ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

اس نے زرقا اور اظفر سے کہا تھا۔ وہ دونوں بار روم سے باہر چلے گئے۔ بار سے نیا پیگ لینے کے بعد اس نے کچھ شناسا چہروں سے ہیلو ہائے کی تھی، پھر وہ بار سے باہر آ گیا تھا۔ لان میں تمبولا کھیلا جا رہا تھا۔ قہقہوں اور تالیوں کا شور برپا تھا۔ اس نے لان میں داخل ہونے سے پہلے برآمدے میں کھڑے ہو کر متلاشی نظروں سے اظفر اور زرقا کو دیکھا تھا۔ وہ دونوں لان کے ایک کونے میں کرسیوں پر براجمان تھے۔ وہ ان کی طرف جانے کے بجائے وہیں کھڑا لان پر طائرانہ نظر دوڑاتے ہوئے بیئر کے سپ لینے لگا۔ پھر اچانک وہ سپ لیتے لیتے رک گیا۔
سفید شیفون کی ساڑھی میں ملبوس کمر تک کھلے سیاہ بالوں والی ایک لڑکی پر اس کی نظر ٹھہر گئی تھی۔ وہ اس کے کچھ فاصلے پر کھڑی تمبولا کا کھیل دیکھتے ہوئے تالیاں بجا رہی تھی۔ وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھی۔ مگر اسے جس چیز نے اس کی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ اس کی دلکش مسکراہٹ تھی۔ حسن کوشش کے باوجود بھی اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا۔ اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر وہ بیئر کے سپ لینے لگا۔ زرقا اور اظفر اب دونوں اس کے ذہن سے غائب ہو چکے تھے۔ گلاس خالی کرنے کے بعد اس نے پاس سے گزرتے ہوئے ویٹر کو دیا تھا اور پھر اس لڑکی کی طرف آگیا تھا۔
”ہیلو !” اس نے پاس جا کر اس لڑکی کو متوجہ کیا تھا۔وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
اس کے ہونٹوں سے اب وہ مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
”میرا نام کیپٹن حسن دانیال ہے۔ کیا آپ سے دو منٹ بات کر سکتا ہوں؟” اس لڑکی نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ پھر اس نے اپنے ساتھ کھڑی اس عورت کی طرف نظر دوڑائی جو حسن کو دیکھ رہی تھی۔
”کریں، آپ کو کیا بات کرنی ہے؟” چند لمحوں بعد اس نے حسن سے کہا تھا۔
‘ ‘ لیکن میں آپ سے یہاں بات نہیں کرنا چاہتا۔ کیا آپ اکیلے میں بات سن سکتی ہیں؟”
”دیکھیں، میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔” اس بار اس لڑکی نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔
”اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے مجھے کبھی دیکھا ہی نہیں۔” حسن نے بڑے پر سکون انداز میں کہا تھا۔
”تو پھر آپ مجھ سے اکیلے میں کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟”
”اکیلے میں بات کرنے کے لیے کیا جان پہچان کا ہونا ضروری ہوتا ہے؟” وہ اس بار مسکرایا، اس لڑکی نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
”ٹھیک ہے، آئیں۔” وہ یہ کہہ کر آگے چل پڑی۔ وہ اسے لان سے نکال کر برآمدے میں لے آیا۔
”کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟” برآمدے کے ایک قدرے سنسان گوشے میں آتے ہی حسن نے اس سے پوچھا۔
”کیا آپ یہ پوچھنے کے لیے یہاں لائے ہیں؟” وہ اب مکمل طور پر پر سکون ہو چکی تھی۔ حسن دلکش انداز میں مسکرایا۔
”نہیں یہ تو صرف تمہید ہے۔”
”میرا نام سنبل ہے۔ اب آپ بات کریں۔”
”آپ کا نام بھی آپ کی طرح خوبصورت ہے۔” حسن نے پہلا حربہ استعمال کیا۔
جواب غیر متوقع تھا ”میں جانتی ہوں پھر؟” وہ اسی پرسکون انداز میں بولی تھی۔
حسن نے ا یک گہرا سانس لیا۔ ”کیا آپ میرے ساتھ فلم دیکھنے چلیں گی؟”
”جی نہیں۔”





”وجہ جان سکتا ہوں۔”
”مجھے فلموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”تو پھر آپ کو کس چیز میں دلچسپی ہے؟”
”آپ کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے” وہ بڑے مطمئن انداز میں کسی اشتعال کے بغیر اس سے بات کر رہی تھی۔ حسن کچھ دیر تک گہری نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
”کیا آپ مجھے اپنا ایڈریس دے سکتی ہیں؟”
”نہیں۔” جوا ب ایک بار پھر واضح تھا۔
”آپ یہاں روز آتی ہیں؟” حسن کی ثابت قدمی اپنے عروج پرتھی۔
”نہیں۔”
”تو پھر دوبارہ یہاں کب آئیں گی؟”
”شاید کبھی نہیں۔” حسن نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے کچھ دیر سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا۔
”کوئی اور سوال ؟” اس بار اس لڑکی نے پوچھا۔
”نہیں۔”
”اس کا مطلب ہے میں جا سکتی ہوں۔”
”آف کورس۔” حسن اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ وہ جانے لگی۔
”لیکن سنیں۔” وہ اس کی آواز پر ایک لمحے کے لیے مڑی۔
”میں آپ سے دوبارہ بھی ملنا چاہوں گا۔”
حسن مسکرایا۔
پہلی بار اس لڑکی کے ماتھے پر شکن ابھری تھی۔ پھر وہ تیزی سے برآمدے کی سیڑھیاں اتر کر لان میں چلی گئی۔ حسن بھی اس کے پیچھے ہی لان میں چلا گیا۔ اس بار اس کا رخ زرقا اور اظفر کی طرف تھا۔ اظفر اسے رستے میں ہی مل گیا تھا، وہ شاید پہلے ہی اسے بلانے کے لیے آ رہا تھا۔
”کہاں تھے تم یار؟” اظفر نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا۔
”میں ایک پری کے ساتھ تھا۔” حسن نے شوخ انداز میں کہا تھا ”اور زرقا کے بارے میں کیا خیال ہے؟” اظفر نے اس سے کہا تھا۔
”مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” حسن نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”مگر مجھے بھی دکھاؤ۔ ایسی بھی کیا چیز دیکھ لی ہے تم نے؟” اظفر نے دلچسپی ظاہر کی تھی۔
”فی الحال تو نہیں دکھاؤں گا پھر کبھی سہی۔ آؤ ابھی زرقا کے پاس چلیں، وہ گالیاں دے رہی ہوگی۔” حسن کہہ کر زرقا کی طرف چل پڑا تھا۔ اظفر بھی اس کے پیچھے آگیا۔
سروسز کلب سے وہ سیدھا سینما گئے تھے۔ لیکن حسن کی ساری دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔ اس کی نظروں کے سامنے بار بار وہی لڑکی آ رہی تھی۔ وہ زرقا اور اظفر کی باتوں میں بھی دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ ساڑھے دس کے قریب وہ فلم ادھوری چھوڑ کر ہی واپس آ گیا تھا۔ اس نے زرقا کی ناراضگی کی بھی زیادہ پروا نہیں کی تھی۔ جو اس کے اس طرح آنے پر خاصی برہم ہو گئی تھی۔ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا جب کسی لڑکی میں دلچسپی ختم ہو جاتی تو وہ پھر دوبارہ اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ بس فوراً جان چھڑا لینا چاہتا تھا۔ فریق مخالف پر اس کا کیا اثر ہوتا تھا۔ اس بات کی اس نے کبھی پروا نہیں کی تھی۔ اس وقت زرقا میں بھی اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی اور وہ اس سے بھی جان چھڑا لینا چاہتا تھا اور زرقا کے لیے یہ سلوک کافی نیا تھا۔ آج سے پہلے وہ اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ ایسا کرتی تھی پہلی بار وہ خود اس صورتحال کا شکار ہوئی تھی۔ اظفر کے اصرار کے باوجود وہ بھی فلم چھوڑ کر آ گئی تھی۔ حسن دانیال کے بارے میں سارے اچھے تاثرات اس رات کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ وہ دوبارہ کبھی اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔
اس رات وہ ٹھیک سے سو نہیں سکا تھا۔ بار بار وہ چہرہ، مسکراہٹ وہ آواز اس کے ذہن میں گونجتی رہی۔ وہ کئی گھنٹوں تک مسلسل اسی کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ عام طور پر وہ لڑکیوں کو دل کے ساتھ ساتھ ذہن سے جھٹکنے میں بھی ماہر تھا۔ لیکن اس رات وہ پہلی بار اس لڑکی کے خیالات سے نجات حاصل نہیں کر سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت دیر سے سویا۔ صبح جاگنے کے بعد ایک بار پھر پہلا خیال اسی لڑکی کا ہی آیا تھا۔
اگلے کئی ہفتوں تک وہ ہر شام سروسز کلب جاتا رہا صرف اس امید میں کہ شاید وہ دوبارہ کبھی وہاں آئے لیکن وہ تو جیسے اپنے کہے پرعمل کر رہی تھی۔ اس ایک شام کے علاوہ وہ دوبارہ اسے وہاں نظر نہیں آئی وہ تھک ہار کر اپنی روٹین پر واپس آ گیا تھا۔ ایک بار پھر اس نے نئے سرے سے گرل فرینڈز کی تلاش شروع کر دی تھی۔ ایک بار پھر سے ڈیٹس کا وہ سلسلہ وہیں سے شروع ہوا تھا جہاں اس نے چھوڑا تھا۔ مگر نئی گرل فرینڈز کے باوجود وہ لڑکی اس کے دماغ سے غائب نہیں ہوئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ چہرہ اس کے دماغ پر پہلے سے زیادہ گہرا نقش چھوڑ رہا تھا۔
…***…
ان ہی دنوں وہ دو دن کی چھٹی لے کر اپنے گھر گیا تھا۔ جب وہاں سے واپس آیا تو اسے پتا چلا کہ میجر جنرل رضوان ایک حادثے میں زخمی ہو گئے تھے۔ انکی ٹانگ میں فریکچر تھا اور وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے۔ وہ ان کے اے ڈی سی کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس لیے اطلاع ملتے ہی سی ایم ایچ ان کی عیادت کے لیے چلا گیا۔ ٹانگ میں فریکچر کے علاوہ میجر جنرل رضوان کو اور کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی تھی۔ وہ ان کے کمرے میں ان سے باتیں کر رہا تھا۔ جب بریگیڈئر ڈاکٹر حسین کمرے میں آئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک نرس بھی تھی۔ اس نے ایک سرسری نظر اس پر ڈالی تھی اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس چہرے کو پہچان گیا تھا۔ اس نے بریگیڈئر حسین کو سیلوٹ کیا تھا۔
”یہ میرے اے ڈی سی ہیں کیپٹن حسن دانیال جنرل بابر کریم کے بیٹے ہیں۔” میجر جنرل رضوان نے اس کا تعارف بریگیڈئر ڈاکٹر حسین سے کروایا تھا۔
انہوں نے بڑی گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا۔
”جنرل بابر کریم کو تو اچھی طرح جانتا ہوں میں ان کی پچھلی پوسٹنگ لاہور میں ہی تھی۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ حسن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک دوبار جنرل بابر میرے گھر بھی آئے تھے اپنی فیملی کے ساتھ۔”
”میری پوسٹنگ ان دنوں کھاریاں میں تھی سر۔”
حسن نے بریگیڈئر حسین کی باتوں کے جواب میں کہا۔
کچھ دیر تک وہ اس کی فیملی کا حال احوال پوچھتے رہے پھر میجر جنرل رضوان کو دیکھنے لگے۔ حسن میجر جنرل رضوان سے اجازت لے کر کمرے سے باہر آ گیا۔ لیکن اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ اسے توقع نہیں رہی تھی کہ وہ اس لڑکی کو دوبارہ کبھی دیکھ سکے گا مگر آج وہ ایک بار پھر اس کے سامنے آ گئی تھی۔ اس شام کے برعکس آج یونیفارم میں ملبوس وہ بہت سوبر لگ رہی تھی۔ کمرے سے باہر آنے کے بعد اس نے واپس جانے کے بجائے ریسیپشن پرجا کر اس کے بار ے میں مزید معلومات لی تھیں۔ وہ وہیں ہاسٹل میں رہتی تھی اور آج کل اس کی ڈیوٹی میجر جنرل رضوان کے کمرے میں لگی ہوئی تھی۔
و ہ اس شام سی ایم ایچ سے واپسی پر بے حد مسرور تھا۔ بغیر وجہ کے وہ سیٹی بجاتا رہا، رات کو پہلی بار کسی لڑکی کے بغیر سینما فلم دیکھنے چلا گیا اور وہاں سے واپسی پر خلاف توقع بہت گہری نیند سویا۔
اگلے دن اس کی شفٹ شروع ہونے سے پہلے سی ایم یچ پہنچ گیا تھا۔ کوریڈور میں ٹہلتے ہوئے وہ اسکا انتظارکرتا رہا تھا اور پھر وہ اسے نظر آ گئی تھی۔
”ثابت ہوا کہ دنیا گول ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ دل سے نکلنے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔” اس کے ساتھ چلتے ہوئے حسن نے کہا تھا۔
وہ چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گئی۔ ایک گہری سانس لے کر وہ اسے دیکھنے لگی تھی۔
”یہ مت کہیے گا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ ہم پہلی بار کہاں ملے تھے۔ آ پ کو اچھی طرح یاد ہو گا یا پھر میں یاد کراؤں؟” حسن نے اس کی خاموشی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”یاد کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کمزور یادداشت کی مالک نہیں ہوں۔ لیکن فی الحال آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہیں۔” اس نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
”نہیں ، میں وقت ضائع نہیں کیا کرتا۔”
”لیکن اس وقت کر رہے ہیں۔”
”آپ کا وقت ضائع ہو رہا ہو گا میرا نہیں۔”
”آپ چاہتے کیا ہیں؟”
”یہ تو میں آپ کو بہت پہلے بتا چکا ہوں آپ میرے ساتھ فلم دیکھنے چلیں۔”
اور میں نے آپ کو تب یہ بتا دیا تھا کہ مجھے فلموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے پھر آپ میرے ساتھ ڈنر پر چلیں۔” حسن نے اس کی بات مانتے ہوئے فوراً اپنے مطالبے میں تبدیلی کر دی تھی۔
”بھئی، کیوں آپ کے ساتھ ڈنر پر چلوں؟ میں آپ کو جانتی نہیں ہوں اور آپ منہ اٹھا کر اس طرح میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔” وہ اس بار جھنجھلاگئی تھی۔
حسن کا چہرہ کچھ سرخ ہو گیا تھا، ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا کہ اسے اس طرح کسی لڑکی کی منت سماجت کرنی پڑی تھی۔ ورنہ ہمیشہ اس کے ایک بار کہنے پر لڑکیاں اس کی بات مان لیتی تھیں اور اگر کوئی انکار کرتی تو وہ دوبارہ اپنی بات پر اصرار نہ کرتا مگر یہاں مسئلہ ہی کچھ دوسرا ہو چکا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ آج جانا نہیں چاہتیں مگر کسی اور دن تو جا سکتی ہیں؟”
”نہیں، میں کسی دن بھی نہیں جا سکتی۔ میں اس طرح کے کام نہیں کرتی ہوں۔” وہ اس بار کہہ کر تیزی سے میجر جنرل رضوان کے کمرے میں چلی گئی تھی۔ حسن کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر وہاں سے واپس آ گیا۔
اسے امید نہیں تھی کہ اس شام کے بعد دوبارہ کبھی اس کی ملاقات اس بندے سے ہوگی۔ اس شام وہ میجر یزدانی کی بیوی کے اصرار پر ان کے ساتھ کلب چلی گئی تھی۔ عالیہ یزدانی ایف ایس سی میں اس کی کلاس فیلو تھی بعد میں اس نے اے ایم سی جوائن کر لیا جبکہ وہ اپنے حالات کی وجہ سے نرسنگ کی لائن میں آ گئی عالیہ کی پوسٹنگ چند ہفتے پہلے ہی لاہور میں ہوئی تھی اور اس شام میجر یزدانی کے آؤٹ آف اسٹیشن ہونے کی وجہ سے اس نے سنبل کو اپنے ساتھ کلب چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ویک اینڈ تھا اس لیے سنبل انکار نہیں کر سکی۔ عالیہ بھی تمبولا کھیلنے والوں میں شامل تھی۔وہ اس کے ساتھ کھڑی فنکشن کو انجوائے کر رہی تھی۔ جب ایک آواز نے اسے چونکا دیا تھا۔ وہ بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس کم از کم چھ فٹ لمبا ایک وجیہہ نوجوان تھا۔ کروکٹ بالوں نے اس کے تیکھے نقوش اور ڈارک براؤن آنکھوں کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیا تھا۔ جس بے تکلفی کے ساتھ اس سے مخاطب تھا اس نے سنبل کو قدرے پزل کر دیا تھا۔




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!