگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
”اس کا دل چاہا وہ عمر سے کہے۔ ”تم بھی وہ واحد شخص ہو جسے میں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔”
”نہیں۔” اس نے بس اتنا کہا۔
”کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے مجھے معاف کر دیا ہے؟” اس نے پوچھا۔ وہ دھویں کے مرغولوں میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”عمر! آپ سول سروس چھوڑ دیں۔” اس نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔