الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

حسن کی بات پوری نہ ہو پائی تھی کہ ممانی پھر غصے سے ماموں پر جھپٹی اور اسقدر وحشت کا شکار ہوئی کہ سمجھ نہ آتا تھا کہ یہ ممانی برسرپیکار ہے یا شیطان کا خلیفہ نمودار ہے۔ اس زور کے تھپڑماموں کو رسید کیے کہ ماموں کے منہ سے بے اختیار نکلا: ‘‘اماں جی۔’’
کنیز نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا: ‘‘اماں جی تو ہمسائیوں میں گئی ہیں، منے کے ساتھ۔اتنی جلدی نہیں آتیں، انہیں نہ بلائیں۔ باجی کے سوالوں کا جواب دیں سچی سچی۔ ورنہ وہ پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔’’
ممانی نے ڈانٹ کر کہا: ‘‘تو چپ رہ۔ دفع ہو جا یہاں سے۔’’
کنیز برے برے منہ بناتی سدھاری۔
ممانی پھر ماموں کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا: ‘‘اسی دن کے لیے میں کہتی تھی کہ دکان بنے کو دے دو۔ تم نے میری ایک نہ سنی۔ مجھے پتا تھا کہ ایک دن یہ سنمپولیا اٹھ کر دکان پر قبضہ کرے گا۔ ْآج دکان پر کیا ہے، کل گھر پہ کرے گا ْلیکن میں بھی موچی گیٹ کی لاہورن ہوں۔ ٹانگیں توڑ دوں گی، کھال کھینچ لوں گی لیکن اس حرام خور کو قبضہ نہیں کرنے دوں گی۔’’
حسن کو بھی غصہ آیا، ناراضی سے کہا: ‘‘مجھے آپ کی دکان پر قبضہ کر کے کیا لینا ہے؟ بفضل ِ خدا میری اپنی دکان موجود ہے۔ اس پر قبضہ چھڑاؤں گا، مزے سے دندناؤں گا۔’’
یہ سن کر ممانی اور بنے بھائی نے بے اختیار ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر بنے بھائی تمسخر سے بولے۔ ‘‘اپنی اوقات میں رہ، زیادہ بڑھ بڑھ کے باتیں نہ بنا۔’’
ممانی نے بھی بنے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی اور خبردار کرتے ہوئے بولی: ‘‘ٹھیک کہتا ہے بنا، پالتو ہے، پالتو بن کے رہ ۔’’یہ کہہ کر ماموں کو حکم دیا۔‘‘اور تم کل صبح فوراً رنگ والوں کو فارغ کرو، اس سنپولیے کو دکان سے بے دخل کرو اور پوری کی پوری دکان بنے کے حوالے کرو، آج سے تمہارا دکان جانا بند۔ اب بنا ہی سب کچھ سنبھالے گا۔’’
ماموں کے منہ سے بے اختیار مری ہوئی آواز میں نکلا: ‘‘لیکن مال تو ہم نے سارا بیچ دیا، اب بنا وہاں کیا بیچے گا؟’’
ممانی کی آنکھیں پھٹ گئیں، چلا کر بولی: ‘‘مال بیچ دیا؟ تیرا ستیاناس۔’’
یہ کہہ کر ماموں پر دوبارہ جھپٹی۔ بنے بھائی بھی مشتعل ہو کر ان مظلومان ِحیرت زدہ وستم رسیدہ پر چڑھ دوڑے۔
ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ممانی ماموں اور حسن کو مارتی تھی، حسن اپنے آپ کو اور ماموں کو بچاتا تھا اور اس کوشش میں ممانی کے ہاتھ بازو پکڑتا تھا۔ بنے بھائی ممانی کو حسن سے چھڑاتے تھے اور ساتھ میں اپنے ہاتھ بھی چلاتے تھے کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کون کسے پیٹ رہا ہے۔
ابھی یہ معرکہ حق و باطل جاری تھا کہ یکدم دروازہ کھلا اور نانی افتاں و خیزاں، حیران و پریشان اندر داخل ہوئی۔ اند رکا منتظر دیکھ کر بے اختیار منہ سے چیخ نکل گئی۔ لپک کر ماموں کو ممانی کے پنجہ استبداد سے چھڑانے لگی، بنے بھائی سے بچانے لگی۔ اس کوشش میں دوچار طمانچے نانی کو بھی لگے لیکن اس نے ہار نہ مانی اور ماموں سے چمٹ گئی کہ کسی کا ہاتھ ماموں تک نہ پہنچ سکے۔ ممانی کے حملے اسی طرح جاری رہتے اگر منا وہاں نہ آجاتا۔ وہ نانی کے ساتھ گیا ہوا تھا، واپس آیا تو گھر میں یہ جنگ و جدل ہوتے پایا۔ جب دیکھا کہ ماں باپ کو مارے ڈالتی ہے تو دونوں کے بیچ میں آیا، اس کوشش میں ایک طمانچہ بھی کھایا۔ یہ وہ طمانچہ تھا جو بنے بھائی حسن کو مارنے کی نیت سے آتے تھے۔ ممانی نے جو لاڈلے بیٹے پر یہ ضرب لگتے دیکھی تو بنے بھائی کو دھکا دیا اور بے اختیار ہو کر منے سے بولی: ‘‘ماں صدقے! لگی تو نہیں؟’’
منے نے بسور کر کہا: ‘‘لگی ہے نا۔ بڑی زور کی لگی ہے۔’’
ممانی نے خشمگیں نظروں سے بنے بھائی کو دیکھا اور پھر منے سے بولی: ‘‘تو ہٹ جا بیٹا راستے سے۔ آج مجھے ان لوگوں سے فائنل بات کر لینے دے۔ یہ حرام خور میرے ہی گھر میں رہتا ہے، مجھے ہی آنکھیں دکھاتا ہے؟ میری اولاد کا پتا کاٹتا ہے؟ میں کہتی ہوں ابھی کے ابھی نکل جا میرے گھر سے، ورنہ دھکے مار مار کر نکال دوں گی۔’’
یہ سن کر نانی نے ماموں کو چھوڑا اور ایک قدم آگے بڑھ کر ممانی کے روبرو کھڑی ہو گئی۔ ممانی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے طنز سے بولی: ‘‘کس کے گھر سے نکال رہی ہو حسن کو؟’’
ممانی یکدم خاموش ہو گئی اور شعلہ بار نظروں سے نانی کو گھورنے لگی۔
نانی نے کہا: ‘‘یہ گھر تمہارا نہیں ہے، میرا ہے۔ میرے مرحوم شوہر نے بنوایا تھا اور اب میرے نام ہے۔ یہاں کون رہے گا، اس کا فیصلہ تم نہیں ،میں کروں گی۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!