الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

ادھر دکان پر کام شروع ہوا، ادھر شوٹنگ شروع ہوئی۔ حسن گھن چکر بنا دونوں کے درمیان گھومنے لگا۔ ایسے میں دوست بہت کام آئے۔ بندو اور نعیم نے تعمیر کی نگرانی کا بیڑا اٹھایا، محسن کو پکوان کی دکان یعنی کیفے کے معاملات کا شوق چرایا۔ عاصم نے اس سے بھی بڑا کام کیا۔ اپنے باپ کو کہہ کر بادشاہ عمران خان کے امراء میں شامل ایک شخص جو ثقافتی امور کا وزیر تھا، اس کے ساتھ حسن کی ملاقات کرائی، حسن نے ایک ایک اشرفی سلیقے و تمیز سے اسے دکھائی۔ وہ اشرفیاں دیکھ کر متعجب ہوا اور حسن کہ صاحبِ تمیز و ہردل عزیز تھا، سے بہت متاثر ہوا۔ قصہ مختصر اس کی ایک ایک اشرفی لاکھوں میں بکی اور اس نے بہت اچھی قیمت پائی، حسن کی خوب بن آئی۔ حسن اپنے دوستوں کا بے حد ممنونِ احسان ہوا اور جناب باری کا شکر بجا لایا کہ پہلی زندگی میں نہ سہی، اس زندگی میں ہی اسے اچھے دوستوں سے نوازا۔ اب اسے خوب سمجھ آنے لگی تھی کہ پرانے زمانے کے دوستوں اور موجودہ زندگی کے دوستوں میں کیا فرق تھا۔ وہ دوست دولت مندی کے زمانے کے دوست تھے اور یہ دوست غربت کے زمانے کے۔ جب دولت مند غریب ہوا تو دولت کے ساتھ دوست بھی گئے لیکن غریب کے دوستوں کو تو پہلے ہی اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ انہوں نے غربت کے زمانے میں حسن کا ساتھ دیا تھا، اب حسن امیری کے زمانے میں ان کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔
چنانچہ حسن نے ایک دن سب دوستوں کو بلایا اور کہا: ‘‘اے یاران غمخو اور وفا شعار، مجھے تم سے بہتر ،لائق فائق ،ذکی وپر فن مددگارورفقا مجھے اور کہیں نہ مل پائیں گے۔ تم نے میرا بہت ساتھ دیا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تم کو ہمدردی اور ہمراہی کا صلہ دوں اور تمہاری وفا کا بدلہ دوں۔ نعیم اور بندو تم دونوں لائق ہو مگر نوکری بے کار ہے اور تنخواہ کے نام پرنرا خلفشار ہے۔ نعیم تم میری دونوں دکانوں کا تمام کام، تجارت کا تمام نظام مجھے کمپیوٹر پر سیٹ کر کے دو گے اور مجھ سے اس کی تنخواہ لو گے۔ یہ تنخواہ تمہاری موجودہ تنخواہ سے دگنی ہو گی۔ خرچہ و آمدنی کا سارا حساب رکھو گے یعنی تم میرے منشی و مدبر ہو گے۔’’
یہ سن کر نعیم نے ناک بھوں چڑھائی اور کہا: ‘‘یار، کام تو بے شک بغیر تنخواہ کے کرا لے، مگر خدا کے لیے مجھے منشی نہ کہہ۔’’
حسن نے بے چارگی سے کہا: ‘‘مجھے تو یہی نام آتے ہیں۔ تم خود ہی بتا دو تم کیا بننا چاہتے ہو؟’’ اس نے سوچ کر کہا: ‘‘میں تمہارے بزنس کا ہیڈ آف سیلز اینڈ اکاؤنٹٹنگ ہوں۔’’
یہ کہہ کر اپنی عقلمندی پر بے حد خوش ہوا اور سب سے داد کا طالب ہوا۔
پھر حسن نے محسن سے کہا :‘‘محسن میں جانتا ہوں تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ نانبائی بننا۔ لہٰذا میری پکوان کی دکان یعنی کیفے آج سے تمہارا ہے۔ تم چاہو کرو، جو مرضی پکاؤ، جیسے چاہو کھلاؤ۔ میں خرچ کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اس کے منافعے کے صرف دس فیصد میں حصہ دار ہوں۔ باقی سب تمہارا ہے، سارے کا سارا ہے۔’’
محسن یہ سن کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا، خدا کا شکر بجا لایا۔
پھر حسن نے بندو سے کہا: ‘‘اس بازار میں تمام لوگ جس شخص سے مال منگواتے ہیں اسے قیمت کا ایک حصہ حقِ محنت کے طور پر دیتے ہیں۔’’
بندو نے گھبرا کر کہا: ‘‘یار سیدھی سیدھی زبان میں بات کیوں نہیں کرتا؟ سپلائر کہتے ہیں اسے اور جو پیسے اسے دیتے ہیں وہ کمیشن ہوتا ہے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ہاں وہی ۔تو میں یہ سوچتا ہوں کہ جو پیسے میں غیروں کو دوں گا، تجھے کیوں نہ دوں؟ تو میرا سپلائر بن، کمیشن لے اور دکان میں جو بھی منافع ہو، ہر تھان کے پیچھے اس کا تین فیصد وصول کر۔’’
یہ سن کر بندو اس قدر خوش ہوا کہ حیطۂ تحریر سے خارج ہے۔ یوں حسن نے اپنے تمام دوستوں کو کام پر لگایا، خوشی سے پھولے نہ سمایا۔
دکان میں مصروف ہونے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حسن ماموں کو بھول گیا تھا یا نانی کو اور زلیخا کو اور نسیمہ باجی کو فراموش کر دیا تھا۔ گھر میں ممانی نے ماموں اور نانی سے بول چال بند کر دی تھی جس سے وہ دونوں بہت خوش تھے۔ خود ہی اپنا کھانا پکاتے تھے مل کر کھاتے تھے اور شعروشاعری کے شغل میں مگن رہتے تھے۔ نسیمہ باجی بیوٹی پارلر کی تربیت لینے میں مصروف تھیں، دل و جان سے مشغول تھیں اور رہی زلیخا تو وہ دن رات کتابیں پڑھا کرتی تھی۔ اکیڈمی جاتی تھی اور اس قدر محنت کرتی تھی کہ کھانا پینا حرام تھا، دن رات پڑھائی سے کام تھا۔
حسن کو یہ سب لوگ یاد رہے، بس وہ ایک شخص کو بھول گیا، بنے بھائی۔ اس محاذ پر خاموش طاری تھی، لہٰذا حسن نے یہ سمجھا کہ اس بلائے بے درماں سے نجات پائی، خدا نے جان بچائی۔ یہ نہ جانتا تھا کہ اندر ہی اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے اور مصیبت کیوں کر راہ تک رہی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ شوٹنگ شروع ہوئی اور دکان کے کام، شوٹنگ اور دوسرے دھندوں میں لگ کر حسن بنے بھائی او رممانی کو بالکل ہی بھول گیا۔
ایک دن حسن گھر آیا تو دیکھا زلیخا صحن میں اکیلی بیٹھی چائے پیتی ہے۔ وہ پاس بیٹھ گیا اور پوچھا: ‘‘خیر یا شد!آج اکیڈمی نہیں گئیں؟’’
اس نے کسلمندی سے کہا: ‘‘طبیعت ٹھیک نہیں۔ کچھ بخار سا ہے۔ سوچا آج پڑھائی سے ذرا بریک لے لوں۔ تم سناؤ۔ کام کیسا چل رہا ہے؟’’
حسن نے جوش سے کہا: ‘‘بہت اچھا چل رہا ہے۔ آج شوٹنگ پر سارا دن گھوڑا دوڑایا۔ اب رات کو دکان پر جاؤں گا۔ مال اترواؤں گا۔’’
زلیخا نے گھبرا کر کہا، ‘‘او گاڈ! مجھے تو سن کر ہی چکر آگئے۔ تم تھکتے نہیں؟’’
حسن نے سینہ پھلا کر کہا: ‘‘کام کرنا مرد کی شان ہے جو محنت نہ کرے، وہ بھی کوئی انسان ہے؟’’
زلیخا مسکرائی، بولی: ‘‘ہاں اور تم جیسے ہائپر انسان کے لیے تو ضروری ہے کہ کام کرے ورنہ جتنی سٹیم تمہارے اندر بھری ہے نا یہ کسی غلط کام میں ہی نکلے گی۔ ویسے ایک بات بتاؤ۔ پچھلی زندگی میں بھی تم ایسے ہی تھے کیا؟’’
حسن نے مغموم ہو کر کہا: ‘‘کیا پوچھتی ہو زلیخا کہ تب میں کیسا تھا۔ چربانک اور سیلانی، امنگ پہ اٹھتی جوانی،۔کام نہ دھندا، بس کیف و مستی اور یہ بندہ۔ خالی مکان شیطان کی دکان۔ کھیل کود کا عاشقِ زار تھا، دن رات اسی میں گرفتار تھا۔ ماں باپ سمجھاتے تھے، کام کی طرف توجہ دلاتے تھے مگر میں تو عقل کے پیچھے لٹھ لیے گھومتا تھا، کبھی ان کا کہا نہ مانا۔ عیش و عشرت میں رہتا تھا، کبھی کاہے کو رنج یاغم سہتا تھا۔ مگر پھر روز بدتقدیر نے دکھایا، بیٹھے بٹھائے صیدرنج و محن بنایا۔ اب دن رات ماں باپ کو یاد کرتا ہوں، تڑپتا ہوں، آہیں بھرتا ہوں، پچھتاتا ہوں کہ کاش جو محنت آج کر رہا ہوں، ماں باپ کی زندگی میں کی ہوتی، کوئی خوشی انہیں بھی دی ہوتی۔’’
یہ کہہ کر آنکھوں میں آنسو بھر آئے، رقتِ قلبی سے آبدیدہ ہوا۔
زلیخا نے ہمدردی سے کہا: ‘‘میں سمجھ سکتی ہوں تمہاری تکلیف۔نیا زمانہ، اجنبی لوگ، صفر سے شروع کرنی پڑی تمہیں اپنی زندگی، بہت مشکل کام ہے۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!