”ہم نے معدہ واش کر دیا ہے ۔ وہ اب ٹھیک ہے۔ دس پندرہ منٹ بعد اسے کمرے میں شفٹ کر دیں گے۔ تب آپ اس سے مل سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر نے انہیں اطلاع دی۔ نانو اور عمر نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا نانو کے چہرے پر اطمینان ابھر آیا جبکہ عمر پہلے ہی کی طرح سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
علیزہ کو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے عمر نے گاڑی میں نانو کو ذوالقرنین کے بارے میں بتا دیا تھا۔ علیزہ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا کاغذ جو علیزہ کے بیڈ کے پاس جاتے ہی عمر کو نظر آیا تھا۔ اس نے نانو کو دکھا دیا جس میں علیزہ نے اپنی خودکشی کے بارے میں لکھا تھا۔
نانو خط ہاتھ میں لئے پورا راستہ سکتے کے عالم میں بیٹھیں رہیں۔ ان کے فیملی ڈاکٹر نے ہاسپٹل پہنچنے پر فوری طور پر علیزہ کے کیس کو ڈیل کیا تھا۔ فیملی ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے اس نے اس کیس کو پولیس میں بھی رپورٹ نہیں کیا۔
”اس نے کیا کھایا تھا؟” عمر نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
”سلیپنگ پلز تھیں، آپ لوگ اسے بہت جلدی لے آئے ابھی پوری طرح حل نہیں ہو سکی تھیں اور اس پر زیادہ اثر اس لئے بھی نہیں ہوا کہ وہ یہ گولیاں لینے کی عادی لگتی ہے ورنہ جتنی تعداد میں اس نے یہ گولیاں لی ہیں اس کی حالت خاصی خراب ہونی چاہئے تھی۔” ڈاکٹر آہستہ آہستہ بتا رہا تھا۔
”لیکن علیزہ نے اس طرح کیوں کیا ہے، وہ تو بہت سمجھ دار بچی ہے… پھر اس طرح ۔” ڈاکٹر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر جواب طلب نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”کالج میں کچھ فرینڈز سے اس کا جھگڑا ہو گیا اور شاید ڈپریشن میں یا غصے میں اس نے یہ کیا ہے۔” عمر نے ڈاکٹر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”گرینی کیا علیزہ سلیپنگ پلز لیتی ہے؟”
”یہ گولیاں تو نہیں کوئی اور دوا لیتی رہی ہے مگر وہ بھی صرف تب جب سائیکاٹرسٹ کے ساتھ سیشنز ہوتے تھے۔”
”تو پھر اس کے پاس یہ Pills کہاں سے آئیں؟”
”میں تو خود حیران ہوں۔”
”کیا گرینڈ پا لیتے ہیں؟”
”نہیں وہ تو نہیں لیتے ہو سکتا ہے اس نے کہیں سے خرید لی ہوں۔” نانو نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
”کب خریدی ہیں اس نے، یہی تو سمجھ نہیں پا رہا۔ پارک سے تو میں اس کو سیدھا گھر لایا ہوں اور اس کے بعد وہ گھر سے باہر نہیں گئی پھر اس کے پاس یہ Pillsکہاں سے آگئیں۔ آپ کہہ رہی ہیں کہ گرینڈ پا بھی نہیں لیتے… پھر۔”
عمر الجھے ہوئے انداز میں کہتے کہتے یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”کیا ہوا؟” نانو نے کچھ حیران ہو کر اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا۔
”کچھ نہیں؟” وہ یک دم بہت پریشان نظر آنے لگا تھا۔
٭٭٭
وہ اگلے دن ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آگئی تھی۔ ہاسپٹل میں اس سے ملاقات کے دوران کسی نے اس سے کچھ پوچھنے یا اسے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ نانا کو اگر اس سارے واقعہ سے شاک لگا تھا تو نانو بہت خوفزدہ ہو گئی تھیں، شاید وہ دونوں علیزہ سے اس حرکت کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔
نانو کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ علیزہ پچھلے ایک ماہ سے اتنی کامیابی سے انہیں دھوکا دے رہی تھی۔ ”علیزہ، علیزہ اس طرح کی حرکت کیسے کر سکتی ہے۔ وہ تو بہت شائی ہے۔ ریزرو، انٹروورٹ آج تک وہ ایک سے دوسرا دوست نہیں بنا سکی پھر بوائے فرینڈ اور وہ بھی اس طرح چھپ کر،میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا میں نے تو اس پر بہت محنت کی تھی، اس کی اچھی تربیت کی تھی۔”
شام کو اس کے گھر آنے کے بعد نانو، عمر اور نانا کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی ہوئی کہہ رہی تھی، علیزہ اپنے کمرے میں تھی اور عمر کسی قسم کے تاثر کے بغیر نانا اور نانی کی گفتگو سن رہا تھا۔
”مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ عمر نے سب کچھ ہم سے چھپایا اگر یہ ہمیں پہلے بتا دیتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔” نانا نے اچانک عمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر میں آپ کو بتا دیتا تو آپ کیا کرتے۔” عمر نے بڑی سنجیدگی سے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔
”کم از کم یہ سب کچھ نہ ہونے دیتا جو اب ہوا ہے۔”
”میں آپ کو بتا دیتا تو آپ اس کو ڈانٹتے ذوالقرنین سے ملنے پر پابندی لگا دیتے۔ پھر کیا ہوتا ، وہ پھر بھی یہی کرتی۔”
”تب کی تب دیکھی جاتی۔ مگر تمہارے اس طرح سب کچھ چھپانے سے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں۔” اس بار نانو نے کہا۔
”آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں ۔ میں اس سلسلے میں اب تو کچھ کہہ ہی نہیں سکتا۔ مگر مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ میں نے علیزہ اور ذوالقرنین کے افیئر کو آپ سے چھپایا۔ میں نے اپنے طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور شاید میں نے ایسا کر بھی لیا تھا، مگر پرابلم صرف علیزہ کی اس حرکت سے ہوا ورنہ ذوالقرنین کا معاملہ تو ختم ہو چکا تھا۔” اس نے بڑے پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ اب آگے کے بارے میں سوچیں ، اب آپ اس سے اس سارے معاملے کے بارے میں کیا کہیں گے یہ طے کریں۔”
”میں ذوالقرنین کی فیملی سے رابطہ قائم کروں گا اگر سب کچھ ٹھیک ہو تو میں ذوالقرنین کے ساتھ علیزہ کی شادی کرا دوں گا۔” نانا نے یک دم جیسے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”وہ لڑکا اچھا نہیں ہے۔ گرینڈ پا…! وہ صاف صاف انکار کر گیا ہے اس شادی سے۔” عمر کچھ بے چین ہوا۔
”عمر تمہارے بات کرنے میں اور میرے بات کرنے میں بہت فرق ہو گا، ہماری فیملی کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم کسی فیملی کے ساتھ رشتہ جوڑنا چاہیں اور وہ بغیر سوچے سمجھے انکار کر دیں۔ ذوالقرنین شادی پر تیار نہیں بھی ہو گا تو اس کے ماں باپ اسے تیار کر لیں گے۔”
”وہ اچھا لڑکا نہیں ہے گرینڈ پا! کم از کم مجھے اس نے امپریس نہیں کیا۔”
”اچھا ہے یا برا، مجھے اس کی پروا نہیں ہے، اگر علیزہ کو وہ پسند ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو میرے لئے اتنا ہی کافی ہے ساری عمر اسے پالنے اور بڑا کرنے کے بعد میں یہ تو نہیں چاہوں گا کہ وہ اس طرح خودکشی کرلے اگر وہ اس شخص کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے تو ٹھیک ہے۔ اتنا بڑا ایشو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک اس کی اچھائی یا برائی کا تعلق ہے میں پتہ کروا لوں گا اس کے بارے میں۔” نانا وہیں بیٹھے بیٹھے فیصلے کرتے جا رہے تھے۔ نانو اور عمر کچھ کہے بغیر خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتے رہے۔
٭٭٭