ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

وہ کلب میں پہلی بار نہیں آئی تھی۔اس سے پہلے بھی دو تین فنکشنز میں وہ وہاں آ چکی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہاں کے ماحول کے مطابق حسن کا مطالبہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی بندہ اس طرح بے باکی سے اسے اپنے ساتھ فلم دیکھنے کی آفر کرے یا اس کے حسن کی تعریف کرے۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا لیا تھا۔ عالیہ نے واپسی پر اس سے پوچھا تھا کہ حسن اس سے کیا کہہ رہا تھا لیکن اس نے بہانا بنا کر ٹال دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایسی کوئی بات عالیہ کے ذریعے کسی دوسرے کے علم میں آئے اس شام کے بعد وہ دوبارہ کلب نہیں آئی تھی مگر کئی دن تک اس کے ذہن میں اس ملاقات کا خیال آتا رہا۔
حسن ایسا بندہ نہیں تھا جسے دیکھ کر کوئی لڑکی آسانی سے ذہن سے نکال پاتی اور پھر اگر ایسا بندہ آپ سے اپنے التفات کا اظہار کر رہا ہو تو یہ کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سنبل کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ کئی دن تک اسے حسن کا خیال آتا رہا اور ہر دفعہ وہ زبردستی اس کے تصور کو ذہن سے جھٹک دیتی۔ وہ ایسی کوئی حماقت نہیں کرنا چاہتی تھی، جو بعد میں اس کے لیے کسی پریشانی کا باعث بنے اور کچھ دن گزر جانے کے بعد وہ واقعی اسے بھلانے میں کامیاب رہی تھی۔ وہ اس کے ذہن سے محو ہو گیا تھا۔
ان ہی دنوں اس کی ڈیوٹی میجر جنرل رضوان کے کمرے میں لگائی گئی تھی۔ اس دن بھی وہ معمول کے مطابق بریگیڈئر ڈاکٹر حسین کے ساتھ میجر جنرل رضوان کے کمرے میں گئی تھی۔ کمرے میں داخل ہونے پر اس نے میجر جنرل رضوان کے پاس یونیفارم میں ملبوس کسی کو کھڑے دیکھا۔ دروازے کی طرف اس بندے کی پشت تھی۔ اس لیے اس نے فوری طور پر اس کا چہرہ دیکھا تھا پہلی ہی نظر میں وہ اسے پہچان گئی تھی اور اس نے فوراً اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لی تھیں۔ اس کا دل اس وقت جیسے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑکنے لگا تھا۔
وہ بریگیڈئر حسین سے باتوں میں مصروف رہا اور وہ وقتاً فوقتاً اس کا جائزہ لے کر یہ تسلی کرنے میں مصروف رہی کہ اس نے اسے پہچانا تو نہیں ہے مگر اس وقت وہ پوری طرح بریگیڈئر حسین کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ سنبل کو قدرے اطمینان ہوا کہ شاید وہ اسے پہچان نہیں سکا ورنہ اس کی آنکھوں میں تھوڑی بہت شناسائی تو جھلکتی مگر اس کی آنکھوں میں ایسا کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ یہی اطمینان لیے وہاں رکی رہی۔
اگلے روز دوپہر کو وہ اپنی شفٹ شروع ہونے پر ہاسپٹل آئی تھی۔ وہ میجر جنرل رضوان کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ جب اس نے ایک بہت شناسا آواز اپنے قریب سنی تھی۔
”ثابت ہوا کہ دنیا گول ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ دل سے نکلنے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔”
اس کے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کے لیے رک گئی تھی۔ وہ آواز پہچان چکی تھی۔ اس سے چند قدم پیچھے وہی کھڑا تھا۔ اپنی اسی مخصوص مسکراہٹ اور آنکھوں کے ساتھ۔ اس نے ایک بار پھر سنبل سے وہی مطالبہ کیا تھا اور وہ اس کی مستقل مزاجی پر قدرے حیران ہوئی تھی۔ اسے توقع تھی کہ اس شام کے انکار اور بے رخی کے بعد وہ دوبارہ کبھی اس سے اس طرح کا مطالبہ نہیں کر سکتا لیکن اس کی یہ خوش فہمی خوش فہمی ہی ثابت ہوئی تھی وہ اپنے اسی مطالبے کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اس سے جان چھڑائی تھی اور اس روز وہ کافی دیر تک میجر جنرل رضوان کے کمرے میں موجود رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اس کا انتظار کر کے واپس چلا جائے اور ایسا ہی ہوا تھا۔
کافی دیر بعد وہ جب باہر نکلی تو وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا۔ اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔وقتی طور پر بلا ٹل گئی تھی۔
…***…





وہ ہر روز میجر جنرل رضوان کے پاس آیا کرتا تھا اور ہر روز وہ ان سے ملنے کے بعد اس کے پاس ضرور جایا کرتا تھا۔ وہ ہر روز اس سے ملتے ہی اپنا وہی مطالبہ دہراتا اور سنبل ہر بار انکار کر دیتی۔ یہ سلسلہ کئی روز تک اسی طرح چلتا رہا۔ پھر ایک دن وہ تنگ آ گئی تھی۔
”دیکھیں کیپٹن! میں آپ کو بہت زیادہ برداشت کر چکی ہوں، اب اور نہیں کر سکتی۔ آپ مجھے اس طرح تنگ کرنا چھوڑ دیں۔”
”میں نے آپ کو تنگ نہیں کیا۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔” اس نے سنبل کی بات کاٹ دی تھی۔
”تو پھر آخر اس طرح کی باتیں کیوں کرتے ہیں آپ ؟جب میں ایک بار کہہ چکی ہوں کہ مجھے آپ کے ساتھ فلم دیکھنے جانا ہے نہ کہیں اور تو پھر آپ اس طرح میرے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں، بار بار وہی باتیں کیوں کرتے ہیں؟”
”آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔”
”میں جو سمجھ رہی ہوں۔ بالکل ٹھیک سمجھ رہی ہوں اگر آپ اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو میں میجر جنرل رضوان سے آپ کی شکایت کر دوں گی۔”
سنبل نے اسے دھمکایا تھا مگر اس کا ردعمل اس کے لیے غیر متوقع ثابت ہوا تھا۔
”بڑے شوق سے شکایت کریں۔ مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ وہ کیا کر سکتے ہیں آپ جانتی ہیں۔ میں ایک جنرل کا بیٹا ہوں۔ میرے خلاف ایک نرس کی شکایت پر تو کبھی کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ بہر حال آپ اپنا شوق پورا کر لیں۔”
وہ اس کے جملے سے زیادہ اس کے لہجے پر حیران ہوئی تھی۔ وہ پہلی بار بڑی ترشی سے بات کر رہا تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی آئی۔ وہ جانتی تھی۔ حسن دانیال نے جو کہا تھا ، وہ بالکل ٹھیک تھا۔ اس کے خلاف واقعی کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ خود بھی کسی اسکینڈل میں انوالو نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اسے میجرکار ینک ملے ابھی بہت تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایسے کسی اسکینڈل سے اس کا سروس ریکارڈ خراب ہو۔ اس رات اس نے طے کیا تھا کہ وہ جس قدرہو سکے گا حسن سے بچنے کی کوشش کرے گی۔
…***…
اگلے دن وہ پھر وہاں موجود تھا۔ ”آئی ایم سوری سنبل! میں کل کچھ تلخ ہو گیا تھا۔”
اسے دیکھتے ہی اس نے معذرت کی تھی۔ سنبل کو ایک بار پھر حیرانی ہوئی تھی۔ اسے امید نہیں تھی کہ اگلے ہی دن وہ اس سے معذرت کر رہا ہو گا۔ ”نہیں آپ تلخ نہیں تھے۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ ایک نرس کے کہنے پرکسی جنرل کے بیٹے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی اور میں آپ کو یہی چیز سمجھانا چاہتی تھی کہ آپ میں اور مجھ میں بہت فرق ہے۔ جو چیزیں آپ تفریحاً کرتے ہیں۔ میں انہیں افورڈ نہیں کر سکتی۔”
”میں آپ سے معذرت کر چکا ہوں پھر آپ دوبارہ یہ بات کیوں دہرا رہی ہیں؟”
”میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ مجھے وہ کام کرنے پر مجبور کیوں کر رہے ہیں جو میں نہیں کرنا چاہتی۔ آپ کی اور بھی بہت سی فرینڈز ہوں گی، آپ ان میں سے کسی کوڈنر پر لے جا سکتے ہیں۔”
”ہاں میری بہت سی فرینڈز ہیں لیکن آپ میں اور ان میں بہت فرق ہے۔”
”اور آپ اسی فرق کو مٹانا چاہتے ہیں۔ مجھے اسی کیٹیگری میں لانا چاہتے ہیں۔”
وہ سنبل کی بات پر لاجواب ہو گیا تھا۔ ”ٹھیک ہے۔ آپ میرے ساتھ کہیں باہر نہ جائیں لیکن دوستی تو کر سکتی ہیں۔” اس نے اپنے مطالبے میں اب ترمیم کردی تھی۔
”نہیں، میں دوستی بھی نہیں کر سکتی۔ آپ براہ مہربانی اس کام کے لیے بھی کسی اور کو تلاش کریں۔” وہ یہ کہہ کر وہاں سے آ گئی تھی۔
جتنے ہفتے میجر جنرل رضوان وہاں تھے۔ وہ بھی وہاں آتا جاتا رہا تھا اور ہر بار وہاں آنے پر وہ اس سے ملے بغیر واپس نہیں جاتا تھا مگر اب اس کے مطالبات کی نوعیت میں تبدیلی آ چکی تھی۔ وہ اس سے دوستی کا خواہاں تھا یادوسرے لفظوں میں اسے اپنی گرل فرینڈز کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ سنبل اس بات سے اچھی طرح واقف تھی کہ اس جیسے کمیشنڈ آفیسرز جو اس طرح کی با اثر فیملیز سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے اس طرح کی سرگرمیوں میں انوالو ہونا کوئی نئی بات تھی نہ ہی اسے معیوب سمجھاجاتا تھا مگر خود اس کے لیے اس کے مطالبات ماننا خاصا مشکل کام تھا۔ وہ ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی تھی۔ اپنے باپ کی بیماری کی وجہ سے اسے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر نرسنگ کی طرف آنا پڑا۔ باپ کی وفات کے بعد سے وہ اپنی فیملی کو سپورٹ کر رہی تھی۔ اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کی شادی کی ذمہ داری سے بھی فارغ ہو چکی تھی۔ پچھلے سال اس کے اکلوتے بھائی کو فوج میں کمیشن ملا تھا اور اب اس کی امی اس کے لیے رشتہ کی تلاش میں تھیں اور اس تلاش سے پہلے ہی حسن دانیال اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
جہاں تک حسن دانیال کاتعلق تھا تو سنبل اس کے لیے صرف ایک ایڈونچر تھی۔ لڑکیوں کے بارے میں سیریس ہونا اس کی عادت میں شامل نہیں تھا۔ وہ انہیںصرف وقت گزاری کا ایک ذریعہ سمجھتا تھا مگر پہلی دفعہ ایک لڑکی پر اسے واقعی محنت کرنی پڑ رہی تھی اور وہ جیسے اس کی ضد بن گئی تھی۔ اس کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ وہ کسی لڑکی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور وہ اس طرح جھٹک دے ایسے بھی نہیں تھا کہ سنبل کے سامنے آنے کے بعد اس نے اپنی ساری مصروفیات ترک کر دی تھیں اور وہ صرف اسی کے آگے پیچھے پھرتا رہتا تھا۔ اس کی ساری مصروفیات ابھی بھی پہلے ہی کی طرح جاری تھیں۔ لڑکیوں کے ساتھ ڈیٹس پرجانا بھی اسی طرح جاری تھا۔ ہاں فرق اگر آیا تھا تو یہ کہ وہ ان تمام مصروفیات کے دوران بھی سنبل سے ملنا نہیں بھولتا تھا۔ یہ جیسے اس کے معمولات میں شامل ہو چکا تھا۔ میجر جنرل رضوان کے ہاسپٹل سے فارغ ہونے کے بعد بھی سی ایم ایچ اس کے چکر اسی شدت سے جاری رہے بلکہ ان میں اضافہ ہو گیا اور سنبل کی یہ خوش فہمی ایک بار پھر غلط ثابت ہوئی تھی کہ شاید میجر جنرل رضوان کے چلے جانے کے بعد اس کے ان چکروں سے اسے نجات مل جائے گی۔ اسے جیسے ہر روز اب اس کا چہرہ دیکھنے کی عادت ہو چکی تھی۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر ہاسپٹل آتا پھر کسی نہ کسی طرح اس تک پہنچ ہی جاتا۔ وہ جیسے اس کے تمام معمولات سے باخبر رہتا تھا۔ حتیٰ کہ شفٹس میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی لیکن ابھی تک اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی اور اس کی ضد نے حسن کے جنون کو کم کرنے کے بجائے اور بڑھا دیا تھا۔ اس سے دوستی اب جیسے اس کی انا کا مسئلہ ہو چکا تھا۔
…***…
اس سہ پہر وہ اپنی شفٹ ختم کر کے سی ایم ایچ سے نکل رہی تھی۔ جب ایک بار پھر اس کا سامنا حسن سے ہوا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کس مٹی کے بنے ہوئے ہو۔ تنگ نہیں آتے ہو اس طرح بار بار یہاں آ کر۔”
“Winners never quit , quitters never win”
ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ اس نے کہا تھا وہ اسے گھور کر رہ گئی۔
”ویسے بھی اگر آپ آگے بڑھنے پر تیار نہیں ہیں تو میں پیچھے کیوں ہٹوں۔” اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے۔”
”وہ تب ہو گا’ جب میں آپ سے ملنا چھوڑ دوں گا” وہ بلا کا حاضر جواب تھا۔
”تم آخر میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟” وہ تنگ آ چکی تھی۔
”آپ آخر مجھ سے دوستی کیوں نہیں کر لیتیں؟”
”نہیں۔ دوستی نہیں ہو سکتی۔”
”ٹھیک ہے دوستی نہیں ہو سکتی۔ شادی تو ہو سکتی ہے پھر آپ مجھ سے شادی کر لیں۔”
وہ اس کی بات پر جیسے ہکّا بکّا ہو گئی تھی۔ وہ اس کے بعد زیادہ دیر وہاں نہیں رکا۔
”میری بات پر غور کیجئے گا۔ میں کل جواب لینے آؤں گا۔” وہ چلا گیا تھا
سنبل اس رات سو نہیں سکی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ کئی ماہ سے حسن کا پیچھا کرنا’ پہلے ڈیٹ پر اصرار پھر دوستی کا مطالبہ اور اب یہ شادی کا پرپوزل۔ وہ اسے ایک مکمل احمق لگ رہا تھا۔ مگر احمقوں میں ایسی مستقل مزاجی قابل حیرت تھی۔
…***…
اگلے دن وہ ایک بار پھر اس کے مقابل تھا۔
”میرا خیال ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کچھ چیزوں پر بات کریں۔ تم باہر لان میں چلو۔ میں وہیں پر آتی ہوں۔”
آج اس نے حسن کو دیکھتے ہی بڑی سنجیدگی سے کہا تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر باہر چلا گیا۔ وہ آفس سے کچھ وقت کی رخصت لے کر باہر آ گئی۔ وہ لان میں چہل قدمی میں مصروف تھا۔ اسے آتا دیکھ کر رک گیا۔ وہ اسے ساتھ لے کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔
”آپ نے میرے پرپوزل پر غور کیا؟” اس نے بینچ پر بیٹھتے ہی پوچھا تھا۔
”نہیں۔” اس نے بڑے سکون سے جواب دیا۔
”کیوں؟”
”کیونکہ یہ قابل غور تھا ہی نہیں۔”
وہ کچھ کہنے لگا تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
”مجھے بات کرنے دو۔ تمہاری عمر کتنی ہو گی۔ چوبیس پچیس سال اور میری عمر بتیس سال ہے۔ تم سے سات آٹھ سال بڑی ہوں۔”
اس نے سنبل کی بات کاٹ کر کہا تھا۔ ”اس سے کیا ہوتا ہے اور یہ میرے لئے کوئی سرپرائز نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں آپ میجر ہیں اور اس لحاظ سے آپ کو تیس میں ہی ہونا چاہیے۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
”ابھی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ سالوں بعد پڑے گا جب تک تیس میں آؤ گے اور میں چالیس سے اوپر کی ہو جاؤں گی۔ آدمی کیلئے نہ سہی مگر چالیس کے بعد عورت کیلئے بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے’ تب تم پچھتاؤ گے۔”
”میں نہیں پچھتاؤں گا۔ آپ اب بتیس کی ہیں لیکن بتیس کی نہیں لگتیں تب بھی چالیس کی نہیں لگیں گی اور مجھے آپ کی عمر سے فرق نہیں پڑتا۔”
”میں لگتی نہیں ہوں یہ اور بات ہے لیکن نہ لگنے سے عمر میں کمی نہیں آتی۔ آج تمہیں میں بتیس کی نہیں لگتی ہوں۔ کل لگنے لگوں گی۔”
”میں نے آپ سے کہا ہے ناکہ مجھے عمر سے فرق نہیں پڑتا۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔”
”پہلے مجھے تمہارے احمق ہونے کا شک تھا۔ اب یقین ہو گیا ہے کہ تم عقل سے پیدل ہو۔ تمہارا اور میرا کوئی جوڑ ہی نہیں نہ ہم عمر۔”
”عمر کی بات نہ کریں اگر آپ کو کوئی اور اعتراض ہے تو وہ بتائیں۔” حسن نے اس بار پھر اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”ٹھیک ہے عمر کی بات نہیں کرتی۔ تم میں اور مجھ میں اور بھی بہت سے فرق ہیں۔ تم ایک جنرل کے بیٹے ہو اور میرا باپ فوج میں ایک بیٹ مین تھا۔ تم جس خاندان سے تعلق رکھتے ہو۔ ہماری سات پشتیں بھی اس کی برابری نہیں کر سکتیں۔” وہ اسے بڑے ٹھنڈے انداز میں سمجھا رہی تھی۔




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!