الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

نانی نے چونک کر حسن کی صورت دیکھی اور بولی: ‘‘وہ کیوں؟’’
حسن نے کہا: ‘‘کیوں کہ مرد کو معاشرے میں مضبوط بنایا ہے، طلاق کا اختیار دیا ہے اور نہ بھی دے سکے تو۔۔۔’’
نانی بے چاری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ بولیں: ‘‘ہائے میرا بچہ۔ نہ اس دنیا میں کوئی اِس کی سنے نہ اُس دنیا میں۔ میرے بیٹے نے زندگی میں گھر کا کوئی سکھ نہیں دیکھا۔ جب سے شادی ہوئی ہے، تکلیفیں ہی سہتا آرہا ہے۔’’
حسن نے ہمدردی سے کہا: ‘‘تو پھر اس کا ایک اور علاج ہے۔ ماموں کی دوسری شادی کر دیجئے۔’’
نانی ٹکرٹکر حسن کی صورت دیکھنے لگیں پھر دہل کر کہا: ‘‘کیسی باتیں کر رہا ہے بچہ؟ اس نے سن لیا تو جان سے مار دے گی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘کیوں مار دے گی؟ ماموں کا حق ہے کہ زندگی میں کوئی خوشی دیکھیں، میں صلاحِ نیک دیتا ہوں اور بات ِمعقول کہتا ہوں۔ ساری مصیبتوں کا علاج یہی ہے کہ نکاحِ ثانی ہو۔ تاکہ رفع پریشانی ہو۔’’
اگرچہ حسن یہ صلاحِ خادمانہ بہ طرزِ دوستانہ دیتا تھا مگر نانی کچھ سننا نہ چاہتی تھی، گھبرا گھبرا جاتی تھی، حسن کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کراتی تھی۔
اتنے میں ماموں نے آہ بھری اور ہوش آیا۔ نانی نے جلدی سے آنسو پونچھے اور بصد محبت و شفقت و بے قراری پوچھا: ‘‘کیا حال ہے بیٹا؟ کہاں چوٹ لگی ہے؟ کہاں درد ہے؟’’
ماموں نے ایک آہِ سرد، بہ دل پردربھری اور کہا: ‘‘

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں ’’

یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئے۔
نانی کانپ گئی۔ بولی: ‘‘کیسی بُری باتیں کرتا ہے۔ اللہ نہ کرے کسی نوحے کی نوبت آئے۔ میرا بچہ۔ تو آرام سے لیٹا رہ، میں تیرے لیے گرم دودھ ہلدی لاتی ہوں۔’’
نانی سدھاری تو حسن نے ماموں سے کہا: ‘‘ہمت کیجئے ماموں جان ،مرد بنئے۔’’
ماموں نے بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے کہا:

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھرنہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں منائے کیوں

یہ کہہ کر سر پٹخنے لگے اور رونے لگے۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور زلیخا بھاگتی ہوئی اندر آئی۔ چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا، حواس باختہ و حیران تھی، بے حد پریشان تھی۔ زلیخا کو دیکھا تو ماموں نے چیخ ماری اور زاروقطار رونے لگے۔ زلیخا آگے بڑھ کر مسہری پر بیٹھ گئی اور باپ کو اپنی آغوشِ شفقت میں سمیٹ لیا ۔ ماموں نے اس کے کندھے پر سر رکھا اور ہچکیاں لینے لگے۔ زلیخا کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے اور وہ خاموشی سے باپ کو تھپکتی تھی۔
حسن بدرالدین، کہ انتہا کا رقیق القلب نوجوان تھا، اس خونچکاں منظر کی تاب نہ لایا، آبدیدہ ہوا، غم و الم رسیدہ ہوا۔ دلِ پرغم خانہ ماتم ہوا، لب نالۂ زار سے ہمدم ہوا۔ چپکے سے اٹھا اور اپنے کمرے کو سدھارا۔
کمرے میں پہنچ کر عاصم کو فون کیا اور دیر تک اس سے اہم معاملات پر گفتگو ہواکی۔
اگلے دن صبح جب بنے بھائی تکبر سے مسکراتے اور زعم سے اکڑتے دکان پر قبضہ کرنے کے ارادے سے وارد ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دکان میں زورشور سے رنگ و روغن ہو رہا ہے اور دکان کے آگے دس بارہ مشٹنڈے، وردیاں ڈانٹے، بندوقیں اٹھائے چوکس کھڑے ہیں۔ بنے بھائی کو دیکھ کر ان میں سے ہر ایک نے چشم خشم آلودہ دکھائی اور بندوق اٹھائی۔ بنے بھائی حیران و ششدر ہوئے کہ یاخدا یہ کیا بوالعجبی ہے، یہ راتوں رات صورتحال کیونکر بدلی ہے؟ کان دبائے ٹھنڈے ٹھنڈے وہاں سے کھسک لیے اور حسن کی دکان پر پہنچے،۔وہاں جا کر دیکھا تو وہاں بھی وہی صورتحال نظر آئی۔ کوئی تدبیر کام نہ آئی۔ وہاں بھی عاصم کے گارڈز کھڑے تھے، حسن کی حسنِ تدبیر کے جھنڈے گڑے تھے۔ قابضین کرائے دار دکان خالی کرتے تھے، کرسیاں میزیں باہر لاکر دھرتے تھے۔ حسن بھی وہاں موجود تھا اور گو کہ بنے بھائی کو دیکھ کر گھبرایا مگر کوئی خوف دل میں لایا، عاصم نے اپنے گارڈز کے ساتھ کوتوالی کے سپاہی بھی بھیجے تھے جنہیں یہ لوگ پولیس کہتے تھے۔ ان کی موجودگی میں بنے بھائی کچھ نہ کر سکتے تھے۔
غالباً بنے بھائی کو بھی اس بات کا اچھی طرح احساس ہو گیا ۔ کچھ دیر توو ہاں کھڑے خشمگیں نظروں سے حسن کو گھورا کیے، آخر منہ پر ہاتھ پھیرتے، حسن کو مزا چکھانے کے اشارے کرتے وہاں سے روانہ ہوئے۔
رات کو حسن گھر آیا تو بنے بھائی کو لاؤنج میں ممانی کے پاس بیٹھا پایا۔ حسن وہا ں سے بھاگا اور جلدی سے خود کو نانی کے کمرے میں پہنچایا جہاں ماموں فروکش تھے اور یہیں قیام پذیر تھے۔ وہاں ماموں او رنانی کے ساتھ زلیخا موجود تھی اور ماموں کی چوٹوں کی سکائی کرتی تھی۔ سعادت مندی کا دم بھرتی تھی۔ حسن ان کے پاس بیٹھا اور تمام احوال گوش گزار کیا۔ نانی نے سارا قصہ سن کر ہاتھ اٹھا اٹھا کر عاصم کو دعائیں دیں اور اشاروں کنائیوں میں حسن سے اصرار کرنے لگیں کہ ایسا مخلص دوست نایاب ہے اور اس سے رشتہ داری جوڑنا عین باعثِ ثواب ہے۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!