الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

حسن نے آنسو پونچھ کر کہا: ‘‘یہ بھی خدا کا احسان ہے کہ مجھے اس گھر میں پہنچایا، بروں کے ہتھے نہ چڑھایا۔ کسی ایسے ویسے گھر میں جاتا تو خدا جانے کیا روز بد دیکھنے میں آتا۔ یا کہیں اکیلا ہی کسی جگہ جا پڑتا تو کیا ہوتا؟ خستہ و خراب، یارے نہ مددگارے۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن آج کا زمانہ اور آج کے لوگ پچھلے زمانے کی برابری نہیں کر سکتے نا؟’’
حسن نے حیران ہو کر کہا: ‘‘وہ کیوں؟’’
زلیخا کچھ گڑبڑائی، بولی: ‘‘میرا مطلب ہے، ہم ہمیشہ اپنے بڑوں سے سنتے ہیں نا کہ پچھلے زمانے میں لوگ بہت اچھے تھے، زیادہ مروت، اخلاق، شرافت تھی۔ چیزوں کا ذائقہ اچھا تھا۔ غذا خالص تھی۔ اب تو لوگ بھی خراب ہیں، معاشرہ بھی، سب چیزیں بھی۔ تو تمہارا زمانہ تو بہت پہلے کا تھا۔ وہ تو بہت ہی اچھا ہو گا۔’’
حسن مسکرایا، کہا: ‘‘زلیخا زمانہ صرف ایک اچھا ہوتا ہے، جوانی کا۔’’
زلیخا ٹکرٹکر حسن کی صورت دیکھنے لگی۔
حسن نے کہا: ‘‘جوانی کا زمانہ صحت کا، ولولے کا اور خوشی کا زمانہ ہوتا ہے، آسمان زیادہ نیلا لگتا ہے، پانی زیادہ شیریں، کھانا زیادہ لذیذ لگتا ہے، انسان ہر کسی کو عزیز رکھتا ہے۔ دوست یک جان دو قالب۔ محبوب ایک دوسرے پر فدا، باہم شیدا۔ دنیا طلسم کا کارخانہ لگتی ہے، حیرت کا شانہ لگتی ہے۔ اس لیے جو باتیں تم آج اپنے بڑوں سے سنتی ہو، عین وہی باتیں میں سینکڑوں سال پہلے اپنے بڑوں سے سنتا تھا۔ ہر شخص اپنی جوانی کے زمانے کے گن گاتا ہے، بڑھاپے کا زمانہ بھلا کسے بھاتا ہے؟’’
زلیخا خاموش بیٹھی حسن کی باتیں سنتی تھی او رسوچتی تھی۔
اس نے پوچھا: ‘‘تو تمہیں اپنے زمانے میں اور آج کے زمانے میں کوئی فرق نہیں لگتا؟’’
حسن ہنس پڑا۔ بولا۔ ‘‘زمانے میں فرق نہ آئے تو اسے زمانہ کون کہے؟ فرق ہے اور بہت ہے۔تب طلسم یعنی سائنس کا اتنا زور نہیں تھا، آج زیادہ ہے۔ گرمی بھی کچھ بڑھ گئی ہے۔’’
زلیخا نے مسکرا کر کہا ‘‘ہاں وہ تو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے۔ لیکن مین تو لوگوں، رویوں، خوراک وغیرہ کی بات کر رہی ہوں۔ اس میں تو بہت فرق آیا ہو گا نا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘سب ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔تم خود سوچو، اگر ہر نسل کے ساتھ کھانے کا خالص پن اور معیار گرتا رہتا تو آج انسان کو کچھ کھانے کو نہ ملتا ۔حق تو یہ ہے کہ پھل آج بھی ویسے ہی میٹھے ہیں، گوشت ویسا ہی نمکین ہے اور جو قورمہ، قلیہ، ماہی و کباب ہے، آج بھی لذیذ و لاجواب ہے۔’’
زلیخا نے خوش ہو کرکہا: ‘‘واقعی؟ خوشی ہوئی یہ سن کر۔ مجھے لگتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ لوگوں کے taste buds خراب ہو جاتے ہیں اس لیے انہیں کھانے کے ذائقے میں فرق لگتا ہے اور قصوروار وہ زمانے کو ٹھہراتے ہیں۔ اچھا یہ بتاؤ انسانوں میں کیا فرق آیا ہے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘واحد فرق یہ آیا ہے کہ طلسم یعنی سائنس میں طاق ہو گئے ہیں، سحر میں شہرۂ آفاق ہو گئے ہیں۔ ورنہ فطرت میں انسان آج بھی ویسا ہے جیسے پہلے تھا۔’’
زلیخا نے دلچسپی سے کہا: ‘‘کیا مطلب؟ ذرا وضاحت کرو۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ٹھہوو، اپنا مطلب سمجھانے کے لیے میں ایک روایت تمہیں سناتا ہوں اور یہ امر وضاحت سے معرض بیان میں لاتا ہوں۔ اس سے تم پر ظاہر و باہر ہو جائے گا کہ انسانوں کی فطرت اور خو کبھی نہیں بدلتی اور ہر زمانے کے انسان ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔’’
زلیخا نے خوش ہو کر کہا: ‘‘واؤ! سٹوری سناؤ گے؟ پہلے یہ بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی ؟’’
حسن نے کہا: ‘‘تعلی کی خو سے میری طبیعت نفور ہے، لن ترانی و شیخی مزاجی بندے سے منزلوں دور ہے،۔یہ سرگزشت میرے ایک دوست کی ہے جو پسرایک وزیر کا تھا۔ نیک فطرت اور خوش سلوک تھا۔ نام اس کا تاج الملوک تھا۔’’

اتنے میں غنچۂ صبح کھلکھلایا۔ مرغانِ خوش الحان کی ترانہ سنجی سے کانوں نے لطف مزید پایا۔ شہرزاد نے خاموشی اختیار کی، سلطانِ ذی شان نے نماز پڑھ کر دیوانف خاص کی راہ لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(باقی آئندہ)

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!