آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

اس نے بیرونی دروازے کو بند کیا اور چادر کو اچھی طرح سے لپیٹ کے ہینڈ بیگ اٹھا لیا اور دیوار کے ساتھ ساتھ گلی میں چلنے لگی۔ حسن نے اگلی گلی کی نکڑ پر اسے ملنے کا کہا تھا۔
آج شدید ٹھنڈ تھی اور یخ ہوائیں ہڈیوں کے گودے تک میں آر پار ہو رہی تھیں لیکن اسے پھر بھی پسینے آ رہے تھے۔
جونہی اس نے گلی کے دو تین گھر پار کیے۔ اسے پیچھے سے ہلکا سا سایہ لہراتا ہوا نظر آیا۔
اس نے ڈر کے مارے کن انکھیوں سے پیچھے دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا۔ ابا کا لاڈلا اور اماں کا راج دلارا کتا اس کے پیچھے پیچھے دم ہلاتے ہوئے چلا آر ہا تھا۔
مہرو کو سمجھ نہیں آئی کہ اب کیا کرے۔ اس نے رک کے منہ سے آواز نکال کے اسے پیچھے آنے سے منع کیا۔ کتا رک گیا اور وہ پھر چل پڑی لیکن پیچھے مڑ کے دیکھا تو کتا پھر اس کے پیچھے آ رہا تھا۔
اب اس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور چھوٹا سا پتھر نظر آیا۔
اس نے پتھر اٹھا کی کتے کی طرف اچھالا جو کہ ٹھیک نشانے پہ لگا اور کتا ہلکا سا کراہا، لیکن جب مہرو نے چلنا شروع کیا، تو کتا نے بھی چلنا شروع کر دیا۔
مہرو نے اب اپنے چلنے کی رفتار تھوڑی تیز کر دی۔ وہ جلد از جلد حسن تک پہنچنا چاہتی تھی۔ بس چند قدم کے فاصلے پر وہ موٹر بائیک لیے اس کا منتظر ہو گا اور کتا تو موٹر بائیک کا زیادہ دیر تک پیچھا بھی نہیں کر سکے گا اور پھر وہ پلان کے مطابق کہیں دوسرے شہر چلے جائیں گے۔
اگلی گلی کا موڑ مڑتے ہی اسے حسن بائیک کے ساتھ کھڑا نظر آگیا اور اس نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر مڑ کے پیچھے دیکھا، تو کتا اس سے چند ہی قدم دور کھڑا اپنی دم ہلا رہا تھا۔
وہ تیزی سے حسن کے پاس آئی تو اس نے پوچھا۔
’’سب اچھی طرح ہو گیا نا کسی نے گھر سے نکلتے ھوئے تو نہیں دیکھا تمہیں اور وہ سب سامان ساتھ لائی ہو نا جس کا میں نے کہا تھا تم کو۔‘‘
وہ بے چینی سے سوالوں پر سوال کر رہا تھا۔
’’نہیں کسی نے نہیں دیکھا مجھے اور سب کچھ لے کے آ گئی ہوں۔‘‘
مہرو نے اسے نثار ہونے والی نظروں سے دیکھا۔





’’اچھا اب ایسے کرو وہ بیگ مجھے دے دو جس میں پیسے اور زیورات ہیں۔ تم کہیں راستے میں گرا ہی نہ دو اور پھر ہم رلتے رہیں۔‘‘ حسن نے اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
کتا اب بھی مہرو کے پاس کھڑا تھا اور اس اجنبی بندے کو گھورے جا رہا تھا جو اس کی مالکن کے ساتھ اتنی رات گئے کھڑا تھا۔
جب حسن نے بیگ لینے کے لیے مہرو کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو کتے نے غصے سے غرانا شروع کردیا۔
حسن تھوڑا پیچھے ہٹ کے بولا اور مہرو کو غصے سے کہا۔
’’اس کتے کے پلے کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
’’ارے میں خود سے ساتھ تھوڑا ہی لائی ہوں۔ خود ہی مجھے دیکھ کے پیچھے پیچھے دم ہلاتے ہوئے آنے لگا۔‘‘
مہرو نے غصیلی نظروں سے کتے کو دیکھتے ہو ئے جواب دیا۔
اسے کتے پر بہت غصہ آرہا تھا۔
حسن نے جب دوبارہ بیگ کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو کتا پھر غرانے لگا۔
’’ارے چھوڑو تم بیگ میرے ہاتھ میں ہی رہنے دو۔ کتا مجھے تو کچھ نہیں کہہ رہا۔‘‘ مہرو نے حسن سے کہا۔
حسن کو کتے پہ شدید غصہ تھا جو عین وقت پر رنگ میں بھنگ ڈال رہا تھا۔
’’ـتم موٹر سائیکل اسٹارٹ کرو میں بیگ کو مضبوطی سے تھام کے بیٹھ جاؤں گی۔‘‘
مہرو نے بیگ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور حسن کے پیچھے بیٹھ گئی۔ اتنے میں حسن موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے بیٹھ چکا تھا۔
کتا اب زور زور سے بھونکنے لگا۔
حسن نے مہرو کے ہاتھ سے بیگ لے کے اسے دھکا دے کے نیچے گرایا اور بائیک کی رفتار تیز کی۔
لیکن گلی میں نالی کی وجہ سے لڑ کھڑا گیا اور گرتے گرتے بچا۔
مہرو نے اپنی چوٹوں کی پروا نہ کرتے ھوئے اسے پکارا۔ حسن رکو میں آتی ہوں۔
حسن نے کہا۔ تم جیسی اوباش سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں کسی کوٹھے والی سے کر لیتا۔ جو کچھ مجھے چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا ہے۔ حسن نے بیگ کی طرف اشارہ کیا اور قبل اس کے کہ وہ اپنی موٹر سائیکل بھگاتا۔ کتے نے ایک جست لگائی اور اس پر حملہ کر کے اس کو نیچے گرا دیا اور بیگ کو منہ میں دابے مہرو کی طرف آیا۔
مہرو نے بیگ لے لیا اور حسن کتے کی پروا نہ کرتے ہوئے پھر بیگ پر جھپٹا۔
لیکن کتا پھر دونوں کے بیچ آیا اور اس کی کوشش ناکام بنا دی۔
اب کتے نے حسن کو زمین پر گرا لیا اور اس کی ٹانگوں میں دانت گاڑ دیے۔
حسن مہرو اور کتے دونوں کو مغلظات بک رہا تھا۔
مہرو تو اس کی اصلیت کھلنے پرہکا بکا تھی۔
مہرو نے جب اس کے پاؤں سے خون نکلتے دیکھا، تو کتے کو پکارا اور کہا۔
’’اب چھوڑ دو اسے۔ اس کمینے کے لیے اتنا ہی بہت ہے۔ اگر تھوڑی سی بھی غیرت ہوئی تو پھر کسی لڑکی کو تنگ نہیں کرے گا۔‘‘
کتا اب بھی اسے بھنبھوڑ رہا تھا۔
مہرو کی دوسری اور پھر تیسری آواز پر کتا اسے چھوڑ کے مہرو کے سنگ ہو لیا۔
٭…٭…٭
مہرو کے قدموں میں جیسے بجلی سی بھر گئی۔ وہ جلد از جلد اماں کے جاگنے سے پہلے گھر پہنچنا چاہتی تھی۔ کتا بھی اس کے ساتھ ساتھ آرہا تھا کسی چوکس محافظ کی طرح۔
اس نے جلدی سے گھر کے دروزے پر ہاتھ رکھا جو کھلتا چلا گیا۔ اس نے کتے کو اندر کر کے دروازے کو کنڈی لگائی اور پھر دبے دبے قدوں سے صحن طے کر کے برآمدے میں آئی۔ اماں کے خراٹوں کی آواز اب نہیں آ رہی تھی۔ اس نے ذرا سائیڈ پر ہو کے کھلی کھڑکی سے جھانکا۔ اماں اب بھی کروٹ لیے سو رہی تھیں۔
وہ جلدی سے اپنے کمرے کی طرف آئی۔ اندر سے کنڈی لگا ئی اور پھر چادر اتار کے بیگ کو الماری میں چھپایااور پھر بیڈ پہ بیٹھ گئی۔
جب سانس برابر ہوئی اور سوچا وہ کتنی بڑی بدنامی اور مصیبت سے بچ کے آگئی ہے تو اس پر کپکپی طاری ہوگئی۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے مجھے بچا لیا۔ نہیں تو میرے اباجی کی سفید پگڑی پر ایسا داغ لگتا جو سار ی عمر بھی دھونے سے نہ جاتا۔
’’ہائے اللہ! یا اللہ مجھے اٹھا لے۔ اتنا سب کرنے کے بعد والدین کا اعتبار مان اور بھروسا توڑنے کے بعد میں نے جینے کے سب حقوق کھو دیے۔ وہ بلک بلک کر خود کو بد دعائیں دے رہی تھی۔ پھر ا اچانک کچھ خیال آنے پر وہ اٹھی اور دروازہ کھول کے کچن میں آئی۔
اپنے حصے کی بچی ہوئی روٹی اور سالن نکالا اور کتے کے کھانے والی آدھی روٹی بھی جو آج کتے نے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے نہیں کھائی تھی۔
سب کو ایک بڑی پلیٹ میں ڈال کے کتے کی کوٹھڑی کی طرف آئی جو صحن کے ایک طرف دروازے کے پاس ہی تھی۔
کتا دبکا ہوا بیٹھا تھا۔
مہرو نے پلیٹ والا روٹی سالن کتے کے برتن میں انڈیلا اور اُس کی طرف نگاہ اٹھائی جو اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
مہرو کو بے اختیار کتے پر بہت پیار آیا جس نے آج آدھی روٹی کا حق ادا کر کے اس کے والدین کی پرکھوں سے کمائی عزت کی لاج رکھ لی تھی۔
٭…٭…٭
مہرو آنگن میں نیم کے پیڑ کے نیچے بچھے تخت پر لیٹی ہوئی تھی۔ سردیوں کی صبح کی کھلی کھلی دھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اس کی طبیعت آج تین دن کے سخت بخار کے بعد کچھ سنبھلی تھی۔
اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس دن تیز ٹھنڈ کی وجہ سے بخارہوا تھا یا ندامت اور شرمندگی نے اسے کا یہ حال کر دیا۔
پیڑ پہ پرندوں کی چہکار کانوں کو آج پہلی با ر بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔
اماں اس کے لیے نا شتا لے کے آگئیں۔ دیسی گھی کی چوری کے ساتھ چائے۔ ناشتا دیکھ کے اِسے اچانک کتے کا خیال آیا، تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
’’اماں کتے کو روٹی ڈال دی ہے۔‘‘ اس نے ایسی لگاوٹ سے پوچھا کہ اماں کو حیرانی کا ایک جھٹکا سا لگا کہ پہلے تو ہر وقت نالاں رہتی تھی اور اب رات کی رات ایسا کیا معجزہ ہو گیا کہ اس کا دل پلٹ گیا۔
اتنے دن سے کالج بھی نہیں گئی تھی اور نہ ہی شمع کا اس کی طرف چکر لگا اور نہ ہی کوئی میسج یا فون آیا۔
اس نے حیرانی اور بے چینی سے شمع کا نمبر ملایا جو کئی رنگز جانے کے بعد اس نے اٹھایا۔
’’ہیلو شمع… میری آواز آ رہی ہے؟‘‘
’’اللہ کتنا شور ہے؟ کہاں ہو اور پیچھے سے آوازیں کیسی آ رہی ہیں۔ ‘‘
’’ہاں مہرو بولو۔ آواز آ رہی ہے۔ ہم خالہ کے گھر آئے ہیں۔ حسن بھائی کہ شادی ہے نا۔‘‘
’’کون حسن؟‘‘
’’ہائے مہرو اتنی جلدی بھول بھی گئی۔ وہی جو ہمارے گھر آئے ہوئے تھے اور تم پر…‘‘
’’اچھا بس کرو۔ اتنی جلدی شادی اور کس سے۔‘‘ مہرو نے حیرانی سے پوچھا۔
’’جلدی تو نہیں یہی دن طے تھے اور ان کی تو منگنی بہت سال سے اپنی کزن سے ہوچکی تھی۔ ویسے مرتے تھے تم پہ۔ کیسے کیسے جتن کر کے تو میں نے تم سے دوستی کروائی تھی۔ جانے کتنے تحفے اور کتنی ٹریٹس لے کے۔‘‘
مہرو کا تو سانس رکنے لگا۔
’’تو شمع تمہیں سب پتا تھا پھر بھی تم نے میرے ساتھ یہ سب کیا ۔ ‘‘ مہرو نے مارے غصے کے فون کاٹ دیا۔ اب مارے ذلت اور شرمندگی کے اس کا برا حال تھا۔
’’اماں ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ مہرو تم بہت ہی بھولی ہو۔ تمہیں انسانوں کی بالکل پہچان نہیں۔ ‘‘
پھر کتے کے بھونکنے کی آواز سے اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا اور اس کی ذہنی رو کسی اور طرف بہنے لگی۔
بعض اوقات ہم ساری زندگی حیوانوں کے شر سے بچتے رہتے ہیں، لیکن انسانوں کے بھیس میں چھپے حیوانوں اور شیطانوں سے پناہ مانگنا بھول جاتے ہیں۔
اماں برآمدے سے صحن میں اس کی طرف آنے لگیں، تو صحن میں دانہ چگتے پنچھیوں نے اڑان بھری اور پیڑ پر جا بیٹھے۔
اور مہرو رنگ برنگے پرندوں کے رنگ گنتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
شاید اماں ابا کی پرندوں اور جانوروں کی خدمت نے ہی اسے ایک انسان نما درندے کا شکار ہونے سے بچا لیا تھا۔
اور یہ بھی سچ ہی تھا کہ دنیا میں کی جانے والی نیکیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔
اس کے ذہن میں وہ دن گھوم گیا جب ابا کتے کی مرہم پٹی کر رہے تھے اور وہ غصے سے پیر پٹخ رہی تھی۔
لیکن وہ غلط تھی۔ اس کی سوچ کا پنچھی ہمیشہ غلط سمت میں پروازکرتا رہا ۔
یہ اماں ابا کی نیکیاں ہی تھیں جو اس کے آگے ڈھال بن گئی تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!