آدھا سورج —- امایہ خان

”عماریہ سے پہلے آپ کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔”
”مجھے؟ پر مجھے کیا ہوا…؟” ثروت کو یہ بات بے حد ناگوار گزری تھی: ”کیا آپ کی بیٹی اپنے مسائل آپ سے شیئر کرتی ہے…؟”
”میں نے اسے کوئی مسئلہ کبھی ہونے ہی نہیں دیا ہے:” ہٹ دھرم ثروت دوبارہ اپنی جون میں واپس آگئی تھی۔ ”ایسا آپ کو لگتا ہے… اگر عماریہ کو کوئی پرابلم نہ ہوتی تو وہ کبھی ڈرگز استعمال نہ کرتی… وہ فرار چاہتی ہے…. اس ماحول سے جس میں آپ اسے پال رہی ہیں جہاں…” ”بس کردیں… آپ حد سے بڑھ رہی ہیں… میری بیٹی ایسا ہرگز نہیں کرسکتی….” ثروت فوراً اٹھ کھڑی ہوئی ”ہم خاندانی لوگ ہیں… میں مانتی ہوں میری بیٹی سے غلطیاں ہوئی ہوںگی۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس پر اتنے گھٹیا الزام لگائیں….” مس گلوریا نے کچھ کہنا چاہا کہ اسی وقت ثروت کا موبائل بج اُٹھا…. اگر عماریہ کی کال نہ ہوتی تو وہ ریسیو نہ کرتی مگر فون پر عماریہ نہیں کوئی عورت تھی جس کی بات سن کر وہ سُن رہ گئی تھی۔
عماریہ کی اس عجیب حرکت کا خمیازہ بیلا کو بھگتنا پڑا تھا جو ایک چھوٹی سی بچی کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھ پائی تھی اور میڈم کو ان کے مہمان کے سامنے شرمندہ کردیا تھا۔
ثروت نے عماریہ پر اپنے بیڈ روم میں جانے پر پابندی عائد کردی۔ بیلا کو حکم ملا کہ صفائی کے بعد اس کا کمرہ مقفل کردیا جائے۔ عماریہ کچھ دن گھر میں مقید رہی، اس حالت میں اسکول بھجواکر ثروت اس کا مذاق نہیں بنوانا چاہتی تھی… بیٹی کو گھر تک محدود کرکے وہ دوبارہ اپنی مصروفیت میں گھرچکی تھی۔
عماریہ سے کسی نے نہ پوچھا وہ کیوں پریشان ہے، کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔ اس کے لاڈ اٹھانے والے پاپا جانے کہاں چلے گئے تھے۔ ماما کچھ نہیں بتائیںگی…. تو کیا میں خود ڈھونڈوں انہیں؟
ایک ڈیڑھ ہفتے بعد اسکول جانے سے قبل بیلا نے میڈم کے حکم پر آئی پنسل سے اس کی ہلکی بھنویں بنائیں اور وہ گھر سے باہر نکلنے کے قابل ہوئی۔ مگر چھٹی کے وقت وہ گھر واپس نہیں آئی بلکہ دلاور کو سیدھا اعجاز کے آفس چلنے کا حکم دیا۔ دلاور پہلے تو ہچکچایا اور بولا: ”بے بی میڈم سے پوچھے بغیر میں آپ کو نہیں لے جاسکتا…”، عماریہ نے کمال اطمینان سے جھوٹ بولا:” ماما سے پوچھ لیا تھا میں نے… تم چلو…” اس کے اعتماد نے دلاور کو حکم ماننے پر مجبور کردیا اور وہ اسے لے کر اعجاز کے دفتر پہنچ گیا۔ مگر وہاں کون تھا؟ دفتر تو بہت پہلے بک چکا تھا۔ اعجاز دیار غیر جا بسا تھا۔ ناکام عماریہ یوں ہی لوٹ گئی۔
گھر پہنچنے تک اس کا دُکھ، غم وغصے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ سونے پر سہاگہ جب بیلا نے اس کے دیر سے آنے پر استفسار کیا تو وہ پھٹ پڑی: ”تمہیں اس سے کیا… جائوں یہاں سے… مجھے تنگ مت کرو۔” بیلا گھبرا کر اس کے کمرے سے نکل گئی۔ باہر دلاور نے اسے بتایا تو وہ اس پر ناراض ہونے لگی، ”کیا ضرورت تھی بے بی کو وہاں لے جانے کی… تمہیں اپنی نوکری پیاری نہیں؟” دلاور اپنی مجبوری سناتا رہا مگر بیلا نے ایک نہ سنی۔ اسے اچھی طرح ڈانٹ پلاکر وہ ابھی دروازہ بند کرکے مڑی ہی تھی کہ ایک چھناکے سے کانچ کا گلدان زمین پر اس کے سامنے گرا اور چور چور ہوگیا۔” آئے ہائے کیا ہوا بے بی… چوٹ تو نہیں لگی؟” اس نے آگے بڑھ کر ٹوٹے کانچ کے قریب کھڑی عماریہ کو تھاما، عماریہ نے اسے دھکادے کر پیچھے ہٹایا ”چھوڑو مجھے… میں ماروںگی تمہیں گندی بیلا.. چھوڑدو مجھے…” مگر بیلا نے اسے سختی سے پکڑے رکھا، ”نہ کرو بے بی… چوٹ لگ جائے گی… چیزیں ٹوٹ جائیںگی… پھر ماما آکر ماریںگی تمہیں…”





عماریہ نے یہ سن کر ہاتھ آگے بڑھایا اور ایک اور گل دان زمین بوس کردیا، ”بلائو ماما کو مجھے پاپا کے پاس لے کر جائیں… مجھے جانا ہے…” بیلا بے چاری اسے سنبھالنے کی کوشش میں بے حال ہورہی تھی۔ کسی نہ کسی طرح اسے قابو کرکے وہ کمرے تک لے کر آئی، اس پر بھی رستے میں آنے والی تمام سجاوٹ عماریہ کے ہاتھ لگ کر ٹوٹی پھوٹتی رہی۔ پورے گھر کو تہس نہس کرنے کا اراد رہی اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو سکون دیتا۔ بڑی مشکل سے اُسے کمرے میں بند کرکے بیلا نے سکون کا سانس لیا اور جھاڑو سنبھال لی۔
رات کو ثروت کی واپسی پر بیلا نے اس کے سامنے رونا دھونا شروع کردیا۔ ثروت یہ سب سن کر تھوڑا فکرمند ہوئی۔ اس نے بیلا سے چابی لے کر عماریہ کا کمرہ کھولا تو وہ اوندھے منہ بستر پر پڑی گہری نیند سورہی تھی لیکن اس کا کمرہ نہایت ابتر حالت میں تھا، جو چیزیں ٹوٹ سکتی تھیں وہ ٹوٹی ہوئی، باقی بکھری پڑی تھیں۔ ثروت نے ایک گہری سانس لے کر اس کا کمرہ دوبارہ بند کیا ۔یہ تو صاف ظاہر تھا کہ عماریہ باپ کے بغیر اس سے سنبھالی نہیں جارہی تھی اب واحد حل یہی تھا کہ اسے یہاں سے دور بھیج دیا جائے۔ ”ہاں یہی ٹھیک رہے گا… اسے بورڈنگ اسکول بھیج دیتی ہوں… گھر سے دور الگ ماحول میں وہ اعجاز کو بالکل بھول جائے گی….” اس نتیجے پر پہنچتے ہی بالکل پُرسکون ہو کر اپنے کمرے میں واپس آگئی۔ اپنے جاننے والوں کے توسط سے اس نے عماریہ کا داخلہ ایک بہترین سہولتوں سے مزین بورڈنگ اسکول میں کروادیا اور بری الذمہ ہوگئی۔
گھر سے عماریہ کے جانے کے بعد وہ یک سوئی سے اپنے کاروبار اور وکالت کے پیشے کو ٹائم دینے لگی۔ کچھ ہی سالوں میں اس کا شمار شہر کے بڑے وکیلوں میں ہونے لگا۔ کامیابی کی سیڑھیاں بھاگ پھلانگ کر اوپر چڑھتی ثروت نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا تھا کہ اس کے اپنے خواب پورے ہوتے ساتھ اس کی بیٹی کی شخصیت میں کیسا ادھورا پن بھرتے جارہے ہیں۔ ماں باپ کی شفقت اور سائے سے محروم عماریہ اپنا بچپن ہاسٹل کی سنگی دیواروں کو تکتے گزار رہی تھی۔ کئی سال یوں ہی گزرگئے اولیولز کے بعد عماریہ گھر آگئی۔ اس دوران عماریہ اپنے باپ کی تلاش اور اس کی واپسی کی ہر امید چھوڑ بیٹھی تھی مگر اعجاز سے لاکھ کوشش کے باوجود متنفر نہ ہوسکی حالاں کہ ثروت نے اسے بتادیا تھا کہ اعجاز امریکا میں بس گیا ہے اور دوسری شادی کے بعد اپنی دو بیٹوں کے ساتھ نہایت خوش و خرم زندگی گزاررہا ہے۔ اس نے ثروت کو طلاق دے دی تھی مگر چوں کہ وہ اپنی بیٹی سے حقیقی محبت کرتی ہے اس لیے خود کبھی دوسری شادی نہیں کرے گی۔ ثروت نے جو کہا، عماریہ نے خاموشی سے سُنا، مانا اور قبول کرلیا تھا۔ ثروت نے بھی سُکھ کا سانس لیا کہ اب وہ دوبارہ کبھی اعجاز کا نام نہیں لے گی۔ شکر خدا کا یہ مسئلہ تو حل ہوا ثروت خوش ہوئی مگر اس کی یہ خوشی اس قدر عارضی ثابت ہوگی یہ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔
Drug Rehab سے اسے واپس آئے دو ہفتے ہوچکے تھے۔ ابھی تک اُس نے دوبارہ کالج جوائن نہیں کیا تھا، ثروت کی مجبوری تھی وہ چوبیس گھنٹے اس کی نگرانی کے لیے گھر پر بیٹھی نہیں رہ سکتی تھیں۔ بہت سوچ سمجھ کر بالآخر اس سے دو ٹوک بات کرنے کا ارادہ کیا اور لائونج سے باہر نکل آئیں۔ اس کے کمرے کے نزدیک پہنچ کر دستک دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر کانوں کے پردے پھاڑتی بے ہنگم میوزک کی آواز سن کر وہ یونہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئیں۔ سامنے دکھائی دیتے منظر نے انہیں ہربڑا کر دروازہ فوراً بند کرنے پر مجبور کردیا بیٹی کا حلیہ دیکھ کر وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ بستر پر پڑی اس کی ٹی شرٹ اٹھاکر پاگلوں کی طرح ناچتی کودتی عماریہ کے منہ پر دے ماری اور آگے بڑھ کر ڈیک بھی آف کردیا۔
”یہ کیا بے شرمی ہے اومی؟ گھر میں نوکر چاکر ہیں… کوئی تمہیں اس حالت میں دیکھ لے تو کیا سوچے گا؟” اومی جو چند لمحوں پہلے پارہ بنی ادھر سے ادھر اچھل کود کرتی ناچ رہی تھی۔ منہ پر ٹی شرٹ مارے جانے کے بعد نہایت مرے مرے ہاتھوں سے اسے پہنتی ہوئی بے زاری سے ماں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر بستر پر نیم دراز ہوگئی کمرے میں ثروت کی اچانک آمد بادل نخواستہ کہتے ہوئے اس نے خود کو فوراً ہی رد عمل دکھانے سے باز رکھا تھا۔ سائڈ ٹیبل پر دھرا فیشن میگزین اٹھاکر اس نے ساتھ رکھے مشروب کا ٹن کر ہونٹوں سے لگاکر ایک طویل گھونٹ بھرا اور نہایت ٹھنڈے لہجے میں گویا ہوئی: ”Don’t worry Mom، ہمارے servants کو اتنی تمیز ہے کہ کسی کے کمرے میں ناک کیے بغیر داخل نہیں ہوتے۔” یہ صاف صاف اس پر طنز کیا تھا جو دستک دیے بغیر اندر داخل ہوئی تھی۔ دل تو کیا اس کے منہ پر کس کے تھپڑ جڑدے مگر پھر وہی غلطی دہُرا کر خود کو اسی مشکل میں ڈالنا اب افورڈ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
”اتنے لائوڈ میوزک میں تمہیں آواز سنائی نہ دیتی…. اس لیے direct اندر چلی آئی….”
”کیا کام ہے؟”، ان کی وضاحت بے معنی تھی عماریہ اپنی ماں سے جس لہجے میں گفتگو کرتی تھی وہ اسے اچھی طرح سمجھادیتا تھا کہ وہ کسی قسم کا دبائو یا جذباتی حربہ قبول نہیں کرے گی۔ پھر بھی اس نے کوشش کی نہایت نرمی سے سوال کیا: ”تم کالج کب جانا شروع کروگی؟”
”مجھے نہیں جانا…. ”جوا ب توقع کے عین مطابق تھا: ”یہاں بہت restrictions (پابندیاں) ہیں….” ”پھر بھی… کم از کم As تو مکمل کرلو… پھر جس کالج میں چاہوگی تمہارا ایڈمیشن ہوجائے گا…” ”میں پرائیویٹ ایگزامز دے دوںگی…. کوئی ٹیوٹر ارینج کردیں یا پھر میں کوئی اکیڈمی جوائن کرلیتی ہوں۔” ”یہ سب بھی کردوںگی… تم کلاسز مت مس کرو… بہت حرج ہورہا ہے…” اس نے پیار سے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے انہیں چہرے سے ہٹایا اور پاس ہی جگہ بناکر بیٹھ گئی۔ عماریہ کرنٹ کھاکر فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی: ”میں نے کہا نا… میں وہاں نہیں جائوںگی…” مزید بحث سے بچنے کے لیے اس نے دوبارہ میوزک آن کردیا۔ ثروت بے چارگی سے ایک گہری سانس بھر کر اس کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اومی کی بات ماننے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
******





جاوید لغاری ایک کرپٹ سیاست دان تھا۔ مگر اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے قرابت داروں میں فراست ہاشمی شامل تھا، جس نے ثروت کو اس کا کیس لڑنے پر آمادہ کیا۔ ثروت کا نام ہی کیس جیتنے کی ضمانت ہوا کرتا تھا۔ اپنے کیریئر میں اس نے حتی الامکان سیاست دانوں سے قدرے فاصلہ برقرار رکھا تھا لیکن یہ کیس فراست کے مجبور کرنے پر لینا پڑا تھا۔
فراست اس کا اچھا دوست بن چکا تھا۔ کئی کرمنل کیسز میں اس نے ثروت کی مدد کی تھی اس کے علاوہ دوسرے کئی احسانات تھے، جن کا بار سہتے ہوئے وہ انکار کی ہمت نہیں کرپائی تھی۔ خاص طور پر اعجاز سے علیحدگی کے بعد فوری طور پر ایک نئے گھر کی تلاش کے وقت وہ اس کے بہت کام آیا تھا۔ ایک طرح سے وہ ثروت کا ہم راز تھا جس پر وہ بہت بھروسہ کرتی تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ فراست کی بیوی آمنہ ان کے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے ثروت نے فراست سے میل جول ترک نہیں کیا تھا۔
عماریہ کی پیدا کردہ نئی مصیبت کو حل کرنے کی غرض سے جب اس نے آفس میں اپنی سیکریٹری سے کسی ٹیوشن سینٹر کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے کہا تو فراست وہیں موجود تھا۔ وہ مقامی اخبارات میں ثروت کے انٹرویو اور تصاویر چھپنے پر مبارک باد دینے آیا تھا۔ جس میں اسے دور حاضر کی کامیاب ترین خاتون ہونے کا اعزاز دیا گیا تھا۔ ثروت کی اس عجیب و غریب ہدایت پر اس نے پوچھا، ”خیریت….؟ کیا پھر سے studies شروع کررہی ہو…؟” ثروت بدقت مسکرائی، ”نہیں… میں عماریہ کے لیے معلوم کروارہی ہوں… اس نے کالج چھوڑدیا ہے، ایگزام کی تیاری کے لیے کہیں تو بھیجنا پڑے گا….”
”تو پریشان کیوں ہوتی ہو؟… میں شیگی سے کہہ دیتا ہوں… روز شام کووہ چار سے ساڑھے سات تک ڈاکٹر رابعہ کے ٹیوشن سینٹر جاتا ہے… عماریہ کو بھی ساتھ لے جائے گا…” ہمیشہ کی طرح اس نے منٹوں میں ثروت کا مسئلہ حل کیا تھا۔ ثروت نے پرسوچ انداز میں کہا: ”شیگی؟ تمہارا بیٹا شرجیل… اسی کی بات کررہے ہو نا؟ وہ ابھی تک اے لیولز میں ہے؟؟”…. ”ہونا تو نہیں چاہیے….. مگر ہے… دو سال اس نے کالج جانا چھوڑے رکھا… اب تھوڑا سیریس ہوا ہے… اس لیے دوبارہ امتحان دے گا…”
ثروت نے ذہن پر زور دیا اور اسے یاد آیا کچھ سال پہلے فراست، شرجیل کے متعلق اسے بتایا کرتا تھا کہ وہ غلط دوستوں کی صحبت میں پڑکر آوارہ ہوتا جارہا ہے۔ ثروت اس کا ذمہ دار اس کی بیوی کو ٹھہرایا کرتی جس نے بیٹے کی تربیت میں بے پروائی برتی تھی۔ فراست کے خیالات بھی کم و بیش یہی تھے۔ باپ تو کمانے میں مصروف ہوتا ہے یہ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو وقت دے ان کی اچھی تربیت کرے۔ شرجیل نے خوب ہی اسے تگنی کا ناچ نچایا تھا، اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ رات بھر وہ سڑکوں پر بنا سائیلنسر کی موٹر سائیکل دوڑاتا پھرتا، ایڈونچر کے نام پر چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کیں اور حوالات میں بند کیا گیا۔ فراست کی ساری فہم و فراست اس ناخلف کے سامنے دھری کی دھری رہ جاتی تھی۔ ثروت کو عماریہ کا شرجیل کے ساتھ بھیجنے کا مشورہ ملنے پر فوراً حامی بھرنے سے مائل ہوا۔
فراست اس کی خاموشی کے پیچھے چھپے تحفظات سمجھ گیا اور کُھل کر مسکراتے ہوئے گویا ہوئے، ”یقین کرو… وہ بہت بدل گیا ہے… جب مسئلہ تھا میں نے تب بھی تمہیں بتادیا تھا نا… تو اب کیوں جھوٹ بولوںگا….” ثروت خفت سے مسکراتی” نہیں… میں تم پر شک نہیں کررہی….”
”تو بس پھر طے ہوگیا… آج شام پونے چار بجے شیگی تمہارے گھر عماریہ کو پک کرنے آئے گا…. اوکے…” ثروت مسکرادی، کچھ دیر بیٹھ کر فراست چلاگیا تھا۔
******
عماریہ کو فون پر اطلاع مل چکی تھی کہ اسے شام میں تیار رہنا ہے۔ اسے بھی شیگی کے ساتھ جانے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اکثر پارٹیوں میں وہ ملتے رہتے تھے، گو عماریہ اس کے گینگ کا حصہ نہیں بنی تھی مگر وہ اسے پسند کرتی تھی۔ شرجیل کے جسم میں خون کی جگہ پارہ دوڑتا تھا وہ ہر دم کچھ نیا کرنے کے لیے بے چین رہتا تھا۔ یقینا اس کے ساتھ ٹیوشن پر جانا ایک الگ تجربہ ہوتا اور اسٹڈیز…. آں… چلو وہ بھی تھوڑی بہت کرلی جائے تو مضائقہ نہیں۔
مقررہ وقت پر وہ جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی شیگی ٹھیک پونے چار بجے اس کے گھر پہنچ گیا بیلا کے اطلاع دینے پر جب وہ خوشی خوشی باہر نکلی تو شیگی پر پہلی نظر پڑتے ہی اس کی ایکسائمنٹ کا بیڑہ غرق ہوگیا۔ خلاف توقع وہ کافی شریفانہ حلیے میں تھا۔ اس کے ٹھٹکنے اور عجب طرح گھورنے کا نوٹس لینے کے باوجود وہ نہایت تحمل سے اپنی گاڑی میں بیٹھا اسے دیکھتا رہا، عماریہ بھی خود پر قابو پانے کی کوشش کرتی پنے تلے قدموں سے چلتی ہوئی کار تک آئی اور خود ہی دروازہ کھول کر بیٹھ بھی گئی ”ہیلو عماریہ… کیسی ہو؟….” خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ شیگی نے اسے ویلکم کہا۔
”I am fine Shaggy… تم سنائو… یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟” شرجیل آس کے انداز پر چونکا، ”ارے تم تو کافی بدلحاظ ہو… میں تم سے بڑا ہوں…. مجھ سے آپ کہہ کر مخاطب ہوا کرو…” ”Ohhh shut up… فضول تکلفات میں پڑنے کی قائل نہیں ہوں میں…. تم میرے دوست ہو اور اپنے دوست سے میں ایسے ہی بات کروںگی…” اس کا دو ٹوک جواب سن کر وہ خوشدلی سے ہنسا، ”جانتا ہوں… تنگ کررہا تھا تمہیں… اب چلیں…”، کہتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی، ”تمہاری بائیک کہاں ہے؟… میں توقع کررہی تھی تم اپنا وعدہ پورا کروگے؟… عماریہ نے اسے پرانی یاد دلائی۔ شرجیل نے سنجیدگی سے جواب دیا: ”مجھے تم سے کیا وعدہ یاد ہے…. مگر اب میں اسے پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔”
”کیوں…؟ تمہارے ڈیڈ نے بائیک واپس لے لی کیا…؟” عماریہ نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا: ”نہیں… ان سے تو میں نے کہا تھا کہ چوری ہوگئی ہے مگر…” شرجیل کافی سنجیدہ تھا۔ ”مگر کیا؟”
”میں تم سے جھوٹ نہیں بولوںگا…” شرجیل نے کچھ پل ٹھہر کر کہا: ”ہمارے لڑائی ہوگئی تھی کراچی یونیورسٹی کے ایک لڑکے سے…. یہیں beach پر فارم ہائوس کے پاس پھر اس کے gang نے میری بائیک کو آگ لگادی….”
”oh my God ”عماریہ ششدر رہ گئی اور بولی: ”اور تم نے جواباً کچھ نہیں کیا؟؟ بدلہ لیتے ان سے…” شرجیل نے کندھے اچکائے، ”کیسے لیتا بدلہ…؟ اسے جان سے ماردیتا….”
”جان سے نہ مارتے پر کچھ نہ کچھ سبق تو سکھاتے اسے….”





”نہیں رومی… میرا react نہ کرنا ہی بہتر تھا… میں اور میرا گروپ ایڈونچر کے نام پر بہت سی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہے ہیں… تیز بھاگتے ہوئے ٹھوکر کھانا بہت آسان ہے… اب بس میں بے زار سا ہوگیا ہوں… دل نہیں چاہتا….” شرجیل ٹھہر ٹھہر کر بات بدلتا رہا، اس کی بے ربط باتوں کی گہرائی تک عماریہ نہیں پہنچ پائی مگر اتنا ضرور جان گئی کہ وہ سچ بول رہا ہے۔
”کیا دل چاہتا ہے پھر؟” اومی نے دلچسپی سے پوچھا، شرجیل نے چونک کر اس کی جانب یوں دیکھا جیسے حیران ہوکہ وہ اس کی غیر اہم باتوں کو اتنی توجہ سے سن رہی ہے وہ زیر لب مسکرایا ”تم جان کر کیا کروگی؟”
”کچھ نہیں… بس یونہی پوچھ لیا…”
”اچھا تم بتائو… تمہارا دل کیا چاہتا ہے؟”
”یہ تو نہیں معلوم…” عماریہ مزے سے بولی ”ہاں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اب تمہیں شیگی کہنے کو تو بالکل دل نہیں چاہتا…” دونوں ہنس پڑے، شرجیل نے کہا ”اچھا وہ کیوں؟” ”تمہارا حلیہ کافی بہتر ہوگیا ہے اس لیے…” عماریہ نے وجہ بیان کی۔
”اوہ بہت شکریہ میڈم… میں اسے complimentکے طور پر لیتا ہوں…”
”by the way یہ compliment ہی دیا گیا تھا… ”عماریہ نے کہا اور دونوں ایک بار پھر ہنس پڑے۔
ثروت کو عماریہ کی طرف سے اطمینان ہوگیا، وہ شرجیل کے ساتھ باقاعدگی سے ٹیوشنز پر جاتی رہی، سٹڈیز پر بھی توجہ دی۔ نتیجتاً کافی اچھے گریڈز میں پاس ہوگئی۔ اب دونوں ایک ساتھ ہی کالج میں اپلائی کرنے جارہے تھے۔ ثروت کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا وہ بس اتنا ہی چاہتی تھی کہ عماریہ سنجیدگی سے اپنا مستقبل پلان کرے۔ شرجیل کے ساتھ دن بدن گہری ہوتی دوستی اس پر کافی مثبت انداز میں اثر کررہی تھی اس لیے بھی وہ اس تعلق پر روک ٹوک سے باز رہتی تھی اور فراست نے بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں عماریہ کے لیے شرجیل کا رشتہ آفر کیا تھا۔ یہ وجہ بھی اس حد تک چھوٹ دینے کا سبب بنی یعنی ثروت کے خیال میں کچھ سالوں بعد اسے شرجیل کے ساتھ ہی زندگی کا سفر طے کرنا تھا تو بہت تھا ابھی سے انڈراسٹینڈنگ بڑھائی جائے۔ فراست نے واقعی سچ کہا تھا، شرجیل بہت بدل چکا تھا عماریہ بھی اس کے کہنے میں تھی۔ وہ اس کی بیٹی کو سنبھال سکتا تھا، بڑی محبت کے ساتھ۔ اپنی دانست میں ثروت نے عماریہ کا مستقبل محفوظ کرلیا تھا۔
آرٹس کالج میں چند سبجیکٹس کے فرق کے ساتھ وہ دونوں ایک ہی batch میں تھے۔ تیمور اور اس کی دوست لیلیٰ بھی ان کے گروپ کا حصہ بن گئے۔ عماریہ اکثر کلاسbunk کردیا کرتی اور تیمور اس کا ساتھ دیتا تھا۔ شیگی البتہ کوئی کلاس مس نہیں کرتا تھا، اس دن بھی ہال میں سر کے چلے جانے کے باوجود وہ اپنے کام میں اس قدر منہمک تھا کہ عماریہ کے نزدیک آنے کا علم نہیں ہوسکا۔ عماریہ نے گاچنی مٹی ہاتھ میں بھری اور اچانک ہی شیگی کے چہرے اور گردن پر ملنے لگتی پہلے تو شیگی ہڑبڑاگیا پھر جب صورت حال کا اندازہ ہوا تو وہ عماریہ کو مارنے لپکا۔ وہ ہنستے ہوئے بھاگ کھڑی ہوئی۔ ”تم نے بھی میرا faceخراب کیا تھانا….” شدید طیش کے عالم میں شیگی اس کے پیچھے گرائونڈ تک آیا۔ خود کو بچانے کی کوشش میں عماریہ نے رستے میں کھڑے ایک لڑکے کو آڑ بنایا۔” پلیز مجھے بچالو… یہ تو مجھے مار ڈالے گا….”، مگر اس سے پہلے کہ وہ لڑکا اس کی کوئی مدد کرتا شیگی نے اسے پکڑلیا اور اس کے چہرے پرمٹی مل دی۔ ”سٹوپڈ… میری skin خراب ہوجائے گی….” عماریہ زور سے چلائی۔ شرجیل ہنستا ہوا بھاگ گیا اومی بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔
اسے معلوم نہیں تھا وہ لڑکا حسام اگلے کئی دن اسے شیگی کے شر سے بچانے کے لیے پورے کالج میں تلاش کرتا رہا تھا۔
******





چند دن بعد وہ حسام کو پھر دکھائی دی تو وہ سیدھا اس کے پاس چلا آیا۔ مگر اس کی بات سن کر عماریہ کو غصہ آگیا۔ ”مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے… Leave me alone”، اسے ڈانٹ کر وہ وہاں سے چل دی۔ کچھ فاصلے پر کھڑے اس کے گروپ نے پوری صورت حال کا حظ اٹھایا تھا۔ انہیں سمجھ آگیا تھا کہ حسام، عماریہ میں انٹرسٹ لے رہا ہے۔ انہوں نے اسے بے وقوف بنانے کی ٹھان لی۔ تیمور نے حسام کو پاس بلایا اور پورے گروپ سے تعارف کروانے کے بعد دوستی کی پیشکش کردی۔ عماریہ اس لمحے وہاں موجود نہیں تھی۔ حسام شیگی سے ہاتھ ملاتے ہوئے تھوڑا ہچکچارہا تھا، شرجیل ہنسا، ”گھبراتے کیوں ہو یار…؟ ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں…”، اس نے خود آگے بڑھ کر حسام کا ہاتھ پکڑلیا۔ بعد ازاں اسی نے حسام کو اپنا بہترین دوست کہہ کر عماریہ سے بھی ملوادیا۔
حسام کے دوست عادل نے تنہائی میں اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ اس گروپ کی شہرت اچھی نہیں ہے۔ لیکن حسام کو عماریہ اچھی لگی تھی وہ ہرحال میں اس سے دوستی کرنا چاہتا تھا اور اس کے نزدیک رہنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
اس دن عماریہ شیگی کو ڈھونڈتی ہوئی کیفے میں آئی تو دیکھا وہ منہ لٹکائے بیٹھا ہے۔ تیمور بھی سنجیدہ تھا۔ عماریہ کو سخت حیرت ہوئی، اپنی کوک اور چپس خرید کر وہ اس کے سامنے آ بیٹھی:”کیا ہواہے؟ اتنی سڑی ہوئی شکل کیوں بنارکھی ہے تم دونوں نے….” اپنی بات کہہ کر عماریہ چپس کا پیکٹ کھولتے ہوئے کسی کرارے جواب کا انتظار کرنے لگی، جب ان دونوں کی طرف سے کچھ نہ کہا گیا تو اس نے سر اٹھاکر باری باری دونوں کی طرف دیکھا، ”کیا کوئی serious مسئلہ ہے؟”
تیمور نے اجازت طلب نظروں سے شیگی کو دیکھا جس نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا، تیمور نے عماریہ کو بتایا، ”شیگی کا بریک اپ ہوگیا ہے…”
”اوہ….” عماریہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اسے افسوس ہوا ہے مگر کامیاب نہ ہوسکی بے اختیار مسکراتی ہوئی ایک پُر مسرت اوہ، سُن کر شیگی کا موڈ مزید آف ہوگیا۔ عماریہ معافی مانگنے لگی: ”اوہ سوری سوری…. really میں خوش نہیں ہوں… مجھے بہت افسوس ہورہا ہے…” تیمور نے جل کر کہا: ”ہاں… وہ تو تمہاری شکل سے پتا چل رہا ہے کہ کتنی دکھی ہو تم…” عماریہ بھی ڈھیٹ ہوگئی،” ہاں تو اس میں اتنا غم منانے والی کون سی بات ہے… وہ تو بس ایویں سی لڑکی تھی…. ایسی خاص تو تھی نہیں…”
”پرشیگی کو اچھی لگتی تھی…” تیمور نے وضاحت دی، عماریہ نے سرجھٹک کر کوک منہ سے لگالی…. پھر کہا: ”اچھا بتائو تو…. ہوا کیا تھا….؟”
”کسی نے اسے بتادیا کہ شرجیل ڈرنک کرتا ہے…” عماریہ نے پھر بڑی مشکل سے ہنسی روکی کیوں کہ یہ حرکت اسی نے کی تھی مگر اعتراف کرنا شرجیل کی دوستی سے محروم ہونا تھا اس لیے ظاہر نہ ہونے دیا ”تو اس میں ایسی کیا بڑی بات ہے…” بُرا سا منہ بناکر اس نے یہ اعتراض مسترد کیا۔” دراصل وہ کافی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے… اس کے لیے یہ بہت بڑی بات ہے…”
”ہونہہ… اچھی مذہبی لڑکی تھی… اسے غیر مرد سے دوستی کرنے میں برائی نظر نہیں آئی تھی…”، عماریہ نے جل کر کہا۔ شرجیل نے سنجیدگی سے کہا، ”وہ محبت کرتی تھی مجھ سے…”
”یہ کیسی محبت تھی جو اس طرح تمہیں چھوڑ کر چلی گئی وہ…”
”میں اسے مورد الزام نہیں ٹھہراسکتا…”
”تو خود کو بھی ہلکان نہ کرو… بھول جائو اسے… Chill کرو شاباش….”
شرجیل نے بے چارگی سے کہا: ”اتنا آسان نہیں ہے… سب کچھ بھولنا… اور نارمل ہوجانا…” تیمور نے کہا: ”شیگی ٹھیک کہہ رہا ہے… اب تم دیکھو وہ حسام تم میں کتنا انٹرسٹ لیتا ہے… کافی سیریس ہے وہ تمہارے ساتھ… کل کلاں کو تم بھی اسے پسند کرنے لگیں اور پھر اچانک تمہارا breakup ہوگیا تو بھول سکوگی سب کچھ؟” عماریہ چپس کا پیکٹ پھینک کر مزے سے ٹانگیں پھیلائے بیٹھی…. ”ہاں! میں تو بھول جائوںگی…”
شیگی ایک دم اٹھ بیٹھا: ”تو پھر لگی شرط…” اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا۔
عماریہ نے ایک سیکنڈ نہیں لگایا اور ہاتھ ملالیا۔
اور پھر شرجیل کو جلانے کے لیے عماریہ نے حسام کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کردیا۔ بہ ظاہر وہ شرط جیتنے کے لیے یہ سب کچھ کررہی تھی پر اس کا ارادہ شیگی کے دل میں چُھپی اپنی محبت کو تلاش کرنا تھا۔ کیا وہ عماریہ کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر کچھ محسوس کرتا ہے، اگر ہاں… تو کیا وہ احساس ”محبت” ہے۔ اسی سوال کا جواب پانے کے لیے عماریہ نے حسام کے ساتھ ہر وہ کام کرنا شروع کیا جو پہلے وہ اور شیگی مل کر کیا کرتے تھے۔ کلاسزبنک کرکے وہ دونوں کالج سے باہر ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے۔ حسام اپنے دوست کی بائیک پر اسے ساحل سمندر کی سیر کرواتا۔ اس کے کہنے پر اب وہ سگریٹ بھی پینے لگا تھا۔ سیدھا سادا سا حسام اس کے دام میں پوری طرح پھنس چکا تھا اب تو عماریہ کو بھی اسے اپنے اشاروں پر نچانے میں لطف آنے لگا تھا۔




Loading

Read Previous

آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

Read Next

ایک معمولی آدمی کی محبت —- محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!