الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

یہ سن کر اس کنیزِ بے تمیز، یکہ تازِ زمانہ سازی، شاہسوارِ افترا پردازی نے گہرا سانس لے کر پھیپھڑوں میں ہوا بھری اور اندر کے کمروں کی طرف منہ کر کے گلے کی پوری طاقت سے چلائی: ‘‘باجی جی۔ بڑے صاحب اور حسن بھائی یہاں چھپے ہوئے ہیں۔’’
حسن کا دل بند ہو گیا اور ماموں کی یہ حالت ہوئی کہ کھڑے کھڑے گویا پگھل کر نیچے بہہ گئے۔ ابھی حسن حیران پریشان نیچے پھسلتے ماموں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اندر سے دوڑتے قدموں کی آواز آئی اور ممانی کا لال بھبھو کا چہرہ نمودار ہوا۔ پیچھے پیھے بنے بھائی آتے تھے، چہرے پر مسکراہٹ تھی، صورتحال سے بہت لطف اٹھاتے تھے۔
ممانی نے آتے ہی حسن کو چشم خشم آلودہ دکھائی اور ماموں پر یوں چلائی: ‘‘نی دولے شاہ دی چوہیے۔ آگئی ایں توں؟’’یہ کہہ کر کنیز کو حکم دیا: ‘‘پھڑ نی کنیز اینوں۔’’
کنیز بدتمیز نے خراب و خستہ و متوحش ماموں کو ایک بازو سے پکڑا، ممانی نے دوسرا بازو شکنجے میں کسا، ماموں کو کھینچ کر کھڑا کیا اور مشکیں کس کر کوتوالی کے مجرم کی طرح انہیں چلاتی اندر کو لے چلیں۔ بنے بھائی نے حسن کی گردن ناپی اور اسے گھسیٹتے ممانی کے پیچھے لے چلے۔
کمرے میں پہنچ کر ممانی اور بھی وحشت کا شکار ہوئی، ماموں کے درپے آزاد ہوئی۔ تیوری چڑھائی اور پوچھا: ‘‘ہاں بھئی! ذرا اب بتاؤ کیا کر رہے ہو تم دکان کے ساتھ؟’’
ماموں کا یہ حال کہ رنگ رو باختہ، حالت خراب و خستہ۔ کچھ بول نہ پائے اور بصد منت و سماجت حسن کو یوں دیکھا گویا کہتے ہوں: ‘‘خدارا مجھے بچاؤ، احسان فرماؤ۔’’
کوئی چارہ نہ پا کر حسن نے ہمت مجتمع کی اور عین حالتِ اضطراب میں ممانی سے کہا: ‘‘رنگ و روغن ہو رہا ہے دکان میں۔’’
ممانی نے ڈانٹ کر کہا: ‘‘تو چپ رہ حسن ۔اس سے بات کر رہی ہوں، اسے جواب دینے دے۔’’یہ کہہ کر ماموں کو مخاطب کیا: ‘‘اچھا تو رنگ کرا رہے ہو دکان میں؟’’
ماموں نے تھوک نگل کر اثبات میں سرہلایا۔
یہ سن کر ممانی بددماغ و بر افروختہ ہو گئی۔ طیش کی آگ میں جل کر سوختہ ہو گئی۔
چلا کر پھٹ پڑی۔ ‘‘تیرا ستیاناس ہو جائے، گھر میں تو سالوں گزر گئے، پینٹ کرانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ جب بھی کہا یہی جواب دیا ابھی پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے تو تمہاری بیٹی کے لیے کوئی رشتہ نہیں آتا۔ ایک اس کا رنگ کالا، دوسرا دیواروں کا رنگ کالا، اتنی کالک سمیٹنے کون آئے؟’’
یہ سن کر حسن کے دل پر اس زور کا گھونسا لگا کہ بے حد آزردہ خاطر ہوا اور گو کہ اپنے کو بہت سمجھایا مگر رہ نہ پایا۔ ممانی کو مخاطب کر کے کہا: ‘‘نہ زلیخا کالی ہے نہ دیواریں! اصل میں آپ کا دل کالا ہے۔’’
ممانی نے طیش سے چیخ کر کہا: ‘‘چپ رہ! تو کون ہوتا ہے میرے گھر کے معاملوں بولنے والا؟ ہمارے ٹکڑوں پہ پلتا ہے اور ہمیں ہیآنکھیں دکھاتا ہے۔’’
یہ کہہ کر ماموں پر جھپٹی اور ایک دو ہتڑ ان کے سر پر جمایا اور چلائی: ‘‘پیسے کہاں سے آئے دکان میں رنگ کروانے کے، میں نے جب بھی مانگے تم نے نہیں دیئے۔ مجھ سے چھپا چھپا کر رکھتے تھے؟ بتاؤ اور کہاں خرچ کرتے ہو؟ کس کو دے کر آتے ہو؟’’
ماموں نے بہ صد مشکل خود کو ممانی کے حملوں سے بچایا اور منمنا کر کہا: ‘‘خدا کی قسم، میرے پاس تو ایک دھیلہ بھی نہیں، یہ پیسے تو حسن نے دیئے تھے۔’’
یہ سن کر ممانی نے پہلے سے بڑھ کر دو ہتڑ ماموں کو جمائے اور چلا کر بولی: ‘‘نی جھوٹاں دیئے پنڈے، نکال اپنی گٹھڑی میں سے جتنے جھوٹ نکالنے ہیں۔ آج میں سارے جھوٹ سن لوں تیرے۔’’
ماموں نے رو کر کہا: ‘‘میرا یقین کرو۔ بتاؤ بیٹا ،حسن ،اپنی ممانی کو بتاؤ کہ یہ پیسے تم نے دیئے تھے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ہاں ممانی جان۔ یہ رقم میں نے ہی ماموں کو دی ہے۔’’
بنے بھائی نے ڈانٹ کر کہا: ‘‘تیرے پاس کہاں سے آئی؟ کنگلا فقیر۔امتحان میں تو فیل ہو گیا، نوکری تجھے کوئی نہیں ملتی، تجھے اتنے پیسے کس نے دے دیئے؟ ماما! ضرور اس نے دکان سے چرائے ہوں گے۔’’
حسن نے بہ صدت منت و التجا کہا: ‘‘خدا کی قسم میں چور ہوں نہ اٹھائی گیرا، حقیقت یوں ہے کہ بے شک زمانے کے انقلاب سے تباہ ہوں مگر واللہ! بے جرم و بے گناہ ہوں۔ چند دن پہلے میں نے والدہ صاحبہ کا ترکہ پایا اور اسی رقم کو دکان میں لگایا۔ اب بھلا میرا اس میں کیا قصور تھا؟ اللہ کو یہی منظور تھا۔ انسان تو کیا بے چارہ ہے، مشیت ایزدی سے فرشتہ تک ہارا ہے۔’’
اس تقریرِ معقول کا اثر یہ ہوا کہ ممانی نئے سرے سے ماموں اور حسن پر حملہ آور ہوئی اور ایسے زور زور کے طمانچے مارے کہ سر میں درد ہو گیا، دل پژمردہ و سرد ہو گیا۔
اس سارے ہنگامے کے دوران بنے بھائی اور کنیز بے تمیز ایک طرف کھڑے مسکراتے رہے، حسن اور ماموں کی حالت زار سے حظِ وافر اٹھاتے رہے۔
حسن جوان آدمی تھا، ادھر ادھر اچھل کر ممانی کے حملوں سے خود کو کسی قدر بچایا مگر ماموں بے چارے کا کوئی حربہ کام نہ آیا۔ آخر حسن نے ماموں کو بازؤوں کے گھیرے میں لے کر سینے سے لگایا، ممانی کے دست تعدی سے بچایا۔
ممانی نے غصے سے حسن سے کہا: ‘‘اور یہ تو نے کیا بکواس کی تھی بنے سے کہ اب دکان تو سنبھالے گا؟ تو ہوتا کون ہے بنے کو بے دخل کرنے والا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘بنے بھائی دکان میں ہیرا پھیری کرتے تھے۔ لاکھوںکا غبن کیا۔ اب دکان میں سنبھالوں گا، نیا مال ڈالوں گا۔ ماموں بھی بنے بھائی سے تنگ آچکے تھے۔۔۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!