آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی جیکٹ لاؤنج میں صوفے پر پھینکتے ہوئے سیدھا کچن میں گیا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کچن میں جائے یا اس کے بیڈروم میں آنے کا انتظار کرے۔ اپنی چادر اتارتے ہوئے وہ کچھ دیر اپارٹمنٹ کے بیرونی دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی۔ اس کا ذہن اب ماؤف ہونے لگا تھا۔ وہ اتنے مہینوں سے ایک ’’عاشق‘‘ اور ’’دوست‘‘ کے ساتھ رہ رہی تھی اور آج پہلی بار ایک ’’شوہر‘‘ کا سامنا کررہی تھی۔
کوریڈور میں کھڑے کھڑے اس نے اپنے سینڈ لز اتارے۔ تب ہی اس نے سالار کو کچن ایریا سے پانی کا گلاس لے جاتے اور پھر ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے دیکھا۔ اب اس کی پشت امامہ کی طرف تھی۔ پانی کا گلاس خالی کرکے ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اب اپنے گلے سے ٹائی اتار رہا تھا۔ وہ چند لمحے کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ آئی۔ کرسی کھینچ کر وہ بیٹھی ہی تھی کہ وہ کرسی دھکیلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
’’سالار! میری بات تو سنو!‘‘
’’ابھی کچھ اور رہ گیا ہے جو تم نے مجھے بتانا ہے؟‘‘
اس نے سالار کی آنکھوں میں اپنے لئے کبھی تحقیر نہیں دیکھی تھی، لیکن آج دیکھ رہی تھی۔
’’مجھے وضاحت کا موقع تو دو۔‘‘
’’وضاحت…؟ کس چیز کی وضاحت…؟ تم مجھے یہ بتانا چاہتی ہو کہ تم نے اپنے ایکس بوائے فرینڈ کے لئے اپنے شوہر کو دھوکہ دینا کیوں ضروری سمجھا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
’’یا تم مجھے یہ بتاؤگی کہ تمہارے ایک بوائے فرینڈ کی وہ کون سی خوبی ہے، جو تمہیں اپنے شوہر میں نظر نہیں آئی؟‘‘ وہ اپنے لہجے سے اسے کاٹ رہا تھا۔
’’اس سے بہتر یہ ہے کہ تم مجھے صرف یہ بتادو کہ تم کب سے اس سے مل رہی ہو؟‘‘
’’میں اتفاقاً اس سے ملی تھی… صرف ایک بار۔‘‘
اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔ سالار نے ڈائنگ ٹیبل پر پوری قوت سے ہاتھ مارا تھا۔
“Stop befooling me, woman!”
وہ پوری قوت سے چلایا تھا۔ امامہ کی آواز بند ہوگئی۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے یوٹوپیا ختم ہورہا تھا۔
’’تم سمجھتی ہو میں اب تم پر اعتبار کروں گا… تم نے میری نظروں میں آج اپنی عزت ختم کرلی ہے۔
“You are nothing but a bloody cheater.”
وہ کہتے ہوئے وہاں رکا نہیں تھا۔ بیڈروم میں جانے کے بجائے وہ اسٹڈی روم میں چلا گیا تھا۔
امامہ نے مٹھیاں بھینچ کر جیسے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے الفاظ اس کے کانوں میں بار بار گونج رہے تھے۔ وہ بے حد تکلیف دہ تھے، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اس کی کاٹ دار نظریں تھیں۔





بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی سالار نے بنالی تھی، لیکن بات اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی جتنی اس نے سمجھی تھی۔ وہ اس کے اور جلال کے ماضی کے تعلق سے واقف نہ ہوتا تو کبھی بھی کسی کلاس فیلو کے ساتھ کھانا کھانے پر وہ اتنا ہنگامہ کھڑا نہ کرتا، وہ کنزرویٹو نہیں تھا۔
اسے خود ہی جلال سے ملاقات کے بارے میں بتادینا چاہیے تھا۔ وہاں بیٹھے، بہتے آنسوؤں کے ساتھ اب وہ خود کو ملامت کررہی تھی۔
وہ اٹھ کر بیڈروم میں آگئی۔ سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ ماؤف ذہن اور حواس کے ساتھ صرف سالار کے الفاظ ذہن سے نکالنے کی کوشش کررہی تھی۔ سوال یہ نہیں تھا کہ وہ اسے غلط سمجھ رہا تھا، سوال یہ تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا وہ بھی اسے اسی طرح ناقابل اعتبار سمجھتا ہے، جس طرح وہ اسے سمجھتی ہے۔
وہ ساری رات جاگتی رہی۔ سالار بیڈ روم میں نہیں آیا تھا۔ اسے یقین تھا، صبح تک اس کا غصہ ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گا اور وہ اس سے دوبارہ بات کرنا چاہتی تھی۔
وہ فجر کے وقت کمرے میں آیا تھا۔ اس پر ایک نظر ڈالے بغیر وہ کپڑے تبدیل کرکے نماز پڑھنے کے لئے چلا گیا تھا۔
اس کی واپسی ہمیشہ کی طرح جم اور جاگنگ کے بعد آفس جانے سے کچھ دیر پہلے ہوئی تھی۔ اس نے امامہ کو تب بھی مخاطب نہیں کیا تھا۔ امامہ کے نکالے ہوئے کپڑوں کے بجائے، وہ اپنے نکالے ہوئے کپڑے لے کر واش روم میں گیا تھا۔
وہ کچھ دلبرداشتہ ہوکر کچن میں ناشتا تیار کرنے لگی۔ سالار تیار ہوکر لاؤنج میں آیا، لیکن ناشتے کی ٹیبل پرجانے کے بجائے وہ اسٹڈی روم میں چلا گیا۔ اسے پتا تھا کہ وہ اپنا لیپ ٹاپ لینے وہاں گیا تھا لیکن یہ وہ ناشتا کرنے کے بعد کیا کرتا تھا، آج پہلے لینے کا مطلب تھا کہ…
’’سالار ناشتا لگادیا ہے میں نے۔‘‘ اس کے اسٹڈی روم سے نکلنے پر امامہ نے اسے کہا تھا۔
’’اس کے لئے تم جلال کو بلالو۔‘‘ اس نے بات نہیں کی تھی، اسے کوڑا مارا تھا۔ وہ سفید پڑگئی۔ وہ ایک لمحہ کے بغیر اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر نکل گیا۔ اسے احساس نہیں ہوا کہ وہ کتنی دیر وہیں ڈائننگ ٹیبل کے قریب کھڑی رہی۔ اس کے لفظ کسی خاردار تار کی طرح اس کے وجود کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھے۔
وہ سارا دن کچھ نہیں کھا سکی تھی۔ اس نے دوبارہ سالار کو کال کی، لیکن اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ اسے یہی توقع تھی۔ اس نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اسے معافی مانگی۔ اس نے ٹیکسٹ میسج کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
وہ روزانہ سات یا آٹھ بجے کے قریب گھر آجاتا تھا۔ اگر کبھی اسے دیر سے آنا ہوتا تو وہ اسے مطلع کردیا کرتا تھا، لیکن اس دن وہ رات کو تقریباً دس بجے کے قریب گھر آیا تھا۔
’’آج بہت دیر ہوگئی؟‘‘ امامہ نے دروازہ کھولنے پر پوچھا۔ سالار نے جواب نہیں دیا۔
وہ کھڑی صرف اسے دیکھتی رہ گئی۔ لاؤنج میں ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی آن کرتے ہوئے وہ بیڈ روم میں چلا گیا۔ یہ جیسے اشارہ تھا کہ وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے کے لئے وہاں آئے گا۔ امامہ کو یقین تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا، لیکن بوجھل دل کے ساتھ اس نے کھانا لگانا شروع کردیا تھا۔
وہ دس پندرہ منٹ کے بعد کپڑے تبدیل کرکے لاؤنج میں آگیا تھا۔ فریج سے ایک انرجی ڈرنک نکال کر وہ لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ کر چینل سرفنگ کرنے لگا۔
’’کھانا تیار ہے!‘‘ امامہ نے اسے انفارم کیا۔ وہ ٹی وی دیکھتا رہا۔
’’تم کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟‘‘ وہ آگے بڑھی۔ اس نے ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اسے کہا۔
’’یہ میرا گھر ہے، یہاں موجود ہر چیز میری ہے، اور کھانا کھانا یا نہ کھانا میرا مسئلہ ہے تمہارا نہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں بے رخی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’میں نے تمہارے انتظار میں ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔‘‘ اس نے کبھی اس شخص کے سامنے اپنا ایسا لہجہ رکھنے کا سوچا تک نہیں تھا۔ وہ ’’محبت‘‘ نہیں بلکہ ’’رشتہ‘‘ تھا جو اس کو کمزور کررہا تھا۔
“Stop this bullshit.”وہ چینل تبدیل کرتے ہوئے عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔
’’میں تمہارے ہاتھوں بے وقوف ضرور بن گیا ہوں، لیکن بے وقوف ہوں نہیں۔‘‘
’’سالار! تم جو سمجھ رہے ہو، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کے سامنے کے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
’’بالکل ٹھیک کہا تم نے جو میں تمہیں سمجھ رہا تھا، وہ واقعی غلط تھا۔‘‘
امامہ کے حلق میں پھر گرہیں پڑنے لگی تھیں۔
’’تم میری بات کیوں نہیں سن لیتے…؟‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’امامہ، آج میرے سامنے رونا مت، تم مجھے استعمال کررہی ہو، ایکسپلائٹ کررہی ہو۔ کرو، لیکن ایموشنلی بلیک میل مت کرو مجھے۔‘‘
وہ اس کی آنکھوں میں نمودار ہوتے آنسوؤں کو دیکھ بری طرح مشتعل ہوا تھا۔
’’ٹھیک ہے، تم بات نہیں سننا چاہتے، مت سنو لیکن معاف کردو مجھے… میں تم سے ایکس کیوز کرتی ہوں۔ میری غلطی تھی، مجھے اس سے نہیں ملنا چاہیے تھا۔‘‘ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ دنیا کا سب سے مشکل کام اپنے ناکردہ گناہ کے لئے معذرت کرنا تھا، اسے اب احساس ہورہا تھا۔
’’اس طرح ملنے کے بجائے، تمہیں اس سے شادی کرلینی چاہیے۔‘‘ اس نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔
’’سالار! وہ شادی شدہ ہے۔‘‘ وہ بات مکمل نہیں کرسکی، اس کے آنسو بہنے لگے تھے اور اس کے بات ادھورا چھوڑنے پر وہ سلگا تھا۔
’’بہت دکھ ہے تمہیں اس کے شادی شدہ ہونے کا؟ تو کہو اسے، تم سے سیکنڈ میرج کرلے یا بیوی کو طلاق دے، لیکن اسے ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے تم تو ویسے ہی اسے available ہو۔‘‘
وہ سانس نہیں لے سکی، کم از کم اسے اس کی زبان سے یہ سننے کی توقع نہیں تھی۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا۔
’’تم جو مطلب نکالنا چاہتی ہو ، نکال لو۔‘‘ اس نے سامنے پڑی ٹیبل پر انرجی ڈرنک کا کین اور ریموٹ کنٹرول دونوں رکھتے ہوئے کہا۔
’’میرے کریکٹر پر بات کررہے ہو تم؟‘‘ اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔
’’کریکٹر ہے تمہارا؟‘‘ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔
’’کریکٹر تھا تو شادی کی تھی تم نے۔‘‘ اسے اپنی بھرائی ہوئی آواز سے خود جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی۔
’’شادی نہیں، غلطی کی تھی… And I regret it۔‘‘ وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔ خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا تھا۔ پھر اس نے اپنے حلق میں پھنسا آنسوؤں کا گولہ نگلتے ہوئے کہا۔
’’میری فیملی ہوتی نا تو میں تم سے اس طرح کی ایک بات بھی نہ سنتی، لیکن اب اور کچھ مت کہنا، ورنہ میں تمہارا گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔‘‘
سالار نے جواب میں ٹیبل پر پڑا اپنا سیل اٹھایا۔اس نے فرقان کو کال کی۔
’’تمہارا ڈرائیور سو تو نہیں گیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔
’’تمہیں ضورت ہے؟‘‘




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!