آدھا سورج —- امایہ خان

آخری بار اس نے اپنے باپ کا چہرہ کب دیکھا تھا اسے اچھی طرح یاد تھا، ان کے جانے کے بعد اتنے سالوں میں اس نے ماں کے منہ سے کبھی ان کا ذکر نہیں سنا تھا۔ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں تھی اسے ڈر تھا کہ ماں بھی ناراض ہوکر اسے چھوڑ جائے گی وہ پھر سے کسی پچھتاوے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ ویسے ہی اس کے ننھے ذہن نے باپ کی گمشدگی کا ذمہ دار خود اُسے قراردیا جب جانے سے قبل بلاک بلڈنگ کرتی عماریہ سے انہوں نے اچانک پوچھا: ”تم اپنی ماں سے پیار کرتی ہو یا مجھ سے….؟” وہ ان کا سوال سمجھ نہیں پائی تھی سر اٹھاکر پاپا کو دیکھا انہوں نے وہی سوال مختلف انداز میں دوبارہ پوچھا: ”تمہیں کون زیادہ اچھا لگتا ہے… ماما یا میں….؟”
اس کا جواب پچھلے دونوں کے واقعات کا نتیجہ تھا پرسوں ہی ثروت نے اسے نئی ڈول دلائی تھی اور کل شام وہ اسے سوئمنگ پر بھی لے کر گئی….. اومی کو نہیں معلوم تھا اس کے جواب سے مایوس ہوکر پاپا اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جائیںگے…. پتا تو اس وقت چلا جب ماں نے ایک ہفتے بعد اسے خوب بھینچ کر اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اس کا جواب دہرایا، ”تمہارے پاپا نے بتایا تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو… .Ohhh I love you too Omi” ماما اسے بار بار لپٹا کر چوم رہی تھیں اور وہ حد درجہ حیران کہ ماں آخر کس چیز کی خوشی منارہی ہے؟
آنے والے کئی دن اس نے اپنے پاپا کی راہ دیکھتے ہوئے گزارے تھے پر ماں سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی وہ ماں جو صرف یہ سمجھے بیٹھی تھی کہ بیٹی کو صرف اسی سے محبت ہے اور شاید وہی اس کی پرورش کے لیے کافی ہے۔ ماں سے کیا کہتی؟ کہ جس شخص کے جانے پر تم شادیانے بجارہی ہو میں اسے یاد کررہی ہوں۔ قصور اس کا بھی تو تھا اگر وہ پاپا کی جواب میں یہ کہہ دیتی کہ وہ دونوں سے یکساں محبت کرتی ہے تو شاید وہ اسے چھوڑ کر نہ جاتے… شاید وہ رک جاتے۔
*****





ثروت نے نہایت فخریہ انداز میں رباب کے سامنے عماریہ کے چہرے سے سجا خوبصورت سرورق رکھا تھا۔ سرورق کے علاوہ درمیانی صفحات میں بھی وہ اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہی تھی۔ رباب اس معصوم مسکراہٹ کو سراہے بغیر نہ رہ سکی، ”وائو…. بہت پیاری ہوگئی ہے عماریہ…. پر یہ ماڈلنگ کب شروع کی اس نے؟ تم نے بتایا ہی نہیں مجھے….” ثروت نے نہایت بے نیازی سے عماریہ کی تعریف سن کر ذرا سے طنزیہ انداز میں رباب کی جانب دیکھا،” تم نے خود ہی تو ملنا چھوڑدیا تھا… ڈر رہی تھیں کہیں تمہارا شوہر نہ چھین لوں تم سے… ” رباب کے چہرے کا رنگ اڑگیا، اسے ہمیشہ ثروت کاblunt ہونا کھولا دیتا تھا۔ مگر اتنے عرصے بعد ملنے پر جانے کیوں وہ اس کے سوبر ہوجانے کی امید لگائے بیٹھی تھی،ثروت اپنی بات کہہ کر اس کا ردعمل بھی دیکھ چکی تھی، دل جلانا تھا، جلادیا، فوراً ہی دلکش مسکراہٹ چہرے پر سجاکر دوستانہ انداز میں کہنے لگی: ”تم سیریس کیوں ہوگئیں میں تو مذاق کررہی تھی۔” اوررباب پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگی ثروت کے ایک اداسے میگزین اپنے ہاتھ میں لیا اور بڑے فخر سے کہا: ”آفرز تو بہت ہوئی ہیں اومی کو… پر وہseriouslyنہیں لیتی…. میرے اصرار پر ایک آفر قبول کرلی تھی…. اصل میں وہ اتنی talented ہے کہ جس پروفیشن کو چاہے اپناسکتی ہے….” رباب حیران ہوئی، ”تم Lawyer نہیں بنائوگی اسے…؟” یہ سوال ثروت کو پھر سے تکلیف دے گیا پروہ وکیل تھی اپنے تاثرات چھپانے میں کمال حاصل تھا اور بات گھمانے میں بھی مہارت رکھتی تھی، ”تم نے دیکھا عماریہ کیphotoshoot؟ اس کم عمری میں بھی اس کاconfidence کمال ہے….”، رباب نے اثبات میں سرہلایا، ”ہاں یہ تو ہے…”، ”چلو شکر ہے تم نے اپنی شکست تسلیم کرلی…”، ثروت اپنے سابقہ انداز میں گویا ہوئی تو رباب نے الجھ کر اس کی جانب دیکھا،” کیسی باتیں کررہی ہو… کون سی شکست؟” ثروت نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ”تمہیں یاد ہے اعجاز سے علیحدگی کے وقت تم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ہرگز عماریہ کی بہترین پرورش نہیں کرپائوںگی، اعجاز کے بغیر اس کی شخصیت پُراعتماد نہیں ہو گی….” ثرورت رباب کو یاد دلایا تو اسے اور بہت کچھ یاد آتا چلاگیا۔
*****
کاش گزرے وقت کو واپس لانے کی کوئی سبیل ہوسکتی کوئی منتر ہوتا جسے پڑھ کر گئے زمانے لوٹائے جاسکتے یا پرانے سامان کی طرح اسے بھی بہ وقت ضرورت گھر کے کسی کونے سے برآمد کیا جاسکتا۔ علیحدگی کے بعد اس کے ماں باپ کی زندگیاں اپنے اپنے دھارے پر رواں دواں رہیں مگر اس کی مختصر سی زندگی میں سب کچھ تہ و بالا ہوکر رہ گیا۔ جب ماما پاپا اکٹھے تھے تو وہ کتنی خوش رہا کرتی تھی اور اب؟ معلوم نہیں ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اپنی گلابی فراک میں ٹنکاربن کا آخری پھول نوچ کر پھینک دیا. اب فرل کی باری تھی اپنی چھوٹی سی انگلی سفید جھالر میں اڑس کر گول گول گھماتے ہوئے وہ پھر سے اپنی سوچوں میں الجھ گئی۔
پاپا کے جانے کے بعد اس کی تو ماں بھی اس سے یکسر بے نیاز ہوچکی تھی، صبح وہ اسکول جانے لگتی تو سوئی ہوئی ماں کے رخسار پر بوسہ دے کر جاتی، اس کے گلے نہیں لگ سکتی تھی۔ مبادا کہیں اس کی نیند نہ خراب ہوجائے اور وہ خفا ہو۔ اندھیرے کمرے میں اسے ٹھیک طرح سے ماں کا چہرہ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ آدھا ادھورا ملنا ہر روز اس امید پر کیا جاتا کہ دوپہر میں اسکول سے واپسی پر وہ ماں کی گود میں بیٹھ کر کھانا ضرور کھائے گی… ہاں ضرور!
مگر جب مسلسل تین ہفتوں تک اسے ڈائننگ ٹیبل پر اکیلے بیٹھنا پڑا تو خود بہ خود یہ امید اس کا دامن خالی کرگئی اس کی ماں پیشے کے اعتبار سے وکیل تھی اور گھر واپسی کے اوقات مقرر نہیں تھے۔ رات کو وہ ہمیشہ دیر سے آتی تھی… کس وقت؟ عماریہ کو کبھی اندازہ نہیں ہوسکا۔ گھر کی کل وقتی ملازمہ ان کی غیر موجودگی میں اس کے آس پاس رہا کرتی، بے حد چڑچڑی طبیعت کی مالک تھی۔ نام تو اس کا بیلا تھا پر عماریہ کو وہ کسی بلا سے کم ہرگز نہ دکھتی تھی۔ گھر کے کاموں میں ہمہ وقت یہاں سے وہاں چکراتی پھرتی۔ ثروت کی گھر اچانک آمد سے بہت ڈرتی تھی ہر روز صبح وہ کاموں کی ایک لمبی لسٹ گنواکر جاتی اور دن میں کسی بھی وقت آکر چیک کرسکتی تھی۔ اسے کسی معاملے میں کوتاہی برداشت نہیں تھی اسے ہمیشہ گھر صاف ستھری حالت میں چاہیے ہوتا۔ کچن کے کیبنٹ ہر ہفتے صاف کیے جائیںگے گھر کی تمام بتیاں پنکھے سوئچ بورڈ دروازے کے knobsبھی ہر دم چمکتے نظر آنے چاہئیں۔ گھر میں موجود لاتعداد کھڑکیوں کے شیشوں پر ہلکا سا دھبّا اس کی نظر سے چھپ نہیں سکتا تھا۔ کسی کونے، کسی بھی جگہ کہیں کوئی جالا یا دھول مٹی نظر آجاتی تو بیلا کی شامت یقینی تھی۔
ثروت دن میں اکثر کبھی ایک آدھ چکر گھر کا لگایا کرتی تھی۔ مگر اس کا آنا جانا ہوا کے جھونکے سے بھی تیز رفتار ہوا کرتا۔ کبھی کوئی کیس فائل کیبنٹ سے لینی ہوتی یا کسی تقریب میں جانے سے قبل گھر میں تیار ہونے کے لیے آیا کرتی۔ دونوں صورتوں میں اس کے پاس بیٹی کے ساتھ وقت گزارنے کی فرصت ہر گز نہیں ہوتی تھی۔بیلا سے وہ کئے گئے کاموں کی باقاعدہ رپورٹ لیتی تھی جو پورچ میں گاڑی پارک ہوتے ہی اس کے پاس بھاگ کر پہنچ جاتی اور کسی رٹو طوطے کی طرح ہر اس کام کے مکمل ہونے کی خبر دیتی جاتی جس کے صبح کام پر جانے سے پہلے ثروت ناشتے کے دوران تاکید کرکے جاتی تھی۔ پر بیٹی… وہ اس کی ترجیحات میں بہت نچلے درجے تک پہنچ چکی تھی وہ کوئی قیمتی سامان تو نہیں تھی جس کے ٹوٹنے یا خراب ہونے کا اندیشہ رہتا۔ یوں جب تک عماریہ کو علم ہوپاتا کہ ماں گھر آئی ہے وہ جاچکی تھی اس کے بھاگم بھاگ باہر نکلتے میں بھی کم سے کم اتنا وقت گزرجاتا کہ ثروت کی کار گیٹ سے باہر نکل رہی ہوتی تھی عماریہ ہانپتی کانپتی، ماں کو دیکھے اور اس سے ملے بغیر ہی واپس گھر کے اندر چیل آتی۔





آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ مایوس سی الٹے قدموں اسی رستے سے واپس ہوئی جہاں سے چند لمحوں پہلے اس کی ماں گزرگئی تھی۔ تیز پرفیوم کی مہک ابھی تک فضا میں اسی طرح موجود تھی۔ اس نے ایک گہری سانس اندر کھینچی تو ڈھیروں ڈھیر آنسو انکھوں میں امنڈ آئے۔
پھر وہ بہت روئی… بہت ہی زیادہ مگر کوئی بھی اسے چپ کروانے نہیں آیا۔ وہ اپنی ماں کو بہت یاد کررہی تھی جو اس کے ساتھ ہوکر بھی اس سے بے حد دور تھی… اپنے پاپا کو یاد کررہی تھی جو ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ روتے روتے چلتی ہوئی ثروت کے کمرے میں پہنچ گئی۔ پاپا کے جانے کے بعد ان کی کوئی شے اس گھر میں باقی نہ رہی تھی حتیٰ کہ کوئی تصویر بھی موجود نہیں تھی پتا نہیں وہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے تھے یا ثروت نے علیحدگی کے بعد سب کچھ پھنکوادیا تھا۔ اس نے اپنی دسترس میں آنے والی ہر دراز، الماری کا ہر خانہ چھان مارا۔ مگر نہ ہی ماما اور نہ ہی اس کے پاپا کی الماری سے کوئی تصویر مل سکی۔ جانے کیوں اس کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ اپنے پاپا کو دیکھے۔ وہ ان سے مل نہیں سکتی۔ بات نہیں کرسکتی پر ان کی تصویر تو دیکھ لے شاید اسی طرح بے چینی کچھ کم ہوجائے۔ اس کے چھوٹے سے دماغ نے ہر اس جگہ کے متعلق سوچنا شروع کیا جہاں اس کے پاپا کی تصویر موجود ہونے کا امکان ہوسکتا تھا۔ پورا گھر ان کی ہر قسم کی نشانی سے پاک کرلیا گیا تھا آخری امید ثروت کے کمرے میں کچھ ملنے کی تھی اب وہ بھی دم توڑچکی تھی۔ سوچتے سوچتے اسے اس فیملی پکچر کا خیال آیا جو پچھلی کلاس میں اسکول ٹیچر نے اس کے جرنل میں چسپاں کروائی تھی، وہاں وہ اب بھی اس کی شیلف میں رکھی ہے۔ وہ تیز قدموں سے بھاگتی ثروت کے کمرے سے باہر نکل کر اپنے کمرے میں پہنچ گئی۔ جرنل کو تلاش کرنے میں کسی قسم کی دقت پیش نہیں آئی وہ سامنے ہی رکھی ہوئی تھی اس نے بے تابی سے آگے بڑھ کر اسے شیلف سے نکال اور وہی زمین پر بیٹھ کر اس کے صفحے پلٹنے لگی۔ Family Tree کے پیچ پر بالآخر اسے وہ تصویر نظر آگئی۔ لیکن وہ کچھ خراب سی ہوگئی تھی کسی بے احتیاطی کے سبب تصویر کے چند حصوں پر پانی کے چھینٹے گرگئے تھے۔ وہ اپنی پرانی نوٹ بکس کے آخر میں بچ جانے والے صفحات پر آبی رنگوں سے تصویریں بنایا کرتی تھی۔ اس کی ڈرائنگ بے حد اچھی تھی اور اپنی دسترس میں موجود ہر صفحے کا وہ بہترین استعمال کیا کرتی۔ اس کے لیے کوئی صفحہ فالتو نہیں تھا۔ اس جنرل کا بھی ہر صفحہ مختلف رنگوں اور sceneries سے بھر چکا تھا، شاید اسی دوران وہ آخری فوٹو گراف بھی زد میں آگیا تھا۔
تصویر کہاں سے خراب ہوئی تھی عماریہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا۔ جب کہ اس نے تینوں چہروں کو نہایت غور سے دیکھا تھا بار بار اس تصویر میں ثروت اور اعجاز کے درمیان وہ چھوٹی سی گڑیا جیسی اومی ذرا مختلف نظر آئی۔
”جب میں ایسی دکھتی تھی تب ماما پاپا اکھٹے تھے اگر میں پھر ایسی بن جائوں تو پاپا ضرور واپس آجائیںگے۔” اس کے دل نے اس خیال کی پرزور تائید کی تو وہ سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑ کر دوبارہ سے اپنی ماں کے کمرے کی جانب چل پڑی۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے سیدھا باتھ روم کا رخ کیا۔ اپنی ماں کو ایک بار دیکھا تھا اس نے پر وہ کچھ مختلف طریقے سے یہ کام کرنا چاہ رہی تھی۔ بہرحال سب سامان اس کے سامنے ہی رکھا تھا۔ دراز کی ناب پر اپنا پائوں جماکر وہ سلیب کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی… اور ہیئر ریموونگ کریم کی بوتل اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑلی۔
*****
اس شام وہ حسن کے ساتھ ہی چلی آئی تھی۔ رباب نے دروازہ کھولا تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ گلے لگاتے ہوئے شکوہ بھی کرڈالا،” بہت خراب ہو تم… اتنے دن سے بلارہی ہوں اور آج شکل دکھائی ہے تم نے…”، تینوں ہنستے ہوئے لائونج میں آکر بیٹھ گئے، ثروت نے تھکے ہوئے انداز میں اپنا ہینڈ بیگ میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا:” یہ بھی تمہارے شوہر کا اصرار تھا جو آج آگئی ورنہ مجھے تو مرنے تک کی فرصت نہیں… ”رباب نے شکر گزار نظروں میں حسن کی جانب دیکھا،” پھر تو مجھے حسن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے… Thank You Hasan،” حسن نے محبت پاش نظروں سے رباب کو دیکھا، ”… you are welcome چلو اب اچھی سی چائے پلوادو… میں چینج کرکے آتا ہوں…” ”چائے تیار ہے … آپ آجائیں پھر ساتھ میں پیتے ہیں….”، رباب نے اسی محبت سے جواب دیا تو حسن مسکراتے ہوئے کمرے کی جانب چلاگیا۔ رباب ثروت کی جانب مڑی تو اسے عجیب سی نظروں سے خود کو گھورتے پایا، ”کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟” ثروت اس کے سوال پر چونک کر سیدھی ہو بیٹھی اور سنبھل کر بولی: ”کچھ نہیں… بس تم دونوں کی محبت پر رشک آرہا تھا… اس لیے دیکھ رہی تھی…”
رباب نے تاسف سے سرہلایا ”تمہاری اور اعجاز کی بھی محبت کی شادی تھی… پھر یہ سب…” ثروت نہ چاہتے ہوئے بھی اعجاز کے نام پر تلخ سی ہوئی، ”کیا یہ سب؟ کیا کہنا چاہتی ہو تم؟’ ”یہی کہ شادی کے اتنے سالوں بعد آخر ایسا کیا ہوگیا جو یوں اچانک تم نے اعجاز سے علیحدگی اختیار کرلی…؟” ثروت نے نفی میں سرہلایا۔
”کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا رباب… اور یہ فیصلہ بھی میں نے بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے…غلطی میری ہی تھی۔ اپنی اسٹڈیز درمیان میں چھوڑ کر میں نے اعجاز سے شادی کی، پاپا کی مخالفت کے باوجود… حالاں کہ وہ ان کے دوست کا بیٹا تھا پھر بھی… کیوںکہ وہ چاہتے تھے میں پہلے اپنا کیرئیر بنائوں… میں نے سوچا یہ تو میں شادی کے بعد بھی کرسکتی ہوں… ہونہہ… بے وقوفی تھی میری…”
”شادی کے بعد عورت کی اپنی مرضی کہاں رہ جاتی ہے؟ جب پتا چلا میں expect کررہی ہوں اعجاز نے کہا بے بی ہوجانے کے بعد جوائن کرلینا، عماریہ کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش کی ذمہ داری بھی میرے ہی سر ڈال دی…. اپنی پیار بھری باتوں سے وہ مجھے بے وقوف بناتا رہا اور میں بنتی رہی… وہ تو states جانے کی تیاریوں میں لگا تھا کہ پاپا کے ہارٹ اٹیک کی خبر ملی… ماما بالکل اکیلی تھی میں ان کے ساتھ ہی رہنے لگی انہوں نے مجھے عقل دی کہ سب کچھ بالائے طاق رکھ کے پہلے اپنی تعلیم مکمل کروں… بس اس دن کے بعد میں نے اعجاز کی چاکری چھوڑدی، اپنی ڈگری ملنے کے بعد اس کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پریکٹس بھی شروع کردی اور ماما کی ڈیتھ کے بعد سے پاپا کا چھوڑا بزنس بھی چلارہی ہوں…”
رباب نے ساری بات سمجھ کر اثبات میں سر ہلایا، ”تو یہ وجہ ہے تم دونوں کے اختلافات کی… حیرت ہے اعجاز کو انڈراسٹینڈ کرنا چاہیے تھا آخر وہ محبت کرتا تھا تم سے…”
”ہونہہ… مرد کی محبت بہت عجیب ہوتی ہے رباب… یہ تب تک آنچ دیتی ہے جب تک عورت اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھی رہے…. اعجاز کی محبت تب تک تھی جب تک میں اس کی مانتی رہی… جب اپنا فیصلہ خود کرنا چاہا تو بیوی سے بدکردار عورت بن گئی….” رباب حیران ہوکر سیدھی ہو بیٹھی ”یہ کیا کہہ رہی ہو؟ وہ تم پر شک کرتا تھا… مگر کیوں؟”





”بس وہ میری پریکٹس شروع ہونے کے بعد سے اسی قسم کی باتیں کررہا تھا… اسے تو میرا حسن سے بات کرنا تک ناپسند تھا، کبھی جو اس کے سامنے حسن کا فون آجاتا تو مڑنے لگ جاتا…”
ثروت اسے تمام تفصیل سناتی رہی مگر رباب… اس کا ذہن بس وہیں اٹک گیا تھا جہاں ثروت نے حسن کا نام لیا۔ حسن ثروت کو آفس کے بعد بھی کال کرتا تھا مگر کیوں؟ کیا ان کی دوستی کام کے بعد بھی رابطے میں رہنے کے باعث بڑھتی جارہی ہے۔ آج حسن ثروت کو یہاں لایا ہے تو یہ بھی ممکن ہے یہ دونوں اکثر اکھٹے کہیں باہر گھومتے پھرتے ہوں۔ رباب اپنی سوچوں میں بری طرح الجھ گئی تھی۔ ثروت نے اس کی خاموشی کو نوٹ کیا: ”کیا ہوا کہاں کھوگئیں؟” تو رباب چونکی۔ ”ہاں… نہیں میں عماریہ کے بارے میں سوچ رہی تھی… وہ تو باپ کی کمی محسوس کرے گی….” ”نہیں رباب… تم یقین کرو اعجاز نے جاتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو میری بیٹی نے صاف انکار کردیا… اس نے کہا وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے…”
رباب کو حیرانی ہوئی، ”مگر… اتنی سی بچی اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے…”
ثروت نے فخریہ انداز میں گردن اکڑائی،” اسے understimate مت کرو… وہ میری بیٹی ہے اور بہت ذہین ہے….”
”پھر بھی… وہ اعجاز سے اتنی attachedتھی…. ہوسکتا ہے کسی پریشر میں آکر اس نے یہ فیصلہ سنایا ہو مگر چند بعد جب وہ اعجاز کو miss کرے گی تب تم کیا کہوگی؟”
ثروت نے بے حسی سے کہا: ”کچھ کہنے کی ضرورت کیا ہے؟” اسی دم حسن لائونج میں داخل ہوا، ”کیا باتیں کررہی ہو بھئی…” رباب نے حسن کو گفتگو میں شامل کرنے کے لیے یا شاید اپنی تائید کے لیے ساری تفصیل سنادی، ”اب دیکھیں یہ تنہا کیسے رہے گی اور عماریہ کی پرورش کیسے ہوگی؟ حسن نے رباب کا ساتھ دیا ””ہاں ثروت رباب ٹھیک کہہ رہی ہے۔ آخر زندگی میں ہر کسی کو ایک ساتھی چاہیے ہوتا ہے… تم اکیلی کب تک رہوگی…؟” ثروت نے ازراہ مذاق کہا۔ ”تو تم ہونا… میرے best companion اور کسی کی کیا ضرورت ہے…” حسن اس کا مذاق سمجھ کر ہنس پڑا مگر رباب کی تیوریاں چڑھ گئیں، ”اور عماریہ… وہ باپ کے بغیر کیا کرے گی…؟” ثروت نے مزید کہا، ”حسن کے پاس ہوتے اسے باپ کی ضرورت نہیں ہوگی…” حسن نے باقاعدہ سرپیٹ لیا، ”برے پھنسے”، اور ثروت کھلکھلاکر ہنس پڑی مگر رباب مسکرا بھی نہیں سکی۔ ثروت کچھ دیر بیٹھ کر چلی گئی تھی۔
اس رات رباب نے حسن سے دوٹوک بات کی: ”مجھے آپ کا ثروت سے یوں گھلنا ملنا بالکل پسند نہیں ہے…”، حسن ٹھٹک گیا پھر سنبھل کر بولا: ”میں تو محض تمہاری وجہ سے اسے اہمیت دیتا ہوں کہ تمہاری دوست ہے تو…” رباب نے اس کی بات کاٹ دی، ”ہاں دوست تھی مگر اب نہیں… وہ بہت مختلف سوچ رکھتی ہے، بے انتہا مغرور اور خودپسند طبیعت ہے اس کی…؟” حسن سمجھ نہ سکا: ”تم کہنا کیا چاہتی ہو؟”
”بتا تو رہی ہوں… میں نہیں چاہتی وہ آپ سے یوں بے تکلف ہو… بس اب آپ اس کے معاملات سے دور رہیں تو اچھا ہوگا …” رباب اتنا کہہ کر چادر اوڑھ کر لیٹ گئی۔ اس کے انداز نے حسن کو اچھی طرح سمجھادیا کہ اگر اسے گھر کا سکون برقرار رکھنا ہے تو ثروت سے قطع تعلق کرنا ہوگا اور اس نے ایسا ہی کیا تھا۔ ثروت نے اس کے بدلتے رویے کی شکایت جب رباب سے کی تو اس کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر وہ بہت کچھ سمجھ گئی۔ افسوس تو ہوا مگر کچھ بھی ظاہر کیے بغیر اس نے رباب سے بھی فاصلے بڑھالیے تھے۔ لیکن آج کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو وہ جتائے بغیر رہ نہ سکی تھی۔ اس نے اپنے سب خواب پورے کرلیے تھے اور عماریہ کو بھی اپنی دانست میں باپ کے بغیر بہ خوبی پال پوس کر بڑا بھی کرلیا تھا۔ وکالت کے ساتھ اپنے والد کا بزنس بھی کامیابی سے چلارہی تھی ان کامیابیوں پر جتنا فخر کرتی کم تھا…
رباب اسے خدا حافظ کہہ کر نکلنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ثروت کا موبائل بج اٹھا، بات ختم کرکے اس نے خود ہی رباب سے اجازت لی اور اپنی کار کی طرف چل پڑی۔ یہ کام عماریہ کے کالج سے آئی تھی اسے فوراً بلایا گیا تھا۔
وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا تھا کہ اس کی پراعتماد اور ذہین بیٹی نے کس کامیابی سے اسے الو بناکر رکھا تھا، کیسے اپنےacademic reports، اور سائیکولوجسٹ کے ساتھ ہونے والے تمام سیشنز کی بھنک بھی نہیں لگنے دی تھی۔ پرنسپل کے سامنے دوسری ٹیچرز کی مضحکہ اُڑاتی نظروں کا مشکل سامنا کرنے کے بعد اسے سائیکولوجسٹ کے پاس لے جایا جارہا تھا اور وہاں جاتے ثروت کو اپنی چال میں واضح لڑکھڑاہٹ کا احساس ہوا۔ مس گلوریا کے دوستانہ رویے کے باوجود وہ خود کو سنبھال نہیں پارہی تھی۔ رہی سہی کسر ان کے پہلے سوال نے پوری کردی، ثروت نے اسی لمحے اپنے لہجے کا غرور اور ذات پر اعتماد اپنے ہاتھوں سے پیٹھ پیچھے کھینچ مارا جب انہوں نے پوچھا: ”کیا آپ کو اپنی بیٹی نارمل لگتی ہے…؟” وہ کچھ بول نہیں سکی ،بس ہکا بکا ان کے شکل دیکھے گئی۔ مس گلوریا مزید نرم لہجے میں گویا ہوئیں، ”دیکھیے آپ برا مت منائیے گا… میں دراصل یہ جاننا چاہ رہی ہوں کہ کیا آپ نے اس کیpersonality میں کسی غیر معمولی عنصر کی موجودگی کو محسوس کیا ہے…؟ یا پھر آپ قطعی بے خبر ہیں…؟ ””آپ کا مطلب اس کے شدید غصے کی وجہ معلوم کرنا ہے؟”
”یقینا مگر اس کے علاوہ بھی… اس کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا خلا موجود ہے جس پر آج تک آپ کی نظر نہیں پڑی….”
اب….. ثروت مزید کنفیوژ ہوئی، ”میں اس کا کیا جواب دوں؟”….” اس کا childhood کیسا گزرا ہے…؟ کیا عماریہ کے والد بہت سخت گیر انسان ہیں ””ہر گز نہیں…”، ثروت نے فوراً تردید کی،” وہ نہایت نرم دل انسان تھا…” ”تھا؟؟ یعنی ان کی ڈیتھ ہوچکی ہے…؟” مس گلوریا کے جیسے ایک سرا ہاتھ آیا تھا ”نہیں… ہماری علیحدگی ہوئی ہے…”
”Ohhh I see.” یعنی عماریہ کا بھی وہی مسئلہ جو ایلیٹ کلاس کے دس میں سے چھے بچوں کا تھا ”کیا وہ اپنے فادر سے بہت زیادہ اٹیچڈ تھی؟”
”جی ہاں… مگر اس نے اپنی مرضی سے انہیں چھوڑ کر میرے ساتھ رہنے کو ترجیح دی ””ہوسکتا ہے اس نے پریشر میں آکر ایسا کیا ہو…؟”
”I don’t think so ”ثروت نے مضبوط لہجے میں کہا تو مس گلوریا نے کچھ تو قف کے بعد ایک اور سوال پوچھا جس کا جواب دینے میں وہ خاصی متامل ہوئی، انہوں نے پوچھا: ”کیا عماریہ نے ان کے جانے کے بعد کوئی ایسی عجیب و غریب حرکت کی جس نے آپ کو پریشان کردیا؟”
*****





شام چار بجے ثروت اپنے کولیگ وقار کا سہارا لے کر گھر میں داخل ہوئی، آج آفس میں اچانک اس کی طبیعت بگڑگئی تھی۔ انتہائی اہم کیس کو ڈسکس کرتے ہوئے اس کا بی پی شوٹ کرگیا تھا، وقار اسے ایمرجنسی میں چیک اپنے کرانے کے بعد گھر چھوڑنے آیا تھا۔
باوجود اس کی یقین دہانی کے کہ اب وہ بہتر محسوس کررہی ہے، وقار اسے سہارا دیئے ڈرائنگ روم میں صوفے تک لے کر آیا اور کشن اچھی طرح سیٹ کرکے اسے آرام سے بیٹھنے میں مدد دی۔ بیلاعجیب۔ معنی خیز نظروں سے ان کی پشت گھورتی پیچھے پیچھے چلی آئی تھی۔ اب جب مالکن کو ہی کسی مدد کا سہارا لینے میں عار نہ تھا تو خواہ مخواہ وہ مدد کی پیشکش کیوں کرتی۔ ثروت اس کی نظروں سے بے خبر صوفے سے ٹیک لگاتے ہی آنکھیں بند کرچکی تھی۔ یہ نیند تو بہرحال نہیں تھی، بس سے گھر میں آکر سکون مل رہا تھا۔
وقار نے مدھم آواز میں بیلا کو مخاطب کیا: ”ان کا خیال رکھنا، ساتھ ساتھ رہنا، تاکہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو انہیں آواز نہ دینی پڑے…” اس نے کہتے کہتے آرام سے لیٹی ثروت کی طرف دیکھا جواب پوری طرح آنکھیں کھول کر مسکرارہی تھی؟” بہت فکر کرتے ہو میری…؟” وقار کو سمجھ نہیں آیا… وہ کیا جواب دے؟ ثروت سیدھی ہوکر بیٹھ گئی اور بیلا کو چائے کے ساتھ کچھ لوازمات لانے کا حکم صادر کرکے کچن کی جانب بھیج دیا، وقار اس کے اصرار پر بیٹھ تو گیا، مگر وہ مسلسل جانے کی ضد کرتا رہا۔
”ثروت ابھی تم آرام کرو.. چائے کا تکلف کرنے کی بالکل ضرورت نہیں… میں کسی اور دن چکر لگالوںگا”، مگر اس نے ایک نہ سنی، ” بالکل نہیں… اب آئے ہو تو چائے پلائے بغیر ہر گز نہیں جانے دوںگی…” بیلا چائنا کیبنٹ سے کچھ برتن نکالنے اسی وقت ڈائننگ روم میں داخل ہوئی تھی، مسلسل چور نظروں سے دونوں کو دیکھتی ہوئی کیبنٹ کی طرف قدم بڑھاتی رہی۔ وقار ثروت کے ماننے پر مجبور تھا۔
”ہونہہ… اتنے پیار سے شوہر کو کبھی نہ روکا…. وہ بے چارہ گھر چھوڑ کر چلاگیا…. بیگم صاحبہ نے پرواہ ہی نہیں کی۔ اتنی محبت سے انہیں بلایا ہوتا تو کم از کم بچی باپ کے سائے میں بڑی ہوتی… اپنا گھر خود ہی برباد کیا اور کوئی نہیں ہائے ہائے بس… قیامت کی نشانیاں ہیں۔” بیلا دل ہی دل میں توبہ استغفار کرتی چائے کے برتن نکالنے لگی۔ کھٹرپٹرسُن کر ثروت نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بیلا سے کہا: ”بے بی کہاں ہے؟” ”اوپر اپنے کمرے میں ہے بیگم صاحبہ…. بلائوں؟”
”نہیں ٹھیک ہے… وہیں رہنے دو… ابھی میرا سر دکھ رہا ہے۔”
”میں کہہ رہا ہوں… تم اپنے بیڈروم میں جاکر آرام کرو… چائے پھر کسی دن ساتھ پی لیںگے…” وقار پھر سے اُٹھ کھڑا ہوا تو ناچار ثروت نے بھی اثبات میں سرہلادیا۔ وہ خدا حافظ کہہ کر فوراً ہی بیرونی دروازے کی جانب چل پڑا! ”ماما!…یہ دیکھیں…” اومی کی جوش بھری آواز پر بہ یک وقت تینوں نے اپنی جگہ ٹھٹک کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا جہاں سے دھپ دھپ کرتی بھاگتے ہوئے عماریہ نیچے اتررہی تھی۔ اسے نزدیک آتے دیکھ کر ثروت کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، بیلا کے ہاتھ سے چائے کے کپ چھوٹ کر فرش پر گرتے ہی چکنا چور ہوگئے۔ وقار بھی اپنا جگہ دم بہ خود کھڑا تھا، اومی کسی کے رد عمل کو خاطر میں لاتی اپنی ماں کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی، ”دیکھیں ماما، اب میں بالکل پکچر والی اومی بن گئی ہوں…. اب تو پاپا واپس آجائیںگے نا؟” اومی نے کیا کہا، کیا پوچھا، ثروت کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا، وہ تو لق دق اپنی آٹھ سال کی بیٹی کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے سے بھنویں غائب ہوچکی تھیں۔
*****
ایک ٹھنڈی آہ بھر کر ثروت نے جیسے اعتراف کیا: ”ہاں اس نے ایک ایسی حرکت کی تھی….” ثروت نے پورا واقعہ ان کے گوش گزار کردیا جس کی وجہ وہ آج تک سمجھ نہیں پائی تھی، مس گلوریا نے طویل سانس بھر کر اپنا قلم ڈائری پر رکھتے ہوئے نہایت عجیب لہجے میں کہا: ”آپ کو اسی وقت سائیکا ٹیرسٹ کے پاس جانا چاہیے تھا… افسوس آپ نے اس طرف توجہ نہ دی…” اور ثروت کو آج احساس ہورہا تھا کہ وہ حرکت جو عماریہ نے دس سال پہلے اس کی بے وقوفی کیا بچپنا نہیں تھی وہ کیا تھا؟ اب اس راز کا سرا ہاتھ آنا ممکن نہیں… ”کیا آپ میری کوئی مدد کرسکتی ہیں؟” میں سنجیدگی سے عماریہ کا علاج کروانا چاہتی ہوں…؟” ثروت کو فی الحال مس گلوریا کے علاوہ کوئی مسیحا نظر نہیں آرہا تھا۔




Loading

Read Previous

آدھا آدھا ملے تو ہوئے پوری دنیا —- نظیر فاطمہ

Read Next

ایک معمولی آدمی کی محبت —- محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!