آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

پارکنگ سے گاڑی نکالنے کے بعد اسے یک دم احساس ہوا کہ وہ گھر نہیں جانا چاہتی ، پھر اسے وہ ساری چیزیں یاد آنے لگیں، جنہیں وہ خریدنے کے لئے آئی تھی لیکن اب وہ دوبارہ کہیں گروسری کے لئے جانے کے موڈ میں نہیں تھی۔بے مقصد دوپہر میں سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے ، اسے خود اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ کہاں جارہی ہے۔ اس کا خیال تھا اس نے کچھ غلط ٹرن لئے تھے اور وہ راستہ بھول گئی ہے۔ بہت دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ لاشعوری طور پر اس روڈ پر جارہی تھی، جس طرف سالار کا آفس تھا۔ یہ بے حد احمقانہ حرکت تھی۔ وہ مال روڈ پر تھی اور اب ون وے کی وجہ سے واپس نہیں پلٹ سکتی تھی۔ جب تک وہ یوٹرن لیتی، تب تک وہ اس کے آفس کو کراس کرچکی ہوتی۔ ایک سگنل پر ایک لمبے چوڑے ٹریفک جام میں پھنسے، اسے وہ سڑک اور اپنی زندگی،ایک جتنا لمبے لگے تھے۔وہ ڈیڑھ گھنٹے پہلے سالار کے ساتھ خوش تھی، لیکن اب وہ خوش نہیں تھی۔
اے سی کی کولنگ یک دم خراب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اس نے اے سی بند کردیا، وہ کچھ دیر اپنی زندگی میں ’’گرمی‘‘ ہی چاہتی تھی۔ جلال انصر جیسے اس کے جسم کا وہ زخم تھا جو ہر بار ہاتھ لگنے سے رسنے لگتا تھا اور ہر باری اس کا یہ وہم باطل ہوجاتا تھا کہ وہ ’’زخم‘‘ بھر گیا ہے۔
گاڑی بند ہوگئی اور سگنل کھل گیا تھا۔ بے تحاشہ ہارن کی آوازوں پر اس نے چونک کر گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی۔ وہ ناکام رہی اور بری طرح نروس ہوئی۔ گاڑی کوشش کے باوجود اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی۔ وہ ایکسپرٹ ڈرائیور نہیں تھی اور اپنے پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار کے ہارن کسی بھی ایکسپرٹ ڈرائیور کو اسی طرح بوکھلادیتے ۔ ایک ٹریفک وارڈن اس کے قریب آگیا۔
’’گاڑی خراب ہوگئی ہے، اسٹارٹ نہیں ہورہی۔‘‘ امامہ نے اس سے کہا۔
’’پھر لفٹر سے اسے ہٹانا پڑے گا، ورنہ ٹریفک جام ہوجائے گا۔‘‘ اس نے اسے بتایا۔





سگنل تب تک دوبارہ بند ہوچکا تھا۔ وہ وائر لیس پر لفٹر کو بلانے لگا اور بے حد ہڑبڑائے ہوئے انداز میں گاڑی کو اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگی، وہ ناکام رہی تھی۔ لفٹر آنے پر وہ گاڑی سے باہر نکل آئی۔ لفٹر میں بیٹھا آدمی اس کو قریبی پارکنگ میںپہنچانے کے بارے میں اسے بتاتے ہوئے کسی رکشہ یا ٹیکسی میں اسے وہاں تک جانے کاکہہ کر غائب ہوگیا۔ مال روڈ پر اس ٹریفک کے درمیان اسے کوئی رکشہ یا ٹیکسی نہیں مل سکتی تھی۔ ہاں، واحد کام جو وہ کرسکتی تھی،وہ سڑک کر اس کرکے کچھ فاصلے پر سالار کے آفس تک جانا تھا۔ اسی خالی الذہنی کے عالم میں مال روڈ عبور کرکے اس نے سیل نکال کر سالار کو فون کرنا شروع کردیا۔ سالار کا فون آف تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے اس کے آفس ہی جانا تھا۔ چند منٹ اور چلنے کے بعد اس کے جوتے کا اسٹریپ نکل گیا۔ آج برا دن نہیں تھا ۔ پسینے سے شرابو ر ٹوٹے ہوئے جوتے کے ساتھ وہاں کھڑے اس نے ایک بار پھر کسی رکشہ یاٹیکسی کو ڈھونڈا۔ وہ اس ٹوٹے ہوئے جوتے کے ساتھ اس کے آفس نہیں جانا چاہتی تھی، لیکن فی الحال اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا تھا۔ اسے اپنی حالت پر رونا آنے لگا تھا لیکن اس رونے کا تعلق اس کی اس حالت سے زیادہ اس کی ذہنی کیفیت سے تھا۔ وہ اس وقت کچھ ایسی ہی دلبرداشتہ تھی۔
اس کے بینک کی اس شاندار عمارت کے سامنے جوتا گھسیٹتے ، وہ ایک لمحہ کے لئے ہچکچائی، لیکن پھر اس کے ذہن میں آیا کہ وہ سیدھی اس کے آفس چلی جائے۔
گارڈ ز کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس نے ان کی آنکھوں میں اتنی حیرانی اور بے یقینی دیکھی تھی کہ اس کی عزت نفس میں کچھ اور کمی آئی تھی، لیکن مین ریسیپشن میں داخل ہوتے ہی اس کی عزت نفس مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی۔ شاندار انٹیرئیر والا وسیع و عریض ماربلڈ ہال اس وقت سوٹڈبوٹڈ کا رپوریٹ کلائنٹس سے بھرا ہوا تھا۔ آفس کا یہ لے آؤٹ کبھی اس کے تصور میں آجاتا تو وہ وہاں کبھی نہ آتی لیکن اب وہ آچکی تھی۔ ٹوٹی ہوئی چپل فرش پر گھسیٹتے ہوئے سے اپنا آپ واقعی معذور لگ رہا تھا۔ ریسیپشن کاؤنٹر پر اس نے سالار سکندر سے اپنا رشتہ ظاہرکرنے کی حماقت نہیں کی تھی۔
’’مجھے سالار سکندر سے ملنا ہے۔‘‘
اس نے ریسیپشنسٹ سے پوچھنے پر کہا۔ پہلے اگر پسینہ تپتی دھوپ کی وجہ سے آرہا تھا تو اب یہاں اس ماحول کی وجہ سے اسے ٹھنڈا پسینہ آرہا تھا۔
’’کیا آپ نے اپوائنٹ منٹ لیا ہے میڈم!‘‘
ریسیپشنسٹ نے بے حد پروفیشنل انداز میں مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔ اس کا ذہن ایک لمحہ کے لئے بلینک ہوگیا۔
’’اپوائنٹ منٹ۔‘‘ وہ حیران ہوئی تھی۔ اس نے جواب دینے کے بجائے ہاتھ میں پکڑے سیل پر ایک بار پھر اس کا نمبر ڈائل کیا۔ اس بار کال ریسیو نہیں ہوئی تھی لیکن بیل بجی تھی۔
’’میں اس کی دوست ہوں۔‘‘ اس نے کال ختم کرتے ہوئے بے ربطی سے کہا۔
’’ابھی وہ ایک میٹنگ میں ہیں، انہیں تھوڑی دیر میں انفارم کردیتی ہوں۔ آپ کا نام؟‘‘
ریسیپشنسٹ نے کہا۔
’’امامہ۔‘‘ وہ اپنا نام بتاکر ہال میں پڑے صوفوں میں سے ایک صوفے پر جاکر بیٹھ گئی۔
اسے تقریباً پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے اسے یہ لمحے بہت طویل لگے تھے۔
پندرہ منٹ بعد اس نے چند افراد کے ساتھ سالار کو بات چیت کرتے ریسیپشن پہ نمودار ہوتے دیکھا۔ وہ اس سے کافی فاصلے پر تھا اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائے بغیر، وہ ان لوگوں کے ہمراہ ریسیپشن کی اینٹرنس تک گیا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ کو خدشہ ہوا کہ وہ کہیں ان کے ساتھ باہر نہ نکل جائے، لیکن دروازے سے کچھ پہلے ان لوگوں سے ہاتھ ملانے لگا تھا۔ وہ انہیں چھوڑنے کے لئے وہاں آیا تھا۔
چند منٹ دروازے پر ان لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد وہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا دوبارہ واپس جانے لگا، ریسیپشنسٹ نے اسے روکا۔ اس نے یقیناً دور صوفے سے کھڑی ہوتی امامہ کو دیکھ لیا تھا ورنہ وہ سالار کو کبھی وہاں روک کر اس کے کسی وزیٹر کے بارے میں انفارم نہ کرتی۔ امامہ نے سالار کو ریسیپشنسٹ کی بات سنتے اور پھر ٹھٹکتے دیکھا، وہ اپنی ایڑیوں پر گھوم گیا تھا۔ وہ بہت فاصلے پر تھی، لیکن اتنے فاصلے پر نہیں تھی کہ وہ اسے دیکھ یا پہچان نہ پاتا۔ اسے سالار کے چہرے پر اتنی دور سے بھی حیرت نظرآئی، پھر وہ مسکرایا تھا۔ اس نے پلٹ کر ریسیپشن سے یقیناً اس کا تعارف کروایا، پھر وہ رکے بغیر اس کی طرف بڑھ آیا۔ اگر وہ اس سیگھر میں سامنا کررہی ہوتی تو اس وقت وہ سالار سے لپٹ کر بچوں کی طرح رو رہی ہوتی، وہ کچھ ایسی ہی ذہنی حالت میں تھی لیکن وہ یہاںیہ نہیں کرسکتی تھی۔
“What a pleasant surprise.”
اس نے قریب آتے ہوئے کہا۔وہ ے حد خوشگوار موڈ میں تھا۔
’’میرا جوتا ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ اس نے بے ربطی سے جواب دیا۔ اس نے سالار سے نظریں ملائے بغیر سرجھکاتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کی آنکھیں پڑھے کیوں کہ وہ جانتی تھی، وہ اس کی آنکھوں کو کھلی کتاب کی طرح پڑھ سکتا تھا۔
’’سامنے سگنل پر میری گاڑی خراب ہوگئی… اور لفٹر اسے کہیں لے گیا ہے… اور یہاں تمہارا آفس تھا تو میں آگئی… لیکن شاید نہیں آنا چاہیے تھا کیوں کہ تم مصروف ہو… بس تم مجھے گھر بھجوادو…‘‘ اس نے جواباً ایک کے بعد ایک مسئلہ بتاتے ہوئے، اسے بے حد بے ڈھنگے انداز میں کہا۔
’’نوپرابلم…‘‘ سالار نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔
’’سوری میم آپ مجھے اپنا تعارف کرادیتیں تو میں آپ کو آفس میں بٹھا دیتی۔‘‘
ڈیسک پر بیٹھی لڑکی نے اس کے قریب آکر معذرت کی تھی۔
’’اٹس اوکے۔ کسی کو بھیج کر یہاں قریب کسی شو اسٹور سے اس سائزہ کا جوتا منگوائیں۔‘‘
اس نے اس لڑکی سے کہا اور پھر اگلا جملہ امامہ سے کہا۔
’’امامہ، یہ ٹوٹا ہوا جوتا اتاردو۔‘‘
’’اتاردوں؟‘‘ وہ ہچکچائی۔
’’ہاں… کوئی حرج نہیں… میرے باتھ روم میں وضو کے لئے سلیپرز ہیں، وہ پہن کر پاؤں دھولینا تب تک نیا جوتا آجائے گاتمہارے لئے… اور کس سگنل سے گاڑی لے کر گئے ہیں؟‘‘
امامہ نے اسے اندازے سے بتایا۔
اس نے ڈیسک سے آنے والی لڑکی کو گاڑی کا نمبر بتاتے ہوئے کچھ ہدایات دیں۔ وہ تب تک ٹوٹے ہوئے جوتے سے اپنا پاؤں نکال چکی تھی۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے، وہ اسے وہاں سے لے آیا۔ اپنے ہاتھ پر اس کی گرفت سے امامہ نے محسوس کیا کہ اسے اس وقت اس سہارے کی بے حد ضرورت تھی۔ ایک پاؤں میں جوتا نہ ہونے کے باوجود، وہ بڑی سہولت سے چلتے ہوئے اس کے آفس میں آگئی تھی۔ وہ راستے میں ملنے والے افراد سے اسی ریلیکسڈ اور عام انداز میں اسے متعارف کرواتا کوریڈور سے اپنے آفس آگیا تھا۔
’’ویسے تم اس طرف آکیسے گئیں؟‘‘ اپنے آفس کا دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے امامہ سے پوچھا۔
’’میں…‘‘ اسے کوئی بہانہ یا د نہیں آیا۔ اس کا ذہن اس وقت کچھ اتنا ہی خالی ہورہا تھا۔ سالار چند لمحے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے بات بدل دی۔
’’تم کھڑی کیوںہو بیٹھ جاؤ۔‘‘ اپنے ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے اس نے انٹر کام کا ریسیور اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔
اس کے سائیڈ ڈیسک پر رکھی اپنی ایک فریمڈ تصویرسے نظریں ہٹاتے ہوئے ، وہ کمرے کے ایک کونے میں پڑے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ وہ انٹر کام پر اس کے لئے کوئی جوس لانے کا کہہ رہا تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے اپنا سیل فون اٹھا کر کال ریسیو کی، چند لمحے وہ فون پر بات کرتا رہا، پھر اس نے امامہ سے کہا۔ ’’امامہ! تمہارا کریڈٹ کارڈ کہاں ہے؟‘‘
وہ اس کے سوال پر چونک گئی۔ اس کے پاس ایک سپلیمنٹری کارڈ تھا۔
’’میرے بیگ میں۔‘‘
’’ذرا چیک کرو۔‘‘ اس نے بیگ سے والٹ نکالا اور پھر باری باری اس کے تمام حصے چیک کئے۔ وہاں کارڈ نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے۔
’’اس میں نہیں ہے۔‘‘ اس نے اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ سالار سے کہا۔
اس نے جواب دینے کے بجائے فون پر کہا۔
’’بالکل، میری بیوی چھوڑ آئی تھیں وہاں… میں منگوالیتا ہوں… تھینک یو۔‘‘ اس نے فون بند کردیا۔امامہ کی جیسے جان میں جان آئی۔
’’کہاں ہے کارڈ؟‘‘ امامہ نے پوچھا۔
’’کہاں شاپنگ کی ہے تم نے؟‘‘ سالار نے اس کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔
اسے ڈیپارٹمنٹل اسٹور یاد آیا۔
’’وہاں چھوڑ دیا تھا میں نے؟‘‘ اسے جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
’’ہاں، اسٹور کے مینیجر نے ہیلپ لائن کو انفارم کیا۔ وہ تمہارے سیل پر ٹرائی کرتے رہے لیکن تم نے کال ریسیو نہیں کی، اب انہوں نے مجھے کال کیا ہے۔‘‘
وہ بیگ سے اپنا سیل نکال کر دیکھنے لگی۔ اس پر واقعی بہت ساری مسڈ کالز تھیں، لیکن یہ کب آئی تھیں…؟ شاید جب وہ ریسیپشن میں بیٹھی اپنی سوچوں میں غرق تھی۔
ایک آدمی ایک ٹرے میں پانی اور جوس کا گلاس لے کر آگیا۔ اسے اس وقت اس کی شدید ضرروت محسوس ہورہی تھی۔ پیاس کی وجہ سے نہیں بلکہ شرمندگی کی وجہ سے۔
سالار دوسرے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ اس دوران انٹر کام دوبارہ بجا اور وہ اٹھ کر گیا۔ گاڑی کا پتا چل گیا تھا۔
’’امامہ، گاڑی کے پیپرز کہاں ہیں؟‘‘ اس نے ایک بار پھر فون ہولڈ پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔ امامہ کو اپنی اگلی حماقت یاد آئی، پیپرز گاڑی میں ہی تھے۔ وہ پیپرز اور لائسنس دونوں وہاں چھوڑ کر آئی تھی۔ اس برانڈ نیو گاڑی پر اگر کوئی ہاتھ صاف کرتا تو اس خوش قسمت کو گاڑی کے ساتھ یہ دونوں چیزیںبھی انعام میں ملتیں، کیوں کہ لفٹر اسے مطلوبہ پارکنگ میں چھوڑ کر وہاں سے جاچکا تھا۔ اس پر اسٹکر لگا ہوتا تو شاید وہ اسے کہیں اور لے کر جاتا، لیکن اب وہ اسے قریبی پارکنگ میں چھوڑ گئے تھے، کیوں کہ ان کا خیال تھا مالک گاڑی کے پیچھے آرہا ہوگا۔
جوس یک دم اس کے حلق میں اٹکنے لگاتھا۔
’’گاڑی میں۔‘‘ اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔ جواباً اسے ملامت نہیں کی گئی، جس کی وہ توقع کررہی تھی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!