آدھا سورج —- امایہ خان

ایگزامز سے ایک ہفتہ قبل تیمور نے اپنے فارم ہائوس پر گیٹ ٹو گیدر کا پروگرام بنایا لیکن عماریہ کو یقین نہیں تھا کہ ثروت اسے دو راتوں تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت دے گی۔ شرجیل نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا کہ ثروت سے وہ خود اجازت لے کر دے گا۔ عماریہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب شیگی نے اس کے سامنے ثروت کو فون کیا، سارا پروگرام بتایا تو بنا کسی پس و پیش کے ثروت نے ہاں کردی۔ حیران پریشان سی عماریہ کو یقین دلانے کے لیے شیگی نے فون اس کے ہاتھ میں دیا تو اس نے خود بھی سن لیا، شیگی سچ کہہ رہا تھا۔
وہ جمعہ کا دن تھا، انہیں سہ پہر میں روانہ ہونا تھا۔ ثروت نے عماریہ کا بیگ پیک کرکے ڈرائیور کے ہاتھ اس کے کالج پہنچادیا، ساتھ میں خرچ کے لیے اچھی خاصی رقم بھی تھی۔ عماریہ کے لیے یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ جو ماں شام کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتی اور خاص طور سے اس کے نشے کی عادت سے بہ مشکل جان چھڑانے کے بعد تو پابندیاں اور سخت ہوگئی تھیں یوں اچانک یہ کایا کیسے پلٹ گئی تھی۔ اسے نہیں معلوم نہیں تھا کہ اگر وہ آج ثروت سے چاند پر جانے کی فرمائش بھی کرتی تو وہ بنا حیل و حجت اسے بھی ضرور پورا کرتی۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ عماریہ اس دن گھر واپس آئے اور حسیب سے ملے… جو اس کے باپ اعجاز کا پیغام لے کر پاکستان آیا تھا۔
*****





شہر کی حدود سے باہر نکلتے ہی فضا کا بوجھل پن کم ہوگیا۔ ہنستے کھیلتے باتیں کرتے سفر ختم ہونے کا پتا ہی نہ چلا۔ فارم ہائوس پہنچ کر تھکن زدہ ہونے کے بجائے سب لوگ تازہ دم ہوگئے تھے۔ کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لیتے خوش گپیوں میں مصروف یہ ٹولہ سامان گاڑی سے نکال کر فارم ہائوس کے اندر پہنچانے لگا۔ عماریہ ایک بیگ رکھنے کے بعد ہی کمر پر ہاتھ رکھ کے کھڑی ہوگئی اور دور نظر آتے سورج کو دیکھنے لگی جو آدھا ڈوب چکا تھا۔ وہ اس تاریخی تھال کے گرد پھیلی زرد روشنی میں نظر آتے منظر کو دیکھنے میں اس قدر منہمک تھی کہ اسے حسام کے آنے کا احساس ہی نہ ہوا، جو اس کے چہرے کو دیکھتے ہی سب کچھ فراموش کربیٹھا تھا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا اسے عماریہ کیوں اچھی لگتی ہے، وہ اس سے بے حد مختلف تھی۔ بے جھجک، غصہ والی اور صاف گو بلکہ کسی حد تک ناقابل برداشت بھی… مگر یہ خامیاں دنیا دیکھتی تو دیکھتی، حسام کو تو اس کی آنکھوں میں ڈوبتے ابھرتے سورج سے مطلب تھا۔ کافی دیر اسی طرح کھڑے رہنے کے بعد بالآخر اس نے کہا، ”سورج ڈوب چکا ہے عماریہ… اندر نہیں چلوگی…” اس لمحے حسام کے لیے خود اپنی آواز کو پہچاننا مشکل ہوا۔ عماریہ بددستور خالی آسمان کو تک رہی تھی جہاں سورج اندھیرے میں روشنی کے چند چھینٹے بکھیر کر غائب ہوگیا تھا، شکست خوردہ سی، مایوس دکھ بھری آواز نے سکوت توڑا تھا، ”میرے حصے میں آدھا سورج آیا تھا… وہ بھی ڈوب گیا…”
”ہاں…؟” حسام سن کر بھی کچھ نہ سمجھا، عماریہ کھوئی کھوئی سامنے دیکھتے ہوئے بولتی رہی، ”اس آدھے سورج نے بھی پوری روشنی نہیں دی مجھے اندھیرے میں چھوڑگیا… اندھیرا کرگیا میری زندگی میں…” ریزہ ریزہ وجود سے کرچی کرچی آواز میں دبی سسکیاں یکدم ہی پورا ماحول افسردہ کرگئیں… عماریہ گھٹنوں میں سر دے کر روتی چلی گئی۔
سیاہ رات کے پھیلتے اندھیرے میں آس پاس کی روشنیاں ٹمٹماتے دیوں جیسی لگ رہی تھیں۔ کچھ فاصلہ پر کسی اللہ والے کی آخری آرام گاہ تھی، جہاں سے حمد و ثنا کی آوازیں آرہی تھیں۔ قوال گاکم چیخ زیادہ رہے تھے۔ حسام عماریہ کے کندھے پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھا تھا اور وہ کہہ رہی تھی… اپنی کہانی۔ اپنے بچپن کی کہانی جس میں اعجاز بادشاہ تھا اور وہ اس کی چہیتی بیٹی… شہزادی کے روپ میں دنیا کی ہر نعمت اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی تھی۔ یہ کہانی بس یہیں تک تو ٹھیک تھی پھر جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔
عماریہ نے جذبات کی رومیں بہ کر جو بھی کہا، حسام نے دل سے سنا… ہر حرف، ہر لفظ اس کے اپنے درد میں اضافہ کرتا گیا۔ وہ بھی اسی غم سے گزرچکا تھا، سمجھ سکتا تھا، مگر یہاں اسے اپنا درد عماریہ کی تکلیف سے کم تر محسوس ہورہا تھا۔ جب سب داستان کہی سنی جاچکی… تب حسام نے پریقین لہجے میں کہا: ”میں تمہارے پاپا کو ڈھونڈلوںگا… وہ ضرور مل جائیںگے…. promise ”عماریہ اسے دیکھے چلی گئی۔ ایسا وعدہ تو کبھی بھی کسی سے بھی نہیں کیا… پر… اس نے بھی یہ سب کبھی کسی اور سے کہا ہی نہیں تھا، شرجیل سے بھی نہیں۔ جانے کیا ہوا تھا جو حسام کے سامنے اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ”تم… سچ کہہ رہے ہو….؟”
”ہاں… میں ضرور انہیں تلاش کرلوںگا…. انہیں بتائوں گا تم انہیں کتنا یاد کرتی ہو… ہوسکا تو میں انہیں تمہارے پاس لے آئوںگا…. I Promise”، عماریہ جھلملاتی آنکھوں سے مسکرادی۔ “Thanks”….، اور بالکل بے اختیاری میں حسام نے جس طرح اپنا ہاتھ آگے بڑھایا عماریہ بھی اسی طرح آہستگی سے اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے دیا۔ یکلخت ہی اس کے رستے زخموں کو جیسے مرہم مل گیا تھا۔ دونوں بہت پاس پاس بیٹھے تھے اور دور سے انہیں دیکھتا شرجیل خاموشی سے کمرے میں واپس چلاگیا تھا۔
حسیب، امریکا میں اعجاز کا واحد رشتہ دار تھا۔ وہ حسن کا بھی دوست تھا اور ثروت بھی اسے اچھی طرح جانتی تھی اپنا گھر بدل لینے کے بعد اس نے گویا عماریہ کو اعجاز کی پہنچ سے دور کرلیا تھا۔ حسن اور رباب خود ہی پیچھے ہٹ گئے تھے اور باقی کسر ثروت کے جھوٹ نے پوری کردی تھی جو اس نے اعجاز کے متعلق عماریہ سے بولے تھے۔ یہ سچ تھا کہ عماریہ کے جواب سے دلبرداشتہ ہوکر اعجاز اکیلا ہی امریکا کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔ لیکن وہاں جاکر دوبارہ اپنی اکلوتی بیٹی سے رابطہ نہ کرنے کی وجہ اس کی بیماری تھی۔ وہاں پہنچنے کے چند دن بعد ہی اسے دل کا دورہ پڑا تھا۔ وقت پر ہاسپٹل پہنچ جانے کے سبب اس کی جان تو بچ گئی مگر بعد ازاں اوپن ہارٹ سرجری اور پیس میکر لگ جانے کے سبب وہ طویل سفر کرنے کے ہر گز قابل نہیں رہا تھا۔ نہ تو اس نے ثروت کو طلاق بھجوائی تھی اور نہ ہی خود دوسری شادی کی تھی۔ دیار غیر کی مشینی زندگی میں خود کو مصروف کرکے اس نے اپنا ہر غم بھلانے کی کوشش کی تھی اور ناکام رہا۔
دس سال گزرجانے کے باوجود اس کے دل میں ابھی تک اپنی بیوی اور بیٹی کی محبت اسی شدت سے موجود تھی مگر مشکل یہ تھی کہ اس کے پاس رابطے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ثروت نے ہر امکان ختم کردیا تھا۔





اب وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا تھا اس کے بہت مجبور کرنے پر حسیب پاکستان واپس آیا تھا تاکہ ثروت اور عماریہ کو تلاش کرکے انہیں اعجاز کی بیماری سے مطلع کرسکے۔ ثروت نہ سہی کم از کم عماریہ کو تو ایک بار اعجاز کے پاس جانا چاہیے تھا۔ سو رباب کے ذریعے اس نے ثروت کا پتا حاصل کیا اور کراچی آکر ثروت کے آفس پہنچ گیا۔
ثروت اس کے ساتھ نہایت بدلحاظی سے پیش آئی۔ حسیب کی زبانی اعجاز کا نام سن کر اسے پہلا خیال یہی آیا تھا کہ وہ عماریہ کو باپ کے پاس لے جانے کے لیے آیا ہے، دوسرے لفظوں میں اس کی بیٹی کو چھیننے آیا ہے۔ ثروت نے اسے اپنے آفس سے نکال دیا… مگر حسیب باز نہ آیا تھا وہ عماریہ سے ملنے گھر تک پہنچ گیا۔ بیلا نے ثروت کو فون پر اطلاع دے دی تھی وہ سب کام چھوڑ کر فوراً پہنچی اور شکر ادا کیا کہ عماریہ اس وقت تک کالج سے واپس نہیں آئی تھی۔ حسیب اسے نرم لہجے میں سمجھانے لگا ”پلیز… ایک بار عماریہ کو میرے ساتھ بھیج دو… اعجاز کا آپریشن ہونے ولا ہے… اسے یقین نہیں ہے کہ اس بار وہ زندہ بچ پائے گا… آخری بار اپنی بیٹی سے ملنا اس کا حق ہے…. وہ مررہا ہے۔” ثروت کا جواب بے حد سفاکی لیے ہوئے تھا، اس نے کہا: ”اعجاز ہمارے لیے بہت پہلے مرچکا ہے نہ مجھے اس کی ضرورت تھی اور نہ ہی میری بیٹی کو… عماریہ ہر گز تمہارے ساتھ نہیں جائے گی….” ”اتنی سنگ دل نہ بنو ثروت… تم نے اعجاز سے محبت کی شادی کی تھی،”
”وہ محبت نہیں بے وقوفی تھی۔ شکر ہے مجھے جلدی ہوش آگیا…”
”ٹھیک ہے تم جانا نہیں چاہتی… مت جائو… مگر عماریہ کی مرضی میں خود معلوم کروںگا۔”
”تمہیں کس نے یہ حق دیا ہے کہ اس سے سوال جواب کرو…”، ثروت کی بدتمیزی پر حسیب کو غصہ آگیا ”اس کے بستر مرگ پر تڑپتے باپ نے بھیجا ہے مجھے اس کے پاس… بلائو اسے…”
”وہ گھر پر نہیںہے…”، ثروت نے رکھائی سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے… میں اس کا انتظار کروںگا… دو دن بعد میری فلائٹ ہے… تب تک میں روز یہاں آئوںگا اور تم مجھے اس سے ملنے سے نہیں روک سکتیں،” حسیب اسے چیلنج کرکے گھر سے باہر نکل گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب شیگی نے اجازت لینے کی غرض سے اسے فون کیا اور ثروت عماریہ کو فارم ہائوس بھیجنے پر فوراً رضامند ہوگئی۔ اگر عماریہ گھر واپس آتی تو ان دو دنوں میں یقینا حسیب سے ملاقات ہوتی اور ثروت کے تمام جھوٹ کا پول کھل جاتا۔
*****
ایک طویل گہری نیند سے بے دار ہوکر اسے پہلا خیال حسام کا آیا تھا۔ وقت دیکھا تو صبح کے گیارہ بجنے والے تھے۔ شاور لے کر اچھی طرح فریش ہونے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی تو اسے پورے گھر میں کوئی نظر نہ آیا۔ ہاں… باہر لان سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ بھی باہر نکل آئی جہاں شیگی اور تیمور، پڑوس کے…. کُتے سے کھیل رہے تھے۔ اس نے حسام کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جو کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ چلتی ہوئی ان دونوں کے نزدیک آگئی اور ازراہ مذاق شیگی سے مخاطب ہوئی، ‘اوہ تو تم اپنے وفادار کو بھی ساتھ لائے ہو؟…. Very Nice” یہ کہتے ساتھ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تیمور نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ شیگی بدستور اس کتے کے جسم پر پیار سے ہاتھ پھیرتا رہا، ”یہ بھولا نہیں مجھے… جب بھی دیکھتا ہے بھاگا چلا آتا ہے میرے پاس…”
تیمور نے کہا: ”تم لاڈ بھی اٹھاتے ہو اس کے… اتنا پیار تو شبیر انکل نہیں کرتے… جتنا تم کررہے ہو…حسام کہاں ہے…؟ نظر نہیں آرہا…” شیگی نے سر اٹھائے بغیر کہا: ”اس کے ڈرائیور نے فون پر بتایا تھا کہ اس کے ڈیڈ واپس آگئے ہیں… وہ واپس چلاگیا…”
عماریہ کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے، ”وہ انہیں فون پر بتادیتا کہ یہاں ویک اینڈ گزارنے آیا ہے واپس جانے کی کیا ضرورت تھی۔؟”
”ہونہہ… اس میں اتنی ہمت کہاں ہے؟… ابھی تک اسکول بوائے ہے وہ..”. ”تیمور بولا پھر بھی… مجھے بتاکر تو جاسکتا تھا…. یوں منہ اٹھا کر چل دیا جیسے…”
شرجیل اس کی بات کاٹ کر کھڑا ہوگیا… ”جیسے کیا؟” عماریہ کو اور غصہ چڑھا،” جیسے اسے میری پرواہ ہی نہ ہو… ایک کال کیا آئی کتے کی طرح دم ہلاتا چل پڑا واپس….” ”وہ تو ایسا ہی تھا… شرجیل مسکراتے ہوئے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ ”پر تم بتائو تم اتنا overreact کیوں کررہی ہو…؟ اپنی شرط ہارنا چاہتی ہو…”، عماریہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ شرجیل نے دل جلانے والے انداز میں کہا: ”برا لگ رہا ہے نا… ہونہہ… لگتا ہے… اسی طرح برا لگتا ہے… دکھ ہوتا ہے جب وعدے کرنے والے اور محبت کے دعوے کرنے والے اچانک چھوڑ کر چلے جائیں…”
”اس نے مجھ سے کوئی وعدہ نہیں کیا؟ عماریہ نے کمزور لہجے میں کہا۔
”اچھا… تو کل اتنے گھنٹوں تک تمہارا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا وہ الف لیلیٰ سنارہا تھا؟ ہوں….”
”وہ میرے پاپا کو ڈھونڈنے میں میری help کرنا چاہتا تھا شیگی… اور کوئی بات نہیں تھی۔” ”تو ہم کردیتے تمہاری help… ہم سے کہتیں… وہ تو اپنے باپ کے حکم کے بغیر کھانا تک نہیں کھاتا۔ تمہاری کیا مدد کرے گا…” شرجیل کو غصے میں دیکھ کر تیمور نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے تھپتھپایا ”بس کرو یار… اتنا سیریس کیوں ہورہے ہو؟”
”میں سیریس نہیں ہو… البتہ عماریہ حسام کے لیے کافی سیریس ہے… اب پتا چلے گا جب دل ٹوٹتا ہے… تو کیسا لگتا ہے…؟”، شرجیل عماریہ کو لاجواب کرکے خوش ہورہا تھا وہ کچھ پل اسے عجیب نظروں سے دیکھتی رہی پھر کچھ کہے بغیر پلٹی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی ریسٹ ہائوس کے اندر چلی گئی۔
”کچھ زیادہ ہوگیا یار… وہ برا مان گئی ہے…”، تیمور نے اسے معاملے کی سنگینی کا احساس دلانا چاہا تو شرجیل معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے اس رستے کی جانب دیکھتا رہا جہاں سے عماریہ اندر گئی تھی اور کہا: ”یہی تو جاننا چاہتا تھا… کتنا زیادہ ہوا ہے….”، تیمور نا سمجھی سے اس کی جانب دیکھتا رہا۔
عماریہ کو حسام نے بے حد مایوس کیا تھا۔ پہلے اعجاز، پھر ثروت اور اب… آخر اس کی زندگی میں سارے محبت جتانے والے وقت پڑنے پر بھاگ کیوں جاتے ہیں۔ ماں نے باپ سے چھڑایا، باپ نے مڑ کر نہ دیکھا بیٹی زندہ بھی ہے یا مرگئی۔ اس نے شرجیل کو پسند کیا وہ کسی اور کی زلفوں کا اسیر ہوگیا اور حسام… اتنے وعدے وعید کرکے یوں اچانک واپس چلاگیا۔ کمرے میں یہاں وہاں تیز قدموں سے ٹہلتے رہنے کے باوجود اسے قرار نہ تھا۔





کچھ سوچ کر اس نے کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی، دو فارم ہائوس کے گیٹ سے آگے مزار کا گنبد دکھائی دے رہا تھا۔ ”مگر میں تو ڈرگز لینا چھوڑچکی ہوں… ماما کو پتہ چل گیا تو… خیر ایک سگریٹ سے کیا فرق پڑے گا…؟” خود کو ہاں ناں کہتی عماریہ بالآخر ہارکر کمرے سے باہر نکل آئی۔ اسے پکا یقین تھا مزار کے آس پاس بیٹھے فقیروں کے پاس اس کی مطلوبہ چیز ضرور ہوگی۔ وہ تیز قدموں سے گیٹ کی جانب بڑھ رہی تھی کہ شرجیل نے پیچھے سے آواز دی، Hey” omi… کہاں جارہی ہو…؟” عماریہ سنی ان سنی کرکے قدم بڑھاتی رہی تبھی شیگی نے بھاگ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا، ”چھوڑو مجھے… I say leave me ””رکو تو… کیا ہوا؟” شیگی نے گرفت ڈھیلی کی تو عماریہ نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا، ”میرا جہاں دل کرے گا جائوںگی… تم سے مطلب؟…”
”ارے… اتنا غصہ…؟”، شیگی مُسکرایا، اچھا سوری یار… معاف کردو… میں تو بس تنگ کررہا تھا تمہیں…”، عماریہ کچھ پل اسے دیکھتی رہی، وہ واقعی شرمندہ لگ رہا تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی عماریہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شرجیل گھبرا کر اس کے نزدیک آیا،” Hey Omi رو مت یار… کہا نا سوری…”، مگر عماریہ خود کو روک نہ سکی اور زار و قطار رونے لگی، شرجیل کو سخت افسوس ہوا اس نے آگے بڑھ کر عماریہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر عماریہ بکھرتی چلی گئی۔
*****
تیمور اپنی گرل فرینڈ لیلیٰ کو ساتھ لے کر boating پر گیا تو عماریہ اور شیگی اکیلے رہ گئے۔ مووی دیکھتے ہوئے دونوں پاپ کارن کھاتے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتے رہے۔ جب مووی ختم ہوئی تو عماریہ نے شیگی سے کہا: ”چلو نا شیگی.. وہ سامنے والے مزار پر کچھ دیر کے لیے چلتے ہیں…”
”کیا کرنا ہے وہاں جاکر، گندے میلے فقیروں کے بیچ میرا تو سانس بند ہونے لگتا ہے… اتنی بو ہوتی ہے” ”بس… کچھ چیزیں لے کر واپس آجائیںگے…”، اس کے بے جا اصرار پر شرجیل نے اسے گھور کر دیکھا، ”تم نے کہا تھا تم چھوڑچکی ہو…؟”
”یوں ہی thrill کی خاطر پینا چاہ رہی ہوں… کچھ نہیں ہوگا….”
”ہاں… اور اسی تھرل میں ڈوب کر تمہیں یہ ہوش نہیں رہتا کہ بیچ بازار میں گرپڑی ہو یا اپنے ڈاکٹر کی غصے میں ناک توڑدی ہے…” عماریہ، شیگی کے یاد دلانے پر ہنس پڑی، ”ویسے کیا ….. تھا وہ ڈاکٹر بھی……. اس نے ناک کی پلاسٹک سرجری کرالی ہوگی…”
”ہاں… اس کا منہ بند کرانے کے لیے تمہاری ماما نے جتنے پیسے دے تھے وہ تو پیرس میں چھٹیاں بھی گزار کے آسکا تھا… پلاسٹک سرجری تو معمولی بات ہے…”
”اچھا بات کو ٹالو نہیں… چلو میرے ساتھ… مجھے لے کے دو… بھلے ایک سگریٹ ہی سہی میرا بہت دل چاہ رہا ہے…”
”میں تو نہیں جارہا… اور میری بات مانو… تم بھی چھوڑو آج صرف باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا غم ہلکا کرتے ہیں۔
*****
حسیب ناکام واپس لوٹ گیا تھا۔ اپنے طور پر اس نے ثروت کو سمجھانے اور قائل کرنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ ثروت ایک سنگ دل عورت ہے، اس نتیجے پر پہنچ کر اسے اعجاز پر ترس آرہا تھا۔ وہ بدقسمت تھا آخری وقت میں کوئی اس سے ملنا نہیں چاہتا تھا نہ بیوی نہ بیٹی۔ ان دونوں کے غم میں اس نے اپنی جان گھلادی تھی۔
بیلا بھی ثروت کے رویے پر سخت حیران ہوئی تھی۔ وہ دونوں نہیں جانتے تھے یہ ثروت کی کمزوری تھی سنگ دلی نہیں۔ وہ اس خیال سے ہی دہل گئی تھی کہ جب عماریہ کو حقیقت حال کا علم ہوگا تو وہ زندگی بھر اس کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرے گی۔ یقینا وہ اپنی ماں سے نفرت کرے گی یہ جان کر کہ اعجاز کی خوشگوار ازدواجی زندگی اور خاندان سے متعلق کہی گئی تمام باتیں جھوٹ تھیں۔
”اعجاز خوش ہے اسے بھول چکا ہے۔” اس ایک جھوٹ کو نبھانے کے لیے اسے سو کیا ہزار جھوٹ بھی اور بولنے پڑتے وہ ذرا نہ ہچکچاتی۔ عماریہ کو اس نے جیتا تھا ان آخری لمحوں میں جذباتی ہوکر اسے ہارجاتی۔
مگر وہ خود بے حد ڈسٹرب ہوچکی تھی۔ حسیب کو دھتکارتے ہوئے ایک پل کو اس کا دل چاہا سب کچھ چھوڑ کر اعجاز کے پاس چلی جائے، اسے ایک بار دیکھ لے.. مل کر دو باتیں ہی کرلے۔ اسے بتائے وہ ترقی کی کن منزلوں کو پارکرچکی۔ اس سے پوچھے کیا وہ اب بھی اس سے محبت کرتا ہے جو کسی اور عورت کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا۔ تنہا سفر طے کیا تمام… اور… تنہا تو وہ بھی رہی ہمیشہ… اعجاز اس کے دل میں قدم رکھنے والا پہلا اور آخری مرد تھا۔ عماریہ کا وجود اس کی سب کامیابیاں روشن دن کے بہلاوے تھے مگر رات… جو ….. سنّاٹے اور نہ ختم ہونے والے اندھیروں کے بیچ لاکھڑا کرتی ہے، اسے آج بھی خوفزدہ کرتی تھی۔
*****




Loading

Read Previous

آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

Read Next

ایک معمولی آدمی کی محبت —- محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!