آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

اس کے عقب میں کھڑی اس قیمتی گاڑی کو بہ ظاہر سرسری دیکھتے ہوئے، جلال نے اس سے پوچھا۔
’’تم اب بھی اسی فارما سیوٹیکل کمپنی میں کام کرتی ہو؟‘‘ اس کا جی چاہا تھا کہ کاش اس میں آنے والی ساری تبدیلیاں کسی بونس، کسی ہینڈ سم پے پیکیج کی مرہون منت ہوں۔ کمینی خواہش تھی، لیکن جلال انصر کی اس وقت یہی خواہش تھی۔ مرد کو اپنی متروکہ عورت کو Moved on دیکھ کر ہتک کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس احساس سے بچنا چاہتا تھا۔
’’نہیں، میں نے جاب چھوڑ دی تھی۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا۔
’’اوہ ! اچھا۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’تو تم کچھ نہیں کررہیں آج کل؟‘‘
امامہ چند لمحے خاموش رہی۔ اگلا جملہ کہنا مشکل تھا مگر بے حد ضروری تھا۔
’’میری شادی ہوگئی ہے۔‘‘ وہ اب بھی یہ نہیں کہہ سکی کہ میں نے شادی کرلی۔ جلال کے چہرے سے ایک لمحہ کے لئے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
’’اوہ! اچھا، Congratulations…‘‘ وہ بروقت سنبھلا تھا۔ امامہ نے اس کی آواز کی لڑکھڑاہٹ نوٹس نہیں کی۔
’’تم نے بتایا ہی نہیں۔ نہ انوائٹ کیا۔ کیا کرتا ہے وہ؟‘‘
’’آپ جانتے ہیں اسے۔ سالار سکندر۔‘‘ اس نے گلاصاف کرکے کہا۔
’’اوہ۔‘‘ ایک لمحے کے لئے جلال کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا۔
’’وہ بینکر ہے، میں جانتا ہوں۔‘‘ جلال کی اس بات کاٹ کر اسے سالار کا بینک اور اس کی ڈیزگنیشن بتانے لگا۔
’’آپ کو کیسے پتا ہے؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’آدھے شہر کو تمہارے شوہر کے بارے میں پتا ہوگا۔ بزنس کمیونٹی سے میرا کافی ملناجلنا ہے، تو اس کے بارے میں پتا چلتا رہتا ہے۔ دو چار بار گیدر نگز میں دیکھا بھی ہے میں نے، لیکن ملاقات نہیںہوئی۔‘‘ وہ اب نارمل ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
’’آؤ لنچ کرتے ہیں۔ گپ شپ لگائیں گے، اتنے عرصے بعد ملے ہیں۔ بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ اس نے بے تکلفی اور گرم جوشی سے کہا۔
وہ شہر کے مصروف اور مہنگے ترین ڈاکٹرز میں سے ایک تھا۔ پرانی محبوبہ کے لئے وقت نکالنا مشکل ہوتا، لیکن شہر کے سب سے زیادہ بااثر بینکر کی بیوی کے لئے وقت نکالنا مشکل نہیں تھا۔ امامہ ہاشم یک دم اس کی سوشل نیٹ ورکنگ کے ایک مضبوط ترین امیدوار کے طور پر سامنے آگئی تھی۔
’’نہیں، میں گروسری کے لئے آئی ہوں۔ ڈنر کے لئے کچھ چیزیں چاہیے تھیں مجھے۔‘‘





امامہ نے اسے ٹالنا چاہا، اسے یقین تھا وہ اصرار نہیں کرے گا۔ جلال کے بارے میں اس کے اندازے آج بھی غلط تھے۔
’’یار، گروسری بھی ہوجائے گی میں خود کروادوں گا لیکن لنچ کے بعد۔ وہ سامنے ریسٹورنٹ ہے ایک گھنٹے میں فارغ ہوجائیں گے ہم۔‘‘ جلال نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
’’میں…‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن جلال کچھ بھی سننے کے موڈمیں نہیں تھا۔ وہ بادل نہ خواستہ اس کے ساتھ ریسٹورنٹ میں چلی آئی۔
’’تو کیسی گزر رہی ہے تمہاری لائف اپنے شوہر کے ساتھ؟‘‘ مینیو آرڈر کرتے ہی جلال نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس سے پوچھا۔ امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا، وہ صرف سوال نہیں تھا، جلال جیسے یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے یا نہیں۔
’’بہت اچھی گزر رہی ہے، میں بہت خوش ہوں سالار کے ساتھ۔‘‘
اسے حیرت ہوئی اس سوال کا جواب دینا کتنا آسان کردیا تھا سالارنے… کچھ کھوجنا ، ٹٹولنا یا چھپانا نہیں پڑا تھا۔ وہ اس کے ساتھ ’’خوش ‘‘ تھی۔
’’گڈ، ارینج میرج تو نہیں ہوگی…؟ سالار اور تم نے اپنی مرضی سے کی ہوگی۔‘‘ اس نے جلال کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔ وہ اس سوال سے کیا جاننا چاہتا تھا؟
’’ہاں! سالار نے اپنی مرضی سے مجھ سے شادی کی ہے۔ اس نے اپنی فیملی سے پوچھا تھا بلکہ بتایا تھا۔ سالار کاخیال تھا کہ مرد کو شادی کرتے وقت اپنی مرضی دیکھنی چاہیے، فیملی کی نہیں۔‘‘
جلال کے چہرے کا رنگ بدلا تھا اور خود وہ بھی چند لمحے تک کوئی اگلا جملہ نہیں بول سکی۔ اس نے وہ آخری بات کس حوالے سے اور آخر کیوں کہی تھی، اس کی وجہ اس وقت وہ خود بھی سمجھ نہیں پائی تھی۔ وہ نہ اسے کوئی طعنہ دینے آئی تھی، نہ گلہ کرنے، پھر ایسی بات؟
’’بہت زیادہ انڈی پینڈنٹ سوچ رکھتا ہے وہ۔‘‘ اس نے چند لمحوں بعد جلال کو جیسے کچھ تاویل دینے کی کوشش کی۔ تاویل پچھلے جملے سے بھی زیادہ چبھی تھی۔
’’ظاہر ہے، سالانہ لاکھوں کمانے والے شوہر کی تعریف پر فرض ہوتی ہے۔‘‘
اس بار اس کا ہنس کر کہا ہوا جملہ امامہ کو چبھا تھا۔
’’لاکھوں کا تو مجھے نہیں پتا لیکن اچھے شوہر کی تعریف بیوی پر فرض ہوتی ہے۔‘‘
جلال نے اس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے ہنس کر کہا۔ ’’تو پتا رکھا کرو نا اس کے لاکھوں کا… کیسی بیوی ہو تم…؟ ڈیڑھ دو کروڑ تو بناہی لیتا ہوگا سال میں… بہت بڑے بڑے mergersکروا رہا ہے تمہارا شوہر، تمہیں بتاتا نہیں؟‘‘
’’نہیں، ہم اور چیزوںکے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ ’’ضروری‘‘ چیزوں کے بارے میں۔‘‘
اس کا لہجہ بے حد سادہ تھا لیکن جلال کے پیٹ میں گرہیں پڑی تھیں۔ اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔ بعض دفعہ ہنسی کی شدید ضرورت پڑجاتی ہے۔
’’چالاک مردوں کو ایسی ہی بیویوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تم لوگوں کی رہائش کہاں ہے؟‘‘
اس نے جو تا مارا، پھر معصومیت سے سوال کیا۔
امامہ نے اس کے تبصرے پر کچھ کہنے کے بجائے اسے اپنا ایڈریس بتایا۔ وہ اس کے ساتھ سالار کو مزید ڈسکس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’اوہ ! اپارٹمنٹ… وہ بھی رینٹیڈ… کوئی گھر ور لینا چاہیے تھا تم لوگوںکو… تم لوگ انٹرسٹڈ ہو تو میرے دو تین گھر ہیں اچھے پوش ایریاز میں… تم لوگ رینٹ کرلو۔‘‘ جلال نے فیاضانہ آفر کی۔
’’نہیں، نہیں ضرورت نہیں ہے… ہم comfortable ہیں وہاں۔‘‘ امامہ نے کہا۔
وہ اب اسے اپنے گھر کی تفصیلات بتانے لگا۔ اس کا رقبہ، اس کا نقشہ اور دنیا جہاں کا وہ سامان جو اس نے اپنے گھر کے اندر اکٹھا کیا تھا۔
’’تم سالار کے ساتھ آؤ نا کسی دن کھانے پر۔‘‘ بات کرتے کرتے ا س نے یوں کہا جیسے وہ واقعی صرف ’’دوست‘‘ ہی تھے، اور دوست ہی ’’رہے‘‘ تھے۔ وہ بول نہیں سکی، اگر وہ بے حس تھا تو بہت ہی زیادہ تھا، اگر ظالم تھا تو انتہا کا تھا۔
’’اوہ، جلال صاحب… دیکھیں! کہاں ملاقات ہورہی ہے۔‘‘
وہ ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا جو ریسٹورنٹ کے اندر اپنی بیوی کے ساتھ ان کی ٹیبل کے پاس سے گزرتے ہوئے جلال سے ملنے لگا۔ امامہ چونک کر اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’یہ بھابھی ہیں؟‘‘ وہ آدمی اب جلال سے پوچھ رہاتھا۔
’’نہیں، یہ میری ایک پرانی دوست ہیں۔‘‘ جلال نے فوراً سے پیشتر کہا۔
امامہ نے اس آدمی کی آنکھوں میں عزت کا ایک تاثر آتے اور پھر جلال کے تعارف پر اسے غائب ہوتے دیکھا۔ایک رسمی ہیلو کے بعد وہ آدمی دوبارہ جلال سے گفتگو میںمصروف ہوگیا۔ اس نے اور اس کی بیوی نے امامہ کی طرف دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی، وہ بے چین ہوئی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ جلال کے اس ادھورے تعارف سے کیا سمجھے ہوں گے… جلال کی کوئی گرل فرینڈ… کوئی ٹائم پاس… کوئی ڈیٹ… یا پھر اس کے اسپتال میںکام کرنے والی کوئی ڈاکٹر یا نرس جسے جلال وقت گزاری کے لئے لنچ پر وہاں لے آیا تھا۔
’’جلال! میں اب چلتی ہوں۔ بہت دیر ہورہی ہے۔‘‘
اسے پتا نہیں اچانک کیا ہوا تھا، وہ اپنا بیگ اٹھا کر یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔ جلال کے ساتھ وہ کپل بھی چونکا۔
’’نہیں، کھانا آنے والا ہے۔ کھا کر نکلتے ہیں۔‘‘ جلال نے کہا۔
’’نہیں، مجھے گروسری کرکے پھر کوکنگ بھی کرنی ہے اور میرے شوہر کو تو گھر آتے ہی کھانا تیار ملنا چاہیے۔ آج ویسے بھی اس نے کچھ خاص ڈشز کہی ہیں۔‘‘
مسٹر اور مسز فاروق نے اس بار مسکرا کر اسے دیکھا تھا، وہ بھی جواباً مسکرائی تھی۔ اس نے ’’شوہر‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا تھا؟ وہ نہیںجانتی تھی۔ شاید اس کپل کی آنکھوں میں عزت کی اس نظر کو دوبارہ دیکھنے کے لئے، جو چند لمحے پہلے جلال کی بیوی سمجھنے پر ان کی آنکھوں میںجھلکی تھی۔ اس کا انداز اتنا حتمی تھا کہ جلال اس بار اس سے اصرار نہیںکرسکا۔
’’اچھا، سالار کا کوئی وزیٹنگ کارڈ اور اپنا کانٹیکٹ نمبر تو دے دو۔‘‘ اس نے امامہ سے کہا۔ اس کے بیگ میں سالارکے چند کارڈز تھے، اس نے ایک کارڈ نکال کر جلال کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔
’’اپنا فون نمبر بھی لکھ دو۔‘‘
وہ ایک لمحہ کے لئے ہچکچائی پھر اسنے اسی کارڈ کی پشت پر اپنا سیل فون نمبر لکھ دیا۔
جلال کے پاس کھڑا آدمی تب تک اس کارڈ پر نام پڑھ چکا تھا۔
’’اوہ ! آپ سالار سکندر کی بیوی ہیں؟‘‘ وہ اس کے سوال پر بری طرح چونکی۔
’’فاروق صاحب بھی بینکر ہیں، سالار کو جانتے ہوں گے۔‘‘ جلال نے فوراً سے پیشتر کہا۔
’’بہت اچھی طرح سے۔‘‘ اس آدمی کا انداز اب مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ وہ ایک مقامی انویسٹمنٹ بینک کے ایگزیکٹیوز میں سے تھا۔ اس نے امامہ کو اپنی بیوی سے متعارف کروایا۔
’’آپ کے شوہر بہت بریلیئنٹ بینکر ہیں۔‘‘
وہ مسز فاروق سے ابھی ہاتھ ملارہی تھی، جب فاروق نے سالار کے لئے ستائشی کلمات ادا کئے۔
’’ہمیں انوائٹ کیا تھا، اس نے کچھ ماہ پہلے ویڈنگ ریسیپشن پر، لیکن ہم امریکہ میں تھے۔‘‘ مسز فاروق اب بڑی گرم جوشی سے کہہ رہی تھیں اور امامہ کی جان پر بن آئی تھی۔وہ اندازہ نہیں کر پائی تھی کہ وہ سالار کے کتنے قریب تھے یا صرف سوشل سرکل کا حصہ تھے۔
جو کچھ بھی تھا، وہاں جلال کے پاس بیٹھ کر اپنے شوہر کے کسی شناساسے ملنا، اس کی زندگی کے سب سے ایمبیرسنگ لمحات میں سے ایک تھا۔
’’بہت کلوز فرینڈ شپ ہے امامہ اور سالار کے ساتھ میری، بلکہ فیملی ٹائیز ہیں۔ بس درمیان میں کچھ عرصہ آؤٹ آف ٹچ رہے ہیں ہم… دس بارہ سال تو ہوگئے ہوں گے ہماری فرینڈ شپ کو، امامہ؟‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آیا،وہ کیا کہہ رہا تھا۔ اس نے کچھ حیرانی سے جلال کو دیکھا۔
’’ویری نائس… آپ سالار کے ساتھ آئیں کسی دن ہماری طرف۔‘‘ فاروق نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’شیور… بس، سالار کچھ مصروف ہے آج کل…‘‘ امامہ نے قدرے گڑبڑا کر مسکراتے ہوئے کہا۔ چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد وہ انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئی تھی، لیکن وہ بے حد اپ سیٹ تھی۔ وقت ایک بار پھر گیارہ سال پیچھے چلا گیا تھا، اسی میڈیکل کالج میں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا تھا اور پھر کئی سال کے بعد جلال کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات اور پھر آج اس کا سامنا۔
وہ ڈیپارٹمینٹل اسٹور میں کیا خریدنے آئی تھی، بھول گئی تھی۔ وہ ٹرالی لئے ایک شیلف سے دوسرے شیلف کو دیکھتے گزرتی رہی، پھر خالی ٹرالی پر نظر پڑنے پر اس نے ہربڑاہٹ میں سوچا کہ وہ کیا خریدنے آئی تھی لیکن ذہن کی اسکرین پر کچھ بھی نمودار نہیں ہوا تھا، اس نے بے مقصد چند چیزیں اٹھائیں اور پھر باہر آگئی۔ جلال کی گاڑی اب وہاں نہیں تھی۔ اس کی گاڑی کے برابر والی جگہ خالی تھی۔ معلوم نہیں اسے کیوں یہ توقع تھی کہ وہ ریسٹورنٹ سے باہر آکر ،اس کے لئے وہاں بیٹھا ہوگا۔ کم از کم اتنا انتظار تو کرتا کہ اسے خود رخصت کرتا۔ اسے خوش فہمی نہیں رہی تھی پھر بھی اسے اتنی courtesy کی تو اس سے توقع تھی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!