ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

”امی! آپ میری بات مان کیوں نہیں لیتیں؟” وہ ایک بار پھر اپنے گھر والوں کو منانے کے لیے ملتان آئی تھی۔
”میں تمہاری بات نہیں مان سکتی۔ تم حماقت کرنا چاہتی ہو اور میں تمہیں ایسا کرنے نہیں دوں گی۔”
”امی آپ فضول ضد کر رہی ہیں میں حسن کے ساتھ بہت خوش رہوں گی۔ یہ میں جانتی ہوں۔ آپ میری خوشی کیوں نہیں چاہتیں؟”
”آپی ! آپ اس شخص کو نہیں جانتیں۔ میں نے اس کے بارے میں پتا کروایا ہے وہ اول نمبر کا فلرٹ ہے۔ اس کی ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے وہ آپ کو خوش نہیں رکھ سکتا۔” اس کے چھوٹے بھائی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس کی بات پر جیسے بھڑک اٹھی تھی۔
”تمہیں کس نے کہا تھا اس کے بارے میں پتا کروانے کو میں اس کے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں اور مجھے معلومات کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اچھا ہے یا بُرا شادی مجھے اس کے ساتھ ہی کرنی ہے۔”
”تم جانتی ہو۔ وہ عمر میں تم سے کتنا چھوٹا ہے۔”
”جانتی ہوں مگر اگر اسے اس کی پروا نہیں ہے تو پھر مجھے بھی نہیں ہے۔” اس کا لہجہ قطعی تھا۔
”تم دونوں کو اس کی پروا ہو یا نہ ہو دنیا کو ہے۔”
”ہمیں دنیا کے ساتھ نہیں رہنا۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے۔” ”مگر رہنا تو اسی دنیا میں ہے نا؟”
”امی! یہ اعتراضات مت کریں۔ میں نے اپنی پوری جوانی آپ لوگوں کی زندگیاں بنانے میں لگا دی ہے آپ کی خواہشات پوری کرنے میں ختم کر دی ہے اور جب میری زندگی کی باری آئی ہے تو آپ لوگ اعتراض کر رہے ہیں مجھے دنیا کی پروا کرنے کو کہہ رہے ہیں میں نے تو دنیا کی پروا نہیں کی تھی۔ جب اپنے سے چھوٹی بہنوں کی شادی کر دی تھی۔ پھر آپ کو دنیا کیوں یاد آ گئی ہے؟”
”تم اپنی زندگی برباد کرنے کی خواہش کر رہی ہو۔ اس لیے اعتراض کر رہی ہوں۔ جانتی ہوں تم نے بہت قربانی دی ہے۔ بہت ایثار کیا ہے۔ اسی لیے چاہتی ہوں کہ تمہاری باقی زندگی اچھی گزرے تمہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ مگر یہ بندہ تمہیں خوش نہیں رکھ سکتا۔ اس کے ساتھ میں تمہاری شادی نہیں کر سکتی۔”
”امی! آپ میری شادی کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ آپ کیوں چاہیں گی کہ آمدنی کا ایک ذریعہ بند ہو جائے۔”
اس کی امی کو شاک لگا تھا اور سنبل لاشعوری طور پر حسن کی باتیں دہرا رہی تھی۔ اس کا بھائی ہونٹ بھینچے اسے دیکھ رہا تھا۔
”آپ چاہتی ہیں ساری زندگی میں اسی طرح کما کما کر آپ کو روپے بھیجتی رہوں اور آپ اپنی دوسری اولادوں پر خرچ کرتی رہیں۔ میری زندگی برباد کر کے آپ کو کیا ملے گا؟”
اس کی امی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ مگر وہ بولتی جا رہی تھی۔
”ٹھیک ہے آپ جہاں چاہیں گی۔ آپ کی شادی وہیں ہو گی۔ مگر ایک دفعہ جب آپ کی شادی اس آدمی کے ساتھ ہو جائے تو آپ یہاں دوبارہ آنے کی زحمت نہ کیجیے گا نہ ہی ہم سے دوبارہ ملیے گا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے ہم پر بہت احسانات ہیں اور میں اتنا کمینہ نہیں ہوں کہ ساری عمر آپ کے احسانات سر پر لیے پھرتا رہوں گا۔ ہم آپ کے لیے پہلے ہی رشتہ تلاش کر رہے تھے اور وہ اس شخص سے بہت بہتر ہوتا جو آپ نے تلاش کیا ہے۔ بہرحال آپ طے کر لیجیے۔ آپ کو کب شادی کرنا ہے۔ میں سارے انتظامات کر دوں گا۔”
اس کے بھائی نے جیسے منٹوں میں فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ کسی شرمندگی اور پچھتاوے کے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ اسے اب اپنے اور حسن دانیال کے درمیان کوئی دیوار نظر نہیں آ رہی تھی۔
…***…





دو ہفتے کے بعد بڑی سادگی سے ملتان میں ان دونوں کی شادی ہو گئی تھی۔ حسن بارات میں اپنے چند دوستوں کو لایا تھا اور اس کی طرف سے بھی صرف اس کے گھر والے شادی میں شریک تھے۔ شادی کی تمام رسومات بڑے بجھے دل سے ادا کی گئی تھیں۔ اس کے بھائی نے رخصتی کے موقع پر اسے پچاس ہزار کا چیک دیا تھا۔
”پتا نہیں یہ روپے اس نے کس طرح اکٹھے کیے ہوں گے۔” اسے خیال آیا تھا۔ مگر وہ کچھ کہہ نہیں سکی تھی۔
”میں اس گھر میں آنا بھی نہیں چاہتی۔ میرے لیے حسن کافی ہے۔” اس نے سوچا تھا۔
دو دن تک وہ ملتان کے ایک ہوٹل میں رہے تھے پھر حسن اسے لے کر کشمیر چلا آیا تھا۔ وہ دونوں ایک ہفتہ تک وہاں رہے تھے اور اس پورے عرصہ کے دوران سنبل کو ایک بار بھی اپنے فیصلے پر پچھتاوا نہیں ہوا تھا۔ حسن کے ہر انداز میں اس کے لیے التفات تھا ستائش تھی دیوانگی تھی اور وہ جیسے زمین پر نہیں آسمان پر رقصاں رہتی تھی۔
”وہ میرے لیے کیا تلاش کرتے؟ کیا یہ محبت ڈھونڈ سکتے تھے؟ کیا حسن دانیال تلاش کر سکتے تھے؟” اسے اپنے بھائی کی بات یاد آتی اور وہ سوچتی۔
ایک ہفتہ کے دوران انہوں نے اپنے مستقبل کو بھی پلان کرنا شروع کر دیا تھا۔
”میں ابھی اس شادی کو خفیہ رکھنا چاہتا ہوں۔ کم از کم چند مہینے۔ اس کے بعد اپنے گھر والوں کو اس کے بارے میں بتا دوں گا۔ تم واپس جا کر یہ مت بتانا کہ تمہاری شادی مجھ سے ہوئی ہے۔ تم کہہ دینا کہ تمہارے شوہر باہر چلے گئے ہیں۔” وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
”اور اگر کسی نے شادی کی تصویریں دیکھنا چاہیں تو ؟”
”تم کہہ سکتی ہو کہ شادی کی تصویریں نہیں بنائی گئیں۔ شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی اور تمہارے سسرال والے تصویریں بنوانا پسند نہیں کرتے۔”
”اور اگر کسی نے کہا کہ شوہر کی کوئی تو تصویر ہو گی وہ میں لادوں گا اگر کوئی اصرار کرے تو تم وہ دکھا سکتی ہو۔” اس نے سب کچھ جیسے پہلے ہی طے کر رکھا تھا۔
ایک ہفتہ کے بعد وہ دونوں واپس لاہور آ گئے تھے۔ اپنی آمد کے دوسرے دن اس نے ایک بار پھر ہاسپٹل جوائن کر لیا تھا۔ اپنی کولیگز کو اس نے اسی طرح ٹالا تھا جس طرح حسن نے اسے سمجھایا تھا۔ حسن اب ہر روز ہاسپٹل نہیں آتا تھا مگر اسے فون ضرور کیا کرتا تھا ہر ویک اینڈ وہ دونوں اکٹھے گزارتے تھے اور حسن ہمیشہ اسے کینٹ ایریا سے باہر تفریح کے لیے لے کر جاتا تھا۔ وہ شادی کے بعد بہت محتاط ہو چکا تھا۔ وہ ہر اس جگہ اس کے ساتھ جانے سے گریز کرتا تھا جہاں کسی جاننے والے کے ملنے کا امکان ہوتا۔ اور سنبل اس معاملہ میں اس کی پوری مدد کرتی تھی۔
چند ماہ بعد اسے پتا چلا تھا کہ وہ پریگننٹ ہے۔ وہ بہت خوش تھی مگر حسن کو یہ خبر سن کر جیسے شاک لگا تھا۔
”تم جانتی ہو سنبل! ہم ابھی کوئی بچہ افورڈ نہیں کر سکتے اور پھر بھی تم نے۔” وہ بے حد غصے میں تھا۔
”افورڈ کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ جس طرح ہم رہے ہیں وہ بچہ بھی رہ لے گا۔” وہ اس کے لہجے پر حیران تھی۔
”لیکن تمہیں اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ ہماری شادی کو ابھی صرف تین ماہ ہوئے ہیں۔ ابھی تو ہم ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے اور تم ایک نیا رشتہ چاہتی ہو۔ تم احمق ہو۔” وہ ابھی بھی اس طرح مشتعل تھا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی ”لیکن اب ہو کیا سکتا ہے؟”
”ابھی بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے’ تم ابارشن کروالو۔” وہ اسے شاک کے عالم میں دیکھتی رہ گئی تھی۔
”تم کیا کہہ رہے ہو حسن؟”
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ مجھے ابھی کسی بچے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم ابارشن کروالو۔”
”کیا یہ آسان کام ہے؟”
”ہاں کم از کم تمہارے لیے بہت آسان ہے۔ آفٹر آل تم نرس ہو’ تمہارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔”
وہ اسے بے یقینی کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔ شادی کے بعد پہلی بار اسے اپنی امی کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔
”میں یہ نہیں کر سکتی حسن! چاہے کچھ ہو جائے۔ میں یہ نہیں کروں گی۔ تم نے کہا تھا۔ تم دو تین ماہ بعد اپنے والدین کو اس شادی کے بارے میں بتا دو گے پھر ہم اکٹھے رہنا شروع کر دیں گے۔ تم اپنے والدین کو کیوں نہیں بتا رہے۔”
”میں انہیں بتا دوں گا۔ میں کوئی جلد بازی کرنا نہیں چاہتا لیکن تم میری بات کے بارے میں دوبارہ سوچو’ ابھی ہمیں کسی بچے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی اور میری مشکلات میں مزید اضافہ مت کرو۔”
”مجھے تمہاری بات کے بارے میں کچھ نہیں سوچنا۔ میں کہہ چکی ہوں میں ابارشن نہیں کرواؤں گی۔ یہ بچہ میرے یا تمہارے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔” اس نے دوٹوک انداز میں کہا تھا۔
وہ کچھ دیر تیز نظروں سے اسے گھورتا رہا۔ ”تم بہت ضدی ہو سنبل! مجھے ضدی عورتیں اچھی نہیں لگتیں۔” یہ اس کی طرف سے ناپسندیدگی کا پہلا اظہار تھا۔
”میں ضدی نہ ہوتی تو آج تمہاری بیوی بھی نہ ہوتی۔”
وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ ”آؤ تمہیں ہاسٹل چھوڑ دوں۔” وہ مزید کچھ کہے بغیر بینچ سے اٹھ گیا تھا۔ اس شام پہلی دفعہ وہ پورا راستہ خاموش رہا تھا۔ ہونٹ بھینچے وہ تیز رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا تھا سنبل بجھے دل سے اسے دیکھتی رہی۔ اسے پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
وہ چند دن خفا رہا تھا سنبل نے اسے دو تین بار فون کیا پھر وہ دوبارہ آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس نے ابارشن کے بارے میں دوبارہ بات نہیں کی تھی مگر وہ بچے کے ذکر میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اس کے لیے جیسے اس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ وہ اب پہلے کی طرح سنبل سے اپنی محبت کا اظہار بھی نہیں کرتا تھا نہ ہی اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا تھا۔ وہ بس کچھ دیر کیلئے آتا پھر اپنی کسی مصروفیت کے بارے میں بتا کر چلا جاتا۔
ڈلیوری سے دو ماہ پہلے سنبل نے کرائے پر ایک چھوٹا سا گھر لے لیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ حسن اب اسے زیادہ وقت دے۔ اس کی ضد پر حسن روز وہاں آیا کرتا تھا مگر وہ خوش نہیں تھا۔ کسی نہ کسی بات پر ان کے درمیان تلخ کلامی ہو جاتی تھی۔ ہر بار سنبل ہی اسے منایا کرتی تھی وہ جانتی تھی اس کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔
ایک پرائیویٹ کلینک میں سنبل کے ہاں جڑواں بچیوں کی پیدائش ہوئی تھی۔ حسن تب اس کے پاس ہی تھا۔ اس کا ردعمل بالکل نارمل تھا۔ وہ نہ خوش تھا نہ ناراض۔ اس نے بچیوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی تھی۔ ایک ہفتہ کے بعد گھر آنے پر سنبل نے اسے بچیوں کے نام رکھنے کے لیے کہا تھا مگر اس نے یہ کام بھی اسی پر چھوڑ دیا تھا۔
شادی کے بعد سے وہ ایسے جھٹکوں کی عادی ہو چکی تھی۔ اس نے اس شاک کو بھی بہت صبر سے برداشت کیا تھا۔ اس نے خود ہی دونوں بچیوں کے نام رکھ دیے تھے۔ جب وہ دونوں دو ماہ کی ہو گئیں تو اس نے ایک بار پھر ہاسپٹل جانا شروع کر دیا۔ گھر میں اس نے بچیوں کے لیے ایک عورت رکھ لی تھی جو اس کی غیر موجودگی میں ان دونوں کو سنبھالتی تھی۔
…***…
”السلام علیکم پاپا! کیسے ہیں آپ؟” اس دن شام کو میس آتے ہی اس کے والد کا فون آیا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ تم کل راولپنڈی آ جاؤ۔” ان کا لہجہ حسن کو بہت عجیب لگا تھا۔
”کیا بات ہے پاپا! خیریت تو ہے؟” وہ کچھ پریشان ہو گیا تھا۔
”ہاں خیریت ہے۔ تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے’ کل صبح لاہور سے روانہ ہو جاؤ۔”
”لیکن پاپا! اس طرح اچانک چھٹی ملنا تو مشکل ہے۔”
”وہ تمہارا نہیں میرا مسئلہ ہے۔ میں بات کر چکا ہوں تمہیں چھٹی مل جائے گی۔”
”ٹھیک ہے’ میں آ جاؤں گا۔”
”خدا حافظ۔” اس کے والد نے فون بند کر دیا تھا۔ وہ کچھ پریشان ہو گیا تھا۔ پہلی بار وہ اس طرح بلا رہے تھے۔
”آخر ایسی کیا بات ہے جس کے لیے مجھے اس طرح بلایا جا رہا ہے؟” وہ ساری رات اسی شش و پنج میں رہا تھا۔
دوسری صبح سنبل کو مطلع کرنے کے بعد وہ راولپنڈی روانہ ہو گیا تھا۔ شام کو جب راولپنڈی پہنچا تو اس کے پاپا اس وقت تک گھر نہیں پہنچے تھے۔ اس کی ممی بھی کسی فنکشن میں گئی ہوئی تھیں۔ وہ ان کا انتظار کرتا رہا۔ رات کے کھانے سے کچھ دیر پہلے اس کی امی گھر آ گئی تھیں۔ حسن کو دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی تھی۔
”پتا نہیں پاپا نے کسی کام کے لیے بلوایا ہے۔” اس نے ماں کے استفسار پر بتایا تھا۔
”تمہارے پاپا بھی بس کمال کرتے ہیں۔ انہیں تو بس آرڈرز دینے کی عادت پڑ گئی ہے’ پتا نہیں اب تمہیں کس لیے اتنے شارٹ نوٹس پر بلوایا ہے۔”
اس کی ممی نے اس کی بات سن کر کہا تھا۔ رات کا کھانا ابھی میز پر لگ رہا تھا جب جنرل بابر کریم گھر آ گئے تھے۔ حسن سے وہ جس طرح ملے تھے۔ اس انداز نے اسے مزید تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھے۔
”کھانا بعد میں بھی کھایا جا سکتا ہے۔ تم اس وقت میری اسٹڈی میں آ جاؤ۔” انہوں نے اوپر جاتے ہوئے اسے ہدایت دی تھی۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے اوپر آ گیا۔
”بیٹھو۔” انہوں نے اسٹڈی میں داخل ہوتے ہی ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کے لیے کہا تھا۔ وہ اسٹڈی ٹیبل کی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ بابر کریم اسٹڈی ٹیبل کے دوسری طرف کتابوں کے شیلف کے پاس چلے گئے تھے۔
”لاہور میں کیسا وقت گزر رہا ہے؟” اسے ان کا لہجہ ایک بار پھر عجیب لگا تھا۔
”اچھا گزر رہا ہے۔” اس نے مختصر جواب دیا تھا۔ ”صرف اچھا؟”
”بہت اچھا گزر رہا ہے۔” اس کی بے چینی اب بڑھ گئی تھی۔
”کیا سرگرمیاں ہیں وہاں تمہاری؟”
”وہی جو یہاں تھیں۔”
وہ کچھ دیر تک اس کے چہرے پر غور سے دیکھتے رہے تھے۔ ”یہ سنبل کون ہے؟”
اسے جیسے کرنٹ لگا تھا’ چند لمحوں تک کچھ بول نہیں سکا پھر اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی ”سنبل دوست ہے ایک۔”
”صرف دوست؟”
”ہاں’ کلب چلے جاتے ہیں یا فلم دیکھنے اکٹھے چلے جاتے ہیں۔” اس نے لاپروائی سے کہنے کی کوشش کی۔




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!