آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

’’تمہاری انگلی کا سائز لے کر بنائی گئی ہے کیوں کہ تمہاری ایک رنگ لے کر گیا تھا میں۔‘‘
اس نے اس ہاتھ کو چومتے ہوئے کہا جس میں وہ رنگ تھی۔ اس رنگ نے اس کے ہاتھ کو سجا دیا تھا۔ وہ جس ہاتھ میں بھی ہوتی، دیکھنے والے پر ایسا ہی تاثر چھورتی۔
’’یہ ویڈنگ گفٹ ہے تمہارے لئے۔‘‘ سالار نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔ اس نے کچھ حیران ہوکر سالار کو دیکھا۔
’’ویڈنگ گفٹ…؟ چار ماہ ہوگئے ہیں شادی کو۔‘‘
’’ہاں! میں نے تمہیں ویڈنگ گفٹ نہیں دیا تھا۔ پہلے یاد نہیں تھا، بعد میں پیسے نہیں تھے۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
’’اور اب کہاں سے آئے پیسے؟‘‘
’’آگئے کہیں سے۔‘‘ اس نے ٹالا۔ امامہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔
’’کوئی غلط کام نہیں کیا میں نے…‘‘ وہ بے ختیار شرمندہ ہوئی۔
’’میں نے کب کہا کہ…‘‘
’’چلو ڈاکٹر صاحب کے ہاں چلتے ہیں اور سعیدہ اماں سے بھی مل کر آتے ہیں۔ میرے بیگ میں کچھ گفٹس ہیں ان کے لئے، وہ نکال لو۔‘‘ سالار نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی تھی۔
’’تھینک یو سالار!‘‘ وہ جاتے جاتے ٹھٹکا۔
’’کس لئے؟‘‘
’’ہر چیز کے لئے۔‘‘
’’یہ سب تمہارا ہی ہے۔ ‘‘ امامہ نے نظریں چرائیں۔
’’میں نے سوچا تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم نے مجھے شادی پر کوئی گفٹ نہیں دیا۔‘‘ اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے وہ خوشی سے سرشار ہورہی تھی۔ وہ واحد گلہ تھا جو وہ اپنے دل میں سالار کے لئے رکھے ہوئے تھی۔
’’نہیں بھولا نہیں تھا…‘‘
امامہ کو لگا کہ وہ کچھ اور کہنا چاہتا ہے۔ سالار نے بات ادھوری چھوڑی تھی یا بدلی تھی، یہ وہ سمجھ نہیں سکی۔
٭…٭…٭





’’مائی گاڈ… ! دیکھو۔‘‘ وہ اک وے پر چلتے چلتے بے اختیار ٹھٹکی تھی۔
سالار نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ وہ دونوں ریس کورس میں لگنے والے ایک میلے کو دیکھنے آئے تھے۔ اب بے مقصد میلے کی جگہ سے کچھ دور چہل قدمی میں مصروف تھے، جب امامہ اس واک وے کے داہنی طرف درختوں کے اطراف، پانی میں ڈوبی ہوئی گھاس میں نظر آنے والے عکس کو دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی۔ وہ پچھلی رات کی بارش کا پانی تھا جو ابھی پوری طرح ڈرین آؤٹ نہیں ہوسکا تھا۔ دیو قیامت درختوں کے تنوں اور شاخوں پر لگے رنگین برقی قمقموں اور ٹیوب لائٹس کا عکس نیچے جمع شدہ پانی میں پڑ رہا تھا۔
اس عکس کو دیکھتے ہوئے وہ بھی کچھ دیر کے لئے اسی طرح سحر زدہ سا ہوکر رہ گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی رنگ و نور سے بھری کسی وادی کے کنارے کھڑے، اس میں چمکتے ہوئے رنگین ہیرے جواہرات کے درخت دیکھ رہے ہون یا الف لیلیٰ کا کوئی منظر دیکھ رہے ہوں۔ ہوا کے جھونکوں سے پانی میں بہت ہلکا سا ارتعاش پیدا ہورہا تھا اور ان روشنیوں اور درختوں کا عکس منعکس ہوکر جیسے محور قص تھا۔ طلسم ہوش ربا جیسے پانی کی لہروں پر ڈول رہی تھی۔
’’یوں لگ رہا ہے جیسے جنت میں رات ہوگئی ہے۔‘‘
طویل خاموشی کے بعداس نے امامہ کی آواز سنی۔ اس نے گردن مور کر اسے دیکھا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر ابھی تک اس پانی کو دیکھ رہی تھی جس کی روشنیوں کا عکس اس کے چہرے پر پڑرہا تھا۔
’’ایسی ہوتی ہوگی جنت؟‘‘ سالار نے اسے کہتے سنا۔
وہ کچھ کہنے کے بجائے، دوبارہ اس پانی کو دیکھنے لگا۔ اس وسیع و عریض پارک کی روشنیوں سے بقعہ نور بنے ہوئے حصے میں گھومتے لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہوپارہا ہوگا کہ وہاں سے بہت دور، ایک نیم تاریک روش پر کھڑے دو لوگ، پانی میں نظر آنے والے ایک عکس میں جنت ڈھونڈ رہے تھے۔
’’جنت میں ستارے ہوں گے؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی۔
’’ہاں! بہت سارے ہوں گے۔‘‘ اس نے اندازہ لگایا۔
’’اتنے رنگوں کے؟‘‘ اس نے ان روشنیوں کے رنگ گنے۔
’’کائنات میں موجود ہر رنگ۔‘‘ وہ بے اختیار محظوظ ہوکر ہنسی اسے جواب پسند آیا تھا۔
’’رات ایسے ہی منور ہوتی ہوگی؟‘‘ عکس پر نظریں جمائے وہ جیسے بے خود ہورہے تھے۔
’’اس سے زیادہ روشن، اس سے زیادہ منور۔‘‘ سالار نے بے اختیار کہا۔ وہجھکی اور اس نے اپنی انگلیوں سے عکس کو چھونے کی کوشش کی۔ سالار نے بروقت اسے کھینچا۔
’’درختوں پر لائٹس آن ہیں، پانی میں کرنٹ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ وہ ناراض ہوا تھا۔
’’میں اسے چھونا چاہتی تھی۔‘‘
’’یہ عکس جنت نہیں ہے۔‘‘
’’جنت میں اور کیا ہوگا؟‘‘
’’تم؟‘‘ اس نے گردن موڑکر اسے دیکھا وہ عکس کو دیکھ رہا تھا۔
’’صرف میں اور تم نہیں ہوں گے؟‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ اس نے گردن موڑ کر بے حد عجیب مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔
’’تو پھر تم کیسے جانتے ہو کہ میں وہاں ہوں گی؟‘‘ اس نے اسے تنگ کیا۔
’’جنت کے علاوہ کہیں اور رکھا جاسکتا ہے تمہیں؟‘‘ اس نے جواباً سوال کیا۔ اس کے لہجے میں رشک تھا، وہ ہنس پڑی۔
’’اتنی آسانی سے مل جاتی ہے جنت؟‘‘ اس نے جیسے سالار کو جتایا۔
’’مجھے آسانی سے نہیں ملے گی، تمہیں آسانی سے مل جائے گی۔‘‘ اس کا لہجہ پھر عجیب سا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’تم جتنی آسانی سے ہر چیز میں ’’جنت‘‘ ڈھونڈ لیتی ہو، میں آج تک نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس لئے کہہ رہا ہوں۔‘‘ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔
دو دن پہلے وہ گھر کے لئے لیمپ خریدنے گئے تھے۔ انہوں نے بیڈ روم کے لئے لیمپس کا ایک سیٹ خریدا اور وہ رات کو ناول پڑھتے پڑھتے لیمپ شیڈ کو دیکھنے لگی۔ وہ ای میل چیک کرنے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ بند کرنے لگا تو اس نے امامہ کو دیکھا۔ وہ اب بھی اسی طرح لیمپ شیڈ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو تم؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’بیوٹی فل۔‘‘ اس نے جواباً بے ساختہ اسی طرح لیمپ شیڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
سالار نے قدرے حیرانی سے اپنے سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ شیڈ کو دیکھا۔
’’ہاں! اچھا ہے؟‘‘ اس نے سرسری انداز میں کہا۔ وہ خوبصورت لیمپس تھے لیکن اتنے بھی نہیں تھے کہ وہ ان پر یوں نظریں گاڑ کر بیٹھ جاتا۔
’’یہ کون سے پھول ہیں؟‘‘ وہ ابھی بھی لیمپ شیڈ پرنظریںجمائے کہہ رہی تھی۔
’’پھول؟‘‘ سالارنے حیرانی سے لیمپ شیڈ کو دوبارہ دیکھا۔اس نے پہلی بار اس پرپل کلر کے شیڈ پر بنے پیٹرن کو دیکھا۔ اس شیڈ کا ٹیکسچر کچھ عجیب تھا۔ کاغذ نما اس کپڑے پرسنہری مائل پیلے پھولوں کا ایک بے حد مہین اور نفیس پیٹرن تھا جو صرف لیمپ کے آن ہونے پر نظر آرہا تھا۔ ان پھولوں میں کہیں کہیں کرمزن کلر کی کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر آتی، مدھم پڑتی، پھر چند لمحوں کے بعد وہی چیز چمکتی۔
’’نہ یہ گلاب ہیں اور نہ ہی ٹیولپ ہیں، تھوڑا سا بلو بیل سے ملتا جلتا ہے لیکن وہ بھی نہیں۔‘‘ وہ جیسے پھولوں کو پہچاننے کی کوشش کررہی تھی، پھر جیسے اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔
’’ایسے پھول جنت میںہوں گے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’اچھا۔‘‘
’’دیکھو یہ پھول رنگ بدل رہے ہیں… لیکن یہ رنگ نہیں بدل رہے بلکہ یہ کھل رہے ہیں۔‘‘ وہ لیمپ شیڈ پر بنے پھولوں پر اب انگلی پھیر رہی تھی۔ سالار جیسے کسی سحر میں آیا تھا۔ وہ پھول واقعی بار بار کھلتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
’’Lovely۔‘‘ وہ سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ انہیں اب سمجھ آیا تھا کہ وہ لیمپ اتنے مہنگے کیوں تھے۔ دن کی روشنی میں سیلزمین کبھی انہیں وہ پیٹرن نہیں دکھا سکتا تھا۔ شاید اس لئے اس نے انہیں صرف ڈیزائن اور روشنی ہی کے حوالے سے بتایا تھا۔
اور ایک ہفتہ پہلے اس کے دراز صاف کرتے ہوئے، سالار کی ویسٹ پیپر باسکٹ میں سے وہ ایک پوسٹ کارڈ اس کے پاس لے کر آئی۔
’’ہاں! اسے پھینک دیا ہے میں نے… بے کار ہے۔‘‘ اس نے ٹی وی دیکھتے ہوئے امامہ کے ہاتھ میں وہ پوسٹ کارڈ دیکھ کر کہا تھا۔ وہ اس کارڈ کو لئے اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’سالار! یہ دیکھو کتنی خوبصورت جھیل ہے اور دیکھو کتنا سکون ہے اس جگہ پر۔‘‘ سالار نے اس کے ہاتھ سے پوسٹ کارڈ لے کر اس پر ایک نظر دوڑائی۔ وہ کسی پینٹنگ کا پوسٹ کارڈ تھا۔ کسی پینٹر کا بنایا ہوا لینڈ اسکیپ، ایک بہت چھوٹی سی کم گہرے کنارے والی جھیل، جس کے کنارے جنگلی پھولوں سے بھرے ہوئے تھے اور ان پھولوں کا عکس جھیل کے پانی میں نظر آرہا تھا۔ کچھ پھول ٹوٹ کر پانی کی سطح پر تیر رہے تھے۔ جھیل کے کنارے ایک چھوٹی سی لکڑی کی کشتی تھی، جس میں صرف ایک چپوپڑا تھا اور وہ کشتی صرف دو افراد کے لئے تھی۔ جھیل کی سطح پر کچھ آبی پرندے تیرتے نظر آرہے تھے۔
’’یہ صندل کی لکڑی سے بنی ہوئی ہے۔ اس کشتی کا رنگ دیکھو، یہ صندل کا رنگ ہے۔‘‘
وہ پوسٹ کارڈ پر انگلی پھیرتے ہوئے اسے بتانے لگی تھی۔
’’ایسا لگتا ہے جیسے صبح سویرے کوئی اس کشتی میں بیٹھ کر کہیں جاتا ہو… ایک مہکتی ، خوشبو دار بھیگی ہوئی کشتی میں… اور ہوا چل رہی ہو… اور جھیل میں اس کشتی میں بیٹھے خوشبو دار ہوا کے جھونکے… ذرا تصور کرو۔‘‘ اس نے بے ختیار گہرا سانس لیا، یوں جیسے اپنی قلمی تصویر سے خود محظوظ ہوئی ہو۔
’’کتنی screnity ہے اس سین میں… ایسے جیسے یہ جنت ہو… میں نہ بتاتی تو تم اسے پھینک رہے تھے۔‘‘ وہ بے اختیار اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ وہ واقعی ا س کی زندگی میں نہ آتی تو وہ جنت کو…
’’اس کی پکچر بنا لو سیل فون کے ساتھ۔‘‘ امامہ کی آواز نے یک دم اسے چونکا دیا۔ وہ اب بھی اسی عکس کو دیکھنے میں مصروف تھی۔ سالار نے سیل فون نکال کر چند تصویریں کھینچیں اور سیل اسے تھمادیا۔ اس نے باری باری ان تصویروں کو دیکھا اور پھر مطمئن ہوگئی ۔
’’چلیں؟‘‘ سالار نے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ ان دونوں نے ایک آخری نظر اس عکس پر ڈالی اور پھر آگے چل پڑے۔
سالار نے چلتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’خاموش کیوں ہوگئے…؟ کوئی بات کرو۔‘‘ امامہ نے چند قدم چلنے کے بعد اس سے کہا۔
’’تم کرو، میں سن رہا ہوں۔‘‘
’’ہوسکتا ہے تمہیں مجھ سے پہلے جنت مل جائے۔‘‘ امامہ نے اپنے جملے کا مفہو م سمجھے بغیر اسے تسلی دی۔ وہ ہنس پڑا تھا۔
’’چاہتا تو میں بھی یہی ہوں۔‘‘وہ مدھم آواز میں بڑبڑایا۔
’’تم سے پہلے مرنا چاہتا ہوں میں۔‘‘ اسے چلتے ہوئے ٹھوکر لگی۔ کوئی چیز جیسے اس کے جسم سے ایک لمحہ کے لئے اسے تھراتی ہوئی گزری تھی۔ وہ جو جنت ڈھونڈتی پھر رہی تھی، اس سے پہلے جو ’’شے‘‘ سامنے کھڑی تھی، وہ اسے بھول گئی تھی۔ ان کا ساتھ سالوں کا ساتھاور ان کا ساتھ مہینوں کا تھا۔ اس نے سالوں میں کبھی جدائی محسوس نہیں کی تھی، لیکن وہ ان ہفتوں کا ساتھ ختم ہونے کا سوچ کر بھی لرز گئی تھی۔
’’تم کیوں کہہ رہے ہو اس طرح؟‘‘ وہ رک گئی اور اس نے سالار سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔
’’تم نے ہی تو کہا تھا کہ شاید مجھے تم سے پہلے جنت مل جائے۔‘‘
’’لیکن میں نے مرنے کا نہیں کہا۔‘‘
’’کیا اس کے بغیر مل سکتی ہے؟‘‘ وہ بول نہیں سکی۔ نیم تاریکی میں اس روش پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے، وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے۔ پھر سالار نے اس کی آنکھوں میں پانی امڈ تے دیکھا تھا۔
’’ٹھیک ہے، جو مرضی کہو۔‘‘ اس کی آواز میں خفگی تھی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!