آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

کیا شرمندگی سی شرمندگی تھی جو اس نے یہ اعتراف کرتے ہوئے محسوس کی تھی۔ سالار کو لگا اسے سننے میں کچھ غلطی ہوئی تھی۔
’’کس کو مس کیا؟‘‘
’’تمہیں۔‘‘ اس نے سرجھکا کر روتے ہوئے کہا۔ وہ چند لمحوں کے لئے ساکت ہوگیا۔
’’مجھے کس لئے؟‘‘ یہ بے یقینی کی انتہا تھی۔
وہ روتے روتے ٹھٹکی۔ اس نے سراٹھا کر اسے دیکھا ، پھر بے حد خفگی کے عالم میں ٹیبل سے اپنی ڈنر پلیٹ اٹھاتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئی۔
’’میرا دماغ خراب ہوگیاتھا اس لئے۔‘‘ وہ کچھ بول نہیں سکا۔
شادی کے تقریباً چار ماہ میں اس نے پہلی بار یہ جملہ اس سے کہا تھا، ورنہ وہ آئی لو یو کے جواب میں بھی تھینک یو کہنے کی عادی تھی۔
وہ اب برتن اٹھا اٹھا کر اندر لے جارہی تھی اور سالار بالکل ہونق سا پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے، اسے اپنے سامنے سے برتن ہٹاتے دیکھ رہاتھا۔ وہ اس کے رونے سے کبھی اتنا حواس باختہ نہیں ہوا تھا، جتنا اس کے اس معمولی سے اعتراف سے ہوگیاتھا۔
وہ شاکڈ نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ دو چار ہفتے پہلے بڑے دھڑلے سے اسے کہہ رہی تھی کہ… اور پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے ، بت کی طرح کرسی پر بیٹھے، کوئی اس کے سامنے جیسے کسی معمہ کے ٹکڑے ترتیب دینے لگا تھا۔ وہ چار ہفتے باہر رہ کر اسکے جس رویے کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام ہوگیا تھا، وہ اب سمجھ میں آرہا تھا۔ یہ ناقابل یقین تھا کم از کم اس کے لئے کہ امامہ اسے…
اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ کچن میں اِدھر سے اُدھر جاتے ہوئے، اسی طرح آنکھیں رگڑتے ہوئے چیزیں سمیٹ رہی تھی۔
وہ گلاس ٹیبل پر رکھ کر کچن میں آگیا، وہ فریج سے سویٹ ڈش نکال رہی تھی ۔ سالار نے اس کے ہاتھ سے ڈونگا پکڑ کر کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ کچھ کہے بغیر اس نے اسے گلے لگایا تھا۔بڑی نرمی سے یوں جیسے تلافی کررہا ہو، معذرت کررہا ہو۔ وہ خفگی سے الگ ہونا چاہتی تھی، اس کا ہاتھ جھٹکنا چاہتی تھی لیکن بے بس تھی۔ فی الحال دنیا میں وہ واحد شخص تھا جو اسے اس طرح گلے لگا تا تھا۔ برسات پھر ہونے لگی تھی۔ وہ اس کی عادتیں خراب کررہاتھا کسی پیرا سائٹ کی طرح اسے اپنا محتاج کررہا تھا۔
وہاں کھڑے دونوں کے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا تھا، کوئی معذرت ، کوئی اظہار محبت، کچھ نہیں۔ زندگی کے اس کھیل میں لفظ فالتو تھے، جس میں وہ لیڈ کررہے تھے۔
برسات تھمنے لگی تھی۔ وہ ہاتھ سے گال اور آنکھیں خشک کرتی اس سے الگ ہوگئی۔
’’دراصل میں گھر میں اکیلی تھی اس لئے مس کرتی رہی۔‘‘
انکار، اقرار، اعتراف، پھر انکار… یہ مشرقی عورت کی زندگی کا دائرہ تھا، وہ بھی اسی دائرے میں گھومنے لگی تھی۔ جھوٹ کی ضرورت پھر آن پڑی تھی۔ اپنے گرد کھڑی دیوار کے شگاف کو اس نے پھر سے بھرنا شروع کردیا۔
’’ہاں، اکیلے ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ سالار نے اس جھوٹ کو سچ بنانے میں اس کی مدد کی۔ امامہ کا حوصلہ بڑھا۔
’’دانت میں درد تھا تو… تو… اس لئے مجھے رونا آگیا۔‘‘ وہ اٹکی پھر اس نے کہا۔
’’ہاں، مجھے اندازہ ہے دانت کا درد بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ہو اتھا مجھے… میںجانتا ہوں کیا حالت ہوتی ہے۔‘‘ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے، وہ نظریں ملائے بغیر جھوٹ بول رہے تھے۔





’’آ…آ…‘‘ وہ اٹکی، اب تیسرا جھوٹ ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ جو سوال آرہا تھا، اس نے وہی پوچھا۔ ’’تم نے مجھے مس نہیں کیا؟‘‘ وہ پھر گلی کے اسی موڑ پر آکر کھڑے ہوگئے تھے۔
’’ہر دن، ہر گھنٹہ، ہر منٹ، ہر سکینڈ۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا اور امامہ کی آنکھوں میں جیسے ستارے جھلملانے لگے تھے۔ بعض دفعہ ہم کوئی فلاسفی، کوئی حقیقت نہیں سننا چاہتے، بس وہی روایتی باتیں سننا چاہتے ہیں جنہیں فلم کے پردے اور کتاب کے صفحے پر ہم ہزاروں بار پڑھتے ہوئے ہنستے ہیں، وہ بھی روایتی باتیں کررہا تھا، وہی جملے جو اس وقت اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔
’’چار ہفتے تمہارے ساتھ نہیں تھا۔ اگر تمہارا خیال نہ آتا تو میں مرجاتا۔‘‘
’’تم جھوٹے ہو۔‘‘ وہ بھرائی آواز میں روتے ہوئے ہنسی تھی۔
’’تم بھی۔‘‘ سالار نے بے ساختہ جتایا۔
وہ روتے ہوئے ہنس رہی تھی یا ہنستے ہوئے رو رہی تھی، لیکن چار ماہ میں پہلی بار، سالار کے لئے وہ برسات قابل اعتراض نہیں تھی۔ اتنے عرصے میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ ’’برسات‘‘ اسے کبھی بھی ڈبو سکتی ہے۔
٭…٭…٭
وہ اس رات بیڈ پر اس سے چند انچ دور، کروٹ کے بل لیٹے، کہنی تکیے پر ٹکائے اس سے باتیں کرتی رہی تھی۔ ایک مہینے کے دوران اکٹھی ہوجانے والی ساری باتیں۔ بے مقصد، بے معنی چیزوں اور واقعات کی تفصیلات، کس کی کال آئی، کس سے اس کی کیا بات ہوئی، ملازمہ نے اس سے کیا کہا، ٹی وی پر چلنے والے کسی پروگرام میں اس نے کیا دیکھا، کون سے میگزین میں اس نے کیا پڑھا۔ ٹیرسپر رکھے کتنے پودوں پر نئے پھول نکلے ہیں، فرقان اورنوشین کے بچے کتنی بار اس کے گھر آئے، وہ نوشین کے ساتھ کتنی بار بازار گئی، کیا خریدا، کیا پسند نہیں آیا۔
اسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ صرف وہ بول رہی تھی۔ سالار بالکل خاموش چت لیٹا اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے، اسے سن رہا تھا۔ ایک ہاتھ پر سر ٹکائے، وہ دوسرے ہاتھ سے غیر محسوس انداز میں اس کے بازو پر انگلی سے چھوٹے بڑے دائرے بناتے ہوئے اس سے باتیں کرتی رہی۔ وہ ’’خاموش سامع‘‘ پلکیں جھپکائے بغیر صرف اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں کے تاثرات، اس کے چہرے پر جھلکنے والے رنگ، اس کے ہونٹوں کی حرکت، بات کرتے ہوئے اس کی ہنسی کی کھلکھلاہٹ، اس کے چہرے پر کھلنے والے رنگ، وہ جیسے سینما کی فرنٹ رو میں بیٹھا ہوا ایک سحر زدہ ناظر تھا۔کہنی کے بل دراز، جب وہ تھک جاتی تو پھر اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہتی۔ ’’اچھا چلو، اب سوجاتے ہیں۔‘‘
یہ جملہ وہ شاید پچیس دفعہ کہہ چکی تھی
اس کے کندھے پر سر رکھے اسے پھر کچھ یاد آتا تو وہ یک دم سراٹھا کر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھتی۔ ’’میں نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ…؟‘‘
سالار نفی میں سرہلا دیتا، گفتگو پھر دوبارہ وہیں سے شروع ہوجاتی۔ خاموش سامع پھر ’’وہی‘‘ فلم دیکھنے لگتا۔
’’یہ کون سی اذان ہورہی ہے؟‘‘ وہ بات کرتے کرتے چونکی۔
دور کہیں اس نے اذانوں کی آوازیں سنی تھیں۔
’’فجر کی۔‘‘ سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔ وہ بری طرح گڑبڑائی۔
’’اوہ مائی گاڈ! فجر ہوگئی… اور میں… تمہیں تو سونا چاہیے تھا، تو تھکے ہوئے تھے۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ تم مجھ سے کہہ دیتے۔‘‘ وہ اب بری طرح نادم ہورہی تھی۔ ’’مجھ سے کہنا چاہیے تھا تمہیں۔ کیوں نہیں کہا تم نے؟‘‘
’’ کیا کہتا؟‘‘ وہ اب پرسکون تھا۔
’’یہی کہ تم سونا چاہتے ہو۔‘‘
’’لیکن میں تو سونا نہیں چاہتا تھا۔‘‘
’’لیکن مجھے تو وقت کا پتا نہیں چلا، کم از کم تمہیں بتانا چاہیے تھا مجھے۔‘‘ واہ واقعی شرمندہ ہورہی تھی۔
’’تمہارا خیال ہے، مجھے وقت کا احساس تھا؟‘‘
’’تم سوجاؤ اب اور آئی ایم سوری… کتنی فضول باتیں کیں میں نے، تم بھی کیا سوچ رہے ہوگے؟‘‘ اسے اب احساس ہوا تھا کہ وہ کتنی دیر سے اکیلی ہی بول رہی تھی۔ وہ ہوں ہاں تک نہیں کررہا تھا۔
’’میں تو نماز پڑھ کر سوؤں گا اب اور میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ آج تم نے مجھ سے اتنی باتیں کیسے کرلیں۔‘‘
’’تم نے تو غور سے سنی بھی نہیں ہوں گی میری باتیں۔‘‘ وہ کچھ شرمندگی سے مسکرائی۔
’’ایک ایک بات سنی ہے۔ چاہو تو شروع سے دہرادیتا ہوں۔ آج تک تم نے جب جب، جو جو کہا ہے، مجھے یاد ہے… ہمیشہ یاد رکھوں گا۔‘‘
اس کا لہجہ ہموار تھا لیکن آنکھوں میں کوئی تاثر تھا جس نے چند لمحوں کے لئے امامہ کو باندھا تھا۔
’’اسی طرح باتیں کروگی تو ہر رات جاگ سکتا ہوں تمہارے لئے۔‘‘ امامہ نے نظریں چرالیں۔
بعض دفعہ اس سے نظریں ملانا، اس کی باتوں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا تھا اور بعض دفعہ اس زندگی کے بارے میں بھی کچھ کہنا مشکل ہوجاتا تھا جو وہ اس کے ساتھ گزار رہی تھی۔
اس سے کچھ دور ہٹتے ہوئے اس نے تکیے پر سر رکھ دیا۔ وہ اب سیدھی لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی۔
سائیڈ ٹیبل پر پڑے سیل فون کے یک دم بجتے الارم کو بند کرتے ہوئے سالار نے اس کی طرف کروٹ لی۔ کہنی کے بل نیم دراز اس نے امامہ سے کہا۔
’’کچھ اور بتانا ہے تم نے؟‘‘ امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ سنجیدہ تھا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا۔
’’آئی لو یو۔‘‘ جواباً سالار کے جملے نے چند لمحوں کے لئے اسے ساکت کیا۔ وہ اس کے پاس تھا، اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جیسے جواباً اس سے کچھ سننے کی خواہش رکھتا ہو۔ امامہ نے کبھی اس کی آنکھوں کو اتنی آسانی سے نہیں پڑھا تھا… شاید وہ اتنے قریب تھا اس لئے… وہ جیسے اپنی آنکھوں سے اسے ہپناٹائز کئے ہوئے تھا۔
’’تھینک یو…‘‘
وہ بے اختیار ہنسا۔ ایک گہرا سانس لے کر، ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کرتے ہوئے،اس نے جیسے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ بعض خواہشیں کوشش سے پوری نہیں ہوتیں اور بعض سوالوں کا کوئی جواب نہیں مل پاتا۔
وہاں اس کے اتنے قریب کوئی اور عورت ہوتی تو اسے ’’اظہار محبت‘‘ ہی ملتا۔ یہ امامہ ہاشم تھی، اس کا ’’اظہار تشکر‘‘ ہی کافی تھا۔ اس پر جھکتے ہوئے اس نے بہت نرمی سے اس کے ہونٹ چھوئے، پھر اس کا ماتھا، پھر وہ بیڈ سے اٹھ گیا۔
٭…٭…٭
’’یہ میں تمہارے لئے لایا تھا۔‘‘ وہ دس بجے کے قریب اس کے ساتھ ناشتا کرنے کے بعد ٹیبل صاف کررہی تھی، جب وہ بیڈ روم سے ایک خوبصورت پیکنگ میں ایک باکس لے کر اس کے پاس آیا تھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ ٹیبل صاف کرتے کرتے رک گئی۔
’’دیکھ لو۔‘‘ سالار نے باکس اس کی طرف بڑھایا۔
’’جیولری ہے؟‘‘ اس کو … لیبل اور باکس کے ڈیزائن سے کچھ اندازہ ہوگیا تھا۔ سالار جواب دینے کے بجائے کندھے اچکا کر خاموش رہا۔ امامہ نے بڑے تجسس اور احتیاط سے اس باکس کی بے حد نفیس اور خوبصورت پیکنگ کو ہٹا کر باکس کو کھول لیا۔ سرخ مخمل جیسے ایک بے حد مہین اور چمک دار کپڑے کی تہوں کے درمیان ایک کرسٹل رنگ کیس تھا اور اس کیس سے نظر آنے والی رنگ نے کچھ دیر کے لئے اسے ساکت کردیا تھا۔ اسکوائیر ڈائمنڈز کے بینڈ کے ساتھ وہ ایک پلاٹینم ٹیولپ ڈائمنڈ رنگ تھی۔ چودہ قیراط کے اس ڈائمنڈ کے گرد ننھے ننھے نیلم کے گول گول نگینوں کا ایک دائرہ تھا۔ بہت دیر… میسمر ائزڈ اس رنگ پر نظریں جمائے، اس نے بے اختیار گہرا سانس لے کر اپنا پہلا ردِ عمل دیا۔ یہ صرف ڈائمنڈ ہی نہیں تھے جو اس کی نظروں کو خیرہ کررہے تھے، بلکہ وہ پیچیدہ ڈیزائن بھی جس میں وہ سارے جیولز جڑے تھے۔
’’یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ اس نے بہ مشکل کہا۔ سالار نے ہاتھ بڑھا کر کرسٹل کا کیس کھول کر رنگ کو نکال لیا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے وہ رنگ اس کی انگلی میں پہنادی۔
’’ہاں، یہ اب خوبصورت لگ رہی ہے۔‘‘
رنگ پہنانے کے بعد اس نے اس کے ہاتھ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کہا۔
’’اور دیکھو! یہ بالکل میری انگلی کے سائز کے مطابق ہے۔‘‘ وہ جیسے کچھ اور ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!