آدھا سورج —- امایہ خان

”تم کیوں آئی ہو؟ دور رہو میرے بیٹے سے….”، آپریشن تھیٹر کے باہر آمنہ فراست کا سہارا لیے کھڑی تھی، سامنے سے ثروت اور عماریہ کو آتا دیکھ کر مشتعل ہوگئی۔ فراست نے آگے بڑھ کر اسے پکڑلیا ”کیا کررہی ہو؟… وہ شیگی کو دیکھنے آئی ہے… سنبھالو اپنے آپ کو…’ آمنہ زاروقطار روتی رہی۔ ”اس سے کہیں میرے سامنے سے چلی جائے….”، عماریہ سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتی پیچھے ہٹنے لگی، ثروت کو آمنہ کا رویہ حیران کرگیا: ”یہ کس طرح بات کررہی ہیں آپ؟ ہم بھی شیگی کے لیے پریشان ہیں…” فراست نے اسے مزید بولنے سے منع کیا، ”پلیز ثروت… آپ لوگ وہاں بیٹھیں۔” انہوں نے دور رکھی کرسیوں کی جانب اشارہ کیا، ”میں ابھی آتا ہوں…. ثروت لب بھینچ کر عماریہ کو وہاں سے لے جاتی ہے، عماریہ روپڑتی ہے۔
”یہ اس طرح کیوں بول رہی ہیں…. میرا قصور کیا ہے؟”
”وہ ابھی اپنے حواسوں میں نہیں ہے… بہتر ہم تم اس کے سامنے سے ہٹ جائو… تھوڑی دیر میں سب حالات سنبھل جائیںگے….”، وہ دونوں ذرا فاصلے پر کرسیوں پر بیٹھ گئیں فراست کچھ دیر بعد ان کی طرف آیا، ”میں معافی چاہتا ہوں… آمنہ کو یہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا مگر صورت حال ہی کچھ ایسی ہے… شیگی بُری طرح زخمی ہے اور تیمور…”، وہ کہتے کہتے رکے ”تیمور کو کیا ہوا؟” عماریہ نے فوراً پوچھا۔
”اس کی ڈیتھ ہوگئی ہے….”
عماریہ کو شاک لگا اس نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر خود کو چیخنے سے روکا، فراست بتاتے رہے، ”یہ سب فرینڈز beach پر گئے تھے۔ واپسی میں ان لوگوں نے روڈ پر ون ویلنگ شروع کردی۔ جس کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا….”
”شرجیل کا کیا حال ہے؟” ثروت نے پوچھا۔
”اس کا خون نہیں رُک رہا… ڈاکٹرز کہتے ہیں دماغ پر سخت چوٹ آئی ہے… بچنے کے چانسنز بہت کم ہیں… آپ دعا کریں….”، ان کی بات ادھوری ہی کہ عماریہ حواس کھونے لگی۔ ”نہیں… شیگی کو کچھ نہیں ہوسکتا… نہیں ماما…” یہ کہتے ہوئے وہ آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھنے لگی۔ اسی لمحے ڈاکٹرز باہر نکل آئے، فراست، ثروت اور عماریہ ڈاکٹر کے گرد جمع ہوگئے، آمنہ نے پوچھا، ”ڈاکٹر کیسا ہے میرا بیٹا؟”
”آپریشن کے نتیجے میں خون تو رک گیا ہے مگر وہ بے ہوش ہے… ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے جب تک وہ ہوش میں نہ آجائے… آپ لوگ دعا کریں….”
اس کی زندگی بچ گئی تھی۔ سب لوگوں نے شکر ادا کیا۔ مگر عماریہ کی جان سولی پر اٹکی تھی۔ ایک بے نام خوف پورے جسم میں سرایت کرچکا تھا۔ پہلے کب اسے دائمی خوشیاں نصیب ہوئی تھیں اب بھی وہ محروم کردی جائے گی… ہاں… کچھ برا ہوگا ضرور… وہ چپ چاپ تھکے تھکے قدموں سے واپس مڑگئی۔ ثروت نے اسے جاتے دیکھا تو آواز دی مگر وہ نہیں رکی۔ تب ثروت بھی فراست کو دوبارہ آنے کا کہہ کر وہاں سے چل دیں۔ عماریہ کو ایک معمول کی طرح گاڑی کی جانب چلتے دیکھ کر ثروت کے دل کو کچھ ہوا مگر وہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
******





شام میں ہلکی گلابی روشنی کی کٹی پھٹی چادر لپیٹے سرمئی آسمان سورج کا پورا تھال اٹھائے کھڑا تھا، اسے تکتے عماریہ کو بہت کچھ یاد آتا رہا، گھٹنوں کے گرد ہاتھ لپیٹے وقفے وقفے سے بہ نکلنے والے آنسوئوں کو وہ ذرا ذرا پونچھتی درد کے بوجھ تلے سسک رہی تھی، مررہی تھی۔
بیلا اسے اس کے کمرے میں نہ پاکر گھر کے کونے کونے میں ڈھونڈتی ہوئی بالآخر اس تاریک کونے تک آ پہنچی جہاں عماریہ بیٹھی تھی۔ اس کے نزدیک آکر بیلا نے پوچھا: ”یہاں کیوں بیٹھی ہو بے بی؟ آئو کمرے میں چلو….”، عماریہ کوئی جواب نہیں دیا، تو بیلا نے اس کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ کر محبت سے اس کے بکھرے بال سمیٹتے ہوئے کہا: ”کیا حال بنا رکھا ہے اپنا…. چلو اٹھو منہ ہاتھ دھوئو…. اچھے اچھے کپڑے پہنو… ویسے ہی رہو جیسے رہا کرتی تھیں…. یاد ہے تمہیں کیسی پیاری پیاری تصویریں آتی تھیں میگزین میں تمہاری… آئو… مجھے ویسا ہی میک اپ کرکے دکھائو اپنا… چلو اٹھو نا بے بی….”، بیلا نے اصرار کیا تو عماریہ نے ہاتھ جھٹک دیا ”میں” وہ نہیں ہوں… نہیں ہوں میں….”
”کون ہے؟” بیلا کچھ نہ سمجھی، عماریہ بدستور سامنے دیکھے جارہی تھی، بیلا نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا مگر ڈوبتے سورج کی علاوہ کوئی قابل ذکر چیز دکھائی نہ دی۔
”جس کی تصویریں تم نے دیکھی تھیں بیلا… وہ میں نہیں ہوں…”، بیلا الجھ گئی عماریہ اپنے ہی جہاں میں گم تھی۔ ”کوئی بھی وہ نہیں ہوتا… جو نظر آتا ہے… میگزین پر تصویروں میں مصنوعی چہرے جھوٹی مسکراہٹ دکھاتے ہم بدقسمت لوگ… کسی کو کیا پتا اندر سے کتنے بدصورت اور ٹوٹے پھوٹے ہیں…..”
”کیسی باتیں کررہی ہو؟” بیلا کو اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں مگر وہ دکھ سنائی دے رہا تھا جو اس کے لہجے میں رورہا تھا۔
”ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں… اسی لیے مزاروں پر چین آتا ہے ہمیں… فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر غلاظت کے ڈھیر پر… اپنی زندگی خود دھوئیں میں اڑاکر سکون ملتا ہے…”
”نہ کرو ایسی باتیں… میڈم نے سن لیا تو؟”
”تمہاری میڈم سنتی ہی تو نہیں ہیں… بس اپنی ہی کہتی ہیں ہمیشہ… انہیں تو دکھائی بھی نہیں دیتا کہ میں مرچکی ہوں… ”بیلا دہل گئی” اللہ نہ کرے بے بی… آپ تو زندہ ہو….”
”ہنہ سانس لے رہی ہوں پر زندہ نہیں ہوں….”
”میں جانتی ہوں آپ شیگی بابا کی وجہ سے پریشان ہو… ٹھیک ہوجائیںگے وہ … فکر نہ کرو….”
عماریہ بے دردی سے ہنسی، ”نہیں… وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا… میری قسمت کی طرح….”
”اسے لے گئے ہیں یہاں سے… اس کے ماما پاپا… اب تو میں اسے دیکھ بھی نہیں سکتی…”
”ان کا علاج کرانے گئے ہیں نا بے بی باہر ٹھیک ہوجائے گا تو واپس لے آئیںگے….”
”نہیں، بیلا اس کے دماغ پر چوٹ آئی ہے… سارا جسم مفلوج ہوچکا ہے… نہ وہ اٹھ سکتا ہے نہ اپنی مرضی سے ہاتھ پائوں ہلاسکتا ہے، وہ میری آواز بھی نہیں سنتا… میں کیا کروں؟” عماریہ گھٹنوں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، بیلا نے اسے بڑھ کر سینے سے لگالیا، ”دعا کرو بے بی…. دعا معجزے کرتی ہے… موت کو ٹال دیتی ہے آپ دعا کرو رب سننے والا ہے”۔ عماریہ چیخ اٹھی، ”میری دعا نہیں سنتا وہ۔ میری آواز میری ماں تک نہیں پہنچتی آسماں تک کیسے پہنچے گی بیلا… معجزے میری زندگی میں نہیں ہوںگے…. ورنہ پاپا میرے پاس آجاتے میں، ماما کے سینے سے لگ کر روتی تمہارے ….. میری لائف صرف بربادہونے کے لیے ہے… صرف بربادی ہے میرے لیے ”وہ بپھرتی بپھرتی لڑکھڑاتے قدموں سے اپنی ادھوری زندگی کا بوجھ لے کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
******
”وہ میرے کہنے سے نہیں مانے گی، پہلے بھی کوشش کی تھی اسے کچھ دنوں کے لیے کہیں بھیج دوں مگر اس نے انکار کردیا، لبنیٰ پلیز… وہ سارا سارا دن گھر میں بند پڑی رہتی ہے اس طرح تو وہ پاگل ہوجائے گی… ”ثروت عماریہ کے لیے بہت فکر مند تھی اپنی ایک واقف کارسے اصرار کرکے وہ اسے آنے والے پراجیکٹ کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔ لبنیٰ کے معذرت کرنے پر کہ وہ کسی اور کو سائن کرچکی ہے ثروت باقاعدہ منت پر اُتر آئی تھی،” وہ پہلے بھی تمہارے ساتھ کام کرچکی ہے… مجھے یقین ہے جب تم دوبارہ اصرار کروگی تو وہ مان جائے گی… جو ایکسٹرا خرچہ ہو تم مجھ سے لے لو… مگر پلیز اسے اپنے پراجیکٹ کے لیے سائن کرلو….”
اس کے اس قدر اصرار پر لبنیٰ نے حامی بھرلی اور اچھی خاصی رقم کا چیک بھی بھیجنے کا کہہ دیا۔ ثروت خاصا سٹپٹائی مگر چوںکہ ضرورت اس کی تھی اس لیے …. گھونٹ پی کر رہ گئی۔ فون رکھنے سے پہلے اس نے لبنی کو تاکید کی، ”پلیز اسے یہ نہ بتانا کہ میری تم سے بات ہوئی ہے… ورنہ وہ کبھی نہیں مانے گی….” بات ختم کرکے ثروت نے فون رکھ دیا اور اپنا سر پکڑلیا۔ اولاد کی محبت ماں باپ کو کیسے کیسے لوگوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ”یہ سب کچھ میں نے تمہاری محبت میں کیا ہے، عماریہ….” خود کلامی کرتے ہوئے ثروت نے دراز کھول کر چیک بک نکال لی اور رقم کے ہندسے بھرنے لگی۔ کچھ اور دن گزرگئے تھے۔ عماریہ نے خالی خالی نظروں سے کیلنڈر کی جانب دیکھا اور تھکے تھکے قدموں سے اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھانے لگی۔ اپنے کمرے کے دروازے کا ہینڈل پکڑ کے اس نے یونہی چاروں جانب نظر دوڑائی تو ثروت کے کمرے کو دیکھ کر ٹھہرسی گئی جانے کیوں بہت عرصے بعد اس کا دل چاہا ماں کے کمرے میں جا کر بیٹھے۔ ثروت گھر پر نہیں تھی عماریہ اس کے کمرے میں چلی گئی۔ لائٹس جلاکر اس نے پورے کمرے کو دیکھا، ”کبھی پاپا یہاں ہوتے تھے….” ایک گہری سانس لے کر اس نے کمرے کی خوشبو اپنے اندر اتاری۔ جب اس کے پاپا یہاں رہا کرتے تھے تب ان کے کونوں کی خوشبو سے کمرہ مہکا کرتا تھا مگر اب… نہ وہ یہاں تھے نہ ہی ان کی خوشبو وہ حسرت سے سوچتی آگے بڑھی اور یونہی ثروت کی الماری کھول کر دیکھنے لگی۔ درازیں ہمیشہ لاکڈ ہوا کرتی تھی اس نے سوچتے ہوئے انہیں کھینچا تو ایک دراز کھلتی چلی گئی۔ سامنے کچھ خطوط نظر آئے۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر انہیں چھوا ہی تھا کہ بیلا اس کا بجتا موبائل لے کر کمرے داخل ہوئی، ”بے بی آپ کا فون بج رہا ہے…” عماریہ نے اسے آتا دیکھ کر دراز بند کی اور الماری کا پٹ بھیڑ کر اپنا فون اس کے ہاتھ سے لے لیا، ”ہیلو…” دوسری طرف لبنیٰ تھی۔ ”کیسی ہو Sweety اپنا تعارف کرواکر لبنیٰ نے اس کا حال چال پوچھا اپنی کال کا مقصد بیان کیا۔ حسب توقع عماریہ نے فوراً انکار کردیا۔ ”نہیں آنٹی… میرا بالکل موڈ نہیں ہے…”
”تمہاری ماما بھی یہی کہہ رہی تھیں کہ تمہیں فورس نہ کروں…. انہوں نے تو صاف منع ہی کردیا تھا کہ تم نہیں کروگی۔” ”ماما نے کیوں منع کیا تھا؟”
”فوٹو شوٹ استنبول اور پیرس میں ہوگانا…. دو ہفتے کی تو بات ہے پر ثروت نے کہا وہ تمہیں یوں اکیلے نہیں بھیجے گی اس لیے پرمیشن نہیں دی… پھر بھی مجھے یقین تھا کہ تم اپنی لبنیٰ آنٹی کو انکار نہیں کروں گی اس لیے ڈائریکٹ بات کررہی ہوں…..”
”آپ نے اچھا کیا جو مجھ سے بات کرلی… میں ضرور کروںگی کب چلنا ہے؟”
”پر ثروت….؟”، لبنیٰ نے جان بوجھ کے جملہ ادھورا چھوڑدیا۔
”میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں جو ان کی پرمیشن کی ضرورت پڑے گی مجھے… میں اپنے decisions خود لیتی ہوں،”
”Wow! Thats my ‘girl…… تم کل گیارہ بجے اسٹوڈیو آجانا باقی باتیں وہیں طے کرلیںگے… ok bye ”ماں کے کہے سے ہمیشہ الٹ کرنے والی عماریہ نے آج بھی وہی کیا تھا۔





استنبول میں موسم بہت سرد تھا۔ ہڈیوں کے گودے جماتی سرد ہوائیں …. آنے والوں کا والہانہ استقبال کررہی تھیں۔ فوٹو شوٹ کے بعد وہ شہر میں گھومنے نکل جاتی، اکیلی تنہا۔
یہاں بہت کم لوگ انگریزی جانتے تھے، مصری بازار میں عطر خریدتے ہوئے اسے قدرے مشکل کا سامنا کرنا پڑا دکان دار اس کی بات سمجھ نہیں پارہا پھر بھی اپنی پسند کی خوشبو خریدنے کا مرحلہ خاصا مزے دار تجربہ ثابت ہوا تھا۔ بہت عرصے بعد وہ کھلکھلا کر ہنسی خوش ہوئی۔ یونہی بے وجہ مصالحہ جات کی قیمتیں معلوم کرتے اس نے ترکی دکان داروں کا لہجہ اور زبان اپنانے کا شوق ظاہر کیا۔ جواباً ان کی گرم جوشی دیکھ کر اسے خوش گوار حیرت بھی ہوئی یہ جان کر کہ وہ ایک پاکستانی ہے وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھارہے تھے۔
ہوٹل واپسی پر اس نے ٹیکسی والے کو تقسیم میدانیہ تک ہی روک دیا۔ وہ پیدل اپنے ہوٹل تک جانا چاہتی تھی جس کا فقط نام ہی معلوم تھا اسے۔ مگر وہ چاہتی تھی بھٹک جائے پھر مقامی لوگوں سے راستے پوچھے قدیم اینٹوں سے بنی سڑک پر بیتی صدیوں کے نشان ڈھونڈے۔ اسے خود پر حیرت ہوئی اور دل کی حالت پر بھی جو اس نامعلوم اجنبی شہر میں بھٹکتے ہوئے خوش تھا راضی تھا۔
رات دس بجے کے قریب وہ ہوٹل پہنچی اور اپنے کمرے میں بند ہوگئی۔ بستر پر گرتے ہی اسے بنا تردد کے نیند آگئی اور وہ ایسی سوئی کہ صبح کی خبر لائی۔
اگلی صبح شوٹ کی لوکیشن تک پہنچنے کے لیے سب وین میں سوار ہورہے تھے کہ اس کی نظر حسام پر پڑی۔ وہ اپنے فوٹو گرافر کو ایک منٹ میں واپس آنے کا کہہ کر تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔ حسام بھی اسے آتا دیکھ چکا تھا مگر اس کے چہرے سے کسی قسم کی خوشی کا کوئی اظہار نہیں ہوا۔ عماریہ نے خود ہی بات شروع کی، ”ہائے کیسے ہو؟” حسام لب بھینچ کر سر کی جنبش سے جواب دیا اور دوسری جانب متوجہ ہوگیا مگر اس کے ساتھ کھڑی صحائمہ نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ سلام دعا کی، ”السلام علیکم… میں نے آپ کو پہچان لیا… آپ عماریہ ہیں نا؟… حسام کے کالج میں ساتھ تھیں آپ….؟”
”ہاں… مگر تم مجھے کیسے جانتی ہو؟” عماریہ نے الجھ کر پوچھا تھا صحائمہ کے بجائے حسام نے جواب دیا، ”یہ میری وائف ہیںصحائمہ”… حسام کا لہجہ کچھ جتاتا ہوا محسوس ہوا۔ ”ہم اپنے ہنی مون پر آئے ہیں…”صحائمہ نے کچھ حیرت سے اپنے سخت مزاج شوہر کے منہ سے یہ الفاظ سنے پھر سنبھل کر عماریہ سے سوال کیا،” آپ بھی اپنے ہزبینڈ کے ساتھ آئی ہیں یہاں؟”
عماریہ کے جواب دینے سے پہلے حسام نہایت طنزیہ لہجے میں بولا: ”ان کا ہونے والا شوہر تو ہاسپٹل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا ہے….. مگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا… کسی کا دل ٹوٹے، کوئی مرے یا جیے۔ ان کیenjoyement میں خلل نہیں پڑنا چاہیے بس… کیوں ٹھیک کہا ناں میں نے؟…” سفید پڑتی عماریہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔صحائمہ، حسام کے رویے پر شرمندہ نظر آرہی تھی مزید کچھ کہے بغیر حسام اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لے گیا تھا۔
عماریہ کو جنید نے کئی آوازیں دیں پھر خود اس کے نزدیک آکر اپنے روانہ ہونے کی اطلاع دی۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی لیکن تمام دن اس کا موڈ خراب رہا۔
رات کو سخت تھکن کے باوجود اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسے خود پر غصہ آرہا تھا کیا ضرورت تھی حسام کے پاس جانے کی… ہونہہ… خواہ مخواہ اکڑ دکھارہا تھا بیوی کے سامنے… جو میں اس کی بیوی کو بتادوں یہ کس طرح میرے عشق میں مبتلا رہا دن رات کیسے میرے آگے پیچھے پھرا کرتا تھا تب مزا آئے گا جب وہ اس کے منہ پر تھوک کر چلی جائے گی، کڑوی سوچوں میں مزید زہر انڈیلتے بالآخر اسے نیند آگئی۔
اگلے دن صُبح وہ ان دونوں کی تلاش میں نظریں دوڑاتی ہوئی ڈائننگ ہال میں پہنچی اسے معلوم تھا حسام بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے سو اپنا بدلہ لینے کے لیے اسے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہاں تھوڑا انتظار ضرور کرنا تھا۔ اطمینان سے ناشتہ کرنے کے بعد جب وہ شوٹ پر روانگی کی غرض سے ہوٹل کے مین دروازے تک پہنچی تو دروازے کے عین سامنے صحائمہ کو پاکر مسکرادی۔ صحائمہ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا وہ خود ہی اس کے پاس چلی آئی اور کہا، ”میں آپ ہی کو تلاش کررہی تھی….”
”وہ کیوں.؟” عماریہ نے ایک ادا سے اپنا ہینڈ بیگ کندھے پر لگایا





”حسام کل بہت rudely پیش آئے تھے آپ کے ساتھ…. مجھے شرمندگی ہورہی تھی… آپ ضرور hurt ہوئی ہوںگی… اس لیے معذرت کرنا چاہ رہی تھی… ”عماریہ نے بے ربط سا قہقہہ لگایا، اور اپنی جیکٹ کی پاکٹ سے سگریٹ نکال کر لائٹر سے سلگاتے ہوئے کہا: ”بہت اکڑ دکھارہا تھا جیسے میری پرواہ ہی نہ ہو۔ حالاں کہ ایک وقت تھا میرے پیچھے کتے کی طرح دم ہلاتا پھرتا تھا وہ…”، نہایت حقارت سے اس نے حسام کی پچھلی زندگی کا راز طشت ازبام کیا تھا۔صحائمہ کے تاثرات یکدم تبدیل ہوئے تھے عماریہ کہتی رہی، ”دیوانہ تھا میری خوبصورتی کا… ہر وقت اپنا کیمرہ لیے میرے آگے پیچھے پھرتا تھا… چیک کرنا تم… ہزاروں تصویریں ملیںگی تمہیں اس کے پاس….”
عماریہ ابھی اور بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر صحائمہ نے حسام کو آتا دیکھا تو جلدی سے بائے کہہ کر اس طرف چلی گئی۔ سگریٹ کے کش لگاتی عماریہ زیرلب مسکرائی اور اپنی وین میں جاکر بیٹھ گئی۔ اپنی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس پیدل سفر کرتے حسام اور محائمہ دکھائی دیے۔ صحائمہ حسام کا بازو پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کررہی تھی جب کہ حسام غصے میں اس کا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔ عماریہ ہنس پڑی، جو وہ چاہ رہی تھی… ہوگیا تھا…..
”او ہیلو سویٹی…” لاہور ائیرپورٹ پر رباب نے عماریہ کو دیکھتے ہی بڑھ کر گلے لگالیا، ”کیسی ہو؟”” میں بالکل ٹھیک ہوں آنٹی… آپ اتنے عرصے بعد مل رہی ہیں کہاں غائب ہوگئیں تھیں؟” عماریہ بھی رباب کو اچانک سامنے پاکر بہت خوش ہورہی تھی۔ رباب نے کہا: ”بس… حسن نے کہا دبئی شفٹ ہوجاتے ہیں… انہیں بہت اچھی جاب آفر ہوئی تھی… سو ہم وہیں چلے گئے… تم سنائو… ماما کا کیا حال ہے؟ پریکٹس کرتی ہیں یا چھوڑدی….”
”ماما بالکل ٹھیک اور as alwaysبہت بزی.. پریکٹس بھی کرتی ہیں بزنس بھی…. ان کے پاس تو سانس لینے کا بھی ٹائم نہیں ہوتا…” عماریہ کی بات سن کر رباب کو تھوڑا تعجب ہوا، ”اچھا؟کوئی فرق نہیں پڑا اسے… حیرت ہے، میں تو سمجھی تھی اعجاز کی ڈیتھ کے بعد اپنی بے وقوفیوں کا احساس ہوجائے گا شاید سُدھرجائے مگر….” عماریہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ پاپا کو کیا ہوا؟ آپ ملیں ہیں ان سے…”رباب نے حیرانی سے اسے دیکھا ”ارے تمہیں نہیں پتا… اعجاز کی تو ڈیتھ ہوگئی چھے ماہ پہلے…. حسیب نے رابطہ کیا تھا اس کے آپریشن سے قبل حسن سے… اور تمہارا ایڈریس لے کر پاکستان آیا تھا…. تمہاری ملاقات نہیں ہوئی شاید… وہ واپس چلاگیا ثروت سے مل کر.. اوپن ہارٹ سرجری تھی اعجاز کی… اسی دوران ڈیتھ ہوگئی… حیرت ہے ثروت نے تمہیں بتایا کیوں نہیں؟” عماریہ کو شاک لگا تھا رباب اسے لے کر بینچ پر بیٹھ گئی اور تفصیل سنانے لگی۔
عماریہ کا وجود مسلسل آندھیوں کی زد میں یہ ہولناک انکشافات سن رہا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ کچھ بولنے کی ہمت کرسکی، ”انہوں نے بھی تو پلٹ کر ہماری خبر نہیں لی… یہاں سے جانے کے بعد شادی کرلی بھول ہی گئے کہ میں ان کی بیٹی یہاں ہوں کبھی تو ملنے آجاتے…”اپنے آنسوئوں کو روکنے کی ناکام کوشش میں اس نے دل میں دبے شکوے کا اظہار بھی کر ڈالا۔
رباب نے ایک گہری سانس لی، ”تو یہ کہانی سناکر ثروت نے تمہیں باپ سے متنفر کیا.. اچھا ہی ہوا جو میں نے اس سے دوستی ختم کردی…. وہ اتنی خود غرض اور بے حس عورت ہے مجھے اندازہ ہوگیا تھا”’عماریہ کچھ نہ سمجھی ”آپ کیا کہہ رہی ہیں آنٹی….” رباب نے ہمدردی سے عماریہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگی: ”اعجاز نے دوسری شادی نہیں کی تھی اومی… تم سے الگ ہوکر وہ کبھی خوش نہیں رہا… دل کا مریض بن گیا… لمبا سفر اس کے لیے ممکن نہیں تھا… اور تمہاری ماں نے اس کے متعلق شاید اتنے جھوٹ اس ہی لیے کہے ہوںگے کہ تم کبھی اس سے ملنے کی ضد نہ کرو…. اس نے تو اعجاز کی ڈیڈ باڈی ریسیو کرنے سے بھی انکار کردیا تھا…”
”آپ جھوٹ بول رہی ہیں…”، عماریہ کے لیے یقین کرنا مشکل تھا، ”ماما میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتیں” ”تو تم جاکر ثروت سے پوچھ لو… اتنا عرصہ کتنی بار اعجاز نے تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی…. حسیب کتنی بار تمہارے گھر آیا… مرنے سے پہلے اعجاز تم سے آخری بار ملنا چاہتا تھا… اگر ثروت نے تم سے جھوٹ نہیں کہا ہوتا… تو اسے تمہارے اعجاز سے ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا…” عماریہ دم بہ خود بیٹھی رہ گئی تھی، رباب نے کھڑے ہوکر اپنی ٹرالی آگے گھسیٹتے ہوئے اس سے کہا: ”I am sorry… یہ سب بری خبریں تمہیں میرے ذریعے سے ملی ہیں.. میں تمہیں صرف حقیقت بتانا چاہتی تھی… تمہارا دل دکھانا میرا مقصود نہیں تھا….” اتنا کہہ کر رباب وہاں سے چلی گئی۔
عماریہ کتنی دیر وہاں بیٹھی رہی؟ کب ایئرپورٹ سے باہر آئی اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔ اس کا ذہن کسی پروجیکٹر کی طرح ایک کے بعد ایک تصویر چلارہا تھا۔ گم گشتہ آوازیں اور بلاوے جانے کہاں سے سنائی دے رہے تھے۔ وہ ٹیکسی روک کر اس میں بیٹھ گئی، ڈرائیور کے پوچھنے پر کہ وہ کہاں جائے گی اس نے کوئی واضح جواب دیے بغیر بس چلنے کا کہا۔ وہ اس وقت کسی منزل پر پہنچنا کسی مانوس چہرے سے ملنا یا اسے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کا وجود پانی بنا ہوا تھا نمکین پانی…. صرف آنسو۔
بہت دیر ٹیکسی چلتی رہی۔ وہ خاموش بت بنی بیٹھی تھی… بے حس و حرکت ڈرائیور اس کے حلیے سے اس کے اسٹیٹس کا اندازہ لگاچکا تھا کچھ پڑھا لکھا بھی تھا اس کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہ ڈیپریس ہے۔ اسے مخاطب کیے بغیر وہ ہر تھوڑی دیر میں بیک ویو مرر میں اس کی حالت زار پر نظر ڈالتا اور دوبارہ ٹیکسی چلانے لگتا۔
رات ہوگئی، ٹیکسی اب شہری آبادی سے باہر نکل آئی تھی۔ عماریہ کا موبائل مسلسل بج رہا تھا ڈرائیور نے پلٹ کر دیکھا وہ اب بھی خاموش لب سیے خالی خالی نظروں سے شیشے کے پار دکھائی دیتے چھوٹے چھوٹے کچے گھروں سے آتی زرد مدقوق روشنی کو دیکھ رہی تھی۔





”بی بی آپ کا فون رہا ہے….” ڈرائیور نے اس کی حالت کے پیش نظر ذرا اونچی آواز میں اس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ عماریہ نے ایک نظر موبائل پر چمکتے نام پر ڈالی: ”ماما’ سختی سے دانت بھینچ کر اس نے اپنے اندر امنڈتے غصے کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی، ”یہ عورت کیا ماں کہلانے کی حقدار ہے، اس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا… میرا بچپن، میرا باپ… میری محبت میرے احساسات.. یہ عورت ماں نہیں… ہے….”
اس نے جوش میں آکر کال ریسیو کی، ”میری جان بخش دیں… اکیلا چھوڑدیں مجھے…”، وہ زور سے چلائی، ثروت حیران ہوئی، ”کیا ہوگیا اومی…. اس طرح کیوں بی ہیو کررہی ہو؟”
اور حیران تو ڈرائیور بھی ہورہا تھا، اس نے گاڑی کی رفتار ہلکی کی اور سائڈ پر روک لی، ”تو اور کیسے بی ہیو کرنا چاہیے مجھے… آپ جیسی جھوٹی بے حس عورت کے ساتھ….”
”تمیز سے بات کرو… کیا ہوگیا ہے تمہیں؟؟ پھر سے ڈرگز شروع کردی ہیں کیا… فوراً گھر واپس آئو….”” اب میں کبھی واپس نہیں آئوںگی… میں پاپا کے پاس جارہی ہوں… مجھے ان کا پتا مل گیا ہے….!! ””تم … تم کیا کروگی وہاں جاکر… اعجاز تو اب اس دنیا میں”، روانی میں ثروت کو احساس نہیں ہوا اور جب ہوا، تیرکمان سے نکل چکا تھا، عماریہ نے سمجھ لیا کہ رباب ٹھیک کہہ رہی تھی، اور وہ بلک بلک کر رونے لگی، ثروت سر پکڑ کر بیٹھ گئی، اسے عماریہ کے رونے کی آواز آرہی تھی مگر وہ اس سے بات نہیں کررہی تھی، ”پلیز اومی… مجھے معاف کردو… میری بات سنو… گھر آجائو میں تمہیں سب کچھ بتاتی ہوں…”
”آپ نے اچھ
ا نہیں کیا…. ”اتنا کہہ کر وہ پھر سے رونے لگی فون آف کرکے اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر پھینک دیا۔ ڈرائیور کو ہینڈبیگ سے ڈھیر سارے نوٹ نکال کر دیے اور روتی ہوئی لڑکھڑاتے قدموں سے اس مزار کی جانب بڑھنے لگی جو سڑک سے ذرا ہٹ کر تعمیر تھا۔
ڈرائیور نے اس کی دی ہوئی رقم کو گنا، وہ اس کے تین چار مہینے آرام سے گزاردیتی۔ کچھ افسوس کچھ ہمدردی سے اس نے عماریہ کو مزار کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔ پھر اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور شہر کی طرف واپس ہولیا۔
عماریہ وہیں پہنچ گئی تھی جہاں اس کی غرض پوری ہوسکتی تھی۔ قوالی کا شور، کثیف دھوئیں کے بادل اور ہوش سے بیگانہ فقیر۔ چرس سے بھرے سگریٹ کے عوض اس نے اپنی چین، گھڑی اور ہینڈبیگ میں موجود تمام رقم بھی اس کے حوالے کردی۔ اسے سکون چاہیے تھا۔
کچھ اور دن گزرجاتے تو شاید اس ٹیکسی ڈرائیور کو عماریہ کی صورت بھول جاتی۔ وہ دن میں کئی سواریاں لیتا تھا۔ مگر چوں کہ ابھی چند دن پہلے ہی عماریہ اس کی ٹیکسی میں بیٹھی تھی اور اپنی غیر معمولی حرکتوں کے باعث اسے یاد بھی رہ گئی تھی اس لیے ثروت کی جانب سے دیے گئے اشتہار کو دیکھ کر وہ سیدھا اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔ وہ عماریہ کی گمشدگی سے سخت پریشان تھی آٹھ دن سے وہ لاپتا تھی، اس ڈرائیور کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں وہ پولیس کو لے کر اس مزار تک جا پہنچی۔
تھوڑی تفتیش اور پوچھ گچھ کے بعد بالآخر وہ عماریہ کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر ثروت صدمے سے پتھر ہوگئی۔ جس فقیر نے نشے کی حالت میں اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر گلا گھونٹ کر ماردیا تھا وہ اس وقت بھی نشے میں چور وجد کے عالم میں اس کے گرد دھمال ڈال رہا تھا۔
عماریہ کے وجود سے بدبو اُٹھ رہی تھی، ثروت اس کے قریب نہیں گئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا، اس کے سامنے اس کی بیٹی کو ایمبولینس میں ڈالا گیا، اس کے سامنے جنازہ اُٹھا، اس کے سامنے مٹی ڈالی گئی پھر قبر تیار ہوگئی۔ وہ صرف دیکھتی رہی… اس کے قریب نہیں گئی وہ اپنی پرنسس کی موت پر رو بھی نہیں سکی تھی۔ بیلا نے اسے سنبھالا… اب بھی وہی سنبھال رہی ہے۔ کئی ماہ گزرگئے، اب بھی ثروت، عماریہ کی قبر پر آتی ہے گھنٹوں تک بیٹھی باتیں کرتی رہتی ہے جیسے اس کے پاس دنیا کا اور کوئی کام نہ ہو… اسے گھر میں نہ پاکر بیلا اور دلاور قبرستان تک آتے ہیں وہ جانتے ہیں ان کی میڈم اب صرف یہیں ملتی ہیں… اپنی بیٹی کے پاس۔
ختم شد




Loading

Read Previous

آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

Read Next

ایک معمولی آدمی کی محبت —- محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!