ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

”آپ جانتی ہیں’ آپ نے کیا جھوٹ بولا ہے۔”
سنبل کا سانس رکنے لگا تھا۔ رابیل اپنے کمرے سے باہر آ گئی تھی۔
”عمر جعفر ہمارا باپ نہیں ہے۔” جویریہ کا لہجہ تلخ تھا۔
”تم سے کس نے کہا؟ ” اسے اپنا وجود کسی کھائی میں گرتا ہوا لگا۔
”عمر جعفر نے’ آپ کے بھائی نے۔” اس کے دل کی دھڑکن رک گئی تھی۔ اس نے جویریہ کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ بہت آہستگی سے وہ لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ گردن جھکائے وہ بے حس و حرکت کسی مجرم کی طرح بیٹھی رہی۔
جویریہ کو یک دم اس پر ترس آیا ”آپ ٹھیک تو ہیں؟” اس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔
سنبل نے رابیل کو کہتے سنا ”ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے جویریہ! پہلے انہیں بتانے دو کہ انہوں نے ہمارے ساتھ اتنا بڑا فراڈ کیوں کیا ہے؟”
جویریہ اس کے پاس نہیں آئی تھی۔
”اپنے سے کم عمر مرد’ خاندان کی مرضی کے بغیر شادی’ گھر والوں سے بغاوت ‘ طلاق اولاد کی باپ کے نام کے بغیر پرورش۔ جدوجہد’ قربانی’ ٹھوکریں’ اولاد کا کیریئر۔” میں انہیں کیا کیا بتاؤں گی۔ کیا کیا چھپاؤں گی اور میں’ میں چوبیس سال بعد بھی وہیں کھڑی ہوں کٹہرے میں’ خطاوار’ گنہگار مگر ٹھیک ہے میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ میں نے غلطی کی تھی۔ مجھے اس سزا کو بھی قبول کرنا چاہیے۔” اس نے سوچا تھا۔
”تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں نے تم لوگوں سے جھوٹ بولا تھا۔ فراڈ کیا تھا۔ مجھے تم لوگوں کو سچ بتا دینا چاہیے تھا۔ تمہیں فریب میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ مگر میرے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں تم لوگوں کو بچانا چاہتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی تم دونوں…”
”اتنی لمبی چوڑی وضاحتیں پیش مت کریں۔ صرف سچ بولیں۔ وہ جو آپ نے آج تک نہیں بولا۔”
سنبل نے سر اٹھا کر رابیل کو دیکھا تھا۔ وہ اب سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی کی کوئی چمک نہیں تھی۔ اسے یاد آیا تھا حسن سے آخری ملاقات میں وہ بھی اسے اسی طرح دیکھ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے’ مجھے ان کو سب کچھ بتا دینا چاہیے’ چاہے وہ کتنا ہی تلخ’ کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔” اس نے سوچا تھا۔
”بیٹھ جاؤ جویریہ! کھڑے ہو کر تم وہ سب کچھ نہیں سن پاؤ گی۔”
اس نے جویریہ سے کہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے سامنے فلورکشن پر آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری تھی۔ لفظ اکٹھے کرنے شروع کئے تھے۔ کوئی عدالت اولاد کی عدالت سے زیادہ سخت نہیں ہو سکتی اور آج وہ اسی عدالت میں تھی۔ سرجھکا کر اس نے بولنا شروع کر دیا تھا۔ اپنی زندگی کی کہانی’ نرسنگ جوائن کرنا’ بہن بھائیوں کیلئے ایثار’ حسن سے پہلی ملاقات’ اس کا تعاقب کرنا’ اس کا بچنے کی کوشش کرنا’ حسن کی ضد’ اس کی باتیں’ شادی کا پرپوزل اس کا ہار ماننا’ حسن کی محبت میں گرفتار ہونا’ گھر والوں کا شادی کی اجازت نہ دینا’ اس کی ضد’ حسن سے خفیہ شادی’ حسن کا رویہ’ ان دونوں کی پیدائش’ حسن کا طلاق دینا’ انکوائری کے بعد ڈی موشن’ حسن کے باپ کی بلیک میلنگ ‘ اس کا شرائط قبول کرنا’ انہیں حسن دانیال کے بجائے عمر جعفر کا نام دینا’ اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا۔ ایک ایک لفظ ایک ایک جملہ دہرایا تھا۔ وہ سب کہہ دیا تھا جو پچھلے چوبیس سال سے اس کے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔





”مجھے تم لوگوں کی پیدائش پر کوئی شرمندگی تھی نہ پچھتاوا۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ہاں غلطی ضرور کی تھی۔ مگر میں نے تم لوگوں کو اس غلطی کی سزا نہیں دی۔ میں نے تمہارے باپ کی طرح تمہیں نہیں چھوڑا۔ میں چاہتی تو چھوڑ سکتی تھی مگر میں نے ایسا چاہا ہی نہیں میں نے عمر کا ایک حصہ اپنے بہن بھائیوں کیلئے قربان کر دیا۔ باقی عمر تم لوگوں کیلئے گزاری’ اپنے لئے صرف ڈیڑھ سال گزارا تھا۔ اس ڈیڑھ سال نے مجھے پاتال میں پھینک دیا۔ میں دوبارہ کبھی اس پاتال سے باہر نہیں آ سکی مگر میں نے تم دونوں کو اس میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے تم دونوں کو وہ سب کچھ دیا جو میں دے سکتی تھی۔ جو نہیں دے سکی۔ وہ میں نہیں دے سکتی تھی۔ میں نے چوبیس سال اپنے لئے نہیں تمہارے لئے گزارے ہیں مگر میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ مجھے اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتنا ہی تھا۔ میں نے بہت دفعہ تمہیں یہ سب کچھ بتانا چاہا۔ لیکن ہر بار میں خوفزدہ ہو جاتی تھی۔ میں چاہتی تھی۔ تم دونوں بڑی ہو جاؤ۔ اپنے کیریئر اسٹیبلش کر لو پھر میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گی۔ مگر میں پھر بھی ایسا نہیں کر سکی۔ اس سب کی وجہ سے تم دونوں کو جو تکلیف پہنچی ہے’ میں اس کیلئے معافی مانگتی ہوں۔ میں نے چوبیس سال تک تم دونوں کی خدمت کی ہے۔ میں اتنے کی مستحق ہوں کہ مجھے معاف کر دیا جائے۔”
اس نے گیلی آنکھوں کے ساتھ سر اٹھاتے ہوئے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے تھے۔ رابیل اس کے سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بائیں ہاتھ سے منہ کو چھپائے نظریں اس پر جمائے وہ بے حس و حرکت تھی۔ اس نے جویریہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک دیکھی تھی۔ اگلے ہی لمحے وہ بھاگتی ہوئی اس کے ساتھ آ کر لپٹ گئی تھی۔ سنبل نے اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تھا۔ پھر وہ خود بھی اس کے کندھے پر سر رکھ کر بلند آواز میں رونے لگی تھی۔
”آپ نے کوئی غلطی نہیں کی ماما! آپ نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ آپ نے جو کچھ کیا۔ ٹھیک کیا۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔”
اس کے کانوں میں جویریہ کی آواز آ رہی تھی۔ پتا نہیں کتنی دیر وہ جویریہ کو ساتھ لگائے روتی رہی تھی۔ پھر اس نے دروازے کو ایک دھماکے سے بند کرنے کی آواز سنی تھی۔ وہ سسکتے ہوئے جویریہ سے الگ ہو گئی تھی۔ رابیل اب لاؤنج میں نہیں تھی۔ اس کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔
”اس نے مجھے معاف نہیں کیا۔” وہ ایک بار پھر سسکنے لگی تھی۔
”ماما! آپ پریشان نہ ہوں’ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں اس سے بات کرتی ہوں۔”
وہ اسے ہاتھ سے تھپک کر رابیل کے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔ دو تین بار دروازہ زور سے بجانے کے بعد رابیل نے دروازہ کھول دیا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں اور چہرہ بے تاثر۔
”کیا بات ہے؟” اس نے دروازہ کھولتے ہی پوچھا تھا۔
”تم اندر کیوں چلی گئی ہو۔ باہر آؤ’ ہمارے ساتھ بیٹھو۔” جویریہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ اس نے جویریہ کا ہاتھ کندھے سے جھٹک دیا۔
”میں باہر نہیں بیٹھنا چاہتی ہوں۔”
”تم نے مجھے معاف نہیں کیا؟” سنبل نے اس سے کہا تھا۔
”آپ نے چوبیس سال تک سچ چھپایا ہے۔ اب اسے جانچنے کیلئے مجھے چوبیس گھنٹے تو دیں۔”
”تم مجھے مجرم سمجھتی ہو؟”
”میں کسی کو مجرم سمجھتی ہوں نہ بے گناہ’ لیکن مجھے کچھ وقت دیں کہ میں آپ کی باتوں کو سمجھ سکوں ان پر غور کر سکوں۔ جو آپ نے کہا وہ آپ کا ورژن ہے’ مجھے اپنے باپ کی بات بھی سننی ہے تاکہ میں جان سکوں کہ سچا کون ہے اور اگر آپ نے ہم سے غلط بیانی کی ہے تو میں آپ کو معاف نہیں کروں گی اور اگر آپ نے سچ بولا ہے تو میں اپنے باپ کو معاف نہیں کروں گی۔”
اس نے ایک بار پھر ایک جھٹکے سے دروازہ بند کر لیا تھا۔
”ماما ! آپ پریشان نہ ہوں۔ وہ صبح تک نارمل ہو جائے گی۔ اسے آپ کی باتوں پر یقین آ جائے گا۔”
جویریہ ایک بار پھر اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی تھی۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے زبردستی سنبل کو اس کے کمرے میں لاکر لٹا دیا۔ وہ پتا نہیں کب تک جاگتی رہی تھی پھر اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔
صبح وہ چھ بجے اٹھی تھی۔ جویریہ اس کے پاس ہی بیڈپر سو رہی تھی۔ وہ اٹھ کر لاؤنج میں آ گئی۔ لاؤنج کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ باہر آئی۔ بیرونی گیٹ بھی کھلا ہوا تھا۔ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے رابیل کے کمرے میں آئی۔ اس کے کمرے کا دروازہ لاکڈ نہیں تھا اور کمرہ خالی تھا۔ اس کا ٹریول بیگ بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ اسے بتائے بغیر راولپنڈی جا چکی تھی’ وہ ایک شاک کے عالم میں کمرے میں کھڑی رہی۔
…***…
جنرل (ر) بابر کریم جس وقت ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے تو وہ کتابوں کے شیلف کے پاس کھڑی بازو سینے پر باندھے کتابوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ آہٹ پر ان کی طرف پلٹ گئی تھی۔
”گڈ ایوننگ سر۔” انہوں نے اسے کہتے سنا تھا۔ اب اس نے ہاتھ پشت پر باندھ لئے تھے۔
”گڈ ایوننگ۔” انہوں نے اس لڑکی کو گہری نظروں سے دیکھا تھا۔ لیڈی ڈاکٹرز کی مخصوص یونیفارم والی ساڑھی پہنے وہ بہت دراز قد لگ رہی تھی۔ بوائے کٹ بال پنکھے کی ہوا کی وجہ سے ماتھے پر آ رہے تھے۔ جنہیں وہ وقتاً فوقتاً ہاتھ سے پیچھے کر رہی تھی۔ چمکدار ڈارک براؤن آنکھوں والی اس لڑکی سے انہیں کچھ چونکا دیا تھا۔ انہیں یوں لگا تھا جیسے انہوں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا تھا۔
”شاید آپ کیپٹن ڈاکٹر رابیل جعفر ہیں۔” انہوں نے اس سے کہا تھا۔ اس بار انہوں نے اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ ابھرتے دیکھی تھی۔
”یس سر!”
”بیٹھیں۔” وہ اس سے کہتے ہوئے خود بھی صوفے پر بیٹھ گئے۔ ”کرنل ڈاکٹر جاوید نے فون کیا تھا مجھے کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں’ شاید میری کتابوں کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا چاہتی ہیں۔” بابر کریم نے بات شروع کی تھی۔
”یس سر! میں کافی عرصے سے آپ سے ملنا چاہتی تھی۔ آپ کی تقریباً ساری کتابیں پڑھی ہیں میں نے اور آپ کے کالمز بھی پڑھتی رہتی ہوں۔ آپ سے ملنے کا کافی شوق تھا مجھے۔ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں۔”
بابر کریم کے چہرے پر ایک فخریہ مسکراہٹ آئی تھی۔ ”تھینک یو آپ کیا لیں گی؟” چائے یا کافی یا کوئی سافٹ ڈرنک؟”
”جو آپ لیں گے وہی۔” وہ اس کی بات پر مسکرائے تھے۔ ملازم کے آنے پر انہوں نے کافی لانے کیلئے کہا تھا۔
”آپ کے فادر آرمی میں ہیں؟”
”آرمی میں تھے لیکن ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے کئی سال پہلے۔”
”ویری سیڈ کون سے رینک میں تھے؟”
”کیپٹن تھے۔”
”تب تو بہت بچپن میں ہی ان کی وفات ہو گئی ہو گی۔”
”ہاں تب میں صرف دو ماہ کی تھی۔ سر! آج کل آپ اور کیا لکھ رہے ہیں۔ آئی مین کسی نئی کتاب پر کام کر رہے ہیں؟” رابیل نے بات بدل دی تھی۔
”دو تین کتابوں پر کام کر رہا ہوں۔” وہ اسے اپنی کتابوں کی تفصیلات بتانے لگے وہ بڑے غور سے سنتی رہی۔
”آپ نے میری کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟” انہوں نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا تھا۔
”بہت سی Peace Research in South Asia
Geo-political Factors in Pakistan India Relation وہ کتابوں کے نام گنوانے لگی۔
”میں نے آپ کو بتایا ناں میں بہت عرصے سے آپ کو پڑھ رہی ہوں۔”
جنرل (ر) بابر کریم کو اس سے گفتگو کرنا اچھا لگ رہا تھا۔ کافی دیر تک وہ اس سے باتیں کرتے رہے مگر ہر بار اس کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی انہیں کچھ الجھن ہوتی تھی یوں جیسے انہوں نے اسے پہلے بھی دیکھا ہو مگر کہاں؟ وہ باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے میں مصروف تھے۔
”سر! آپ نے کبھی آٹو بائیوگرافی لکھنے کے بارے میں نہیں سوچا؟”کافی پیتے ہوئے اس نے ان سے پوچھا تھا۔
”ہاں’ آج کل میں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ بلکہ میں اپنے آباؤ اجداد کے بار ے میں بھی لکھنا چاہتا ہوں۔ شاید آپ کو پتا ہو میرے والد کرنل تھے’ میں جنرل کے اس رینک تک پہنچا۔ اب میرا چھوٹا بیٹا حسن دانیال بھی اس رینک تک پہنچے گا۔ فی الحال بریگیڈئر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ بڑا بیٹا بھی اس رینک تک ضرور پہنچتا مگر 71ء کی وار کے بعد اسے جنگی قیدی بنا لیا گیا بعد میں اس کو کچھ فزیکل فٹنس کی پرابلمز ہونے لگیں’ اس وجہ سے اس نے آرمی سے جلدی ریٹائرمنٹ لے لی’ مگر حسن کی صورت میں میری فیملی کی تیسری نسل بھی جنرل کی نسل ہو گی۔ان کے لہجے میں بے پناہ فخر اور غرور تھا۔
“That`s great” رابیل کی آواز میں ستائش تھی۔
”میں چاہتا ہوں کہ اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں کچھ تفصیلی کام کروں تاکہ لوگوں کو ان کے بارے میں زیادہ پتا چل سکے۔” وہ رابیل کو اپنی فیملی کے بارے میں بتانے لگے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق کہاں سے تھا۔ ان کا اسٹیٹس کیا تھا۔ ان کے کارنامے کیا تھے ان کی فیملی کے لوگ کون کون سے بڑے اور اونچے عہدے پر کام کر چکے ہیں۔”
رابیل ان کی باتیں سنتی رہی تھی۔ بڑی خاموشی بڑے سکون کے ساتھ۔ بہت دیر بعد جب وہ خاموش ہوئے تو رابیل نے ان سے جانے کی اجازت مانگی۔
”مجھے آپ سے ایک اور بات بھی کرنی ہے مگر آج نہیں جب دوبارہ آؤں گی تب کروں گی۔” اس نے جانے سے پہلے کہا تھا۔
”کیا میں توقع رکھوں کہ آئندہ بھی آپ سے مل سکوں گی؟”
”آف کورس۔” انہوں نے اسے کھلے دل سے اجازت دی تھی۔
”تھینک یو سر۔”
”تم ایک بہت اچھی سامع ہو۔” وہ دروازے سے باہر نکلنے والی تھی جب انہوں نے کہا تھا۔ وہ مسکرائی۔
”میں ایک بہت اچھی مقرر بھی ہوں لیکن آپ کی طرح سوچ سمجھ کر اور صحیح وقت پر بولتی ہوں۔ گڈ بائے سر۔”
وہ دروازے سے نکل گئی۔ جنرل بابر کریم کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ دیر اس کے جملے پر غور کرتے رہے پھر کندھے اچکا کر اندر کی طرف چلے گئے۔
…***…




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!