ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

”ایکسیکوزمی سر! کیا میں آپ سے اکیلے میں چند منٹوں کیلئے بات کر سکتی ہوں؟” بریگیڈئر حسن دانیال اس وقت ٹرالی میں سے مکب نکال رہے تھے جب اس لڑکی نے مداخلت کی تھی’ انہوں نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔
”آپ کون ہیں اور کیا بات کرنا چاہتی ہیں۔” انہوں نے کپ دوبارہ ٹرالی میں رکھ دیا تھا اس لڑکی نے اپنا تعارف کروایا۔
”میں آپ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ ایک ضروری معاملے پر۔” اس نے ان کے ساتھ کھڑے بریگیڈئرمسعود کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”آل رائٹ مسعود! میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” وہ اس کے ساتھ گالف کورس پر چلتے ہوئے کچھ دور درختوں کے نیچے بینچ پر آ گئے تھے۔ ”بیٹھیں۔” انہوں نے رابیل سے کہا تھا’ وہ بینچ کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ وہ خود دوسرے کونے پر بیٹھ گئے تھے۔
”یس کیپٹن رابیل؟” اس نے ان کے چہرے پر نظریں جما دی تھیں۔
”آپ کسی نرس سنبل جعفر کو جانتے ہیں؟” اس نے اپنے سوال پر ان کے چہرے کو بالکل سپاٹ ہوتے دیکھا تھا۔ ان کی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ ”جس سے آپ نے چوبیس سال پہلے شادی کی تھی اور جس سے آپ کی دو بیٹیاں بھی تھیں؟”
ان کے چہرے کا رنگ اب بدل گیا تھا۔
”تم کون ہو اور کس کے بارے میں بات کر رہی ہو اس نے ان کی غراہٹ سنی تھی وہ بینچ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ بھی کھڑی ہو گئی ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
میں آپ کی دونوں بیٹیوں میں سے ایک ہوں۔
”جہنم میں جاؤ تم۔”
”میری صرف ایک بیٹی ہے اور اس کا نام شرمین ہے اور میں کسی سنبل کو جانتا ہوں نہ میں نے کسی سے شادی کی ہے۔ تم شاید جانتی نہیں کہ میں کس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں کسی تھرڈ کلاس نرس سے شادی کیسے کر سکتا ہوں؟”
رابیل کو لگا تھا جیسے انہوں نے اس پر اور اس کی ماں کے منہ پر تھوک دیا ہو۔
”تھرڈ کلاس نرس۔” وہ بڑبڑائی تھی۔
”اس نے کہا تھا۔ وہ سب ایک غلطی تھی۔ مگر مرد ایسی غلطیاں کرتا ہی رہتا ہے۔ وہ اب سب کچھ بھول جانا چاہتا ہے۔”
”اس نے کہا تھا تم لوگوں کے ساتھ رہ کر میں معذور ہو جاؤں گا۔ آگے نہیں بڑھ سکوں گا اور مجھے ابھی بہت آگے جانا ہے۔”
ایک ماہ پہلے اس نے اپنی ماں کو کسی مجرم کی طرح سرجھکائے چہرہ چھپائے شکستہ آواز میں یہ سب کہتے سنا تھا۔ تب اسے یقین نہیں آیا تھا۔
”کوئی باپ اپنی اولاد کو اس طرح کیسے چھوڑ سکتا ہے کہ اسے اپنا نام بھی نہ دے۔ کوئی شوہر اپنی بیوی کو کسی وجہ کے بغیر طلاق کیسے دے سکتا ہے۔ یہ سب کیسے کہہ سکتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ مجھے اعتبار نہیں ہے۔”





اس رات اس نے سوچا تھا اور اب اسے پہلی بار اپنی ماں کے لفظوں میں چبھی ہوئی کر چیاں محسوس ہو رہی تھیں۔
”جہاں تک تمہارا تعلق ہے تو میں یہ نہیں جانتا’ تم یہ بکواس کیوں کر رہی ہو مگر میں Co-Cmhسے بات کروں گا۔ تمہیں اس طرح نہیں چھوڑوں گا۔”
وہ انگلی اٹھا کر بہت تیز اور بلند آواز میں اسے دھمکا رہے تھے۔
”تھینک یو ویری مچ۔ آپ نے میری بہت سی غلط فہمیاں دور کر دیں۔ اب آپ میری بات سنیں۔ اگلے ہفتے میری ماں کورٹ میں کیس کرے گی بریگیڈئر حسن دانیال کے خلاف۔ ان کے فراڈ کے خلاف۔ اپنی اولاد کو چوبیس سال تک اپنا نام نہ دینے اور ان کے اخراجات پورے نہ کرنے کیلئے اور ایسی ہی ایک شکایت چیف آف آرمی سٹاف کو بھجوائی جائے گی اور اس کے بعد یہ پورا کیس میں اخبارات کو دے دوں گی’ ایک ایک تفصیل کے ساتھ۔”
”یوبلڈی بچ۔” انہوں نے اسے گالی دی تھی۔ اس کا چہرہ ایک لمحے کیلئے سرخ ہو گیا تھا پھر وہ مسکرائی تھی۔
”ہاں میں کتیا ہوں اور کتیا کی طرح آپ کو کاٹوں گی۔ میں دیکھوں گی بریگیڈئر حسن دانیال اس کے بعد تم لوگوں کے سامنے کیسے آتے ہو۔”
”میں تمہارے کیس کے چیتھڑے اڑا دوں گا۔ تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تمہاری ماں کے پاس نکاح نامہ ہے؟ طلاق نامہ ہے نہیں؟ کوئی دوسرا ثبوت ہے نہیں’ تمہاری ماں کبھی یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ میں نے اس سے شادی کی تھی یا تم میری اولاد ہو تم میرے خلاف ایک معمولی سا ثبوت بھی نہیں لا سکتیں۔ ہاں میں تمہارا کیریئر ختم کر دوں گا۔ تمہارے ساتھ بالکل ویسا ہی ہو گا جیسا تمہاری ماں کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے صرف ڈی موٹ کیا گیا تھا۔ تمہیں جاب سے فارغ کر دیا جائے گا۔ تم ابھی میری طاقت سے واقف نہیں ہو’ جاؤ اور جا کر اپنی ماں سے پوچھو’ تمہارے لئے یہی بہتر ہو گا اگر تم یہاں سے چلی جاؤ اور دوبارہ یہ بات کبھی اپنی زبان پر نہ لاؤ۔ تب ہو سکتا ہے۔ میں تم پر ترس کھاؤں اور تمہیں معاف کر دوں حالانکہ تم اور تمہاری ماں اس قابل نہیں ہیں۔”
”ماما! آپ نے صحیح کہا تھا کہ آپ نے ایک غلط آدمی کے ساتھ شادی کی تھی مگر آپ نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ آدمی سانپ ہے اور آپ نے مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ سانپ کیسے مارتے ہیں مگر مجھے سانپ کے زہر کا تریاق آتا ہے کیونکہ میری رگوں میں بھی اسی سانپ کا خون ہے۔” وہ ہونٹ بھینچے کھڑی تھی۔
”میری ماما کہتی ہیں۔ میں جگساپزل حل کرنے میں بہت ماہر ہوں اور میرا خیال ہے۔ یہ سچ ہے جو جگساپزل میری ماما چوبیس سال سے حل نہیں کر سکیں۔ اسے میں نے ایک ماہ میں حل کر لیا ہے میرے پاس نکاح نامہ نہیں ہے مگر اس نکاح خواں کا حلیفہ بیان ہے کہ اس نے چوبیس سال پہلے آپ دونوں کا نکاح پڑھایا تھا اور اس کے بعد کس طرح اس سے اس نکاح کا ریکارڈ حاصل کیا گیا اور اسے اپنی رہائش کا شہر بدلنے پر مجبور کر دیا گیا۔ چونکیے مت’ میں اس نکاح خواں سے مل چکی ہوں۔ میرے پاس ان چاروں گواہوں کے حلفیہ بیانات بھی ہیں کہ یہ شادی ان کے سامنے ہوئی تھی۔ تم انہیں بھی نہیں چھپا سکے۔ شادی کی تصاویر تم نے غائب کر دی تھیں۔ مگر کچھ تصاویر ماموں کے پاس تھیں۔ لیفٹیننٹ کرنل عمر جعفر کے پاس اور وہ اب میرے پاس ہیں۔ ملتان میں شادی کے بعد جس ہوٹل میں تم دو دن ٹھہرے تھے۔ میرے پاس ان دونوں کا ریکارڈ بھی ہے۔ وہاں تم نے اپنا شناختی کارڈ نمبر اور سائن کئے ہوئے ہیں۔ مسٹر اور مسز حسن دانیال کے ناموں کے نیچے۔”
اس کے لہجے میں بے حد ٹھنڈک تھی اور یہ ٹھنڈک بریگیڈئر حسن دانیال کے اعصاب کو سن کرنے لگی تھی۔
”کیا اتنے ثبوت کافی نہیں ہیں؟ نہیں اتنے ثبوت کافی نہیں ہیں کچھ اور بھی ہونا چاہیے تمہارے خلاف۔ میرے پاس اسی ہوٹل کا ایک ہفتے کا ریکارڈ بھی ہے جہاں کشمیر میں شادی کے بعد تم ٹھہرے تھے۔ وہاں بھی مسٹر اینڈ مسز حسن دانیال کے دستخط اور آئی ڈی کارڈ نمبر موجود ہیں۔چوبیس سال پہلے تم نے کس ڈیٹس پر چھٹیاں لی تھیں۔ میرے پاس تمہارا وہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور ایک آخری چیز میں نے تمہارا میڈیکل ریکارڈ نکلوایا ہے۔ تمہارا بلڈ گروپ B+ ہے میرا اور جویریہ کا بھی یہی ہے۔ کیا اولاد ثابت ہونے کیلئے یہ کافی نہیں ہے اور اگر یہ کافی نہیں ہے تو پھر Paternity test کے بعد یہ بات ثابت ہو جائے گی۔ پھر تم کیا کرو گے بریگیڈئر حسن دانیال! کس کس چیز کو غلط ثابت کرو گے۔ دس چیزوں کو جھوٹا ثابت کرو گے۔ میں دس اور لے آؤں گی۔
”آل رائٹ تم نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے۔ ہمیں کوئی ڈیل کر لینی چاہیے۔ میں تمہاری ساری شرائط ماننے کو تیار ہوں۔ تمہیں روپیہ چاہیے میں وہ دینے کو تیار ہوں۔ تمہیں نام چاہیے۔ میں وہ بھی دینے کو تیار ہوں۔ میں مان لوں گا کہ تم لوگ میری بیٹیاں ہو اور سنبل سے میں نے شادی کی تھی۔ تمہیں جائیداد میں سے حصہ چاہیے۔ میں وہ بھی دوں گا۔ میرا خاندان بھی تم لوگوں کو قبول کر لے گا مگر تم اس سب کو سیکرٹ رہنے دو۔ عدالت میں جانے کی ضرورت ہے نہ پریس میں’ میں کسی اسکینڈل کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔ چند دنوں تک میری پروموشن ہونے والی ہے۔ میں نہیں چاہتا۔ اس میں کوئی رکاوٹ آئے۔” اس بار بریگیڈئر حسن دانیال کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔
”ہاں ڈیل ہونی چاہیے لیکن میری شرائط پر۔ تمہارے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تم کورٹ میں ہمارا مقابلہ کرو۔ ہمیں غلط ثابت کرو۔ ہمارے ساتھ کوئی ڈیل نہ کرو اور دوسرا۔”
وہ بات کرتے کرتے رکی تھی۔
”دوسرا؟” وہ بے چین تھے۔
”وہ دوسرا راستہ زیادہ قابل عزت ہے۔ تم قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لو۔”
بریگیڈئر حسن دانیال کے دل پر جیسے کسی نے گھونسہ مارا تھا۔
”رابیل ! تم۔”
اس نے بریگیڈئر حسن دانیال کی بات کاٹ دی۔ ایک ہاتھ اٹھا کر بڑے دھیمے’ ٹھنڈے اور پر سکون انداز میں اس نے کہا تھا۔
”مجھے بات پوری کرنے دو۔ تم اگر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لو گے تو میں یا کوئی اور دوبارہ یہ معاملہ لے کر تمہارے سامنے نہیں آئیں گے۔ یہ قصہ ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے گا۔ تم اپنی فیملی کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزار سکو گے۔ تمہارے خاندان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ دوسری صورت میں تم جانتے ہو’ کیا ہو گا۔”
”رابیل! اس طرح مت کہو۔ میں تمہیں سب کچھ دینے کو تیار ہوں مگر میرا کیریئر تباہ۔”
اس نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی تھی۔
”جو چیزیں تم دینا چاہتے ہو۔ اب مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ باپ کے طور پر ایک نام پہلے ہی میرے پاس ہے’ چند سال بعد شادی ہو گی تو شوہر کا نام میرے ساتھ لگ جائے گا۔ تمہارے نام کی تو ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ جو پیسہ دینا چاہتے ہو اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میری ماں نے میری پرورش حلال کے پیسے سے کی ہے۔ تمہارا حرام ذرائع سے اکٹھا کیا ہوا پیسہ مجھے سوٹ نہیں کرے گا۔”
”رابیل! مجھے سوچنے کیلئے وقت دو۔”
”ہاں وہ میں ضرور دوں گی۔ میں دس منٹ دیتی ہوں۔ اس میں فیصلہ کرو۔” بریگیڈئر حسن دانیال چیخ پڑے تھے۔
”دس منٹ۔”
”تم میرے ساتھ کیسے کر سکتی ہو۔ تم بیٹی ہو میری۔” اس نے کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی تھی۔
”دس منٹ اب شروع ہوتے ہیں۔” اس کا اطمینان دل ہلا دینے والا تھا۔
”میں مانتا ہوں رابیل مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں نے تم لوگوں پر زیادتی کی۔ مگر تم نہیں جانتیں میں مجبور تھا۔ میں بہت مجبور تھا۔”
وہ اس سے کہہ رہے تھے۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔ ”جذبات سے کام نہ لیں۔ ٹائم کم ہے ماضی کے بارے میں مت سوچیں۔ ماضی کی غلطیوں کو بھول جانا چاہیے۔ مرد ایسی بہت سی غلطیاں کرتا رہتا ہے۔ آج کے بارے میں سوچیں۔ اپنی چوائس کے بارے میں سوچیں۔ آپ کے پاس آٹھ منٹ رہ گئے ہیں۔”
”رابیل! مجھے سمجھنے کی کوشش کرو’ مجھ پر بہت پریشر تھا۔ میں آج بھی سنبل سے محبت کرتا ہوں۔ میں آج بھی تم دونوں کو چاہتا ہوں’ میں تم لوگوں کو کبھی بھول نہیں پایا۔” ان کی جان پر بنی ہوئی تھی۔
”جن لوگوں کا ساتھ آپ کو معذور کر دے ان کے بارے میں مت سوچیں۔ اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں سوچیں چوائس کریں۔” اس کے لہجے کی ٹھنڈک اب حسن دانیال کیلئے نشتر بن گئی تھی۔
”میرا کیریئر میرے لئے سب کچھ ہے۔ یہ ختم ہو گا’ تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ میرے لئے دنیا میں باقی کچھ نہیں رہے گا۔ تم میری اولاد ہو۔ میرا خون ہو۔ تم اپنے باپ کو تباہ کیسے کر سکتی ہو؟” وہ اب گڑگڑا رہے تھے۔
”دو منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ دو منٹ کے بعد اگر آپ نے اپنی چوائس نہ بتائی تو میں سمجھوں گی۔ آپ نے پہلے راستے کو منتخب کیا ہے۔” وہ کسی برفانی گلیشئر کی طرح ان کے سامنے کھڑی تھی۔
بریگیڈئر حسن دانیال اسے مار ڈالنا چاہتے تھے ماضی کا یہ فتنہ۔
”میں ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔” اس نے دسویں منٹ میں انہیں کہتے سنا تھا۔
”آپ بہت عقل مند ہیں۔ آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا۔” اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب مسکراہٹ تھی۔ وہ بے جان سے ہو کر بینچ پر بیٹھ گئے۔ سر اٹھا کر انہوں نے اسے دور گالف کورس کو پار کرتے دیکھا تھا۔
…***…
”تم جو کچھ کر رہی ہو غلط کر رہی ہو’ میں نے تم لوگوں کو یہ سب نہیں سکھایا۔” سنبل اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”آپ ایک ایسے شخص کی حمایت کر رہی ہیں جس نے چوبیس سال پہلے آپ کو آپ کی بچیوں سمیت اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا۔”
”رابی! میں اب ماضی یاد کرنا نہیں چاہتی۔ میں ماضی یاد کر کر کے تھک چکی ہوں۔ میں نے تم لوگوں کیلئے بہت محنت کی ہے۔ میں اب تم لوگوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ میں نہیں چاہتی تم لوگوں کو کوئی نقصان پہنچے۔ تم ان کی طاقت سے واقف نہیں ہو۔ میں واقف ہوں۔”
”آپ کیوں خوفزدہ ہیں اس شخص سے وہ اگر میرے یا جویریہ کے خلاف کچھ کر سکتا تو کر چکا ہوتا۔ وہ آپ کو فون کر کے اس طرح مجھے روکنے کیلئے نہ بھجواتا۔”
سنبل نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔
”رابی! ماماٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ہمیں اب ان جھگڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ ہمیں جائیداد میں حصہ دینے کو تیار ہیں۔ ہم سے معافی مانگنے کو تیار ہیں ہمیں اپنے خاندان کا حصہ بنانے پر تیار ہیں۔ کیا یہ سب کافی نہیں؟” اس بار جویریہ نے اس سے کہا تھا۔
”نہیں’ یہ کافی نہیں ہے۔ جو چیزیں تم چاہتی ہو جویریہ وہ میں نہیں چاہتی۔ تمہیں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ تم ان کے پاس جاؤ اور صلح کر لو۔ مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچنا چاہتی ہوں اور میں یہی کروں گی۔” وہ ابھی بھی اپنی ضد پر قائم تھی۔
”اس سے تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟” سنبل نے بے بسی سے کہا تھا۔
”ہر کام فائدہ یا نقصان کیلئے نہیں کیا جاتا۔”
”میں نے تمہیں انتقام لینا کبھی نہیں سکھایا۔ یہ انتہا پسندی تم نے کہاں سے سیکھی ہے؟ میں نے تو تمہیں زندگی کو بہت متوازن طریقے سے برتنا سکھایا تھا۔”
”میں زندگی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہی کر رہی ہوں ماما! آپ جانتی ہیں’ اس شخص نے مجھے گالی دی۔ اس نے مجھے کتیا کہا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اس کی بیٹی ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے مجھ پر اور آپ پر ظلم کیا ہے پھر بھی اس شخص نے مجھے گالی دی۔ میں یہ سب کرنے کیلئے اس سے ملنے نہیں گئی تھی لیکن جب اس نے مجھے گالی دی۔ جب اس نے میرا وجود ماننے سے انکار کر دیا۔ تب میں نے یہ طے کیا تھا کہ میں بھی اس شخص سے وہ چیز چھینوں گی جو اس کیلئے سب سے اہم ہے اور پتا ہے ماما! وہ چیز کیا ہے اس کا کیریئر جنرل کا عہدہ جس کیلئے وہ پلاننگ کر رہا ہے۔ اس شخص کا باپ اپنے خاندان کی تاریخ پر کتاب لکھ رہا ہے ایسا خاندان جس کی تین نسلوں میں جنرل ہوں گے’ مگر ماما! ایسا کبھی نہیں ہو گا’ اس شخص کی تیسری نسل میں جنرل نہیں ہو گا۔ حسن دانیال کبھی جنرل نہیں بنے گا اور وہ جنرل نہیں بنے گا تو یہ شخص ختم ہو جائے گا اور میں یہی چاہتی ہوں۔”
سنبل نے گیلی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
”وہ جنرل نہیں بنے گا۔ اس کا بیٹا بن جائے گا۔ تم کس کس کو رو کو گی؟”
”بن جائے۔ اس کا بیٹا بے شک جنرل بن جائے مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ غلطی حسن دانیال نے کی تھی۔ سزا اس کو ملنی چاہیے۔ میں اس کے بیٹے کے لئے کوئی کنواں نہیں کھودوں گی۔ مجھے صرف حسن دانیال سے غرض ہے۔ تیسری نسل میں جنرل نہیں ہونا چاہیے۔” اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا تھا۔
”میں کسی کو اس کی غلطی کی سزا نہیں دینا چاہتی۔ اگر اس نے غلطی کی تھی تو ایک غلطی میں نے بھی کی تھی۔ اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اس سے شادی کر کے۔”
”آپ نے چوبیس سال اس غلطی کی سزا کاٹی ہے آپ نے اپنی زندگی کے چوبیس سال گنوا دئیے۔ اس شخص نے کیا گنوایا۔ آپ چوبیس سال اپنے خاندان کے بغیر رہیں۔ آپ نے شادی نہیں کی۔ اس شخص کی اولاد کو پالتی رہیں اور اس اولاد سے یہ تک نہیں کہہ سکیں کہ وہ آپ کی اپنی اولاد ہے۔ اس شخص کو کیا نقصان ہوا۔ ایک خوبصورت بیوی’ تین بچے’ بڑا عہدہ’ نام’ شہرت’ روپیہ اس نے چوبیس سال میں کیا نہیں پایا۔ آپ کو وعدے کے باوجود انکوائری میں کلیئر نہیں کیا گیا۔ ڈی موٹ کر دیا گیا اور دوبارہ کبھی پروموشن نہیں دی گئی۔ اس شخص نے یا اس کے باپ نے ترس کھایا؟ نہیں ماما! کچھ چیزوں کے بارے میں حساب کتاب صاف رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ کیا جائے تو ہم دوسروں کے راستے میں پتھر رکھ دیتے ہیں ٹھوکر کھانے کے لئے۔ میں اس پتھر کو رستے سے ہٹا دینا چاہتی ہوں اور میں ماما! میں خوفزدہ نہیں ہوں۔”
اس نے ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر بولا تھا۔ سنبل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں حسن کی آنکھیں تھیں اور اس کی آنکھوں میں اس وقت وہی سفاک چمک تھی جو آخری ملاقات میں حسن کی آنکھوں میں تھی’ تب چوبیس سال پہلے اس چمک نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اس پر ترس نہیں کھائے گا آج چوبیس سال بعد وہی چمک ایک بار پھر کہہ رہی تھی کہ وہ اس پر ترس نہیں کھائے گی۔ تب چوبیس سال پہلے اس نے اپنے پیروں میں بھنور کو لپٹتے دیکھا تھا۔ آج چوبیس سال بعد وہ بھنور حسن کے تعاقب میں تھا۔ چوبیس سال پہلے اسے کسی نے نہیں بچانا چاہا تھا۔ آج وہ حسن کو بچانا چاہتی تھی اور یہ ممکن نہیں تھا۔
اس کے کانوں میں حسن کی آواز آ رہی تھی جب دو دن پہلے وہ فون پر گڑگڑاتے ہوئے اس سے معافی مانگ رہا تھا۔ اس سے منت کر رہا تھا کہ وہ رابیل کو سمجھائے۔
اسے بتا رہا تھا کہ وہ کتنا مجبور ہو گیا تھا۔ اسے بتا رہا تھا کہ اسے اس سے کتنی محبت تھی۔
اسے قسم دے رہا تھا کہ وہ رابیل سے بات کرے اسے سمجھائے۔
وہ چپ چاپ اس کی باتیں سنتی رہی تھی۔ اس نے کبھی اسے اس لہجے’ اس انداز سے بولتے نہیں سنا تھا۔ حسن دانیال تو خدا کی طرح بات کرتا تھا اور پھر اسے اس پر بے تحاشا ترس آیا تھا۔
”میں اس سے بات کروں گی۔” اس نے فون رکھ دیا تھا اور اب وہ رابیل کو دیکھ رہی تھی اور اسے یاد آ رہا تھا کہ وہ ہمیشہ اسے حسن دانیال کی یاد دلاتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں’ اس کی مسکراہٹ’ اس کے انداز سب کچھ حسن کا تھا اور اسے ہر بار خوف آتا تھا کہ کہیں وہ حسن جیسی نہ ہو’ اس کا خوف سچ ثابت ہوا تھا۔ وہ خوبصورت تھی’ دلکش تھی۔ لوگوں کو مسحور کر لیا کرتی تھی۔ بالکل حسن کی طرح اور وہ بے رحم بھی تھی جیسے حسن۔ اس کے نام کے ساتھ حسن کا نام نہ سہی مگر اس کی رگوں میں اسی کا خون تھا اور اسے اپنے باپ سے بہت کچھ وراثت میں ملنا تھا۔ جو اسے ملا تھا’ فرق صرف یہ تھا کہ اس بار سنبل کے بجائے حسن کو بھگتنا تھا۔
”اور کاش میں رابیل کو روک سکتی’ کاش میں اسے بتا سکتی کہ وہ میرے لئے کیا ہے۔ اس سب کے بعد بھی جو اس نے کیا۔ ان چوبیس سالوں کے بعد بھی مجھے اس شخص سے محبت ہے اور جس سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی راہ میں کانٹے نہیں بچھاتے مگر رابیل’ وہ یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتی۔
اس نے تھکے تھکے انداز میں صوفہ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔
…***…
اسے یاد آ رہا تھا۔ چھ ماہ کے بعد حسن دانیال نے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اس ریٹائرمنٹ کے تین دن بعد اس نے عنبرین حسن سے ملاقات کر کے انہیں تمام ثبوتوں کے ساتھ اپنی کہانی سنا دی تھی۔
حسن دانیال نے اس رات فون کر کے ایک بار پھر اسے گالیاں دی تھیں ان کا خیال تھا کہ اس نے فراڈ کیا ہے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا اور یہ بات سنبل سے بھی چھپی نہیں رہ سکی تھی۔
”تم نے یہ کیوں کیا رابیل؟ جب تم وعدہ کر چکی تھیں کہ تم سب کچھ چھپا لو گی اور اس نے تمہاری بات مان لی تھی تو پھر ایسا کیوں ؟”
”ماما! میں وعدے پورے نہیں کر سکتی۔ بالکل حسن دانیال کی اور ان کے باپ کی طرح انہوں نے بھی تو انکوائری کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر ایسا نہیں کیا۔ میں بھی چاہتی تھی کہ یہ شخص کہیں اور نہیں تو اپنے گھر میں تو دھتکارا جائے۔ اپنی بیوی اور بچوں کے ہاتھوں۔”
”تم رابیل! تم۔” سنبل اسے مایوسی کے عالم میں دیکھتی رہی تھی اس نے سرجھکا لیا تھا۔
اور آج آٹھ سال کے بعد اس نے پھر سے اسی چہرے کو دیکھا تھا۔ وہ آٹھ سال پہلے کے حسن دانیال کا صرف سایہ ہی لگ رہا تھا۔ چہرے پر پھیلی ہوئی جھریاں’ لاغر وجود’ جھکے ہوئے کندھے’ زرد رنگت’ اس نے ایک نظر میں جیسے اسے اندر تک جانچ لیا تھا۔ اسے آٹھ سال پہلے گالف کورس میں کھڑے بریگیڈئر حسن دانیال کا غرور وطنطنہ یاد آیا تھا۔
”تمہیں نیند آ رہی ہے؟” اس نے میجر عثمان کی آواز سنی تھی آنکھیں کھول کر اس نے اپنے گردو پیش کو سمجھنے کی کوشش کی۔
”نہیں۔ بس کچھ تھک گئی ہوں۔”
اس نے اسامہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔ ”ایک ہفتہ کے بعد میں ایکسر سائز پر چلا جاؤں گا۔ تم چند دن کی چھٹی لے کر ماما کے پاس چلی جانا۔ کچھ ریلیکس ہو جاؤ گی وہاں۔” عثمان نے اس سے کہا تھا۔
”ماما۔ ہاں ماما کے پاس چلی جاؤں گی۔” اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”میں بھی نانو کے پاس جاؤں گا اور پھر میں ان سے کہوں گا کہ مجھے کھلونے لے کر دیں اور اگر نہ دئیے تو۔”
اسامہ کی بیٹری ایک بار پھر چارج ہو گئی۔ رابیل نے مسکراتے ہوئے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

…***…




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!