ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

”تو کیا میں اپنی بیٹیوں کو ان کے باپ کے نام کے بغیر پالوں گی؟ اور اگر یہ نہ کروں تو کیا اپنے بھائی کا کیریئر تباہ کر دوں جس کیلئے میں نے چودہ سال محنت کی تھی اور اب جب وہ۔ تو کیا میں اس کے پیروں کے نیچے سے بھی زمین کھینچ لوں۔ مگر رابیل اور جویریہ کا کیا قصور ہے۔ وہ کیوں باپ کے نام کے بغیر رہیں۔ حسن کا نام نہیں تو انہیں اور کس کا نام دوں اور جاب کا کیا ہو گا؟ جاب سے نکالی جاؤں گی تو کہاں جاؤں گی۔ کیا کروں گی۔”
”اس شادی پر ہمیں اعتراض اس لئے ہے کیونکہ تم اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہو۔”
”آپی ! آپ اس آدمی کو نہیں جانتیں۔ یہ آپ کو خوار کر دے گا۔ یہ گھر بسانے والا بندہ نہیں ہے۔”
”میں ان کا باپ ہوں نہ میں نے اس کے بارے میں سوچا ہے۔ تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مرد ایسی غلطیاں کرتا ہی رہتا ہے۔ میں اب سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں۔”
اس کے دماغ میں آوازوں کا ایک ہجوم تھا۔ بہت سے چہرے بار بار اس کے سامنے آ رہے تھے۔ عمر کا چہرہ’ امی کا ‘ رابیل اور جویریہ کا’ حسن کا’ بابر کریم اور اس کا اپنا چہرہ’ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں بے پناہ طاقت تھی۔ وہ جانتی تھی’ وہ جو کہہ رہا ہے’ وہ کروا سکتا ہے اور اسے ایک راستہ چننا تھا۔ آٹھ منٹ بعد اس نے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ میں بچیوں کو حسن کا نام نہیں دوں گی’ میں اس سارے معاملے کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔ اپنی بیٹیوں کو بھی نہیں۔”
وہ کھڑی ہو گئی۔ اس نے طلاق کے کاغذات اٹھانے چاہے۔
”یہ تمہارے لئے نہیں ہیں۔”
اس نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ وہ ڈرائینگ روم سے باہر نکل آئی۔ گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے اسے حسن کی کار گیراج میں نظر آئی تھی۔
”تو وہ بھی یہاں تھا اور پھر بھی۔” وہ گیٹ سے باہر نکل آئی تھی۔ ”حسن سے شادی میری غلطی تھی۔ سزا بھی مجھے بھگتنا چاہیے۔ میرے گھر والوں کو نہیں۔ رابیل اور جویریہ کو نہیں۔ ان میں سے کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور میرا تھا۔ میں نے اعتبار کیا تھا۔ میں نے ضد کی تھی۔ فریب میں’ میں آئی تھی۔ میں چہرے نہیں پہچان سکی تھی۔ میں نے اپنی اوقات سے بڑھ کر خواب دیکھے تھے۔ میں نے گھر والوں کو غلط سمجھا تھا جھوٹا سمجھا تھا اور میری سزا یہ ہے کہ میں اپنی باقی زندگی خوابوں کے بغیر گزاروں۔ ٹھوکریں کھا کر’ خالی دل کے ساتھ۔”
وہ سڑک پر چلتی ہوئی بڑبڑا رہی تھی۔
دو ہفتوں کے بعد اس کے خلاف انکوائری کا فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔ اس پر بہت سے الزامات صحیح پائے گئے تھے اور ان کی بناء پر اسے ڈی موٹ کر دیا گیا تھا مگر اس کی طویل سروس اور اچھی کارکردگی کی وجہ سے اسے ملازمت سے نکالا نہیں گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر میجر سے کیپٹن بن گئی تھی۔ چند ہفتوں بعد اس کی ٹرانسفر کراچی کر دی گئی تھی۔
…***…





”ممی! آخر اتنی جلدی کیوں ہے آپ کو؟” حسن ویک اینڈ پر راولپنڈی آیا ہوا تھا۔
”جلدی مجھے نہیں ہے۔ تمہارے پاپا کو ہے۔ تم اس سلسلے میں ان سے بات کرو۔” حسن ماں کی بات پر خاموش ہو گیا تھا۔ ”ویسے بھی تمہارے پاپا تمہیں پانچ چھ ماہ تو دے ہی رہے ہیں اور یہ کافی وقت ہے تم سوچ لو اور اپنی پسند ہمیں بتا دو ‘ ورنہ پھر میں تمہیں کچھ لڑکیاں دکھا دوں گی۔” اس کی ممی اپنا منصوبہ بتاتی جا رہی تھیں۔
”شادی کب تک کرنا چاہتے ہیں آپ لوگ؟” اس نے ماں سے پوچھا تھا۔
”وہ تو تم پر ہے’ تم کب کرنا چاہتے ہو’ ویسے تمہارے پاپا چاہتے ہیں پہلے تمہاری انگیجمنٹ کر دیں پھر چند ماہ بعد تمہاری شادی کر دیں گے۔”
”یعنی اسی سال کے اندر اندر آپ میری آزادی ختم کرنا چاہتے ہیں۔” اس نے اپنی ممی سے کہا تھا۔
”تمہارے پاپا کی شادی تئیس سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ تمہیں تو بہت چھوٹ دی ہے’ تمہاری شادی تو تقریباً چھبیس سال کی عمر میں ہو گی۔ اتنے سال کی آزادی کافی نہیں ہے؟” اس کی ممی کہہ رہی تھیں۔
”ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی! میں چند ماہ تک آپ کو اپنی پسند بتا دوں گا۔” اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”اب پلیز چائے منگوا دیں۔ میں واقعی بہت تھکا ہوا ہوں۔” اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ چہرے پر بے حد اطمینان تھا۔
…***…
اس نے چینل بدلنا چاہا تھا۔
”ماما! رہنے دیں یہیں پر۔” رابیل چائے کا مگ لے کر اسی وقت کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ ”اوہ یہ تو بریگیڈئر حسن دانیال ہیں۔ ” وہ جویریہ کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔
سنبل نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تھی۔
”تم جانتی ہو انہیں؟” بہت مدھم آواز میں اس نے پوچھا تھا۔
”نہیں’ ان کو تو نہیں جانتی۔ ان کی وائف کو جانتی ہوں۔ راولپنڈی میں پوسٹنگ ہے ان کی۔ عنبرین نام ہے ان کی مسز کا۔ اکثر آتی ہیں سی ایم ایچ۔ بہت خوبصورت ہیں۔” رابیل ٹی وی پر نظریں جمائے تفصیلات بتا رہی تھی۔
”خود بھی تو بڑے ہینڈسم ہیں۔ بہت زبردست کپل ہو گا۔” جویریہ کہہ رہی تھی۔
وہ اٹھ کر بالکونی کا دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔ فضا میں خاصی خنکی تھی۔ ہر طرف تاریکی تھی۔ گھر کے اندر اور باہر جلنے والی لائٹس اس تاریکی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ گرل پر ہاتھ جما کر نیچے سڑک کو دیکھنے لگی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے آج چوبیس سال بعد پہلی بار حسن کو دوبارہ دیکھا تھا۔ پچھلے چوبیس سال میں وہ کئی بار اسے دیکھتی رہی۔
وہ شروع میں کچھ عرصہ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرتا رہا تھا اور تب وہ اسے اکثر ٹی وی پر نظر آتا۔ پھر کئی بار اخبار میں بھی اس کا چہرہ نظر آتا رہتا۔ ہاں آج عجیب بات یہ ہوئی تھی کہ اس نے رابیل اور جویریہ کے منہ سے اس کا ذکر سنا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ وہ ان کا باپ تھا۔ پچھلے چوبیس سال ایک مرتبہ پھر کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کی اسکرین پر ابھرنے لگے تھے۔ چوبیس سال میں کتنے دن’ کتنی راتیں’ کتنے گھنٹے’ کتنے منٹ ہوتے ہوں گے’ اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی پھر جلد ہی ہار مان لی۔ وہ گن نہیں پا رہی تھی۔
رابیل اور جویریہ ایک جیسی نہیں تھیں ان دونوں کی شکل ایک دوسرے سے خاصی مختلف تھی اور عادات بھی۔ رابیل حسن سے بے حد مشابہ تھی حتیٰ کہ اس کی آنکھیں بھی حسن کی طرح گہری براؤن تھیں۔ حسن سے مشابہت جویریہ کے چہرے میں بھی جھلکتی تھی مگر رابیل جتنی نہیں۔ رابیل میں بہت بولڈینس تھی۔ جویریہ اس کے برعکس تھی۔ اس کا مزاج دھیما تھا’ وہ بات کرنے کے بجائے سننا زیادہ پسند کرتی تھی۔ رابیل اس پر مکمل طور پر حاوی تھی۔ بعض دفعہ رابیل کو دیکھ کر سنبل کو حسن کا خیال آ جاتا تھا۔ اس کے انداز بالکل حسن جیسے تھے اور تب سنبل کو بے تحاشا خوف آتا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں رہتی تھی کہ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سکے۔ وہ رابیل کی نہیں حسن کی آنکھیں تھیں۔ خوبصورت’ دلکش’ گہری۔ وہ رابیل سے بات کرتے کرتے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیتی۔
کئی سال تک اس نے بہت ٹھوکریں کھائی تھیں۔ اس کے پاس آمدنی کے ذرائع محدود تھے اور اخراجات بہت زیادہ۔ وہ ہر ایک سے یہی کہتی تھی کہ وہ دونوں اس کے بھائی کی بیٹیاں ہیں۔ اس نے انہیں گود لیا ہے۔ انہیں اس نے باپ کے طور پر عمر کا نام دے دیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ بڑی ہونے لگیں اور اس کے مسائل میں کمی آتی گئی۔ پڑھائی میں وہ دونوں ہی اچھی تھیں۔ اس معاملے میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ جویریہ رابیل سے پڑھائی میں بہت اچھی تھی’ ایف ایس سی میں بھی اس نے پوزیشن لی تھی اور وہ AMC جوائن کرنے کے بجائے کنگ ایڈورڈ میں جانا چاہتی تھی مگر سنبل نے اسے اے ایم سی پر جانے پر مجبور کیا تھا۔ وہ مالی طور پر اتنی مستحکم نہیں تھی کہ کنگ ایڈورڈ کے اخراجات برداشت کر سکتی۔ رابیل نے پہلے ہی اے ایم سی میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اس نے اس معاملے میں ماں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ وہ ویسے بھی آرمی میں ہی رہنا چاہتی تھی۔
ان دونوں کو بھی یہ پتا تھا کہ سنبل نے ان کے ماں باپ کی وفات کے بعد انہیں گود لیا ہے اور وہ ان کی پھوپھو ہے ماں نہیں۔ لیکن اس چیز نے زیادہ فرق نہیں ڈالا تھا۔ ان کے نزدیک وہ ہی سب کچھ تھی’ پھوپھو بھی’ ماں بھی ‘ باپ بھی۔
…***…
”نہیں’ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ معمولی بخار ہے۔ ایک دو دن میں اتر جائے گا۔” اس نے چیک اپ کے بعد اپنے سامنے بیٹھے جوڑے سے کہا تھا۔ ”کیا نام ہے بیٹا آپ کا؟” اس نے بچی سے پوچھا تھا۔
”عائشہ! ”اس نے جویریہ کو بتایا۔
”اور فادر کا نام؟” اس بار جویریہ نے اپنے سامنے بیٹھے آدمی سے پوچھا تھا۔
”لیفٹیننٹ کرنل عمر جعفر!” وہ نسخہ لکھتے ہوئے کچھ مسکرائی تھی۔
”میرے فادر کا نام بھی عمر جعفر تھا۔”
سامنے بیٹھے ہوئے میاں بیوی بھی مسکرائے تھے۔ ”اب زندہ نہیں ہیں کیا؟” اس آدمی نے پوچھا تھا۔
”نہیں’ بچپن میں ہی میرے والدین کی وفات ہو گئی تھی’ ہمیں ہماری پھوپھو نے پالا ہے۔” اس نے بتایا تھا۔
”وہ آرمی سے منسلک ہیں؟” لیفٹیننٹ کرنل عمر جعفر نے پوچھا تھا۔
”وہ نرس تھیں’ آرمی میڈیکل کور سے ہی منسلک تھیں۔ اب تو ریٹائر ہو چکی ہیں۔”
”کیا نام ہے ان کا؟”
”سنبل جعفر۔”
لیفٹیننٹ کرنل عمر جعفر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔
”یہ سیرپ اور ٹیبلٹس آپ لے لیں۔ ڈوزکس ترتیب سے لینا ہے۔ یہ میں نے لکھ دیا ہے اگر دو دن تک بخار نہ اترے تو آپ اسے پھر چیک اپ کیلئے لے آئیں’ ویسے انشاء اللہ تعالیٰ دو دن تک بخار اتر جائے گا۔” جویریہ نے نسخہ عمر جعفر کی طرف بڑھا دیا تھا۔
انہوں نے کاغذ ہاتھ میں تھام لیا ”آپ کی پھوپھو ملتان سے تعلق رکھتی ہیں؟” عمر جعفر کے لہجے میں بے چینی تھی۔
”پتا نہیں’ یہ کبھی میں نے پوچھا نہیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ شاید ان کی پیدائش وہیں کی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کا خاندان بھی وہیں سے تعلق رکھتا ہو کیونکہ کافی اچھی سرائیکی آتی ہے ان کو۔” جویریہ نے اسٹیتھو سکوپ اتارتے ہوئے کہا تھا۔
”یہاں کھاریاں میں ہی ہوتی ہیں؟”
”نہیں’ وہ لاہور میں رہتی ہیں۔ یہاں پر تو میری پوسٹنگ ہے۔ ویسے آتی جاتی رہتی ہیں۔ آپ جانتے ہیں انہیں؟” جویریہ نے اچانک بات کرتے کرتے ان سے پوچھا تھا۔
”شاید۔ آپ مجھے ان کی کوئی تصویر دکھا سکتی ہیں؟” وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔
”ہاں ضرور’ لیکن اس وقت تو ان کی کوئی تصویر نہیں ہے میرے پاس جب آپ دوبارہ آئیں گے تب دیکھ لیجئے گا۔”
”کیا آپ کل مجھے ان کی تصویر دکھا سکتی ہیں؟”
”ٹھیک ہے آپ کل دیکھ لیجئے گا۔” جویریہ اب حیران نظر آ رہی تھی۔ وہ اٹھ کر چلے گئے تھے۔
اگلے دن ہاسپٹل آنے پر اس نے انہیں اپنا منتظر پایا۔ وہ ان کی بے تابی پر مزید حیران ہوئی تھی۔ اپنے بیگ سے اس نے سنبل کی تصویر نکال کر ان کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ انہوں نے صرف ایک نظر اس تصویر پر ڈالی تھی پھر اسے واپس تھما دیا۔
”اب آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔” ان کے چہرے پر اب سکون تھا۔
”لیکن آپ ملنا کیوں چاہتے ہیں؟” جویریہ اب بے چین ہو چکی تھی۔
”آپ کی پھوپھو میری بہن ہیں۔ بڑی بہن اور میں ہی عمر جعفر ہوں۔ جس کا نام انہوں نے آپ کے نام کے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ لیکن میں آپ کا باپ نہیں ہوں۔”
جویریہ کے سر پر جیسے آسمان گر پڑا تھا۔ وہ کچھ دیر تک کچھ بول نہیں سکی۔ وہیں کھڑے کھڑے چند جملوں میں لیفٹیننٹ کرنل عمر جعفر نے سنبل کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی۔
”میں نہیں جانتی جو آپ کہہ رہے ہیں’ وہ سچ ہے یا جھوٹ لیکن میں ابھی آپ کو ان کاایڈریس نہیں دے سکتی۔ مجھے ان سے بات کر لینے دیں۔”
وہ بڑی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف آ گئی تھی۔ عمر جعفر اس کے پیچھے نہیں آئے تھے۔ اس دن وہ کوئی کام بھی ٹھیک سے نہیں کر پائی تھی۔ ہر چیز غلط ہو رہی تھی۔ شام کو اس نے راولپنڈی رابیل کو فون کیا تھا اور اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔
”میں پرسوں لاہور جا رہی ہوں۔ بہتر ہے’ تم بھی آ جاؤ۔” اس نے رابیل سے کہا تھا۔ دوسری طرف سے کچھ کہے بغیر ریسیور رکھ دیا گیا تھا۔
سنبل اسے اچانک دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ ”کیا بات ہے جویریہ؟ تم دونوں آخر اس طرح اچانک کیوں آ گئی ہو؟ تھوڑی دیر پہلے رابیل آئی ہے۔ وہ تب سے کمرہ بند کر کے بیٹھی ہے اور اب تم۔ آخر ہوا کیا ہے؟”
سنبل اب کچھ پریشان ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے نظریں چرا لیں۔ کچھ کہے بغیر وہ اندر چلی آئی اپنا ٹریول بیگ اتار کر اس نے لاؤنج میں رکھ دیا۔ سنبل اس کے پیچھے ہی آئی تھی۔
”تم اس طرح چپ کیوں ہو جویریہ؟ آخر پتا تو چلے ہوا کیا ہے؟”
اس نے سنبل کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ اسے یاد آ رہا تھا وہ دونوں اسے عظیم سمجھتی تھیں’ ان کے نزدیک وہ دیوی تھی۔ ان کا خیال تھا۔ سنبل نے ان دونوں کی خاطر ساری عمر شادی نہیں کی اور لیفٹیننٹ کرنل عمر جعفر نے کہا تھا ”وہ شادی کرنا چاہتی تھیں اپنے سے سات آٹھ سال چھوٹے کسی کیپٹن سے اس کے گھر والوں کی مرضی کے بغیر اور پھر ہمارے نہ چاہنے کے باوجود انہوں نے اسی سے شادی کی اس کے بعد ہم لوگوں نے ان سے میل جول ختم کر دیا۔”
”کیا بات ہے جویریہ ؟ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟”
جویریہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی۔ ”آپ نے ہم سے جھوٹ کیوں بولا؟” اس نے بلند آواز میں سنبل سے پوچھا تھا۔
وہ اس پر دھک سے رہ گئی۔ ”کون سا جھوٹ؟”




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!