الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

حسن نے تسلی دیتے ہوئے کہا: ‘‘آپ بے قصور ہیں، تقدیر سے مجبور ہیں۔ جو کچھ ہوا ہے وہ اذنِ الٰہی سے ہوا ہے، ورنہ میں اور یہ کارِ عبرت خیز؟ اب جس خدا نے یہاں تک پہنچایا ہے، وہ آگے بھی مدد فرمائے گا، بنے بھائی کے ظلم و استبداد سے بچائے گا۔’’
حسن بہت تسلی دیتا تھا اور بے حد سمجھاتا تھا کہ جو کیا ہے میں نے کیا ہے اور میں صاف صاف قبول دوں گا کہ یہ سب میرا کیا دھرا ہے اور ماموں کا حساب محاسبے سے پاک صاف ہے، انہیں سب معاف ہے۔ مگر ماموں کے دل کو تسلی نہ ہوتی تھی۔ ان کی ٹانگیں بدستور تھرتھراتی تھیں، آنکھیں بھربھرآتی تھیں۔
رنگ و روغن والوں نے اپنا کام سمیٹا تو ماموں کی جان پر بن آئی۔
حسن سے بصد منت التجا کی، گڑگڑا کر یوں درخواست کی کہ: ‘‘مجھے گھر نہ لے جاؤ، کہیں اور لے چلو۔ آج میری خیر نہیں ۔تمہاری ممانی مجھے نہ چھوڑے گی۔’’
حسن نے بہت کچھ تسلی دی اور بصد اصرار ماموں کو سکوٹر پر بٹھایا، انہیں گھر لے کر آیا۔ سچ تو یہ تھا کہ صرف ماموں ہی کی ٹانگیں نہیں کانپتی تھیں، خود حسن کا دل بھی بے حد گھبراتا تھا۔ اس نے سکوٹر کو گلی ہی میں بند کیا اور ایک ہاتھ سے سکوٹر اور دوسرے ہاتھ سے ماموں کو سنبھالے اندر آیا۔ یہ دیکھ کر گھبراہٹ سوا ہوئی کہ صحن میں اندھیرا تھا اور سناٹا چھایا تھا۔ نہ چرند نہ پرند، نہ بوڑھا نہ فرزند، نہ زلیخا نہ نانی، نہ منا نہ ممانی۔ کوئی رخِ باتمکین نظر نہیں آتا تھا، اس تنہائی سے دل بے حد گھبراتا تھا۔ حسن نے گھبرا کر دل میں سوچا: ‘‘یہ کوئی بری فال ہے۔ یہ کیا حال ہے؟’’
ماموں پر نظر کی تو دیکھا حال زار تھا، بڑا خلفشار تھا۔ لرزتے تھے، کانپتے تھے،۔رنگ فق، کلیجہ شق، ان کی حالت دیکھ کر حسن اور بھی ڈرا۔ ماموں کو بازو سے پکڑا اور صحن میں برآمدے کے ستون کے پیچھے اندھیرے کونے میں لے گیا۔ دونوں وہاں چھپ کر کھڑے ہو گئے اور سن گن لینے لگے۔ کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی تھی، یہ خاموشی اور بھی ڈراتی تھی۔
ماموں نے ڈرتے ہوئے کہا: ‘‘یہ خاموشی ضرور کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ آخر کہاں گئے سب لوگ؟’’
حسن نے کہا: ‘‘میں زلیخا کو فون کرتا ہوں، وہی آکر بچائے گی، ورنہ ہم دونوں کی جان جائے گی۔’’
یہ کہہ کر جیب سے فون نکالا اور زلیخا کو فون کیا۔ زلیخا نے فون اٹھایا تو حسن نے منہ پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی میں پوچھا: ‘‘زلیخا تم کہاں ہو؟’’
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ‘‘کیا بات ہے ،تم سرگوشیاں کیوں کر رہے ہو؟’’
حسن نے ملتجی ہو کر کہا: ‘‘زلیخا میں اس وقت زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ تم کہاں ہو؟ اگر اندر ہو تو باہر صحن میں آؤ۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘میں اکیڈمی میں ہوں۔ آج پریکٹیکل تھے۔ لیکن بات کیا ہے؟ ہوا کیا ہے تمہیں؟’’
یہ سن کر کہ زلیخا گھر پہ نہیں ہے، حسن پر بجلی سی گر پڑی ۔لیکن خود پر قابو پایا اور تھوک نگل کر بولا:
‘‘کچھ نہیں ہوا، میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔ تم پریکٹیکل کرو، میری فکر مت کرو۔’’
یہ سن کر زلیخا کو اور بھی فکر ہوئی، گھبرا کر بولی: ‘‘حسن مجھے سچ سچ بتاؤ۔’’
لیکن حسن نے پوری بات نہ سنی اور جلدی سے فون بند کر دیا۔ زلیخا آوازیں دیتی رہ گئی۔ لیکن حسن کچھ نہ سن پایا کیوں کہ اسی وقت برآمدے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی آرہا تھا۔
ماموں اور حسن گھبرائے اور مزید دبکنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے سَٹ کر کھڑے ہو گئے اور کان لگا کر آہٹ سننے لگے۔ آنے والا قریب آتا جا رہا تھا۔ اچانک برآمدے کی بتی جل اٹھی اور نووارد کا چہرہ نظر آیا۔ دیکھا تو کنیز سامنے کھڑی تھی۔
کنیز نے جو ماموں کو یوں چوروں کی طرح اندھیرے کونے میں دبکا کھڑا پایا تو حیران ہو کر نعرہ لگایا: ‘‘بڑے صاحب، حسن بھائی جان آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟’’
حسن نے بصد منت و التجا کہا: ‘‘اے کنیز ہر دل عزیز، خدارا خاموش رہو اور ہمارا راز نہ کھولو، ہمارا راز آشکار نہ ہونے پائے، کوئی خبردار نہ ہونے پائے۔ تم اپنی راہ لو، ہمیں یہاں کھڑا رہنے دو۔’’
یہ سن کر کنیز بد ذات کے ہونٹوں پر کمینی مسکراہٹ آئی اور پہلے سے بھی اونچی آواز میں بولی: ‘‘اچھا تو یہاں چھپے ہوئے ہیں آپ دونوں؟ اور اندر بیگم صاحبہ آپ کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔’’
حسن کو اس کے اس پاجی پن پر اس قدر طیش آیا کہ دل چاہا ابھی اسی وقت سر تن سے جدا کرے اور اس کمبخت کو داخلِ تخت الشریٰ کرے۔
بددماغ ہو کر بولا: ‘‘اے شیطان کی ماہئ مراتب، ضرور تو میرے ہاتھوں سے انجام کو پہنچے گی، سخت سزا پائے گی، ہرگز بچنے نہ پائے گی۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!