الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

حسن نے نانی کی باتوں کو ایک کان سن، دوسرے سے نکالا، ان کے اصرار کو ٹالا۔ زلیخا سے کہا: ‘‘ماموں کی دکان کا روغن آج مکمل ہوا، کل سے میری دکان کا شروع ہو گا۔ میری کچھ تجاویز تھیں جن پر تمہارے رائے درکار ہے۔ مشورہ عین فراست کا شعار ہے۔’’
زلیخا ہمہ تن گوش ہوئی، نانی بھی خاموش ہوئی۔
حسن نے کہا: ‘‘میری اور ماموں دونوں کی دکانیں یک منزلہ ہیں۔ سوچتا ہوں ایک ایک منزل دونوں کے اوپر تعمیر کراؤں اور تجارت کا نفع بڑھاؤں۔ دونوں دکانیں کپڑے کے مال کی جماؤں، نچلی منزل کو ریشم و اطلس و کمخواب سے سجاؤں، اوپر کی منزل کو گودام کے طور پر کام میں لاؤں۔’’
سب لوگ یہ تجویز سن کر خوش ہوئے اور حسن کی فہم و فراست کی داد دی۔
ماموں نے کہا: ‘‘لیکن تمہاری دکان میں تو پیچھے ایک گودام ہے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘اس کا بھی ایک مصرف میرے ذہن میں آتا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میں بازار میں خوب گھوما پھرا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پورے بازار میں کھانے پینے کی کوئی ایسی اچھی دکان نہیں جہاں خواتین بیٹھ کر سستا لیں، کچھ پی اور کھا لیں۔ جو ہیں وہاں دن چڑھے سے لونڈے لپاڑے آبیٹھتے ہیں۔ عورتیں وہاں جانے سے گھبراتی ہیں، کہیں آزادی نہیں پاتی ہیں۔’’
زلیخا نے حیران ہو کر پوچھا: ‘‘تو تم اس گودام میں کیفے یعنی کھانے کی دکان کھولو گے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘نہیں۔ اس گودام میں باورچی خانہ بنے گا۔ کھانے کی دکان اوپری منزل میں ہو گی۔’’
زلیخا نے حیرت سے کہا: ‘‘یعنی کپڑوں کی دکان اور ریسٹورنٹ ایک ہی جگہ پر؟’’
حسن نے کہا: ‘‘زلیخا تمہیں یاد ہے ہم ایک جگہ گئے تھے جہاں دنیا جہان کی سب چیزیں ایک ہی دکان میں تھیں؟’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ہاں، مال میں۔ لیکن وہ تو بہت بڑی جگہ ہوتی ہے، سپرسٹور ہوتا ہے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘میں اپنی دکان میں سبزیاں اور قالین اور بچوں کے پوتڑے نہیں رکھوں گا۔ لیکن عورتوں سے متعلق ہر چیز و اساب سجاؤں گا، خاطر خواہ نفع اٹھاؤں گا۔ نچلی منزل پر پوشاک ہائے معنبر، زیورات و غازہ و عطر و عنبر، مہندی، چوڑی، سرمہ، سب ایک ہی جگہ ملے گا، درزی بٹھاؤں گا، ہر جوڑا ہاتھ کے ہاتھ سلے گا۔ گوٹا لپا سب وہیں ملے گا۔ نیچے کی منزل پر یہ دکان، اوپر کی منزل پر شاہی پکوان۔ وہاں کتابیں ہوں گی، چائے ہو گی۔ اعلیٰ درجے کی غذائے لذیذ اور شربتِ مشک بیز، راح روح ،کیمیائے فتوح، میری دکان دنیا بھر کی عورتوں میں نیک نام ہو گی، مقبولِ عام ہو گی۔’’
ماموں نے چونک کر کہا: ‘‘کتابیں بھی ہوں گی؟’’
حسن نے ماموں کے ہاتھ نیا زمندانہ تھامے اور کہا: ‘‘جی ہاں اور وہاں کے منتظم اعلیٰ آپ ہوں گے۔’’
ماموں یہ سن کر فرطِ طرب سے آبدیدہ ہوئے۔
زلیخا نے فکرمند ہو کر کہا: ‘‘یہ آئیڈیاز بہت اچھے ہیں حسن لیکن اگر ابا تمہاری بک شاپ اور کیفے پر ہوں گے تو ابا کی دکان کون سنبھالے گا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘اس دکان پر میں خود بھی رہوں گا اور آدمی بھی رکھوں گا، اگر میں خود نہ وہاں بیٹھا اور صرف ماموں کو بٹھایا تو بنے بھائی ضرور کوئی چال چلیں گے، ماموں کو بے دخل کریں گے۔’’
نانی نے فکرمندی سے کہا: ‘‘لیکن بیٹا آج کل بھروسے کے آدمی ملتے کہاں ہیں؟’’
حسن نے کہا: ‘‘اس کی فکر نہ کیجئے، میری نظر میں ایک بھروسے کا آدمی ہے۔’’
حقیقت تو یہ تھی کہ حسن کی نظر میں اس کام کے لیے بے حد بھروسے اور اعتماد کا آدمی تھا اور وہ تھا بندو۔ حسن کو یاد تھا کہ غفران کی پارٹی میں جب بندو نے تانیہ کو نشہ آور دوا کی گولیاں بیچی تھیں تو منافع اتنا ہی لیا تھا جتنا طے ہوا تھا۔ گو تانیہ نشے میں تھی اور اس نے بے گنے رقم نکال کر بندو کے سامنے رکھی تھی۔ لیکن بندو نے گن کر اپنا منافع اٹھایا تھا، باقی تانیہ کو واپس لوٹایا تھا اور جب غفران نے کہا تھا کہ ‘‘رکھ لے یار۔’’ تو اس نے جواب دیا تھا۔ ‘‘نہیں یار تجارت کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ دگنا سے زائد منافع جائز نہیں۔ وہ نشے میں ہے تو میں اس کا فائدہ اٹھا لوں؟ نہیں یار۔’’
ایسے دیانت دار و معقول پسند انسان سے بہتر کون ہو سکتا تھا جو تب بھی ایمانداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے جب کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو اور دیانتداری کی کوئی معقول وجہ بھی نہ ہو۔ بندو کو اس کام کے لیے چننے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ حسن بدرالدین خود ایک عاشق تھا۔ دن رات توسنِ عشق کے ہمراہ تھا، عشاق کے آلام سے بخوبی آگاہ تھا۔ بندو غریب تھا اور غریب کا عشق سوائے ذلت کے کچھ نہیں۔ بے زر عشق ٹیں ٹیں مثل مشہور ہے، مقبول نزدیک و دور ہے۔ کسی طرح تتوتھمبو کر کے بندو نے منگنی تو کر لی تھی مگر شادی کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا تھا، الٹا منگنی ٹوٹنے کا خطرہ سر پر منڈلاتا تھا۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی، گرہ میں مال نہ تھا۔ نوکری معمولی تھی، اس عالم میں معشوقہ بھی اسے بھولی تھی۔ اگر حسن بندو کو اپنے پاس رکھ لیتا تو ایک پنتھ دو کاج ہوتا، زندگی میں فضل کردگار ہوتا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!