آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

’’باقی تیرہ لاکھ کا کیاکیا؟‘‘
وہ اب کچھ اور ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔
’’سات لاکھ تو امامہ کو حق مہر کا دیا… وہ ڈیو تھا۔‘‘ اس نے انہیں حق مہر کی اصل رقم بتائے بغیر کہا۔
’’اور باقی چھے لاکھ میں نے کچھ خیراتی اداروں میں دے دیا، کیوں کہ امامہ کی رنگ پر اتنے پیسے خرچ کئے تھے تو میں نے سوچا کچھ خیرات بھی کرنا چاہیے۔‘‘
سکندر عثمان کا غصہ دھویں کے مرغولوں میں تحلیل ہورہا تھا، غصے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اسے فیاضی کہتے، بے وقوفی کہتے یا فضول خرچی لیکن سامنے بیٹھی ہوئی اپنی اس اولاد کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ ذرا کچھ وسیع ہوا تھا۔ وہ اس کے کوڈ آف لائف کو نہ کبھی سمجھے تھے، نہ کبھی بدل سکے تھے، لیکن اختلاف رکھنے کے باوجود، کہیں نہ کہیں وہ احترام کا احساس بھی رکھتے تھے اس کے لئے۔
سالار نے باپ کے ہونٹوں پر ایک مشفقانہ، لیکن بے حد معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوتے دیکھی۔
’’اور حق مہر صرف سات لاکھ تو نہیں ہوگا… ہے نا سالار؟ تو وہ کتنے ملین دیا گیا ہے؟‘‘
انہوں نے بے حد پچکار ہوئی آواز میں اس سے کہا۔
سالار بے اختیار ہنسا۔ سکندر عثمان اس کے سیدھے جملوں میں چھپے پھندوں کو ڈھونڈنے میں ماہر تھے۔
’’جانے دیں پاپا۔‘‘ اس نے ٹالا تھا۔
’’یعنی millions میں ہے؟‘‘ ان کا اندازہ ٹھیک تھا۔
’’اب میں جاؤں؟‘‘ سالار نے جواب دینے کے بجائے کہا۔ سکندر نے سرہلادیا۔
وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر ان کی طرف آیا اور اس نے جھکتے ہوئے کرسی پر بیٹھے سکندر کو ساتھ لگایا، پھر وہ سیدھا ہوگیا۔
’’سالار، جو دوسرا پلاٹ ہے، اس کے پیپرز مجھے لاہور پہنچ کر بھجوادینا۔‘‘
سکندر نے بڑے معمول کے لہجے میں اسے جاتے دیکھ کر اس سے کہا تھا۔
’’پاپا! ٹرسٹ می۔‘‘ سالار نے کہا۔
’’شٹ اَپ۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ وہ ہنس پڑ اتھا۔
وہ سگار پیتے ہوئے اس کے جانے کے بعد بھی اسی کے بارے میں سوچتے رہے۔
٭…٭…٭





’’Oh Tiffany Statement.‘‘ وہ اس رات ایک ڈنر پر تھے، جب اس کی رنگ مسز زیوئیرز نے نوٹس کی تھی۔
وہ بزنس کلاس کا ایک بڑا نام تھیں اور خود اپنے لباس اور جیولری کے لئے بھی بے حد شہرت رکھتی تھیں۔ ان کا کسی چیز کو نوٹس کرنا خاص اہمیت رکھتا تھا۔
’’مائی ویڈنگ رنگ۔‘‘ امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے اس رنگ کو بے حد مرعوب انداز میں دیکھ رہی تھیں اور ان کا یہ انداز، اس ٹیبل پر بیٹھی تمام خواتین میں اس رنگ کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا کررہا تھا۔
“The most beautiful and expensive peice of jewellery under this roof tonight.”
(آج رات اس چھت کے نیچے یہ سب سے خوبصورت اور سب سے مہنگی جیولری ہے۔)
مسز زیوئیرز نے جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
“Lucky women, your husband’s taste in class apart.”
(لکی وومین! تمہارے شوہر کا ذوق بہت اعلیٰ ہے۔)
امامہ ان ستائشی جملوں پر قدرے فخریہ انداز میں مسکرائی۔ وہ رنگ جب سے اس کے ہاتھ کی زینت بنی تھی، اسی طرح نوٹس ہورہی ہے۔
’’کیا قیمت ہوگی؟‘‘ بائیں جانب بیٹھی مسز زبیر نے بھی اس کی رنگ کا ستائشی انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے نہیں پتا… شاید چار یا پانچ لاکھ۔‘‘ امامہ نے گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے اندازہ لگایا۔
ایک لمحہ کے لئے اس نے ٹیبل پر چھا جانے والی خاموشی کو محسوس کیا پھر خود پر جمی نظروں کو۔
’’ڈالرز یا پاؤنڈز؟‘‘
اس نے بے حد حیرانی سے مسز زیوئیرز کی شکل دیکھی، پھر ہنس پڑی۔ اس نے اسے مذاق سمجھا تھا۔
’’میرا شوہر اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
مسز زیوئیرز نے دوبارہ یہ سوال نہیں کیا۔ وہ سمجھی تھیں، امامہ قیمت بتانا نہیں چاہتی۔
’’سالار! اس رنگ کی کیا قیمت ہے؟‘‘ اس رات بیڈ پر بیٹھے ناول پڑھتے، امامہ کو یک دم مسز زیوئیرز کا سوال یاد آیا۔ اپنا ہاتھ سالار کے سامنے پھیلاتے ہوئے اس نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ بھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے چونکا تھا۔
’’مسز زیوئیرز نے اور سب لوگوں نے بھی بہت تعریف کی۔‘‘ اس نے بے حد فخریہ انداز میں کہا۔
’’دیٹس گڈ۔‘‘ وہ مسکرا کر دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’مسز زیوئیرز نے قیمت پوچھی تھی، میں نے کہا چار یا پانچ لاکھ ہوگی۔ انہوں نے پوچھا ڈالرز یا پاؤنڈز۔ میں نے کہا میرا شوہر اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا۔‘‘ وہ بے اختیار کتاب پر نظریں جمائے ہنس پڑا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ چونکی۔
’’کچھ نہیں… کچھ پڑھ رہا تھا۔‘‘ سالار نے بے ساختہ کہا۔
’’تو کیا قیمت ہے اس کی؟‘‘ امامہ نے دوبارہ پوچھا۔
’’یہ انمول ہے۔‘‘ سالار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
’’کوئی بھی چیز جو تمہارے ہاتھ میں ہو، انمول ہے۔‘‘
’’پھر بھی…‘‘ اس نے اصرار کیا۔
“Two Hundred and Fifty Six.”سالار نے ڈالرز ساتھ نہیں لگایا۔
’’اوہ اچھا، میں زیادہ ایکس پینسو (مہنگی) سمجھ رہی تھی۔‘‘ وہ کچھ مطمئن ہوگئی اور دوبارہ ناول دیکھنے لگی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اسے فریب دینا، بہلانا، بے حد آسان تھا اور یہ آسانی بعض اوقات اسے بڑی مشکل میں ڈال دیتی تھی۔ امامہ نے چند لمحے بعد اس کی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، وہ کتاب گود میں الٹائے، اسے دیکھ رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ مسکرادی۔ وہ ان نظروں کی عادی تھی۔ وہ بعض اوقات اسے اسی طرح بے مقصد دیکھتا رہتا تھا۔
’’تمہیں کچھ بتانا چاہتا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
“You are the best thing ever happend to me.”
وہ ایک لمحہ کے لئے حیران ہوئی پھر ہنس پڑی۔ اس کمپلیمنٹ دینے کی اس وقت کیا وجہ تھی، وہ سمجھ نہیں پائی۔
’’آئی لو یو۔‘‘ وہ پھر ہنس پڑی۔ وہ اس بار بلش ہوئی تھی۔
’’تھینک یو۔‘‘ جواب وہی تھا، جو ہمیشہ آتا تھا۔ اس بار وہ ہنس پڑا۔
٭…٭…٭
’’امامہ…‘‘ وہ گاڑی کے دروازے کو بند کرتی، کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔
وہ جلال تھا، پارکنگ میں اس کے برابر والی گاڑی سے اسے نکلتے ہوئے دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔
’’اوہ مائی گاڈ!… میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج تم سے یہاں ملاقات ہوگی۔‘‘
’’ہاؤ آر یو؟‘‘ وہ بے حد ایکسائیٹڈ انداز میں اس کی طرف آیا تھا۔
وہ بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔ بعض چیزیں بلاؤں کی طرح انسان کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ جہاں بھی ملتی ہیں، انسان کا خون خشک کردیتی ہیں۔ گاڑی کی چابی مٹھی میں دبائے، وہ بھی زرد چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا، وہ اب بھی اس کا خون نچوڑ لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
’’اگر نہیں ملے تو سالوں نہیں ملے اور اب ایک ہی سال میں دوبارہ ملاقات ہورہی ہے۔‘‘
وہ اس کی اڑی ہوئی رنگت پر غور کئے بغیر، بے تکلف دوستوں کی طرح کہہ رہا تھا۔
امامہ نے بالآخر مسکرانے کی کوشش کی۔ یہ ضروری تھا… بے حد ضروری تھا… جلال انصر سے زیادہ خود اس کے لئے… اسے نہ وہ’’پرانا دوست‘‘ سمجھ سکتی تھی، نہ بے تکلف ہوسکتی تھی۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے صرف ایک ہی رشتے اور تعلق کا خیال آیا… ایک ہی خیال آسکتا تھا اسے۔
’میں ٹھیک ہوں… آپ کیسے ہیں؟‘‘
اس نے مسکرانے کی کوشش کی، نظریں تو وہ اب بھی اس سے نہیں ملاسکتی تھی۔ وہ ویسا تھا، جیسا اس نے اس کے کلینک پر آخری ملاقات میں دیکھا تھا۔ وزن پہلے سے کچھ بڑھ گیا تھا اور ہیئر لائن کچھ اور پیچھے چلی گئی تھی لیکن اپنی زندگی میں وہ اس کا جوامیج لئے بیٹھی تھی، اس کو ان دونوں چیزوں سے فرق نہیں پڑسکتا تاھ۔
’’میں تو بالکل ٹھیک ہوں… میںنے چند ماہ پہلے شادی کرلی ہے۔‘‘
اس کی سمجھ میں نہیں آیا، اس نے اسے یہ خبر دینا کیوں ضروری سمجھا، کیا اس کا اس سے کوئی تعلق تھا؟ یا وہ اسے اس انفارمل چٹ چیٹ سے پہلے ہی بتادینا چاہتا تھا کہ وہ “available” نہیں ہے۔ اس آخری ملاقات میں جو کچھ وہ اس سے کہہ چکا تھا اس کے بعد وہ دست یاب ہوتا بھی تو کم از کم اتنی عزت نفس تو وہ رکھتی تھی یا وہ اسے ’’ضرورت مند‘‘ سمجھ رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا تو کیا غلط کررہا تھا۔ میری ہی غلطی تھی اگر یوں بھیک لینے اس کے پاس نہ گئی ہوتی تو کم از کم اس کے سامنے سر تو اونچا رکھ سکتی تھی۔ وہ خود کو ملامت کرنے لگی تھی اور اس کی خاموشی نے جلال کو کچھ اور محتاط کیا۔
’’بہت اچھی ہے میری بیوی، وہ بھی ڈاکٹر ہے۔ برٹش نیشنل ہے، اسپیشلائزیشن بھی اس نے وہیں سے کی ہے۔ امیزنگ وومین۔‘‘ اس نے چار جملوں میں اس پراپنی بیوی کی حیثیت واضح کردی تھی۔
ایک لمحے کے لئے وہ بھول گئی تھی کہ وہ بھی کسی کی بیوی ہے۔ اپنے پیروں کے نیچے زمین لئے کھڑی تھی۔ اس کے منہ سے کسی دوسری عورت کے لئے ’’میری بیوی‘‘ کے الفاظ نے چند لمحوں کے لئے اسے اسی طرح ادھیڑا تھا۔
’’مبارک ہو۔‘‘ اس نے بالآخر وہ لفظ کہے، جو اسے کہنے چاہیے تھے۔
’’تھینکس ، میں تم کو ضرور بلاتا اگر میرے پاس تمہارا کانٹیکٹ نمبر ہوتا۔ پہلی بار تو نہیں بلا سکا تھا، لیکن دوسری بار تو بلاسکتا تھا۔‘‘ جلالنے بات کرتے کرتے جیسے مذاق کیا تھا۔ وہ مسکرا نہیں سکی۔ وہ کبھی اس کے اس مذاق پر مسکرا نہیں سکتی تھی۔
’’تم نے تو اس کے بعد کوئی رابطہ ہی نہیں کیا۔ کوئی فون ، کوئی وزٹ، کچھ نہیں… میں تو انتظار ہی کرتا رہا۔‘‘ وہ اب اس کا جائزہ لے رہا تھا اور اسے اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی احساس ہوا تھا۔
یہ امامہ ساتھ آٹھ ماہ پہلے والی امامہ سے بے حد مختلف تھی۔ وہ اب بھی پہلے کی طرح ایک چادر میں ملبوس تھی لیکن اس کی چادر اور لباس بے حد نفیس اور مہنگے تھے، باوجود اس کے وہ Casual Dress میں تھی۔ اس کے ہاتھوں اور کانوں میں پہنی ہوئی جیولری نے جلال کو ایک لمحہ کے لئے چونکا یا تھا۔ اس کی ویڈنگ فنگر میں ایک رنگ تھی، لیکن یہ وہ وہم تھا جس کی وہ تصدیق نہیں چاہتا تھا۔ کیوں…؟ پتا نہیں کیوں، یہ وہ چہرہ نہیں تھا،جسے اس نے اپنے کلینک پر دیکھا تھا۔ میک اپ سے عاری چہرے کے ساتھ وہ امامہ اسے ڈری، سہمی، کنفیوزڈ اور بہت بجھی ہوئی لگی تھی۔ سامنے کھڑی امامہ کے چہرے پر بھی میک اپ نہیں تھا اور اس کے بال بھی بے حد عام انداز میں ڈھیلے جوڑے کی شکل میں لپٹے ہوئے اس کی گردن کی پشت پر نظر آرہے تھے۔ یوں جیسے وہ اتفاقاً کسی کامسے گھر سے نکلی ہو، لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے اور آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اس کی باڈی لینگوئج دس بارہ سال پہلے کی امامہ کی طرح تھی، وہ امامہ جس سے پہلی بار مل کر وہ اٹریکٹ ہوا تھا۔ کیئرلیس، بے نیاز لیکن بے حد پراعتماد اور پرسکون۔ ایک نظر میں ہی جلال کو احساس ہوگیا تھا کہ امامہ ہاشم بہت بدل چکی ہے، کیسے اور کیوں؟ اسے تھوڑی سی بے چینی ہوئی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!