’’آئی ڈی کارڈ کی کاپی ہے؟‘‘ وہ کسی کو گاڑی لانے کے لئے بھیجنا چاہتا تھا اور حفظِ ماتقدم کے طور پر آئی ڈی کارڈ یا گاڑی کے پیپرز ساتھ دینا چاہتا تھا، تاکہ اگر اسے پارکنگ میں چیک کیا جائے تو گاڑی لانے میں دقت نہ ہوتی۔ وہ گلاس رکھ کر ایک بار پھر آئی ڈی کارڈ اپنے بیگ میں ڈھونڈنے لگی، وہاں بھی اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ دوسرے بیگ میں تھا۔ اس کا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا۔ اسے خود پر شدید غصہ آرہا تھا۔ اس دفعہ سالار نے اس کے جواب کا انتظار نہیں کیا۔
’’میرے پیپرز میں دیکھو، میری وائف کے آئی ڈی کارڈ کی کاپی ہوگی، وہ ڈرائیور کو دے دو اور کار کی چابیاں بھی بھجوادیتا ہوں ۔‘‘ اس نے فون پر کہا۔
’’تمہیں اگر فریش ہونا ہوتو میرے سلیپرز یہاں پڑے ہیں۔‘‘
یہ آفر بے حد بروقت آئی تھی۔ اسے واقعی اس وقت کوئی ایسی جگہ چاہیے تھی جہاں وہ اپنا منہ چھپا لیتی۔ اس نے زندگی میں کبھی خود کو اتنا ناکارہ اور احمق محسوس نہیں کیا تھا۔
باتھ روم کا دروازہ بند کئے، وہ اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی گئی۔ پانی کچھ بہا نہیں پارہا تھا، نہ شرمندگی، نہ وہ ہتک ، نہ اس کا رنج۔
’’سنا ہے، تمہاری کوئی گرل فرینڈ آئی ہے؟‘‘
اس نے باہر رمشا کی آواز سنی۔ وہ سالار کو چھیڑ رہی تھی اور وہ جواباً ہنسا تھا۔
’’ہاں، آج کی disasterous میٹنگ کے بعد، کسی گرل فرینڈ کا ایک وزٹ تو ڈیزرو کرتا تھا میں۔‘‘
وہ آئینے میں اپنے عکس کو دیکھتے ان کی گفتگو سنتی رہی۔ دونوں اب کسی کلائنٹ اور آج کی میٹنگ کو ڈسکس کررہے تھے۔ اس کا دل چاہاتھا وہ واپس کمرے میں نہ جائے، وہ اس سین سے غائب ہونا چاہتی تھی۔
باتھ روم کا دروازہ کھلنے پر رمشا خیر مقدمی انداز میں اس کی طرف آئی۔
’’چلو کسی بہانے تمہاری بیگم تو یہاں آئیں۔‘‘ رمشا نے اس سے ملتے ہوئے کہا تھا۔
سالار جواب دینے کے بجائے صرف مسکرایا۔ چند منٹ وہ کھڑی باتیں کرتی رہی، پھر اس نے کہا۔
’’اب اگلی میٹنگ ہے، تو تم آرہے ہو کیا؟‘‘
’’ہاں، میں آتا ہوں… تم اسٹارٹ کرلو میٹنگ ، میں دس پندرہ منٹ میں آجاتا ہوں۔‘‘
اس نے کہا۔ رمشا، امامہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے نکل گئی۔
’’تم چلے جاؤ، گاڑی آئے گی تو میں چلی جاؤں گی۔‘‘ اس نے کمرے میں پڑے جوتے کے ڈبے سے نیا جوتا نکالتے ہوئے سالار سے کہا۔ اسے لگ رہا تھا وہ اس وقت ایک خوامخوا کی لائبلیٹی بن کر آئی تھی۔
’’تم سینڈوچ کھاؤ۔ تم نے ہی صبح بناکر دیئے تھے، آج کلائنٹس کے ساتھ لنچ کیا ہے، یہ کھا نہیں سکا۔‘‘ وہ ٹیبل پر پڑے سینڈوچ کا ایک ٹکڑا کھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ اس وقت حلق سے کچھ اتارنا بہت مشکل تھا۔
’’کیوں بھوک نہیں ہے؟ لنچ کیا ہے تم نے؟‘‘
’’نہیں، لیکن بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’پھر کھاؤ، صرف ایک کھالو۔‘‘ وہ اسے بہلارہا تھا۔ امامہ کے ساتھ کوئی مسئلہ تھا اور اس وقت پوچھنا بے کار تھا۔ جب بھی وہ پریشان ہوتی اسی طرح چیزیں بھولتی تھی، اور اتنے مہینوں میں سالار اس چیز کا عادی ہوچکا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گی۔ یہ اس کے لئے اب کوئی غیر معمولی بات نہیں رہی تھی۔
وہ اب سرجھکائے سینڈوچ کھانے لگی تھی جو اس نے پلیٹ میں اس کے سامنے رکھا تھا۔ اس کا خیال تھا وہ اب اس کی ان تمام حرکات پر کوئی تبصرہ کرے گا، مگر وہ اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا۔ سینڈوچ ختم ہونے کے بعد اس نے امامہ سے چائے کا پوچھا اور اس کے انکار پر اس نے انٹر کام پر کسی سے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کے لئے کہا۔
’’میں تمہیں اپنی گاڑی میں بھجوا رہا ہوں۔ تمہاری گاڑی جب آئے گی تو میں بھجوادیتا ہوں۔‘‘
’’میں خود ڈرائیو کرکے چلی جاتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں، ڈرائیور تمہیں ڈراپ کرے گا۔ تم اپ سیٹ ہو اور میں نہیں چاہتا تم ڈرائیو کرو۔‘‘ وہ بول نہیں سکی ، یہ جاننے کے باوجود کہ وہ بڑی آسانی سے جان گیا ہوگا کہ اس وقت اسے کوئی پریشانی تھی۔
’’میں خود چلی جاتی ہوں۔‘‘ اس نے بینک کی ایگزٹ پر سالار سے کہا۔
’’یار، کلائنٹس کو بھی یہاں تک چھوڑنے آجاتا ہوں، تم تو بیوی ہو میری۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
ڈرائیور پارکنگ میں کھڑی گاڑی دروازے کے سامنے لے آیا تھا۔ ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے آیا مگر اس سے پہلے سالار اس کے لئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول چکا تھا۔
وہ گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے اسے رک کر دیکھنے لگی۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر اس کے حلق میں ایک بار پھر سے گرہیں پڑنے لگی تھیں۔
“Anything else Ma’am?” سالار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ سمجھا کہ وہ اسے کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔
’’تھینک یو۔‘‘ اس نے بالآخر کہا۔
“Always at your disposal Ma’am.”
اس نے اپنا بازو اس کے گرد پھیلاتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ گاڑی میںبیٹھ گئی، سالار نے دروازہ بند کردیا۔ چلتی ہوئی گاڑی میں سے امامہ نے ایک لمحے کے لئے مڑکر دیکھا۔ وہ ابھی وہیں کھڑا تھا، وہ یقینا گاڑی کے مین روڈ پر جانے کا انتظار کررہا تھا۔ اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔
جس کی ذمہ داری تھی وہ شخص اس کے لئے کھڑا تھا۔ وہ جلال کی ذمہ داری نہیں تھی، پھر وہ کیوں یہ توقع کررہی تھی کہ وہ اس کے لئے اتنیcourtesyدکھاتا۔ اس نے ٹھیک کیا تھا، اسے ڈرائیور کے ساتھ بھیجا تھا۔ وہ واقعی اس وقت گاڑی ڈرائیو کرنے کے قابل نہیں تھی۔ وہ اپنی گاڑی میں ہوتی تو گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرکے،اندر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی۔ نہ وہ اتنی بے وقعت تھی جتنی ہر بار جلال کے سامنے جاکر ہوجاتی تھی، نہ وہ اتنی انمول تھی جتنا یہ شخص اسے سمجھ رہا تھا۔ ایک اسے کوئلہ سمجھ کر ملتا تھا، اور دوسرا کوہ نور۔ وہ بے وقعتی کانچ کی طرح لگتی تھی اور یہ وقعت خنجر کی طرح… لیکن دونوں چیزیں زخمی کرتی تھیں اسے۔
وہ گھر آکر بھی بہت دیر تک لاؤنج میں بے مقصد بیٹھی رہی تھی۔ آج کا دن بے حد برا تھا۔ بے حد۔ کوئی چیز اسے پرسکون نہیں کرپارہی تھی۔ تکلیف دہ یادوں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔
’’کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘ سالار نے رات کو کھانے کی ٹیبل پر اس سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ جواب حسب توقع تھا۔
سالار نے کھانا کھاتے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔
’’کوئی پریشانی نہیں ہے، میں بس اپنی فیملی کو مس کررہی ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔
یہ واحد طریقہ تھا جس سے اس گفتگو کا موضوع اس کی ذات سے ہٹ سکتا تھا۔
سالار نے اسے کریدا نہیں تھا۔ وہ بعض دفعہ اس طرح پریشان ہوتی تھی اور وہ اسے صرف بہلانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ آج بھی اس نے یہی کچھ کیا۔ وہ ڈنر کے بعد کام کے لئے اپنے اسٹڈی روم میںچلاگیا۔ امامہ نے سونے کی کوشش کی، لیکن وہ سونہیں سکی۔ ایک بار پھر سب کچھ فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگا، وہ فلم جو آج بار بار چلتی اور پھر چلتی رہی تھی۔
کتنا وقت اس نے اندھیرے میں بستر میں چت لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے گزارا تھا، اسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔ اس کی سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا تھا جب کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ سالار سونے کے لئے حتی الامکان آہستگی سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر آیا تھا۔پھر دروازہ بند کرکے، وہ لائٹ آن کئے بغیر اسی طرح احتیاط سے دبے پاؤں واش روم کی طرف چلا گیا تھا۔
امامہ نے آنکھیں بند کرلیں، نیند اب بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ کپڑے تبدیل کرکے سونے کے لئے بیڈ پر آکر لیٹا تھا۔ اس نے امامہ کی طرف کروٹ لی اور پھر امامہ نے اس کی آواز سنی۔
’’تم جاگ رہی ہو؟‘‘ اس نے اپنی کمر کے گرد سالار کا بازو حمائل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔
’’تمہیں کیسے پتا چل جاتا ہے؟‘‘ وہ کچھ جھلائی تھی۔
’’پتا نہیں کیسے؟ بس، پتا چل ہی جاتا ہے۔ کیا پریشانی ہے؟‘‘ ایک لمحہ کے لئے اس کا دل چاہا وہ اسے بتا دے اپنی اور جلال کی ملاقات کے بارے میں، لیکن دوسرے ہی لمحہ اس نے اس خیال کو جھٹک دیا تھا۔ اس سارے واقعے میں بتانے والی کوئی چیز نہیں تھی۔ کوئی ایسی چیز جو کسی کے لئے بھی قابل اعتراض ہوتی، وہ سالار کو بھی یہ نہیں سمجھا سکتی تھی کہ وہ جلال کی کن باتوں پر تکلیف محسوس کررہی تھی تو پھر بتانے کا فائدہ کیا ہوتا۔
’’کچھ نہیں، بس میں ڈپریسڈ تھی۔‘‘
’’اس لئے تو کہا تھا کہ باہر چلتے ہیں۔‘‘ وہ اب اس کے بازو پر سہلانے والے انداز میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں اب۔‘‘ امامہ نے یک دم کسی ننھے بچے کی طرح اس کے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے اس سے کہا۔ اس کے سر کو چومتے ہوئے وہ اسے تھپکنے لگا، امامہ کا دل بھر آیا۔ اگر اس کی زندگی میں جلال انصر کے نام کا کوئی باب نہ آیا ہوتا تو کیا ہی اچھا تھا۔ وہ اس شخص کے ساتھ بہت خوش رہ سکتی تھی، جس کے سینے میں منہ چھپائے، وہ اس وقت ماضی کو کھوجنے میں مصروف تھی۔ زندگی میں وہ لوگ کیوں آتے ہیں جو ہمارا مقدر نہیں ہوتے، وہ مقدر نہیں بنتے تو ایڑی کا کانٹا کیوں بن جاتے ہیں؟
٭…٭…٭
جلال کے ساتھ ہونے والی وہ ملاقات اس کے لئے ایک اتفاق تھا، ایک ایسا اتفاق جسے وہ دوبارہ نہیں چاہتی تھی۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتفاقی ملاقات کے لئے بہت خطرناک اثرات لے کر آنے والی تھی، مہینوں یا سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں۔
دو دن بعد وہ ایک ڈنر میں مدعو تھے۔ وہ اس وقت سالار کے ساتھ کھڑی چند لوگوں سے مل رہی تھی جب اس نے ہیلو کی ایک شناسائی آواز سنی۔ امامہ نے گردن موڑ کر دیکھا اور پھر ہل نہیں سکی۔ وہ فاروق تھا جو بے حد گرم جوشی کے ساتھ سالار سے مل رہا تھا۔
’’میری بیوی…‘‘ سالار اب اس کا تعارف کروا رہا تھا۔
’’تعارف کی ضرورت نہیں ہے، میں پہلے ہی ان سے مل چکا ہوں۔‘‘ فاروق نے بے حد گرم جوشی سے کہا۔ سالار نے کچھ حیران سا ہوکر فاروق کو دیکھا۔
’’آپ پہلے مل چکے ہیں امامہ سے؟‘‘
’’بالکل، ابھی پرسوں ہی تو ملاقات ہوئی ہے۔ ڈاکٹر جلال انصر کے ساتھ لنچ کررہی تھیں۔ دراصل جلال ہمارے فیملی ڈاکٹر ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی پرانی کلاس فیلو ہیں اور جب انہوں نے آپ کا وزیٹنگ کارڈ انہیں دیا تب مجھے پتا چلا کہ یہ آپ کی وائف ہیں۔‘‘ فاروق بڑے خوشگوار انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’میں نے اور میری مسز نے تو کھانے پر انوائٹ کیا تھا، لیکن انہوں نے کہا آپ آج کل مصروف ہیں۔‘‘
فاروق نے نہ امامہ کی فق ہوتی رنگت کو دیکھا، نہ سالار کے بے تاثر چہرے کو۔ جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، سالار کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا، لیکن یقین نہ کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس کے کان جیسے سن ہورہے تھے۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے بائیں طرف کھڑی امامہ کو دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی۔ وہ فی الحال اس کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ جلال انصر کے ساتھ مل رہی تھی…اور کب سے؟
فاروق کی بات سنتے ہوئے امامہ نے خشک ہوتے ہوئے حلق کے ساتھ سالار کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہ بہ غور فاروق کی بات سن رہا تھا اور اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ اس نے اس کے بے تاثر چہرے کو دیکھ کر غلط اندازہ لگایا تھا۔ میں اسے سب کچھ بتادوں گی وہ میری بات سمجھ لے گا، اس کے بے تاثر چہرے نے امامہ کو عجیب سی خوش فہمی کا شکار کیا تھا۔ وہ ابتدائی شاک سے نکلنے لگی تھی۔ مجھے پرسوں ہی سالار کو بتادینا چاہیے تھا، تب اسے یہ شرمندگی نہ ہوتی۔ اسے ذرا پچھتاوا ہوا۔ وہاں کھڑے فاروق کی بات سنتے اور سالار کے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے ان حالات میں سالار کے ردِ عمل کو بالکل غلط سمجھا تھا اور کیوں نہ سمجھتی، اتنے مہینوں سے وہ جس شخص کے ساتھ رہ رہی تھی، وہ اس کے نازنخرے اٹھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کررہا تھا۔ اس نے اسے کبھی یہ تاثر نہیں دیا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہوسکتا تھا یا اس کی کسی غلطی پر اسے معاف نہیں کرسکتا تھا۔
’’آپ ظہیر صاحب سے ملے ہیں؟‘‘ اس نے یک دم سالار کو فاروق کی بات کاٹتے دیکھا۔
’’آئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘
’’ہاں، ابھی ہم لوگ آپ ہی کی بات کررہے تھے۔ آئیں میں آپ کو ملواتا ہوں۔‘‘ سالار، فاروق کو لئے ایک طرف چلا گیا۔
امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے موضوع بدلا تھا یا وہ فاروق کو واقعی ظہیر صاحب سے ملوانا چاہتا تھا۔ وہ دوبارہ پلٹ کر اس کی طرف نہیں آیا۔ وہ ڈنر کے دوران بھی مردوں کے ایک گروپ کے پاس کھڑا رہا۔ وہ خود بھی اپنی کچھ دوسری شناسا خواتین کے ساتھ کھڑی رہی۔ ایسا پہلی بار ہورہا تھا کہ کسی پارٹی میں وہ اس کے پاس ہی نہ آیا ہو۔ اسے کچھ پریشانی ہونے لگی، لیکن اسے ابھی بھی یقین تھا سالار اس چیز کو بہت بڑا ایشو نہیں بنائے گا۔
پارٹی کے ختم ہونے پر میزبانوں سے رخصت ہوکر وہ ہوٹل کی لابی کے دروازے پر اپنی کار کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ امامہ نے ایک بار پھر اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔ اس کا چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا، جتنا پہلے تھا، لیکن اس کی خاموشی اور سنجیدگی بے حد معنی خیز تھی۔ امامہ نے بات کا آغاز کرنے کا سوچا اور تب ہی ہوٹل کا ایک ملازم ان کی گاڑی ڈرائیو وے میں لے آیا تھا۔ سالار اسے مخاطب کئے بغیر باہر نکل گیا۔ اسے اب شبہ نہیں رہا تھا کہ اس کی اچانک خاموشی اور بے اعتنائی کی وجہ کیا تھی۔
گاڑی میں بیٹھے ہوئے بھی اس کی خاموشی اسی طرح تھی۔ گاڑی کے مین روڈ پر آنے کے چند منٹوں کے بعد امامہ نے اس طویل خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔
’’تم ناراض ہو مجھ سے؟‘‘
“Will you please shut up?”وہ فریز ہوگئی تھی۔
’’میں اس وقت گاڑی ڈرائیو کرنا چاہتا ہوں، تمہاری بکواس سننا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ اس پر چلایا نہیں تھا، لیکن جو کچھ اس کی نظروں اور اس کے ٹھنڈے لہجے میں تھا، وہ امامہ کو مارنے کے لئے کافی تھا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ بات اتنی معمولی نہیں، جتنی وہ سمجھ رہی تھی۔ وہ اسے دوبارہ مخاطب کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ اتنے مہینوں میں اس نے پہلی بار اسے اندھا دھند گاڑی ڈرائیو کرتے دیکھا تھا۔