الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۸

اس شام زلیخا حسن کے کمرے میں آئی اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔بے حد سنجیدہ تھی اور سوچتی ہوئی نظروں سے حسن کو دیکھتی تھی۔ حسن لیٹے سے اٹھ بیٹھا۔ زلیخا سے پوچھا۔ ‘‘خیر یاشد پریشان کیوں ہو؟’’
زلیخا چند لمحے خاموش رہی، پھر آہستہ سے بولی: ‘‘آج میں سارا دن تمہارے بارے میں سوچتی رہی۔ کتنے بڑے trauma سے گزرے تم ۔۔۔اور جب میں یہ سوچتی ہوں کہ تم نے یہاں کتنی تکلیفیں اٹھائیں تو میرا دل۔۔۔ مجھے معاف کر دو حسن، مجھے تمہاری بات سننی چاہیے تھی۔ کم از کم مجھے تو۔۔۔’’
زلیخا کی آواز بھرا گئی۔ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر سرجھکا لیا۔
حسن نے ایک آہِ سرد، بہ دل پرُ درد بھری اور کہا۔ ‘‘تمہارا کیا قصور ہے؟ بندہ اپنی قسمت سے مجبور ہے۔’’
زلیخا نے سراٹھا کر اسے دیکھا اور بھیگے لہجے میں بولی: ‘‘تم نے کیسے survive کیا یہ سب؟’’
حسن نے پوچھا۔ ‘‘مطلب؟’’
زلیخا نے کہا: ‘‘مطلب یہ کہ کیسے سہہ گئے اتنا بڑا امتحان؟ ماں باپ کا انتقال، نئے زمانے میں آجانا، اجنبی لوگ، ناآشنا دنیا۔۔۔میں سوچتی ہوں تو میرا سانس بند ہونے لگتا ہے۔ میں ہوتی تو مر جاتی۔ تم کیسے جیتے رہے؟’’
حسن نے آہ بھر کر کہا: ‘‘کیا پوچھتی ہو زلیخا۔ کسی پہلو چین نہیں آتا تھا، دل بیٹھا جاتا تھا۔ زندگی وبال، برا حال تھا، اس سانحہء جگردوز سے سخت ملال تھا۔ پھر سوچا جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوا، اس پر رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انسان کا اپنی زندگی پر کیا اختیار ہے؟ صرف خدا کا اختیار ہے۔ چنانچہ مصیبت پر صابر رہا اور خدا پر شاکر رہا کہ ضرور میری مشکل آسان کر دے گا۔ میرے جینے کا سامان کر دے گا۔ ان اللہ مع صابرین و شاکرین۔’’
زلیخا یک ٹک حسن کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خاموش ہوا تو اداسی سے مسکرائی اور آہستہ سے بولی:
‘‘میں آج تک یہ سمجھتی رہی کہ میں بہت سمجھدار ہوں اور تم بہت امیچور ہو، آج پتا چلا، زندگی گزارنے کا اصل گُر تو تمہارے پاس ہے۔’’
حسن نے لاپروائی سے کہا: ‘‘مشیت ِ ایزدی میں انسان مجبور ہے۔ تقدیر کا لکھا آدمی مٹا سکے، یہ عقلِ سلیم سے بہت دور ہے۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘لیکن تم نے تو غیرمعمولی ہمت کی ،حسن۔ ہمارے گھر میں رچ بس گئے، کالج بھی چلے گئے۔ او مائی گاڈ۔تم کالج میں کیا کرتے رہے؟ اور ہم نے زبردستی تمہیں امتحان میں بھی بٹھا دیا۔ یہ بتاؤ امتحان میں کیا لکھ کر آتے تھے؟’’
حسن نے سینہ پھلا کر کہا: ‘‘اے۔ بی۔ سی۔ ڈی۔ ساری لکھ ڈالی۔اردو اور فارسی کے اشعار لکھے، تصویریں بنائیں۔ سی اے ٹی کیٹ معنی بلی اور ڈی او جی ڈوگ معنے کتا بھی لکھا۔’’
زلیخا بے اختیار ہنسنے لگی۔ ہنستے ہوئے بولی:‘‘اس لیے فیل ہو گئے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘وہ تو میری قسمت تھی۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘لیکن تم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہر مسئلے سے نبٹتے چلے گئے۔ راستے میں جو بھی پتھر آیا، تم نے ہمت سے اٹھایا۔’’
حسن نے کہا: ‘‘مصیبت کے پتھر کے نیچے سے ہی خوش بختی کا چشمہ نکلتا ہے۔ ہر ناکامی کے جلو میں نیا موقع آتا ہے۔ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ان مع العسری یسریٰ۔۔۔ قرآن میں آیا ہے، خدا نے خود فرمایا ہے اور خدا کا کہا جھوٹ کیسے ہو سکتا ہے؟’’
زلیخا مسکرائی، بولی: ‘‘واؤ! آج تو تم مجھے حیران کر دینے پر تلے ہوئے ہو۔’’
حسن نے کہا: ‘‘حیران کیوں ہوتی ہو؟ بے شک بندہ ضعیف البیان ہے لیکن آخر تو انسان ہے۔ اشرف المخلوقات ہے۔ ذرا سی آزمائش پر ہمت ہار دے؟ بھلا یہ کیا بات ہے؟’’
زلیخا کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ ایک گہرا سانس لیا اور بولی: ‘‘اسی بارے میں سوچتی رہی ہوں میں آج۔ تم اتنی بڑی بڑی آزمائشیں ہنس کے سہہ گئے اور ہمت نہیں ہاری اور میں۔۔۔ میں نے پہلی ہی ناکامی پر ہتھیار ڈال دیئے۔’’
حسن خاموشی سے زلیخا کو دیکھتا رہا۔ زلیخا نے بھی سر اٹھا کر حسن کو دیکھا۔ حسن کو اس کے چہرے پر ایک فیصلہ کن، پرعزم تاثر نظر آیا۔ مضبوط لہجے میں بولی: ‘‘تم نے آج مجھے بہت بڑا سبق دیا ہے حسن۔ اگر تم یہ سب کر سکتے ہو، تو تھوڑی سی ہمت میں بھی کر سکتی ہوں۔ اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی کوشش بھی کر سکتی ہوں۔ میں ڈاکٹری کا انٹرینس امتحان دوبارہ دوں گی،جان لڑا دوں گی۔ مجھے یقین ہے کہ میں کامیاب ہوں گی۔ پھر ان مع العسری یسریٰ اور خدا کا وعدہ جھوٹ کیسے ہو سکتا ہے؟’’
یہ کہہ کر نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے مڑ کر حسن کو دیکھا اور کئی لمحے رکی دیکھتی رہی۔ پھر بھیگی آواز میں بولی:
‘‘Thank you Hassan. Thank you for everything.’’
اور دروازہ بند کر کے چلی گئی۔

٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!