آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

سالار نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے جیسے معذرت خواہانہ انداز میں دبایا۔
’’میں نے صرف تمہاری بات دہرائی تھی۔‘‘
’’اور میرا وہ مطلب نہیں تھا، جو تم نے نکالا ہے۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ وہ دونوں پھر چلنے لگے۔
’’کیا تم جنت میںمجھے اپنا پارٹنر منتخب کروگی؟‘‘
چند قدم چلنے کے بعد اس نے سالار کو نرم آواز میں کہتے سنا۔ وہ بول نہیں سکی۔ وہ ہنس پڑا۔
’’یعنی نہیں۔‘‘
’’میں نے یہ کب کہا؟‘‘ وہ رک گئی۔
’’لیکن تم نے کچھ بھی کب کہا؟‘‘
’’میں سوچ رہی تھی۔‘‘
’’سوچ لیا؟ پھر اب بتاؤ۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔
’’تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘
’’جنت کی بات تم نے شروع کی تھی۔‘‘ اس نے سالار کا چہرہ دیکھا۔
’’شاید۔‘‘ وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
’’تمہیں یقین نہیں ہے؟‘‘ اس نے ہنس کر اس سے پوچھا۔
’’یقین کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔‘‘
’’اگر تم جنت میں پہنچ گئے تو پھر تمہیں ہی چننا پڑے گا۔‘‘ اس نے مذاق کیا۔
’’اور اگر کوئی اور بھی پہنچ گیا تو؟‘‘ اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔
دونوں کے درمیان خاموشی کا لمبا وقفہ آیا تھا۔ اس ’’اور‘‘ کا تعارف نہ امامہ نے مانگا تھا، نہ سالار نے کروایا تھا مگر اس ’’اور‘‘ نے اس کو سالار سے نظریں چرانے پر مجبور کیا تھا۔ وہ نظریں نہ چراتی تو اتنی تکلیف نہ ہوتی سالار کو، جتنی اب ہوئی تھی۔ وہ اسے کہہ نہیں سکی، بات اس کے انتخاب پر کبھی نہیں رہی تھی، بات جلال کے انتخاب پر تھی۔ اس کا انتخاب جنت میں بھی شاید وہ کبھی نہ ہوتی، لیکن یہ اعتراف کرنے میں کوڑے کھانے جیسی ذلت تھی۔ چپ بہتر تھی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس کی چپ سالار کو اس وقت کوڑے کی طرح لگی تھی۔
اس روش سے روشنیوں تک کا باقی فاصلہ خاموشی میں طے ہوا تھا۔
٭…٭…٭





سکندر عثمان کو چند لمحوں تک اپنی سماعت پریقین نہیں آیا تھا۔
’’آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، وہ پلاٹ تو بک ہی نہیں سکتا۔ سالار کے نام ہے وہ…‘‘
انہوں نے احتشام الدین سے کہا۔ وہ ان کے ایک کاروباری دوست تھے اور چند منٹ پہلے انہوں نے سکندر عثمان کو فون کرکے ایک پلاٹ کی فروخت کے بارے میں شکایت کی تھی۔ ان کے کسی دوست نے ان ہی کے وکیل کے ذریعے ایک ایسا پلاٹ کچھ دن پہلے خریدا تھا جو سکندر عثمان کا تھا، اور جس کو ایک ڈیڑھ سال پہلے احتشام الدین نے خریدنے کی آفر کی تھی، لیکن سکندر نے تب انہیں یہ بتایا تھا کہ وہ پلاٹ جائیداد کی تقسیم کے دوران سالار کے نام کرچکے تھے۔ البتہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کبھی اس پلاٹ کو فروخت کرنے کی ضرورت پڑی تو وہ احتشام الدین کو ترجیح دیں گے۔
’’میرے وکیل کے ذریعے سارا پیپر ورک ہوا ہے۔ آپ کہیں تو آپ کو نیوز پیپر میں پلاٹ کی منتقلی کا ایڈ بھی بھجوادیتا ہوں۔ آپ کے بیٹے نے یہ پلاٹ ڈیڑھ کروڑ میں بیچا ہے… مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ میرے وکیل نے منتقلی کے بعد بتایا مجھے، وہ بھی اتفاقاً۔ کچھ دیر پہلے بتادیتا تو میں کبھی یہ پلاٹ کسی اور کو خریدنے نہ دیتا۔‘‘
چند لمحوں کے لئے سکندر عثمان کا سرگھوم کر رہ گیا۔ پچھلے سال انہوں نے اپنی جائیداد کی تقسیم کردی تھی۔ یہ ان کا وہ پلاٹس میں سے ایک تھا جو سالار کے حصے میں آیا تھا۔
’’میں ابھی سالار سے بات کرکے دوبارہ آپ سے بات کرتا ہوں۔‘‘ سکندر عثمان نے یک دم کہا۔
انہیں ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ان کو بتائے بغیر پلاٹ بیچ سکتا ہے۔
سالار اس دن اسلام آباد میں تھا اور اس وقت اپنے کسی کام سے مارکیٹ کی طرف جارہا تھا جب اسے سکندر کی کال ملی۔
’’سالار تم نے اپنا پلاٹ بیچ دیا ہے؟‘‘
وہ اس وقت ایک سگنل پر رکا تھا اور اس کے ہیلو کہتے ہی سکندر نے دوسری طرف سے کہا۔
چند لمحے سالار کچھ بول نہیں سکا۔ پلاٹ کی فروخت کا سکندر کو اتنی جلدی پتا چل جائے گا، اسے اندازہ نہیں تھا۔ اس کی چند لمحوں کی خاموشی نے سکندر کے بدترین خدشات کی تصدیق کردی تھی۔
’’تم میرے آفس آؤ۔‘‘ انہوں نے بے حد سرد مہدی سے کہہ کر فون بند کردیا۔
’’کب بیچا تھا پلاٹ؟‘‘ اس کے آفس پہنچ کر کرسی پر بیٹھتے ہی سکندر نے اس سے کہا۔ ان کا لہجہ قطعی خوشگوار نہیں تھا۔ وہ اس کی جائیداد تھی لیکن وہ بیچنے کے لئے نہیں دی گئی تھی۔
’’پچھلے مہینے۔‘‘ اس نے لہجہ ہموار رکھنے کی کوشش کی۔
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔‘‘
’’کس لئے؟‘‘ سالار اس بار جواب دیتے ہوئے جھجکا۔
’’کس لئے رقم کی ضرورت تھی؟‘‘
’’مجھے امامہ کو ایک رنگ خرید کر دینی تھی۔‘‘ سکندر کو لگا کہ انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
’’کیا؟‘‘
’’امامہ کے لئے ایک رنگ خریدنی تھی۔‘‘ اسی نارمل انداز میں اس نے اپنا جواب دہرایا تھا۔
’’لاکھ دو لاکھ کی رنگ کے لئے تم نے پلاٹ بیچ دیا؟‘‘
سکندر نے اس کے جواب سے بالکل غلط نتیجہ نکالا۔
’’اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے، بینک سے پرسنل لون لے لیتے یا مجھ سے کہتے۔‘‘
’’میں لون لے کر اسے گفٹ نہیں کرنا چاہتا تھا اور ایک دو لاکھ کی انگوٹھی نہیں تھی، کچھ زیادہ مہنگی تھی، آپ اتنے پیسے کبھی نہ دیتے مجھے۔‘‘ وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔
’’کتنی مہنگی ہوتی، چار یا پانچ لاکھ کی ہوتی… چلو دس لاکھ کی ہوتی… دے دیتا میں تمہیں۔‘‘
سکندر بے حد خفا تھے۔ وہ پلاٹ پونے دو کروڑ کا تھا جسے وہ ڈیڑھ کروڑ میں بیچ آیا تھا۔
’’دس لاکھ کی بات نہیں تھی۔‘‘ سکندر نے اسے کہتے سنا۔
’’پھر؟‘‘ سکندر کے ماتھے پر بل آئے۔ سالار نے اپنا گلا صاف کیا۔
’’13.7‘‘ یہ واحد طریقہ تھا جس سے وہ اس انگوٹھی کی قیمت تین ہندسوں میں کر پایا تھا۔
’’کیا…؟‘‘ سکندر کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔
’’13.7‘‘ سالار نے ایک بار پھر گلا صاف کرکے اگلا لفظ کہا۔ سکندر کو چند لمحے سانس نہیں آیا۔ انہیں پہلی بار اس کی بات سمجھ میں آئی تھی۔
’’13.7 ملین کی رنگ دی ہے تم نے اسے؟‘‘ ان کا ذہن جیسے بھک سے اڑ گیا تھا۔ سالار سرجھکائے ٹیبل پر پڑے پیپر ویٹ پر انگلیاں پھیر رہا تھا۔ فی الحال وہ اس کمرے میں کچھ اور نہیں کرسکتا تھا۔
’’سالار ایک کروڑ سینتیس لاکھ روپے کی رنگ خرید کر دی ہے تم نے اسے؟‘‘
سکندرعثمان کو خود بھی سمجھ نہیں آیا کہ انہوں نے اس سے دوبارہ یہ کیوں پوچھا تھا۔
’’جی…‘‘ اس بار سالار نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
سکندر بے یقینی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔ سالار نے نظریں چرالیں، وہ اب ان کے عقب میں دیوار پر لگی پینٹنگ دیکھ رہا تھا، اس کے علاوہ وہ اور کیا کرتا؟ اس کے چہرے پر نظریں جمائے سکندر نے ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹک لگالی۔ وہ اگر اسے اُلو کا پٹھا کہتے تھے تو ٹھیک ہی کہتے تھے۔
’’کہاں سے لی تھی رنگ؟‘‘ بالآخر انہوں نے لمبی خاموشی کو توڑا۔
’’Tiffany سے‘‘ انہیں ایسے ہی کسی نام کی توقع تھی۔
’’ڈیزائن کرایا ہوگا؟‘‘ اس مالیت کی انگوٹھی نادر ہی ہوسکتی تھی۔
’’جی، Jewellery statement۔‘‘
اس نے Tiffany کی سب سے مہنگی رینج میں آنے والی جیولری کی کولیکشن کا نام لیا، وہ زندگی میں ہمیشہ قیمتی چیزیں خریدنے اور استعمال کرنے کا عادی تھا۔ سکندر یہ جانتے تھے، لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ انہیں اس کی اس عادت پر اعتراض ہوا تھا۔
’’نہیں تو کوئی اس سے زیادہ مہنگی رنگ نہیں تھی؟ ابھی دوسرا پلاٹ پڑا تھا، چار ہیرے اور لگوادیتے اس میں۔‘‘
سکندر نے ٹیبل پر پڑے سگار کیس سے ایک سگار نکالتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔ سالار کے دائیں گال میں ڈمپل پڑا۔ اس نے یقینا اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔ سکندر کا خیال تھا، یہ مسکراہٹ شرمندگی کی تھی۔ ان کے پاؤں تلے سے یقینا زمین کھسک جاتی اگر انہیں یہ پتا چلتا کہ اس نے پہلے دونوں پلاٹس بیچ کر اسے ایک نیکلس دینے کا سوچ رکھا تھا، لیکن پھر یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اسے ایک انگوٹھی دینے کا خیال آیا جو امامہ مستقل طور پر پہن سکتی تھی۔
سگار سلگائے، ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگائے وہ اب بھی اسی پر نظریں جمائے ہوئے تھے اور خود پر مسلسل جمی ان کی نظروں نے سالار کو گڑبڑانا شروع کردیا تھا۔
’’میں کتابوں میں جب رانجھا، فرہاد ، رومیو اور مجنوں وغیرہ کے بارے میں پڑھتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ یہ ساری لفاظی ہے، کوئی مرد اتنا اُلو کا پٹھا نہیں ہوسکتا لیکن تم نے یہ ثابت کیا ہے مجھ پر کہ ہوسکتا ہے، کسی بھی زمانے میں کوئی بھی مرد کسی بھی عورت کے لئے عقل سے پیدل ہوسکتا ہے۔‘‘ سالار نے اس بے عزتی کو سرجھکائے شہد کے گھونٹ کی طرح پیا۔ اس کی اتنی بے عزتی کرنا تو سکندر کا حق تھا۔
’’لیکن ان میں سے کسی کے باپ نے انہیں Yale میں پڑھانے کے بعد یہ سب کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا، اور ان میں سے ہر ایک محبوبہ کے لئے پاگل تھا۔ بیوی کے لئے تو صرف ایک شاہ جہاں نے پیسے لٹائے تھے، وہ بھی اس کے مرنے کے بعد۔ تمہیں کیا ہوگیا تھا؟‘‘ سکندر نے جیسے اسے شرم دلائی تھی۔
’’میں نے دراصل امامہ کو ابھی تک شادی کا کوئی گفٹ نہیں دیا تھا۔‘‘ اس کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔
سکندر زندگی میں پہلی بار اس کی ڈھٹائی سے متاثر ہوئے تھے۔ انسان اگر ڈھیٹ ہوتو پھر اتنا ڈھیٹ ہو۔
’’تو اپنے پیسوں سے اسے گفٹ دیتے۔‘‘ انہوں نے طنزیہ کہا تھا۔
’’وہ بھی دے دیئے ہیں اسے۔‘‘ اس نے طنز کا جواب سنجیدگی سے دے کر انہیں حیران کردیا۔
وہ اس ’’بادشاہ ‘‘ کی شکل دیکھ کر رہ گئے جو اپنی بیوی پر اپنی سلطنت لٹانے پر تلا ہوا تھا۔
اپنا سگار ایش ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ ٹیبل پر کچھ آگے جھکے اور انہوں نے جیسے ایک ہمراز کی طرح اس سے کہا۔ ’’سالار! ایسا بھی کیا ہے امامہ میں، کہ تم عقل سے پیدل ہوگئے ہو؟‘‘
یہ طنز نہیں تھا، وہ واقعی جاننا چاہتے تھے۔
سالار نے چند لمحوں کے لئے سوچا پھر بے حد سادہ لہجے میں کہا۔
’’بس، وہ اچھی لگتی ہے مجھے۔‘‘
وہ اس وقت سکندر کو تیس سال کا مرد نہیں بلکہ تین سال کا ایک معصوم سا بچہ لگا تھا۔ جس کے لئے دنیا کی مہنگی ترین چیز کے حصول کی خواہش کی وجہ سے صرف اس کا ’’اچھا‘‘ لگنا تھا۔ اس اچھے لگنے میں سوپرلیٹو، کمپیریٹویا یا پازیٹو کوئی ڈگری نہیں ہوتی۔
ایک طویل سانس لیتے ہوئے وہ سیدھے ہوگئے۔ ’’اسے پتا ہے رنگ کی پرائس کا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
سکندر کچھ اور حیران ہوئے۔ تو یہاں اپنی محبوبہ کو متاثر اور مرعوب کرنے کا کوئی جذبہ بھی کار فرما نہیں تھا۔
’’آپ بھی ممی یا کسی دوسرے سے بات نہ کریں۔ میں نہیں چاہتا امامہ کو پتا چلے۔‘‘
وہ اب ان سے کہہ رہا تھا۔ سکندر جواب دینے کے بجائے دوبارہ سگار کا کش لینے لگے۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!