آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

’’ہاں۔‘‘
’’اچھا، میں اسے بتاتا ہوں۔‘‘ سالار نے سیل فون بند کردیا۔
’’ڈرائیور تمہیں چھوڑ آتا ہے، تم پیکنگ کرکے جاسکتی ہو، لیکن مجھے کبھی یہ دھمکی مت دینا کہ تم گھر چھوڑ کر چلی جاؤگی، جو کچھ تم میرے گھر میں بیٹھ کر کررہی ہو ، بہتر ہے تم یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘ وہ اٹھ کر بیڈ روم میں چلا گیاتھا۔
وہ بت کی طرح وہیں بیٹھی رہی۔ اس نے اسے دھکے دے کر گھر سے نہیں نکالا تھا، لیکن وہ یہی محسوس کررہی تھی۔ چند منٹ وہ وہیں بیٹھی رہی پھر وہ یک دم اٹھ کر اپارٹمنٹ سے باہر نکل آئی۔ لفٹ میں اس نے اپنے دوپٹے سے بھیگی آنکھوں اور چہرے کو رگڑ کر خشک کرنے کی کوشش کی۔ وہ ڈرائیور کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی۔
’’مجھے سعیدہ اماں کی طرف چھوڑ دو۔‘‘ اس کے نیچے پہنچنے تک ڈرائیور فرقان کی گاڑی نکالے ہوئے تھا۔ اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اسے کہا۔
رات کے سوا گیارہ بجے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر وہ پورے راستے آنسو بہاتی اور آنکھوں کو رگڑتی رہی۔ اس نے زندگی میں اسی بے عزتی کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اسے ایک بار پھر اپنے ماں باپ بری طرح یاد آرہے تھے۔
سعیدہ اماں نے نیند سے اٹھ کر دروازہ کھولا اور اسے دروازے پر دیکھ کر وہ بری طرح پریشان ہوئی تھیں، مگر اس سے زیادہ وہ پریشان وہ اسے اندر آکر بلک بلک کر روتے دیکھ کر ہوئی تھیں۔
’’سالار نے گھر سے نکال دیا؟‘ ‘ وہ سن کر حواس باختہ ہوگئی تھیں۔ وجہ کیا تھی، وہ سعید ہ اماں کو تو کیا، کسی کو بھی نہیں بتاسکتی تھی۔
’’بھائی جان کو فون ملا کر دو، میں ان سے بات کرتی ہوں، ایسے کیسے گھر سے نکال سکتا ہے وہ۔‘‘
سعیدہ اماں کو غصہ آنے لگا تھا۔
اس نے ان کے اصرار کے باوجود آدھی رات کو ڈاکٹر سبط علی کو فون نہیں کیا۔ یہ مصیبت اس کی تھی، وہ اس کے لئے لوگوں کی نیندیں خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ خود پچھلی رات نہیں سوئی اور اب اسی طرح روتے ہوئے اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد وہ سونے کے لئے لیٹ گئی۔ نیند مشکل سے آئی تھی، لیکن آگئی تھی۔
دوبارہ اس کی آنکھ دوپہر کو کھلی اور آنکھ کھلنے پر اسے یہ سب کچھ بھیانک خواب کی طرح لگا تھا۔
’’سالار نے کوئی فون تو نہیں کیا؟‘‘ اس نے سعیدہ اماں کے کمرے میں آنے پر پوچھا۔





’’نہیں، تم نہالو میں کھانا لگارہی ہوں، پھر بھائی صاحب کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ سعیدہ اماں کہہ کر کمرے سے نکل گئیں۔ پتا نہیں اسے کیوں امید تھی کہ وہ اب پچھتا رہا ہوگا، شاید اس کے چلے جانے کے بعد اسے احساس ہوگیا ہوگا کہ اس نے زیادتی کی ہے۔ بارہ گھنٹے غصہ ختم ہونے کے لئے کافی تھے، اگر یہ سب کچھ اس نے غصے میں کیا تھا تو۔
اس نے بوجھل دل کے ساتھ شاور لیا اور سعیدہ اماں کے گھر پڑے ہوئے اپنے کپڑوں میں سے ایک جوڑا نکال کر پہن لیا۔ وہ پچھلے کئی مہینوں سے اتنے قیمتی کپڑے پہننے کی عادی ہوگئی تھی کہ اپنے جسم پر وہ جوڑا اسے خود ہی عجیب سا لگ رہا تھا۔ اسے بہت بھوک لگ رہی تھی لیکن کھانے کے دو لقمے لیتے ہی اس کی بھوک مر گئی۔ سعیدہ اماں نے زبردستی اسے کھانا کھلایا۔ وہ کھانے کے فوراً بعد ڈاکٹر صاحب کی طرف جانا چاہتی تھیں لیکن امامہ ڈاکٹر صاحب کو ان کے آفس فون پر اس طرح کی گفتگو سے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سالار ہفتے میں دو دن ڈاکٹر صاحب کے پاس رات میں جایا کرتا تھا اور آج بھی وہی دن تھا جب اسے وہاں جانا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اس کے بارے میں جو کہنا چاہتا ہے، اس سے پہلے ہی کہہ دے۔ کم از کم اسے بیٹھے بٹھائے شرمندگی کا وہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے جو اس سارے معاملے کے بارے میں انہیں بتاکر اسے اٹھانا پڑتا، لیکن سعیدہ اماں اس پر تیار نہیں تھیں۔ وہ زبردستی اسے ساتھ لے کر ڈاکٹر صاحب کے گھر آگئی تھیں۔ کلوثم آنٹی سب کچھ سن کر سعیدہ اماں کی طرح حواس باختہ ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب ابھی آفس سے نہیں آئے تھے۔
’’لیکن بیٹا جھگڑا کس بات پر ہوا؟‘‘ امامہ کے پاس اس ایک سوال کا جواب نہیں تھا۔
سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی کے ہر بار پوچھنے پر اسے احساس ہوتا کہ اس سوال کا جواب اس کی نیت صاف ہونے کے باوجوداس کو مجرم بنارہا تھا۔ اگر وہ سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی کو یہ بتاتی کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ کھانے پر گئی تھی یا کسی پرانے کلاس فیلو کے ساتھ تھی تو دونوں صورتوں میں وہ کبھی بھی اچھے ردِ عمل کا اظہار نہ کرتیں۔ وہ یہ سب کچھ ڈاکٹر صاحب کو بھی نہیں بتاسکتی تھی جو گھر آتے ہی اسے اس طرح دیکھ کر پریشان ہوئے تھے۔
’’اسے میرے کریکٹر پر شک ہے۔‘‘ اس نے ان کے بار بار پوچھنے پر سرجھکائے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر سبط علی کو جیسے شاک لگا تھا۔ سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی بھی بول نہیں سکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے بعد اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
’’وہ رات کو آئے گاتو میں اس سے بات کروں گا۔ پریشانی کی بات نہیں ہے… ٹھیک ہوجائے گا سب کچھ۔‘‘ انہوں نے امامہ کو تسلی دی۔
’’میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ میں جاب کرلوں گی، لیکن میں اب اس کے گھر نہیں جاؤں گی۔‘‘
ڈاکٹر سبط علی نے اس کی کسی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ اب بھی جیسے شاک میں تھے۔ سالار سکندر کے بارے میں جو تاثر وہ آج تک بنائے بیٹھے تھے، وہ بری طرح مسخ ہوا تھا۔ وہ خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے تھے کہ یہ سب کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوسکتا ہے، ورنہ سالار اس لڑکی کو آدھی رات کو اپنے گھر سے اس طرح کے الزام لگا کر خالی ہاتھ نہیں نکال سکتا تھا، جسے وہ اپنی بیٹی کہتے تھے۔
فرقان اس رات اکیلا آیا، سالار اس کے ساتھ نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے لیکچر کے بعد اسے روک لیا اور سالار کے بارے میں پوچھا۔
’’وہ کچھ مصروف تھا اس لئے نہیں آسکا۔‘‘ فرقان نے اطمینان سے کہا۔
’’آپ کو اس نے بتایا ہے کہ اس نے امامہ کو گھر سے نکال دیا ہے۔‘‘ فرقان چند لمحے بول نہیں سکاو۔
’’امامہ کو؟‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا۔
’’آپ کے ڈرائیور کے ذریعے ہی اس نے امامہ کو کل سعیدہ بہن کے گھر بھجوایا تھا۔‘‘
فرقان کو پچھلی رات سالار کی کال یاد آگئی۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا… کیسے…؟ مطلب…‘‘
فرقان کا دماغ واقعی چکر اگیا تھا۔ سالار، امامہ پر جس طرح جان چھڑکتا تھا، کم از کم اس کے لئے یہ بات ماننا ممکن نہیں تھا کہ وہ اسے گھر سے نکال سکتا ہے اور وہ بھی اس طرح آدھی رات کو۔ وہ اسے کل جم میں بہت خاموش سا لگا اور آج وہ جم میں آیا ہی نہیں تھا، لیکن اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ اس خاموشی کا کوئی تعلق امامہ سے ہوسکتا ہے۔
’’میں اسے بھی فون کرتا ہوں، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘
فرقان نے پریشان ہوتے ہوئے سالار کو اپنے سیل سے کال کی، سالار کا سیل آف تھا۔ اس نے دوبارہ گھر کے نمبر پر ٹرائی کیا، کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اس نے کچھ حیران ہوکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔
’’فون نہیں اٹھارہا… سیل آف ہے… میں گھر جاکر بات کرتا ہوں اس سے… آپ امامہ کو میرے ساتھ بھیج دیں۔‘‘ فرقان واقعی پریشان ہوگیا تھا۔
’’نہیں، امامہ آپ کے ساتھ نہیں جائے گی، اس نے نکالا ہے وہ معذرت کرکے خود لے کر جائے۔‘‘ ڈاکٹر سبط علی نے بے حد دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’آپ اسے جاکر میرا پیغام دے دیں۔‘‘ فرقان نے کبھی ڈاکٹر سبط علی کو اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
سالار نے بیل کی آواز کو چند بار نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر اسے اندازہ ہوگیا کہ فرقان جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور اس کا یہ ارادہ کیوں تھا، وہ جانتا تھا۔اس نے جاکر دروازہ کھولا اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آگیا۔
’’تم نے امامہ کو گھر سے نکال دیا ہے؟‘‘ فرقان نے اندر آتے ہوئے اپنے عقب میں دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے نہیں نکالا، وہ خود گھر چھوڑ کر گئی ہے۔‘‘
سالار نے پیچھے دیکھے بغیر اسٹڈی روم میں جاتے ہوئے کہا۔
’’مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ تم نے خود مجھے ڈرائیور کو بھیجنے کے لئے کہا تھا۔‘‘
فرقان اس کے پیچھے اسٹڈی روم میں آگیا۔
’’ہاں، کہا تھا کیوں کہ اس نے مجھے گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی تو میں نے کہا ٹھیک ہے، تمہیں کل جانا ہے، تم آج چلی جاؤ، لیکن میں نے اسے نہیں نکالا۔‘‘
اس نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا۔
’’بیویاں گھر چھوڑنے کی دھمکیاں دیتی ہی رہتی ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں اس طرح گھر سے نکال دو۔‘‘ فرقان نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’دیتی ہوں گی، But she dare not do that to me۔‘‘ اس نے فرقان کی بات کاٹ کر کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب کتنے پریشان ہیں، تمہیں اس کا اندازہ ہے؟‘‘
’’یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے وہ ڈاکٹر صاحب کو درمیان میں کیوں لے کر آئی ہے؟‘‘ وہ سلگا تھا۔
’’وہ کیسے نہ لے کر آتی، تم اسے گھر سے نکالو گے اور ڈاکٹر صاحب کو پتا نہیں چلے گا؟‘‘
’’وہ چاہتی تو نہ پتا چلتا، اگر اتنی جرأت تھی کہ گھر سے چلی گئی تو پھر اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ منہ بند رکھتی۔‘‘
’’تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کس بات پر جھگڑا ہوا ہے تم دونوں کا؟‘‘
’’بس، ہوگیا کسی بات پر۔‘‘ وہ کم از کم وجہ بتانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ فرقان آدھے گھنٹے کے سوال و جواب اور بحث کے باوجود اس سے وجہ نہیں پوچھ سکا تھا، پھر جیسے اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے، جو ہوگیا سو ہوگیا… اب تم اسے لے آؤ۔‘‘
’’یہ میں نہیں کروں گا۔ نہ میں نے اسے نکالا ہے، نہ میں اسے لے کر آؤں گا۔ وہ خودآنا چاہتی ہے تو آجائے۔‘‘ اس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
’’اور ڈاکٹر صاحب یہ سب نہیں ہونے دیں گے۔ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے یا تم نے اسے نکالا ہے، ڈاکٹر صاحب کا پیغام یہی ہے کہ تم جاکر معذرت کرکے اسے لے کر آؤ۔‘‘ سالار خاموش رہا۔
’’میرے ساتھ چلو، ابھی اسے لے آتے ہیں۔‘‘
’’میں نہیں جاؤں گا، ڈاکٹر صاحب سے میں خود بات کرلوں گا۔‘‘
’’ابھی کرو بات۔‘‘
’’میں ابھی بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں، وہ کچھ دن وہاں رہے، یہ اس کے لئے اچھا ہوگا۔‘‘
فرقان اگلے دو گھنٹے وہیں بیٹھا اسے سمجھاتا رہا، لیکن وہ اس کے انکار کو اقرار میں بدل نہیں سکا۔ وہ بے حد ناخوش سالار کے اپارٹمنٹ سے گیا اور اس کی خفگی نے سالار کی فرسٹریشن میں اضافہ کیا۔
اس نے فرقان سے غلط نہیں کہاتھا۔ وہ واقعی امامہ کو گھر سے بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ اس نے اسے دھمکانے کی کوشش کی تھی اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ واقعی اٹھ کر چلی جائے گی۔ اس کے اس طرح چلے جانے سے سالار کے اشتعال میں اضافہ ہوا۔ اس سے شادی کے بعد وہ پہلی بار ضد میں آیا تھا اور یہ صحیح تھا یا غلط، ایک مرد کی طرح اب اسے اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ فرسٹریٹڈ تھا، اپ سیٹ تھا، لیکن اب ہار ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

Read Next

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!