آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

مہرو کمرے میں بیٹھی کالج کا کام کر رہی تھی جب اسے کتے کے زور زور سے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سر جھٹک کر پھر سے کام میں مشغول ہو گئی۔ اتنے میں شمع تیزتیز سانس لیتی کمرے میں داخل ہوئی۔
’’ارے خیریت ہے کیا ہوا، کیوں پرانی ہیرونز کی طرح گہرے گہرے سانس لے رہی ہو، کیا ہواؤں سے لڑتی ہوئی آئی ہو ۔‘‘ مہرو نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یار مہرو یہ جو رکھوالا باہر باندھ رکھاہے نا، ساری اسی کی کارستانی ہے، یہ تو شکر ہوا کہ تمہاری اماں باہر ہی تھیں نہیں تو پتا نہیں میرا کیا حال ہوتا۔‘‘ شمع نے غصے سے مہرو کو دھموکا جڑا۔
’’بس یار کیا بتاؤں میں تو خود ناک تک عاجز ہوں اس سے، لیکن ابا اماں کا پیار ہے کہ اس کتے کے بچے کے لیے امڈا چلا آتا ہے۔ ان کا تو بس نہیں چلتا کہ دنیا جہان کے پنکھ پکھیرو اور آ وارہ کتے بلیاں اپنے گھر میں پال لیں۔ مہرو نے اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔‘‘
اتنے میں اماں ان کے لیے چائے بنا کے لے آ ئیں۔ شمع نے چائے کے ساتھ لوازمات دیکھے تو تب کہیں اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔
’’بنوتمہاری ایک امانت ہے میرے پاس وہی دینے آئی ہوں،نہیں تو تمہارے اس رکھوالے کتے کو تو مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہو گیا ہے۔ جب بھی مجھے دیکھتا ہے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔‘‘
اماں کے جانے کے بعد چائے کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے شمع نے آنکھ کا کونا دبا کر مہرو سے کہا۔
’’میری کون سی امانت ہے تمہارے پاس؟‘‘ مہرو نے حیرانی سے پوچھا۔
’’بس ہے نا لیکن چائے پینے کے بعد دوں گی۔‘‘ شمع نے دوپٹے میں چھپے ہاتھ میں دبا ایک گلابی سا لفافہ لہرایا۔
شمع نے چائے پی کے ہاتھ جاڑھے اور گلابی لفافہ اس کے حوالے کیا۔
’’اور ہاں دیکھو، اگر دینے والے کی تاکید نہ ہوتی کہ مہرو کو اکیلے میں اور تنہائی میں پڑھنے دینا، تو میں ابھی اسی وقت اس پریم پتر کو تمہارے ساتھ پڑھتی۔‘‘ وہ مصنوعی شرارت سے بولی۔
’’ارے کچھ پتا تو چلے کہ کس کی امانت ،کس کا پریم پتر ، جانے کیا اول فول بکے جا رہی ہو۔‘‘ مہرو کے انداز میں بھرپورتجسس تھا۔
’’ارے لاڈو رانی تھوڑا صبر سے کام لو اور میرے جانے کے بعد دل تھام کے پڑھنا پریم کا پہلا پتراور پڑھ کے فورا ًمجھے کال کر کے بتانا کہ کیا لکھا تھا اس میں۔‘‘ شمع نے پیار سے اس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو چھوتے ہوئے کہا۔
مہرو نے شمع کے جانے کے بعد دھڑکتے دل کے ساتھ وہ گلابی لفافہ کھولا جس میں بسی خوشبو اب پورے کمرے کو مسحور کر رہی تھی۔
’’جانِ تمنا!‘‘
’’سلام محبت!‘‘
جب سے تمہیں دیکھا ہے آنکھوں کو اب کسی اور کو دیکھنا اچھا ہی نہیں لگتا۔ تمہاری ایک ہی جھلک نے میرے دل کے سونے آنگن میں تا حد نظر پھول ہی پھول کھلا دیے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میرے دل میں کھلے پھولوں پر پھر سے خزاں آئے ان پر اپنی شربتی آنکھوں سے محبت کی بارش کر دو۔
’’تمہاری دید کا منتظر
صرف تمھارا
حسن۔‘‘
خط پڑھتے ہوئے اس کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں اور پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔
اتنی تعریف اور ایسی تعریف مہرو نے بھلا کب سنی تھی۔
اِسے تو اپنے آپ سے بھی لاج آنے لگی تھی۔
لیکن رفتہ رفتہ ان الفاظ کا جادو ایسے سر چڑھ کے بولا کہ رات تک اس نے وہ خط اتنی بار پڑھ لیا جیسے کل کالج میں اسی کا ٹیسٹ ہو۔ لفظ بہ لفظ رٹو طوطے کی طرح رٹ لیا۔
پھر تواس کی ان چھوئی پلکوں پر نئے نویلے اور ست رنگے خواب یوں اترنے لگے جیسے آنگن میں نیم کے گھنے پیڑ پر رنگ برنگی چڑیاں اور ست رنگے پکھیرو اترتے ہیں۔
’’آنگن کے پنچھی تو اماں بی کے ڈالے گئے دانے دنکے پر آتے تھے اور اس کی پلکوں پر اترے خواب دن رات کے ان گنت رنگین خیالوں اور سوچوں کے مرہونِ منت تھے۔‘‘
’’آنگن کے پنچھیوں اور آنکھوں کے خوابوں کے پیچھے بھاگنے والی خود کب کسی کی نظر کے جال کا شکا ر ہوئی تعین کرنا مشکل ہے۔‘‘
’’اسے تو مانو تب خبر ہوئی جب اس نے شکاری کا ڈالا گیا پہلا دانہ بھی نگل لیا تھا۔‘‘
٭…٭…٭





جوں جوں خطوط کا سلسلہ بڑھتا گیا خواہشوں نے ننھے بیج سے تناور درخت کا فاصلہ دنوں میں طے کر لیا۔ پھر جیسے نیم کے پیڑ پہ پرندوں کا اضافہ ہوا ٹھیک اسی طرح خواب در خواب کا سلسلہ بھی خطوط کی وجہ سے دراز ہوتا چلاگیا۔ اس کے ہر خط میں ملاقات پر اصرار بڑھتا گیا اور مہرو اسے آج کل کے بہانے پر ٹالتی رہی۔ کیوں کہ اس کے نزدیک روز کالج آتے جاتے کی لکا چھپی ہی بہت تھی۔ وہ تو اتنی سی ملاقات میں بھی سارا وقت دھیمی دھیمی آنچ میں سلگتی رہتی اور اپنے آپ سے بھی شرمائی لجائی رہتی۔
’’مہرو کی خوش نصیبی تھی کہ حسن کی بدنصیبی تنہائی میں ملاقات کا موقع نہ آسکا۔
آخر ایک دن حسن کے بے پناہ اصرار پر مہرو نے حسن سے کہا:
’’میں چھپ چھپ کے ملنے پر یقین نہیں رکھتی تم اپنی ماں کو میرے گھر رشتے کے لیے بھیجو۔‘‘
’’مہرو میری جان میں تو خود یہی چاہتا ہوں، لیکن تمہیں معلوم ہے کہ میری بیمار ماں اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتی۔‘‘ حسن کے پاس گھڑا گھڑایا جواب موجود تھا۔
’’تو پھر خالہ کو بھیج دو۔‘‘ مہرو نے ایک اور راستہ اسے دکھایا۔
’’تمہار کیا خیال ہے میں نے خالہ سے بات نہیں کی ہو گی۔‘‘
حسن نے بے زاری سے جواب دیا
’’تو پھر…‘‘ ‘ مہرو کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
’’تو پھر کیا خالہ نے کہا کہ یہ لوگ اپنے خاندان سے باہر رشتہ نہیں دیتے۔ ‘‘
حسن نے ایک اور جواب یا بہانہ پیش کیا۔
’’اچھا اب میں فون بند کرتی ہوں۔‘‘ مہرو نے نیند سے بوجھل ہوتی پلکوں سے کہا۔
’’ٹھیک ہے تم سو جاؤ۔‘‘ میں خود ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکالتا ہوں۔
اس نے کال کاٹ کے فون بیڈ پر پھینک دیا۔
’’واہ رے حسن ایک چھٹانک بھر کی سیدھی سادھی چھوکری تیرے دام میں نہیں آرہی۔ ویسے تو بڑے طرم خان بنے پھرتے تھے کہ ہر قسم کی لڑکی میرے لیے دو دن کی مار ہے۔‘‘
اس نے خود سے سوال جواب شروع کر دیے تھے۔ پھر ایک حتمی فیصلہ کر کے وہ گہری نیند میں ڈوب گیا۔
٭…٭…٭
’’مہرو، میں ذرا پڑوس میں سکینہ کو دیکھنے جا رہی ہوں۔ تم دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کر لینا۔‘‘
اماں نے اسے آواز دیتے ہوئے گھر کا دروازہ پار کیا۔
مہرو کو دروازے کی کنڈی لگاتے ھوئے اماں پر بے ساختہ پیار آیا اور آنکھیں بھر آئیں۔
اماں جو اس کی عزت اور حفاظت کے لیے بند دروازے کے اندر بھی پریشان تھیں اور ایک وہ تھی پرکھوں کی عزت کو بٹا لگانے دہلیز پار کر گئی تھی۔
گھر کی عزت بھی پنجرے میں بند طوطے کی طرح ہوتی ہے۔ ایک بار پنجرہ کھول کے نکال دو تو آزاد طوطے کی طرح پھر کبھی واپس نہیں آتی۔
وہ تھکے قدموں اور نم آنکھوں سے اپنے کمرے میں آئی اور الماری سے کپڑے کی پوٹلی نکل کے زمین پر بیٹھ گئی۔
پوٹلی کی گرہیں کھولتے کھولتے وہ زینہ بہ زینہ طے کرتی ماضی میں پہنچ گئی۔
اس نے چھوٹی سی سونے کی انگوٹھی اٹھائی جو بقول اماں کے پہلی بار ابا نے اس کی انگلی میں پہنائی تھی۔ پھر اس کے ہاتھ ایک چھوٹے سے کنگن سے ٹکرائے جن میں سرخ نگینے جڑے تھے اور یہ اماں نے اسے اس کے عقیقہ پر پہنائے تھے۔
مہرو کی آنکھوں سے آنسو قطار در قطار برس رہے تھے۔
پھر اس نے وہ چاندی کی پائل اٹھا کہ ہاتھ پر رکھی جو اماں نے ابا کی مخالفت کے باوجود اس کے پیروں میں تب پہنائیں تھیں جب اس نے پہلا قدم اٹھایا تھا۔ اس کا رونا اب سسکیوں میں بدل گیا۔
اب اس نے وہ جھمکیاں اٹھائیں جو ابا نے اسے آٹھویں پاس کرنے پر دی تھیں۔
اب سسکیاں ہچکیوں میں بدل گئیں۔
پھر اس نے وہ لاکٹ اٹھایا جو ابا نے اسے دسویں پاس کرنے پر دیا تھا۔
اس کے ہا تھ کانپنے لگے۔
ان سب زیورات کے بیچ سونے کی وہ چوڑیاں اور سیٹ جگر جگر کر رہا تھا جو اماں نے کمیٹیاں ڈال ڈال کے اس کی شادی کے لیے بنائے تھے۔
اُف اللہ کتنی بدبخت ہوں میں۔ اماں ابا نے کتنی محبت سے اور اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کے اس کے لیے اتنے زیورات جمع کیے تھے۔ جیسے چڑیاں تنکا تنکا جوڑ کے اپنے بچوں کے لیے گھونسلا بناتی ہیں۔
اللہ اللہ مہرو نے اپنے زانوؤں پر ہاتھ مارتے ہوئے اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا جیسے کسی میت پر بین کرتی ہیں عورتیں۔
ہائے اللہ میں کتنی بدبخت تھی جو اتنی محبتوں کو مٹی میں رولنے چلی تھی اس مکار اور لوفر لفنگے کے لیے۔
اس کا رونا جاری تھا جب اسے آنگن سے کتنے کے بھو نکنے کی آواز آئی تو وہ بے چین ہو باہر کی طرف لپکی۔
٭…٭…٭
’’شر کا بیج عموماً رات کی سیاہ سرزمین پر نمو پاتاہے۔ پھر کچھ سیا ہ کا راپنے گناہوں کی کھاد ڈال کر اس فصل کو پروان چڑھاتے ہیں اور نیکو کار اس کو اللہ کے ذکر سے جڑی بوٹیوں کی طرح تلف کر دیتے ہیں۔‘‘
جوں جوں شام رات میں ڈھل رہی تھی اس کے قدموں سے جیسے جان نکل رہی تھی۔
آج ابا کا م کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے۔ کھانے پر اس کا دھیان نہ دیکھ کر اماں نے کئی بار اسے ٹوکا۔
لیکن پھر بھی اس سے کھانا نہ کھایا گیا۔
اس نے سر درد کا بہانہ کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
جب شام بالکل رات میں مدغم ہو گئی اور موذن نے عشا کی اذان دینی شروع کی، تو اسے عجیب سی اداسی نے آن گھیرا۔
’’ رات جو شر کا منبع ہے ا ور جو سب اشرار کی ماں ہے اور زیادہ تر جرائم،گناہ اور شر رات کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں۔
’’تو آج ایک اور بنت آدم رات کے گناہوں میں اضافہ کرنے والی تھی۔‘‘
آخر کار ابن آدم نے ایک سادہ لوح بنت حوا کو گھر سے بھاگنے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیار کی جنت میں رہنے کے لیے راضی کر ہی لیا۔ ہر بار آدم کو جنت سے نکالنے کا الزام حوا کے سر ہی آتا ہے، لیکن ہر بار یہ کہانی سچ نہیں بھی ہوتی کیوں کہ کبھی کبھی بنت حوا بھی ابن آدم کے بہکاووں میں آ کر اپنی جنت کے بدلے جہنم خرید لیتی ہے۔
اماں نے اس کے لیے گرم دودھ اور سر درد کی گولی لا کر میز پر رکھی اور بستر میں لیٹی مہرو کو پکارا۔
’’اٹھ میری شہزادی گرم دودھ کے ساتھ یہ دوائی کھا لے۔ آرام آ جائے گا اور اِدھر لا سر میں دم بھی ڈال دوں۔‘‘
’’نہیں اماں سوؤں گی تو خود ہی آرام آ جائے گا۔‘‘ مہرو نے مصنوعی نقاہت زدہ لہجے میں کہا۔
’’آج حاجی صاحب ہوتے تو وہی دم ڈال دیتے اور تجھے آرام بھی تو ان کے دم ہی سے آتا ہے۔ چل اٹھ میرا بچہ دوائی کھا لے پھر آرام سے سو جانا۔‘‘ اماں نے منہ ہی منہ میں اس پر دم کر کے پھونک مارنے کے بعد کہا۔
اس نے اماں کے ہاتھ سے گولی لی اور پھر دودھ بھی پی لیا۔
پھر اماں کو یاس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے گلاس لوٹایا اور کہا۔
’’اچھا اماں اب میں سوتی ہوں آپ بھی اب آرام کریں۔‘‘
’’مہرو آج تو میں تیرے پاس ہی سو جاتی ہوں۔ کہیں رات کو پیاس نہ لگے یا طبیعت زیادہ خراب نہ ہو جائے۔‘‘
اماں نے فکرمندی سے کہا۔
’’ارے نہیں اماں پیاس لگی تو پانی رکھا تو ہے نا جگ میں اور میں بتی جلا کے سوتی ہوں اور آپ کو کہاں نیند آتی ہے روشنی میں۔ آپ فکر نہ کریں گولی سے مجھے آرام بھی آجائے گا اور نیند بھی۔‘‘ ا س نے جیسے اماں کو تسلی دی۔
’’اچھا اٹھ کے دروازہ ا چھی طرح بند کر لو۔ طبیعت اگر زیادہ خراب ہونے لگے تو مجھے جگا دینا۔‘‘ اماں کا دل اب بھی اسی میں اٹکا تھا۔
’’ٹھیک ہے اماں آپ بھی اب آرام کریں۔‘‘
اس نے اماں کو اطمینان دلایا۔
اور آہستہ سے بیڈ سے اتری تا کہ کنڈی لگا لے۔
دروازہ بند کر کے وہ بیڈ پر پاؤں لٹکا کے بیٹھ گئی اور جب اسے اطمینان ہو گیا کہ اب اماں سو چکی ہوں گی۔ وہ اٹھ کے الماری تک آئی اور کپڑوں کے نیچے چھپائے زیورات اور نقدی ایک کپڑے کے اوپر رکھ کے اس کو پوٹلی کی طرح باندھا اور پھر اسے اپنے بڑے پرس میں رکھ لیا۔
پھر آہستگی سے دروازہ کھول کے دبے پاؤں اماں کے کمرے تک آئی اور دروازے ہی سے اماں کے خراٹے ان کی گہری نیند کا اعلان کر رہے تھے۔
وہ واپس اپنے کمرے تک آئی اور موبائل سے حسن کو میسج کر کے اسے کال بھی کی جو اس نے کاٹ دی۔
پھر اس نے ہینڈ بیگ اور پرس اٹھایا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے دبے پاؤں برآمدے سے صحن اور پھر بیرونی دروازے تک آئی۔ اماں کے خراٹے ابھی تک آ رہے تھے۔ اس نے ایک الوداعی نگاہ گھر کے درو دیوار پر ڈالی اور دہلیز پار کر آئی۔
اماں کے سونے کے بعد آج اس بات کا بھی اسے اطمینان تھا کہ ابا کا لاڈلا کتا آج سر شام ہی کہیں غائب تھا ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!