آدھا سورج —- امایہ خان

”جن کی جیبیں بھری ہوں دل عموماً خالی ہوتے ہیں…”. شیگی نے کہا اور عماریہ نے نظر بھر کے اسے دیکھا، ”کیا کہنا چاہتے ہو شیگی….؟ ”عماریہ نے اس کی طرف دیکھا۔
”دنیا کو لگتا ہے ہمارے ماں باپ ہم سے بہت محبت کرتے ہیں… ہماری انگلی کے ایک اشارے پر دنیا کی ساری نعمتیں ہمارے قدموں میں ڈھیر کرنا ان کی زندگی کا مقصد ہے… ہونہہ….” وہ بستر کی پائنتی پرخود کو ٹکائے فرش پر ٹانگیں پھیلائے لیٹا تھا۔ ”کوئی نہیں جانتا اومی… کسی کو نہیں معلوم… ہم جیسا محروم کوئی بھوکا ننگا بھی نہیں ہوتا… اس کے پاس بھی کوئی امید کوئی مقصد ہوتا ہوگا… اور ہم… خالی برتن ہیں اومی…. خالی کشکول… جس میں بھیک دینے والا اور کوئی نہیں…. ہمارے اپنے ماں باپ ہیں…”، جانے کیوں اس پل عماریہ کو لگا آج سے پہلے شیگی ہوش میں نہیں تھا، اسے ابھی ہوش آیا ہے،
”ہم محبت مانگتے ہیں تو وہ سکّے پھینکتے ہیں… مول لگاتے ہیں…” ایک زخمی مسکراہٹ کے ساتھ شیگی نے کہا۔ عماریہ نے دیکھا اس کی آنکھیں بے تحاشا سُرخ ہورہی تھیں۔ ”بس کرو شیگی…..” اس نے کہا مگر شرجیل نے سنا ہی نہیں، وہ اپنے دل کی کہتا رہا، ”تم نے شبیر انکل کا ڈوبر مین دیکھا ہے اومی؟… کتنا خیال رکھتے ہیں اس کا… بیرون ملک سے غذا منگوائی جاتی ہے اس کے لیے …. اس کا Kernel انٹیریئر ڈیزائنر سے بنوایا ہے… صرف اس کی دیکھ بھال کے لیے علیحدہ سے نوکر ہے… مگر شبیر انکل اسے اپنے قریب نہیں آنے دیتے….”
‘کیوں….؟ عماریہ کو سن کر حیرت ہوئی۔
”کہتے ہیں دین کے مطابق کتا نجس ہوتا ہے …. ہونہہ…”
”تو پالا کیوں ہے اسے؟؟”
”دوستوں اور دنیاوالوں کے سامنے بڑائی مارنے کے لیے…. کتا پالنا ہے اومی… جیسے ہم ہیں….” شیگی نے ایک بے درد قہقہہ لگایا اور اٹھ بیٹھا…. ”ہم بھی اپنے والدین کے پالتو کتے ہیں عماریہ۔ جنہیں برانڈڈ کپڑوں، جوتوں گھڑیوں سے لاد کر فخریہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے… بالکل اسی طرح جس طرح pet show میں اپنے مہنگے پالتو جانوروں کی نمائش کی جاتی ہے…” عماریہ کو اس کا کہا حرف بہ حرف سچ نظر آرہا تھا، وہ اپنی آنکھوں میں بھرتے پانی کو روک نہیں پائی… شیگی کہتا رہا، ”ان کا دین ایمان پیسہ، عیاشی…. ایسے میں اولاد کو پیار کرکے اپنا ایمان خطرے میں کیوں ڈالے کوئی….”، شیگی نے بآواز بلند نعرہ لگایا؟
”ہم کتے ہیں… کتے… بھوئو بھوئو بھوئو… ہاہاہا….”
”بس کرو شیگی… کیوں خود کو اذیت دیتے ہو؟” مگر شیگی نے جیسے سنا ہی نہیں تھا،
”ہمارا بھونکنا دن رات کا معمول ہے… انہیں فرق نہیں پڑتا گھر کے سامنے بھونکیں یا باہر جاکر… فرق تب پڑے گا جب ہم کاٹ لیںگے….”
”اور ہم غلامانہ ذہنیت لے کر پیدا ہونے والے کتے… پاگل ہوکر بھی صرف اپنے آپ کو ہی کاٹیں گے… خارش ہوگی تو اپنا ہی جسم کھرچ ڈالیںگے… ہمارے زخموں کے مرہم ایجاد نہیں ہوئے اومی ہم کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے… پاگل کتوں کا کوئی علاج نہیں… انہیں گولی ماردینی چاہیے….” شیگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ عماریہ بھی خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ پوری رات کا سناٹا ان کے رونے کی آوازیں سنتا رہا۔
******





حسام کو یقین نہیں آرہا تھا کہ جو کچھ اس نے سنا وہ سچ ہے؟ عماریہ اور شرجیل کی منگنی ہورہی تھی۔ مگر کیوں؟ عماریہ تو اس سے محبت کرتی تھی پھر وہ ایسا کیسے کرسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے اسے مجبور کردیا گیا ہو۔ ہاں عین ممکن ہے۔ پورا دن اس نے نہایت بے چینی میں گزارا شام کو پی سی میں عماریہ کی منگنی تھی۔ سب فرینڈز انوائیٹڈ تھے۔ عماریہ نے اس کا فون ریسیو نہیں کیا تھا، تیمور سے بھی بات نہیں ہوپارہی تھی اس نے فیصلہ کرلیا وہ خود جاکر پوچھے گا عماریہ سے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟
وہ گیا بھی اور عماریہ سے ملاقات بھی ہوئی۔ سب کچھ واضح ہوجانے کے بعد وہ جان گیا کہ اسے بے وقوف بنایا گیا ہے۔ عماریہ سے بے عزتی کروانے کے بعد ہال سے نکلتے ہوئے تیمور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا، ”یار… ہم لوگ تو مذاق کررہے تھے… تم خواہ مخواہ سیریس ہوگئے….؟”
حسام نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور چلاگیا۔
عماریہ نے ایک بار پلٹ کر بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا اسے کمزور سہاروں کی ضرورت نہیں تھی اعجاز کی موت کی خبر سن کر پل بھر کے لیے سکتے میں آئی پھر خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے حسیب کو اسی دو ٹوک انداز میں باور کرادیا کہ وہ ہر گز اعجاز کی ڈیڈ باڈی ریسیو نہیں کرے گی بہتر ہے اسے وہیں دفنادیا جائے جہاں اس کی جان گئی ہے۔
حسیب نے اس بار کوئی بحث نہیں کی تھی کیوںکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ ثروت پر کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا بس اس کا جواب سُن کر خاموشی سے فون رکھ دیا اور اعجاز کی آخری رسومات کی تیاری میں مصروف ہوگیا تھا۔
بیلا مسلسل تین دن سے ثروت کو گھر میں دیکھ رہی تھی۔ نہ وہ آفس جانے کے لیے تیار ہوتی تھی نہ ہی کمرے سے باہر نکل رہی تھی۔ اس کی تو بھوک بھی اڑچکی تھی کھانے کو سامنے رکھ کر جانے کہاں کھوجاتی تھی۔ نہ ہی گھر کی صفائی کے بارے میں بازپرس کرتی نہ ہی عماریہ کے بارے میں پوچھتی تھی۔ جو دن رات شرجیل کے ساتھ گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ عماریہ کو بھی علم نہیں تھا کہ ثروت آفس اور بزنس دونوں بھلائے بیٹھی ہے وہ تو بس اپنی دنیا میں مگن تھی۔
یہ ساری صورتِ حال بیلا کے لیے نہایت تعجب خیز تھی۔ بہت ہمت کرکے بالآخر شام کو اس نے ثروت کے کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھٹکھٹایا کوئی جواب نہ ملنے پر آہستگی سے کھولا تو دیکھا ثروت کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھی تھی۔ بیلا کوئی آواز پیدا کیے بغیر اس کے نزدیک آئی تو ثروت کو کہتے سنا، ”مرنے سے پہلے ایک بار میرا خیال تو آیا ہوگا… ہے نا اعجاز….”، اور بیلا سرتاپا لرز کر رہ گئی۔ ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں رکھا جوس کا گلاس چھلک سا گیا۔ ثروت کا ارتکاز ٹوٹا اور اس نے مڑ کر بیلا کی طرف دیکھا پہلے تو وہ کچھ سمجھ نہیں پائی، پھر اسے احساس ہوا کہ کچھ غلط ہوا ہے، وہ غرائی: ”تم یہاں کیوں آئی ہو؟” بیلا ہکلانے لگی، ”وہ میڈم… میں جوس لائی تھی آپ کے لیے…” ”کیا سنا تم نے؟ بولو… جواب دو…” ثروت تفتیشی انداز میں اس کے مقابل آن کھڑی ہوگئی بیلا کو یقین ہوا اب جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس نے اٹکتے ہوئے سوال کیا۔ ”وہ … اعجاز صاحب فوت ہوگئے ہیں… اسی لیے آپ اداس ہیں نا میڈم….” ثروت نے غصے میں آگے بڑھ کر ٹرے پر زور سے ہاتھ مارا، ”شٹ اپ… ایک لفظ مت کہنا اب…” بیلا خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹتی ہے ثروت کا انداز کافی خطرناک تھا،” میری ایک بات کان کھول کر سن لو تم… اگر عماریہ سے اس بات کا ذکر بھی کیا تو تمہیں غائب کروادوںگی… کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا سمجھیں…؟”
بیلا تیزی سے نفی میں گردن ہلاتی ثروت کو یقین دلاتی ہے، ”میں کچھ نہیں بولوںگی میڈم… وعدہ کرتی ہوں….”. اپنا اطمینان کرکے ثروت مڑی… اور ہینڈبیگ سے پانچ پانچ ہزار کے چند نوٹ نکال کر بیلا کے ہاتھ میں زبردستی تھمائے،” یہ لو… خرچے کی ضرورت ہوگی تمہیں… لو پکڑو… اور یاد رکھنا جو میں نے کہا ہے تم سے….” بیلا گنگ سے اتنے سارے روپوں کو دیکھتی رہ گئی، ثروت نے دوبار کہا: ”اب لو بھی … سوچ کیا رہی ہو….” کانپتے ہاتھوں سے بیلا نے نوٹ پکڑے اور انہیں کس کر مٹھی میں دباتی ہوئی فوراً کمرے سے باہر آگئی۔ دروازہ بند کرنے کے بعد اس نے اپنی گہری سانسوں پر قابو پاتے ہوئے مٹھی میں دبے ان ڈھیر سارے روپوں کو دیکھا۔ اعجاز کی صورت اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئی۔ زندگی میں پہلی بار بیلا کو ثروت سے کراہیت محسوس ہورہی تھی۔
******





عماریہ شیگی کے بیڈروم میں اس کے ساتھ مووی دیکھتے ہوئے پارپ کارن کھارہی تھی۔ اس کے انہماک کو محسوس کرکے شرجیل نے شرارتاً ریموٹ اٹھاکر آواز بند کردی، عماریہ چیخی:” ارے آواز کیوں بند کردی؟” وہ ریموٹ کی طرف لپکی تو شیگی نے اسے چڑاتے ہوئے مووی بند کردی، عماریہ نے غصے میں آکر پہلے کشن کھینچ کر مارا پھر ریمورٹ چھیننے کے لیے آگے بڑھی، ”شیگی کے بچے… ٹھہرو ذرا….. دو ادھر” شیگی نے بستر پر کھڑے ہوکر ہنستے ہوئے ریموٹ والا ہاتھ اوپر کرلیا، عماریہ اس کے ہاتھ سے لپٹ گئی، ”الو، پاگل… دو مجھے… اسٹوپڈ…”، زور سے چیختے ہو عماریہ نے اپنے تیز ناخن اس کے بازو میں کھبودئیے، شیگی کراہا۔ اسی لمحے شیگی کی ماں آمنہ کمرے میں داخل ہوئی: ”کیا شور مچارکھا ہے تم دونوں نے….” ان کی ڈانٹ سُن کر دونوں ایک دم سیدھے ہوکر بستر سے نیچے اتر آئے۔
”اب تم لوگ بچے نہیں ہو… یوں چھینا جھپٹی مت کیا کرو…”، آمنہ نے ابروچڑھاکر خاص طور سے عماریہ کو گھورتے ہوئے کہا تو وہ فوراً وضاحت دینے لگی: ”آنٹی دیکھیں نا…. یہ مووی نہیں دیکھنے دے رہا…” اس کی بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ آمنہ تڑخ کر بولیں: عماریہ “mind your language” عماریہ حیران ہوئی، آمنہ نے طنزیہ انداز میں کہا، ویسے تو تمہاری ماں بہت بڑی وکیل ہے پر تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی اس نے کبھی؟
”جی؟”
”شرجیل تمہارا ہونے والا شوہر ہے اس کی respect کرنا سیکھو…”
”میں تو بس مذاق۔” عماریہ سے اپنی بات پوری نہیں کی گئی۔ آمنہ کڑے تیوروں سے شرجیل کو گھورتے ہوئے بولیں: ”اور تم… اسے بیڈروم میں کیوں لے آئے ہو، اگر لڑکی ہوکر بھی اسے شرم نہیں تو کم از کم تم ہی کچھ احساس کرو… جائو… باہر لائونج میں جاکر بیٹھو دونوں…” اچھی طرح ڈانٹنے کے بعد آمنہ وہاں سے چلی گئیں۔ عماریہ سر جھکاکر باہر نکلنے لگی تو شرجیل نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا، ”بیٹھو… مووی دیکھ کر جانا…”، عماریہ آبدیدہ ہوگئی، ”مگر شیگی تمہاری مما… کافی ناراض ہوکر گئی ہیں…”
”ہونے دو… I don’t care… ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں….” شیگی نے اسے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ سے فلور کشنز پر لابٹھایا… تھوڑا سا confidence لائو اپنے اندر…. ویسے تو بہت bold بنتی ہو… اور ذرا کسی نے رعب دکھایا تو بھیگی بلی بن گئیں” عماریہ نے اپنے آنسو پونچھ کر کہا: ”شیگی… وہ ماما ہیں تمہاری… اور کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھیں…. شادی سے پہلے میرا یوں تمہارے کمرے میں آکر بیٹھنا؟ غلط ہے وہ اپنی values سکھانا چاہ رہی تھیں۔”
”ہونہہ… یہ اخلاقیات کے سارے سبق صرف ہمیں پڑھانے کے لیے ہیں… خود اپنے لیے کوئی حدود متعین نہیں کرتے یہ ماں باپ…. ”شیگی کے لہجے میں حد درجہ کڑواہٹ تھی، ”میری ماں جس کو تمہارا یہاں میرے ساتھ بیٹھنا برا لگ رہا ہے… اس کی بیڈٹی کمرے میں پہنچانے ڈرائیور جاسکتا ہے… کیا وہ غیر مرد نہیں… میری ماں کو اس سے حیا محسوس نہیں ہوتی….؟”
عماریہ کیا کہتی؟ ایلیٹ کلاس کی اخلاقیات اس سے ڈھکی چھپی ہر گز نہیں تھیں…. وہ بھی اسی سوسائٹی کا حصہ تھی اور شرجیل بھی صرف زبان سے شکایت کرسکتا تھا کچھ بولنا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ ”اور میں نے تو کبھی تمہارے ساتھ کوئی غلط حرکت نہیں کی… بولو اومی… کیا میں بُرا لڑکا ہوں؟” عماریہ نے نرمی سے اس کے کندھے پر سر رکھ کے جواب دیا، ”نہیں… تم بہت اچھے ہو… اسی لیے میں تم سے محبت کرتی ہوں….”
”مجھ سے؟….”
”ہاں تم سے….”
”تو پھر حسام کے ساتھ کیوں وقت گزارتی رہیں تم….؟”
”تمہاری توجہ حاصل کرنا چاہتی تھی میں… تم جو اپنی ناکام محبت کا سوگ مناتے ساری دنیا کو بھول بیٹھے تھے… تو میرے پاس بھی کوئی راستہ نہیں بچا…. سوائے اس کے…” شیگی نے ہنس کر نرمی سے اس کے بال بکھیردیے، ”بالکل پاگل ہو تم….”
”تمہارے لیے پاگل ہوں…” عماریہ نے مسکرا کر یقین دلایا، شیگی نے وعدہ کیا: ”تم مما کی بات دل پر نہ لینا… شادی کے بعد ہم الگ گھر میں بسیںگے میں نے ڈیڈ سے بات کرلی ہے….؟”
”وہاں کوئی ہم پر روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوگا….”
”جیسے تم کہو… ”عماریہ نے پرسکون ہوکر آنکھیں موندلیں۔
ثروت لائونج میں یونہی ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی کہ بیلا ہاتھوں میں کچھ بھاری خطوط اٹھائے اس کے نزدیک آئی،” میڈم یہ خط آئے ہیں…” ثروت نے ہاتھ آگے بڑھاکر تمام خطوطلے لیے ”ہاں دکھائو… عماریہ آگئی واپس….؟” وہ لفافوں پر نام دیکھتے ہوئے انہیں ایک طرف کرتی رہی بیلا نے جواب دیا، ”جی میڈم وہ تو سو بھی گئیں….”
”ٹھیک ہے تم جائو….” بیلا جی اچھا کہہ کر وہاں سے ہٹ گئی۔ ثروت نے سب سے بھاری خط پر عماریہ کا نام لکھا دیکھا تو چونک گئی۔ اعجاز کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی کے نام خط میں کیا لکھا ہوگا اس نے تیزی سے لفافہ پھاڑا تو اندر بے شمار خطوط کا پلندہ نکلا۔ ایک لفافہ بہ نام ثروت کے تھا۔ اس نے باقی کاغذ چھوڑ کر سب سے پہلے اسے کھولا، اعجاز نے لکھا تھا،
”میں اپنے خط کا آغاز تمہاری کامیابیوں پر مبارکباد سے کرتا ہوں… تم یقین کرو یا نہ کرو… مگر تمہارے علاوہ میں نے کسی سے محبت نہیں کی…. یہ قسمت تھی یا ہماری کوتاہی کہ ہم ساتھ نہ رہ سکے… اور شاید اسی دوری نے مجھ سے جینے کا حوصلہ چھین لیا۔ اب لگتا ہے میری زندگی کا چراغ بجھنے ہی والا ہے۔”
”چاہتا ہوں تم سے شکوہ کروں کہ تم نے میری بیٹی کو مجھ سے الگ کردیا… لیکن شاید یہی اس کے لیے بہتر ہوا میرے ساتھ رہتی تو وہ تمہارے لیے تڑپتی… اور تم اس کے لیے… اسی لیے میں بھی اسے چھوڑکر آگیا….”
ثروت سے آگے پڑھا نہیں گیا تو اسے احساس ہوا آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوکر لفظ دھندلائے دے رہی ہیں، اس نے سختی سے آنکھیں رگڑتے ہوئے خط مکمل کرنے کی کوشش کی مگر نہ پڑھ سکی۔ بے اختیار زور زور سے روتی ہوئی گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
******





عماریہ کی شادی میں چند دن رہ گئے تھے۔ ثروت بے حد مصروف تھی۔ تمام انتظامات کی خود نگرانی کرتے ہوئے اس نے کئی بار اعجاز کو یاد کیا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتا… عماریہ کی شادی کس دھوم دھام سے کرتا۔ اس کی تمام خواہشیں سب ناز نخرے پورے کرتا۔ ثروت بھی یہی کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس نے عماریہ کو نہیں بتایا تھا کہ اعجاز مرچکا ہے نہ ہی اس کے بھیجے خط دیے تھے۔ مگر وہ انہیں تلف بھی نہیں کرسکی تھی وہ تمام خطوط ثروت کے کمرے کی الماری میں لاکڈ تھے۔
پورے گھر کو پھولوں کی لڑیوں سے سجایا جارہا تھا۔ ثروت پھولوں کی تازگی پر بحث میں مصروف تھی کہ اس نے عماریہ کو پینٹ شرٹ میں ملبوس کمرے سے باہر نکلتے دیکھا، وہ حیران ہوئی۔
‘یہ کیا؟ تم نے مایوں کا جوڑا کیوں اتاردیا؟”، عماریہ موبائل پر میسج پڑھ رہی تھی بے پروائی سے بولی ”تو اب شاپنگ کرتے ہوئے بھی پیلے کپڑے پہننا ضروری ہیں….”
ثروت جھلائی، ”سب کچھ پورا ہو تو گیا تھا؟ اب کیا لینا ہے تمہیں؟”، وہ اس کا راستہ روک کر کھڑی … عماریہ نے تنک کر جواب دیا: ”اوفو… کیوں پیچھے پڑگئی ہیں… شیگی کے ساتھ جارہی ہوں… تھوڑی سی شاپنگ کروںگی… پھر ڈنر کرنے جائیںگے ہم… اب ہٹیں سامنے سے مجھے دیر ہورہی ہے….”
”شادی میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے…. ذرا سکون سے بیٹھ جائو… ہر وقت اس کے ساتھ گھومتی پھرتی رہتی ہو… لوگ کیا کہیںگے….؟” ثروت نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
”جو بھی کہنا ہے کہہ لیں… I don’t care نہایت بدتمیزی سے اس کا جواب ملا۔ ”سمجھا کرو اومی… شرجیل کے گھر والوں کو بھی یہ بات پسند نہیں آئے گی…..”
”مجھے ان کی بھی پرواہ نہیں… نہ ہی شیگی کو… ویسے بھی ہم شادی کے بعد الگ گھر میں رہیںگے تو کیا فرق پڑتا ہے کسی کو اچھا لگے یا برا؟”
”پلیز عماریہ تم….” ثروت نے اس کے نزدیک ہوکر پیار سے سمجھانا چاہا لیکن عماریہ بدک کر پیچھے ہٹی، موبائل کی بیپ سن کر اس نے تیزی سے کہا، ”شیگی آگیا ہے، آئم لیونگ نائو… بائے”
اور فوراً ہی دروازے سے باہر نکل گئی۔ ثروت خاموشی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
******
عماریہ بہت خوش تھی۔ بہت عرصے بعد ہی سہی مگر اب تمام الجھنوں نے بالآخر اس کا پیچھا چھوڑہی دیا تھا… شرجیل اس سے سچی محبت کرتا تھا اور ہر پل احساس دلاتا رہتا تھا کہ وہ اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اسی یقین کو حاصل کرنے کے بعد عماریہ نے شرجیل کے علاوہ سب کی پرواہ کرنا چھوڑدی تھی کوئی کیا سوچنا ہے؟ کیا چاہتا ہے؟ اسے غرض نہیں تھی اسے تو شیگی کو خوش رکھنا تھا، اسی کے ساتھ خوش رہنا تھا۔
اپنے مہندی سے سجے خوبصورت ہاتھوں کو مسرت سے تکتی عماریہ نے فون کی بیل پر نظر اٹھاکر دیکھا تو اسکرین پر شیگی کا نام دیکھ کر مسکرادی، ”ایک منٹ نہیں رہ سکتا شیگی،” خود سے ہنستے ہوئے اس نے مہندی لگاتی لڑکی سے فون ریسیو کرکے اس کے کان پر رکھنے کے لیے کہا شیگی بہت بے چین تھا۔ ”تمہیں مس کررہا ہوں یار… تمہیں یہاں ہونا چاہیے تھا میرے ساتھ…” عماریہ کھلکھلاکر ہنس پڑی، ”دو دن رہ گئے ہیں… شادی کے بعد ہم ساتھ ہی ہوںگے…. ویسے ابھی تم ہو کہاں؟” ”یار میں اور تیمور باقی فرینڈز کے ساتھ یہاں beach پر ہیں…اپنی bikes پر آئے ہیں سب… مزہ آتا تمہارے ساتھ… سب کے پارٹنرز ہیں اور میں اکیلا…. تم آجائو نہ پلیز….” شیگی نے منت کی، عماریہ نے اس کی بے قراری کا خوب لطف اٹھاتے ہوئے کہا: ”سوری شیگی… گھر میں فنکشن ہے اور میں مہندی لگوارہی ہوں….، شیگی کو کرنٹ لگا،” oh no… یار مجھے اس کی smell بہت بری لگتی ہے… اپنے ہاتھ صاف کرکے آنا میرے پاس….”
”اچھا shut up نا…اب ایسی بو بھی نہیں ہوتی کہ تم برداشت نہ کرسکو….”
اسی وقت بیلا نے آکر اطلاع دی کہ اسے باہر لان میں رسموں کے لیے بلایا جارہا ہے، ”اوکے شیگی …. gotta go …. میں رات میں کال کروںگی تمہیں… bye۔” عماریہ نے اس کا جواب سنے بغیر ہی فون کان سے ہٹادیا۔
******
رات کے ڈیڑھ بجے وہ اپنے کمرے میں واپس آسکی تھی۔ تمام مہمان رخصت ہورہے تھے فنکشن بھی ختم ہوچکا تھا۔ عماریہ اپنا موبائل لے کر بستر پر اوندھے منہ لیٹ گئی۔ شیگی کو کال کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا، مہندی کا رنگ کافی گہرا چڑھا تھا، وہ مُسکرادی، شیگی کا فون نہیں مل رہا تھا اس نے دو تین بار ٹرائے کیا پھر جھلائی، ”یہ شیگی نے فون کیوں بند کر رکھا ہے؟” فون ایک طرف پھینک کر اس نے کمفرٹر اوڑھا اور آنکھیں موندلیں۔
ابھی اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ دروازہ زور سے بجنے لگا ساتھ ثروت کی گھبرائی ہوئی آوازیں سن کر وہ ایک دم پریشان ہوکر اٹھی جلدی سے دروازہ کھولاتو سامنے ثروت موبائل ہاتھ میں لیے رورہی تھی۔ ”کیا ہوا ماما؟ آپ رو کیوں رہی ہیں….؟” عماریہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا،
”اومی… شیگی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے… وہ ہاسپٹل میں ہے… ہمیں جانا ہوگا…”
عماریہ کو اپنے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
اس کی خوشیوں کی معیاد کیا اتنی تھوڑی تھی؟ بس…. اتنی سی….؟
******




Loading

Read Previous

آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

Read Next

ایک معمولی آدمی کی محبت —- محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!