آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

ڈاکٹر سبط علی اگلے چار دن اس کا انتظار کرتے رہے۔ وہ نہیں آیا، نہ ہی اس نے انہیں فون کیا۔ انہیں خود اسے فون کرنے میں عار تھا۔ انہیں کہیں نہ کہیں یہ توقع تھی کہ وہ ان کا اتنا احترام ضرور کرتا تھا کہ ان کا پیغام ملنے پر آجائے گا لیکن اس کی مکمل خاموشی نے جیسے انہیں ذہنی دھچکا پہنچایا تھا۔ امامہ اس دن سے انہیں کے گھر پر تھی۔ انہوں نے یہ بہتر سمجھا تھا کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا، وہ انہیں کے گھر رہے۔ فرقان، ڈاکٹر سبط علی کے گھر اور سالار کے اپارٹمنٹ کے درمیان گھن چکر بنا ہوا تھا۔ وہ ہر روز ڈاکٹر صاحب کے پاس آرہا تھا، یہ جیسے اس کی طرف سے اس شرمندگی کو ظاہر کرنے کی ایک کوشش تھی، جو وہ سالار کے اس رویے پر محسوس کررہا تھا۔
اس صورت حال میں سب سے زیادہ ابتر ذہنی حالت امامہ کی تھی۔ اسے یہ یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ سالار اس کے معاملے میں اس طرح کا رویہ دکھاسکتا ہے۔ وہ گھر میں ڈاکٹر صاحب اور کلثوم آنٹی کی پریشانی دیکھ کر خود کو اور بھی زیادہ مجرم محسوس کررہی تھی اور اسی ذہنی تنائو کی وجہ سے اسے بخار رہنے لگا تھا۔
چوتھے دن ڈاکٹر سبط علی نے سالار کو فون کردیا۔ وہ آفس میں بیٹھا ہوا تھا، اور سیل پر ڈاکٹر صاحب کا نمبر دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے ہل نہیں سکا۔ یہ ایک ایسی کال تھی جس سے وہ بچنا بھی چاہتا تھا اور جسے وہ اٹینڈ نہ کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد ڈاکٹر سبط علی نے کسی تمہید کے بغیر اس سے کہا۔
’’آپ اگر شام کو میری طرف آسکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں آجاتا ہوں۔ اگر معاملہ حل ہوسکا تو بہتر ہوگا، ورنہ معاملہ ختم کرلیں گے۔‘‘
ان کے الفاظ میں اس کے لئے کسی قسم کا ابہام نہیں تھا۔
’’میں آجائوں گا۔‘‘
’’مہربانی ہوگی آپ کی۔‘‘ انہوں نے کسی مزید بات کے بغیر سلام کرکے فون بند کردیا۔
وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر سبط علی کا یہ لہجہ اس کے لئے نیا تھا، لیکن غیر متوقع نہیں تھا۔ غیر متوقع صرف وہ جملہ تھا جو انہوں نے آخر میں کہا۔ معاملہ ختم کرنے تک کی نوبت کیسے آگئی تھی، اس کے نزدیک یہ صرف ایک جھگڑا تھا۔ پہلی بار اس کے پیٹ میں گرہیں پڑی تھیں۔
اس شام کو ڈاکٹر سبط علی نے ہمیشہ کی طرح اسے دروازے پر ریسیو نہیں کیا تھا، نہ اس سے مصافحہ کیا اور نہ وہ اس کے لئے اٹھے تھے۔ وہ ملازم کے ساتھ اندر آیا ۔ ڈاکٹر سبط علی لائونج میں کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ اس کے آنے پر انہوں نے وہ کتاب بند کرکے ایک طرف رکھ دی۔ سالار سلام کرنے کے بعد سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’میں تم سے بہت لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا، سالار!‘‘ سالار نے سراٹھا کر انہیں دیکھا۔





وہ پہلی بار ان کے منہ سے تم کا طرزِ تخاطب سن رہا تھا اور وہ بھی اپنے لئے، ورنہ وہ اپنے ملازم کو بھی آپ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔
’’میں پچھلے چار دن سے صرف اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میں نے امامہ کی شادی تم سے کیوں کروائی… تم اس قابل نہیں تھے۔ محبت کے دعوے کرنا اور بات ہوتی ہے، لیکن کسی عورت کو اپنے گھر میں عزت سے رکھنا، ایک بالکل الگ بات… تم صرف پہلا کام کرسکتے تھے۔‘‘
لائونج سے منسلک کمرے میں وہ ڈاکٹر صاحب کی آواز اور اس کی خاموشی دونوں کو سن رہی تھی۔
’’اپنی بیوی کو اس طرح گھر سے نکالنے والے مرد کو میں مرد تو کیا انسان بھی نہیں سمجھتا۔ تمہیں اگر اس بات کا پاس نہیں تھا کہ وہ تمہاری بیوی ہے، تو اس بات کا پاس ہونا چاہیے تھا کہ وہ میری بیٹی ہے۔ میری بیٹی کو تم نے اس طرح خالی ہاتھ آدھی رات کو گھر سے نکالا ہے۔‘‘
’’میں نے اسے گھر سے نہیں نکالا وہ خود…‘‘ سالار نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر صاحب نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’تم نے گاڑی ارینج کی تھی۔‘‘ اندر بیٹھی امامہ کانپنے لگی تھی۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی اتنی بلند آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔
’’تمہیں جرأت کیسے ہوئی کہ تم اس کے کریکٹر کے بارے میں بات کرو؟‘‘
سالار نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا، اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔
’’آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ بات میں نے کیوں کی تھی؟‘‘ اندر بیٹھی امامہ کا چہرہ فق ہوگیا تھا صرف یہی ایک بات تھی جس پر وہ گلٹی تھی اور جس کا اعتراف وہ اتنے د ن سے کسی سے نہیں کر پائی تھی۔
’’میں اس سے کچھ نہیں پوچھوں گا۔ میں تمہارے کردار کو نہیں جانتا، لیکن وہ نو سال سے میرے پاس ہے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرسکتی، جس پر تم اس کے کردار پر انگلی اٹھاتے۔‘‘
اسے یقین تھا وہ اب جلال کا نام لے گا… اب لے گا… اس کا پورا جسم سرد پڑ رہا تھا۔ ایک ، دو ، تین، چار، پانچ… اس کا دل سیکنڈز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے دھڑک رہا تھا۔ سالار کا ایک جملہ اس وقت ڈاکٹر صاحب کی نظروں میں اسے ہمیشہ کے لئے گرانے والا تھا، لیکن اس کی طرف خاموشی تھی۔
پھر امامہ نے اس کی آواز سنی، ایک لمحے کے لئے اسے لگا، اس کا دل رک جائے گا۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ اسے یقین نہیں آیا، یہ وہ جملہ نہیں تھا جسے سننے کی اسے توقع تھی۔ اس کی معذرت نے اسے شاک دیا تھا تو ڈاکٹر صاحب کو کچھ اور مشتعل کیا۔
’’ایک بات یاد رکھنا تم سالار… جو کچھ تمہیں زندگی میں ملنا ہے، اس عورت کے مقدر سے ملنا ہے… یہ تمہاری زندگی سے نکل گئی تو خواری کے سوا اور کچھ نہیں ہاتھ آنا تمہارے… ہاتھ ملوگے ساری عمر تم… تمہاری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے تمہیں امامہ کا کفیل بنایا ہے… کبھی رازق بننے کی کوشش بھی مت کرنا، تم رازق نہیں ہو اس کے… اللہ تم سے بہتر کفیل دے دے گا اسے… تم سے زیادہ مہربان، تم سے زیادہ خیال رکھنے والا…‘‘
وہ ’’کاٹو تو لہو نہیں‘‘ کے مصداق بنا بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی نے کبھی ایسی باتیں نہیں کی تھیں… کبھی بھی نہیں… شرمساری سی شرمساری تھی جو وہ محسوس کررہا تھا اور اندر بیٹھی امامہ بھی ندامت کے ایک ایسے ہی سمندر میں غرق تھی۔
’’اسے گھر میں رکھنا ہے تو عزت سے رکھو، ورنہ ابھی اور اسی وقت اس کو چھوڑدو۔ تم سے کئی گنا اچھے انسان کے ساتھ بیاہ دوں گا جو اسے تم سے زیادہ اچھے طریقے سے اپنے گھر کی عزت بناکر رکھے گا۔‘‘
’’میں، آپ سے اور اس سے بہت شرمندہ ہوں۔ آپ اسے بلائیں، میں اس سے معذرت کرلیتا ہوں۔‘‘ اسے گھٹنے ٹیکنے میں دیر نہیں لگی تھی۔
اندر بیٹھی امامہ زمین میں جیسے گڑ کر رہ گئی تھی۔ یہ آخری چیز تھی جس کی توقع اسے سالار سے تھی۔
کلثوم آنٹی اسے بلانے آئی تھیں اور اس کا دل چاہا تھا کہ وہ کہیں بھاگ جائے۔ زندگی میں اپنے شوہر کا جھکا ہوا سر دیکھنے سے بڑی ندامت کا سامنا اس نے آج تک نہیں کیا تھا، کیا ملامت تھی جو لائونج میں آکر بیٹھتے ہوئے اس نے خود کو کی تھی۔ یہ سب کچھ اس کی غلطی سے شروع ہوا تھا۔
’’میں بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جو کچھ ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جو کچھ کیا، غلط کیا میں نے، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اس نے سریا نظریں اٹھائے بغیر اس کے بیٹھتے ہی کہا تھا۔ امامہ کے رنج میں کچھ اور اضافہ ہوا۔ آج سالار کے ساتھ زیادہ ہوئی تھی اور اس کی ذمہ دار وہ اپنے آپ کو ٹھہرا رہی تھی۔
’’بیٹا! آپ جانا چاہ رہی ہیں تو چلی جائیں اور نہیں جانا چاہیں تو…‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔
’’نہیں، میں جانا چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے پھر اپنا سامان پیک کرلیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا، وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ دو دن پہلے کلثوم آنٹی نے اسے کچھ کپڑے اور ضرورت کی چیزیں لاکردیں تھیں، اس نے انہیں ایک بیگ میں رکھ لیا۔ ڈاکٹر صاحب، امامہ کے اٹھتے ہی اسٹڈی روم میں چلے گئے اور وہ سرجھکائے بیٹھا رہا۔
’’بیٹا کھانا لگوائوں۔‘‘ کلثوم آنٹی نے جیسے ماحول بہتر کرنے کی کوشش کی۔
’’نہیں، میں کھانا کھا کر آیا تھا۔‘‘
اس نے اب بھی نظریں نہیں اٹھائیں۔ وہ نظریں اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔
ملازم سوفٹ ڈرنک کا ایک گلاس اسے دے کر گیا۔ سالار نے کچھ کہے بغیر گلاس اٹھا کر چند گھونٹ لے کر رکھ دیا۔
اسے اپنی چیزیں پیک کرکے باہر آنے میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ سالار نے کھڑے ہوکر خاموشی سے اس سے بیگ لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب بھی تب تک اسٹڈی روم سے نکل آئے تھے۔ وہ ان دونوں کو گاڑی تک چھوڑنے آئے تھے مگر ہمیشہ کی طرح وہ سالار سے بغل گیر نہیں ہوئے۔
گاڑی کے سڑک پر آنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی، پھر سالار نے کہا۔
’’میں تم سے بہت شرمندہ ہوں، I misbehaved with you۔‘‘
وہ دوبارہ اس سے معذرت کی توقع نہیں کررہی تھی۔
’’سالار، میں تم سے بہت شرمندہ ہوں، مجھے نہیں پتا تھا کہ ابو کو اتنا غصہ آئے گا۔ انہوں نے تمہارے ساتھ…‘‘
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’نہیں، ٹھیک کیا انہوں نے جو بھی کیا، غلط تو کچھ بھی نہیں کیا انہوں نے، لیکن میں نے تمہارے کریکٹر کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے، تم یہ سب کچھ کہو گے اور میں یہ نہ سمجھو کہ تم میرے کریکٹر پر انگلی اٹھار رہے ہو؟‘‘ سالار خاموش رہا تھا۔
’’ وہ مجھے اتفاقاً اس دن پارکنگ میں مل گیا تھا۔‘‘ کچھ دیر کی خاموش کے بعد اس نے کہنا شروع کیا۔ سالار نے اس بار اسے نہیں ٹوکا۔
’’ابھی چند ماہ پہلے اس نے دوسری شادی کی ہے… اس نے لنچ کے لئے اصرار کیا… مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ تمہیں برا لگ سکتا ہے اور میں نے تو لنچ بھی نہیں کیا تھا۔ کچھ دیر ریسٹورنٹ میں بیٹھے رہے پھر وہ آدمی اور اس کی مسز آگئیں۔ مجھے دیر ہورہی تھی تو میں وہاں سے گھر آگئی، بس اتنی سی بات تھی۔ میری غلطی بس یہ تھی کہ میں نے تمہیں بتانا نہیں کہ میں اس سے ملی تھی۔
’’اور میری غلطی یہ تھی کہ میں نے تمہاری بات نہیں سنی، سن لینی چاہیے تھی،I over reacted۔‘‘
وہ اب مدھم آواز میں اعتراف کررہا تھا۔
’’بے عزتی کروانی تھی اس لئے۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ اس وقت اس کی کس قدر احسان مند ہورہی تھی، لیکن وہ کہہ نہیں پارہی تھی۔ اس کی ایک لمحے کی خاموشی نے اس کی عزت رکھی تھی اور پچھلے تمام دن کے رویوں کا جیسے کفارہ ادا کردیا تھا۔ وہ احسان مندی کے علاوہ اس وقت اس شخص کے لئے کچھ محسوس نہیں کررہی تھی۔ اس وقت تشکر اور شرمندگی، کے سوا کوئی تیسری چیز اس کے پاس نہیں تھی۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔
’’مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہیں کسی آدمی کے ساتھ میرا ملنا اتنا برا لگے گا، ورنہ میں تو کبھی…‘‘ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا تھا۔
سالار نے اس کی بات کاٹی۔ ’’وہ ’’کوئی‘‘ آدمی نہیں تھا امامہ!‘‘
’’وہ اب میرے لئے صرف ’’کوئی‘‘ آدمی ہے۔‘‘ سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس نے ناک رگڑتے ہوئے آنکھوں کو ایک بار پھر صاف کرنے کی کوشش کی۔
’’طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟‘‘
’’ہاں، ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے امامہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر جیسے ٹمپریچر چیک کیا۔
’’بخار ہے؟‘‘
’’تھوڑا سا ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔‘‘
’’نہیں میڈیسن لے رہی ہوں میں… بیگ میں ہے۔‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔
انہوں نے ایسی خاموشی میں پہلے کبھی سفر نہیں کیا تھا۔ اس ایک واقعے نے اعتماد کے اس رشتے میں کچھ عجیب دراڑیں ڈالی تھیں جو پچھلے چند ماہ میں ان کے درمیان بن گیا تھا۔
اس کو اتنا غصہ کیوں آیا؟ اور اس طرح کا غصہ؟ وہ خود بھی یہ سمجھ نہیں پایا تھا۔ وہ غصیل… نہیں تھا۔ کم از کم پچھلے دس سالوں میں ایسے بہت کم مواقع آئے تھے، جن پر کسی سے اس کی خفگی اتنی طویل ہوئی، جتنی امامہ سے ہوگئی تھی۔ وہ جلال سے جیلس نہیں تھا، وہ ان سیکیور تھا۔ وہ اس کے معاملے میں کس طرح بے اختیار تھی، اس کا مظاہرہ وہ دس سال پہلے بہت اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ جلال کا یک دم دوبارہ ان کی زندگی کے منظر نامے میں اس طرح نمودار ہونا، سالار کو ایک مرد کے طور پر بے حد ہتک محسوس ہوئی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!