وہ عید کے دوسرے دن رات کی فلائٹ سے واپس لاہور آگئی تھی کیوں کہ اگلی رات آٹھ بجے کی فلائٹ سے وہ واپس آرہا تھا۔ وہ زود رنجی اور حساسیت جو پچھلے چار ہفتوں سے اسے ناخوش رکھے ہوئے تھی، وہ یک دم جیسے کہیں غائب ہوگئی تھی۔
اور چار ہفتے کے بعد بالآخر اس نے کیک کا وہ ٹکڑا اور وہ کین ڈسپوز آف کردیئے۔
اگر فرقان کو سیدھا ہاسپٹل سے ائیر پورٹ نہ جانا ہوتا تو وہ خود اسے ریسیو کرنے چلی جاتی، وہ کچھ اتنی ہی ایکسائیٹڈ ہورہی تھی۔
نو بج کر پینتالیس منٹ پر بالآخر ڈور بیل بجی، اسے دروازے تک پہنچنے میں سیکنڈز لگے تھے۔
’’خدایا! کیا خوشی اس کو کہتے ہیں جو اس شخص کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے میں نے محسوس کی ہے؟‘‘
اس نے دروازہ کھول کر ڈور ہینڈل پر اپنا کپکپاتا ہاتھ رکھے سالار کو دیکھ کر اچنبھے سے سوچا تھا۔
فرقان سے باتیں کرتا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھا ہوا اور ان دونوں کی نظریں ملیں۔ وہی گرم جوش مسکراہٹ، جس کی وہ عادی تھی اور ہمیشہ کی طرح سلام میں بھی پہل اسی نے کی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی چند لمحوں کے لئے جیسے ساکت ہوگئی تھی۔
’’امامہ! سامان کی ڈلیوری دینے آیا ہوں، چیک کر لو کوئیbreakage یا damageتونہیں ہے۔‘‘ فرقان نے ایک سوٹ کیس کھینچ کر اندر لے جاتے ہوئے اس کو چھیڑا۔ سالار مسکرایا۔
امامہ نے سلام کا جواب دینے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کے گلے میں کوئی گرہ لگنے لگی تھی۔ بات گلے کی گرہ تک رہتی تو ٹھیک تھی، لیکن آنکھوں میں پانی کیسے اور کیوں آگیا تھا؟ وہ آگے بڑھا اور اس نے ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگایا، جیسے وہ آفس سے آنے کے بعد لگایا کرتا تھا۔ بے اختیار،بے ساختہ آنسوؤں کا ایک اور ریلا آیا۔ یہی چیز تو وہ ڈھونڈ تی پھر رہی تھی، پچھلے چار ہفتوں سے یہی نرم لمس، اپنے گرد بازوؤں کا یہی حصار۔ اس کے ساتھ لگے اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس کے جسم سے اٹھتی کلون کی مہک، ڈریسنگ ٹیبل پر کلون کی شیشی سے اٹھتی مہک سے بالکل الگ تھی۔ وہ اس کے جسم پر لگنے کے بعد زیادہ مسحور کن تھی، زیادہ جان لیو اتھی۔
’’کیسی ہو تم؟‘‘ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ گلے کی گرہیں اور بڑھ گئیں تھیں۔ اس نے اب اسے خود سے الگ کیا اور اس کا چہرہ اور آنسو دیکھے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ ٹھٹکا اور سوٹ کیس اندر لے جاتے ہوئے فرقان نے پلٹ کر دیکھا۔
’’میں ابھی… ابھی سلاد کے لئے پیاز کاٹ رہی تھی۔‘‘ اس نے کچھ گھبراہٹ میں مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ پھر شاید اسے خود ہی یہ بہانہ کمزور لگا۔ ’’وہ سر میں بھی کچھ درد تھا… اور فلو تھا۔‘‘ وہ فرقان کی مسکراتی ہوئی نظروں سے کچھ گڑبڑائی تھی۔
سالار نے فرقان کو نظر انداز کیا اور اسے ایک بار پھر ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’’تو یار! کوئی میڈیسن لینی چاہیے تھی۔‘‘
’’کوکنگ رینج پر کچھ رکھ کر آئی ہوں۔‘‘ وہ رکے بغیر کچن میں چلی آئی۔
اس کے سامنے کھڑے رہ کر، اس سے نظریں ملاکر، جھوٹ بولنا بڑا مشکل ہوگیا تھا۔ سنک میں چہرے پر پانی کے چھپاکے مارنے کے بعد اس نے کچھ پانی پیا۔ آواز کی تھرتھراہٹ صرف اسی طرح ختم ہوسکتی تھی۔ وہ دونوں اب اس کے عقب، لاؤنج میں، کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑے باتیں کررہے تھے اور ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اپنا چہرہ کچن رول سے تھپتھپا کر اس نے چند گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کیا۔
’’بیٹھو! کھانا کھا کر جاؤنا۔‘‘ وہ جب لاؤنج میں آئی تو سالار، فرقان سے کہہ رہا تھا۔
’’نہیں، اس وقت نہیں، کھانے پر انتظار کررہے ہوں گے بچے۔ کچھ دنوں کے بعد چلیں گے کہیں ڈنر کے لئے…‘‘ وہ بیرونی دروازہ کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ سالار دروازے تک اسے چھوڑنے گیا۔ وہ کچن میں آکر کھانے برتن نکالنے لگی۔
وہ دروازے سے واپسی پرکچن میں سیل فون پر بات کرتے ہوئے آیا تھا، فون پر سکندر تھے۔ امامہ نے اسے کچن کاؤنٹر پر رکھی پانی کی بوتل کو کھولتے دیکھا۔ فون، کندھے اور کان کے بیچ دبائے اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا۔ امامہ نے اس کے گلاس کی طرف جانے سے پہلے، ایک گلاس لاکر اس کے سامنے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ سالار کے ہاتھ سے بوتل لے کر اس نے گلاس میں اس کے لئے پانی ڈالا۔ سالار نے سکندر سے بات کرتے ہوئے سرکے اشارے سے اس کاشکریہ ادا کیا اور پھر پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
’’پاپا، خیریت پوچھ رہے ہیں تمہاری۔‘‘
فریج کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ مسکرائی۔
’’میں اب ٹھیک ہوں۔‘‘ سالار نے اس کے جملے پر غور کئے بغیر سکندر تک اس کا جملہ پہنچادیا۔
کاؤنٹر پر پڑے سلاد میں سے سیب کا ایک ٹکڑا کانٹے سے اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے وہ اسی طرح فون پر سکندر سے بات کرتے ہوئے کچن سے نکلا۔ امامہ نے اسے ٹیرس کا دروازہ کھول کر ٹیرس کے پودوں پر نظر دوڑاتے دیکھا۔ ٹیبل پر برتن رکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی آنے لگی۔ ایک مہینہ کے بعد یہ جگہ اسے ’’گھر‘‘ لگی تھی اور اس کی وجہ گھر میں گونجتی وہ ’’آواز‘‘ اور اِدھر سے اُدھر جاتا اس کا وجود تھا۔ برتن رکھنے کے باوجود جیسے بے اختیاری کے عالم میں ٹیبل کے پاس کھڑی، فون کان سے لگائے، سالار کو ٹیرس پر اِدھر سے اُدھر ٹہلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ بات محبت کی نہیں، عادت کی تھی۔ اسے اس کی عادت ہوگئی تھی اور عادت بعض دفعہ محبت سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
اسے اچانک خیال آیا کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے کپڑے تبدیل کرے گا۔ بیڈروم میں جاکر وہ اس کے لئے کپڑے نکال کر واش روم میں لٹکا کر آئی۔
وہ واش روم سے نکل رہی تھی، جب وہ بیڈروم میں داخل ہوا۔
’’میں شاور لے کر کھانا کھاؤں گا۔‘‘ اس نے جیسے اعلان کیا تھا۔
وہ نہ بھی کہتا پھر بھی وہ جانتی تھی، وہ سفر سے واپسی پر ہمیشہ نہاکر ہی کھانا کھاتا تھا۔
’’میں نے تمہارے کپڑے اور ٹاولز رکھ دیئے ہیں اور یہ میں تمہارے لئے نئے سلیپرز لے کر آئی تھی۔‘‘ وہ سلیپرز کا ڈبا شوریک سے نکالتے ہوئے بولی۔
’’رہنے دو امامہ! میں خود ہی نکال لوں گا۔‘‘
رسٹ واچ اتارتے ہوئے اس نے امامہ کو منع کیا۔ اسے کبھی بھی کسی دوسرے کا اپنے جوتے اٹھانا پسند نہیں تھا، وہ جانتی تھی۔ لیکن اس کے منع کرنے کے باوجود وہ سلیپرز نکال لائی تھی۔
’’کچھ نہیںہوتا۔‘‘ اس نے سلیپرز اس کے پاس رکھ دیئے۔
وہ اب بیڈ پر بیٹھا اپنے جوتے اور جرابیں اتار رہا تھا اور وہ بے مقصد اس کے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ شادی کے اتنے مہینوں میں آج پہلی بار وہ اس طرح بے مقصد اس کے پاس کھڑی تھی۔ سالار نے کچھ حیرانی سے نوٹس کیا تھا۔
’’یہ yellow کپڑے تم نے میرے انتظار میں پہنے ہیں؟‘‘ اس نے جرابیں اتارتے ہوئے امامہ کو چھیڑا۔ وہ بے وجہ ہنسی۔ وہ مسٹرڈ کو yellow کہہ رہاتھا لیکن آج اس نے اس کی تصحیح نہیں کی اور اس نے آج بھی اس کی تعریف نہیں کی تھی، مگر اسے یہ بھی برا نہیںلگا تھا۔
’’نائس سلیپرز!‘‘ اپنی جرابیں اور جوتے اٹھاتے ہوئے اس نے سلیپرز پہنے اور امامہ سے کہا۔
’’میں رکھتی ہوں۔‘ ‘ امامہ نے جوتے اور جرابیں اس سے لینے کی کوشش کی۔
’’کیوں یار، پہلے کون رکھتا ہے؟‘‘ سالار نے کچھ حیرانی سے اسے روکا، امامہ رک گئی۔ واقعی وہ اپنے جوتے خود اٹھانے کا عادی تھا۔ جوتے شوریک میں رکھتے ہوئے اس نے لانڈری باسکٹ میں جرابیں ڈالیں اور واش روم میں گھس گیا۔
امامہ نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی اس کی رسٹ واچ اور سیل فون کودیکھا۔ ہر خالی جگہ بھرنے لگی تھی۔
وہ جب تک نہا کر آیا امامہ کھانا لگا چکی تھی۔ سالار نے ڈائننگ ٹیبل پر نظر ڈالتے ہی بے اختیار کہا۔
’’امامہ! کیا کیا پکا رکھا ہے یار!‘‘
’’جو ، جو تمہیں اچھا لگتا ہے۔‘‘ اس نے سادگی سے کہا۔
’’مجھے…؟‘‘ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے ٹیبل پر پھیلی ہوئی ڈشز دیکھ کر جیسے کسی سوچ میں پڑا۔
’’تم نے اپنا وقت ضائع کیا۔‘‘
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ پورے دن کی محنت پر، بولے جانے والے اس جملے پر بری طرح ناراض ہوتی لیکن آج اسے کچھ برا نہیں لگ رہا تھا۔ کسی بات پر غصہ نہیں آرہا تھا، وہ اتنی ہی سرشار تھی۔
’’میں نے اپنا وقت تمہارے لئے استعمال کیا۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں سالار کی تصحیح کی۔
’’لیکن تم تھک گئی ہوگی…؟‘‘
’’نہیں… کیوں تھکوں گی میں؟‘‘ اس نے چاولوں کی ڈش سالار کی طرف بڑھائی۔
سالار نے اس کی پلیٹ میں ہمیشہ کی طرح، پہلے چاول ڈالے۔ اپنی پلیٹ کے ایک کونے میں پڑے ان چاولوں کو دیکھ کر اس کا دل بھر آیا تھا۔ تو اتنے دنوں سے یہ ایک چیز تھی جو وہ مس کررہی تھی کھانے پر اور یہ ’’ایک‘‘ چیز نہیں تھی۔ وہ اب اپنی پلیٹ میں چاول ڈال رہا تھا۔ ایک مہینے کے بعد وہ اس کے اتنے قریب بیٹھی تھی۔ کھانا سرو کرتے اس کے ہاتھ دیکھ رہی تھی۔ سفید شرٹ کی آستینیں موڑے، اس کے ہاتھوں نے ہمیشہ کی طرح اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس کا دل بے اختیار اس کے ہاتھ چھونے کو چاہا، اس نے بہ مشکل نظر ہٹائی، خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس کے لئے یہ یک دم بہت مشکل ہورہا تھاکہ وہ اس کے قریب ہواور وہ صرف کھانے کی طرف متوجہ رہے۔
’’پینٹنگز مکمل ہوگئی ہیں تمہاری؟‘‘
وہ کھانا شروع کرتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔ امامہ نے چونک کر ٹیبل پر پڑا کانٹا اور چمچ اٹھایا۔
’’کون سی پینٹنگز؟‘‘ اس نے بے خیالی میں کہا، وہ ٹھٹکا۔
’’تم بنارہی تھیں نا،کچھ؟‘‘ اس نے یاد دلایا۔
’’یہ بھی لو۔‘‘ جواب دینے کے بجائے اس نے ایک اور ڈش اس کی طرف بڑھائی۔
’’ڈر تو نہیں لگا تمہیں، یہاں اکیلے رہتے ہوئے؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’کھانا اچھا ہے؟‘‘ امامہ نے ایک بار پھر جواب گول کیا۔ وہ مزید جھوٹ نہیں بول سکتی تھی، بالکل ویسے ہی جیسے وہ سچ نہیں بول سکتی تھی۔
’’ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’کتنے ناولز پڑھے تم نے؟‘‘ وہ اب پوچھ رہاتھا۔
’’یہ چوپس بھی ہیں۔‘‘ اس نے ایک اور ڈش سرو کی۔
’’تمہاری فلائٹ ٹھیک رہی ؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کوئی مشکل سوال کرتا، اس نے پوچھنا ضروری سمجھا تھا۔
’’ہاں! اوور آل ، کچھ bumpyرہی… لیکن ٹھیک ہی تھی۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’اور کانفرنس بھی اچھی رہی؟‘‘
’’Excellent!‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔
’’کیا روٹین تھی تمہاری؟‘‘ وہ اسے موضوع سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
’’میری روٹین…‘‘ وہ سوچ میں پڑی۔
’’ہاں! کیا کیا کرتی تھیں سارا دن ؟‘‘ وہ اب چپاتی کا ٹکڑا توڑتے ہوئے پوچھ رہاتھا۔
’’جو پہلے کیا کرتی تھی۔‘‘ اس نے نظریں چرا کر ایک اور ڈش اس کی طرف بڑھائی۔
’’لیکن تب تو بہت زیادہ وقت ہوتا ہوگا تمہارے پاس۔‘‘ اس نے کرید اتھا۔
’’بالکل ساری شام، ساری رات۔‘‘
’’پھر تو عیش ہوگئے ہوں گے تمہارے؟‘‘ اپنی پلیٹ میں قورمہ نکالتے ہوئے اس نے مسکر اکر کہا۔
امامہ نے جواب دینے کے بجائے اپنی پلیٹ کو دیکھا، جس میں چیزوں کا ڈھیر بالکل اسی طرح پڑا تھا۔ اس سے کچھ کھایا نہیں جارہا تھا۔ سالار کو اتنی رغبت کے ساتھ کھاتے دیکھ کر اسے یوں لگ رہاتھا، جیسے اس کا پیٹ بھر رہا ہو۔
’’تم سعیدہ اماں کویہاں لے آتیں۔‘‘ سالار نے یک دم اس سے کہا۔ اسے پتا نہیں کیاخیال آیا تھا۔
’’میں نے کہا تھا ان سے، لیکن تمہیں تو پتا ہے وہ اتنے دنوں کے لئے اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتیں۔‘‘
اس نے جواب دیا۔
“That’s understandable.” سالار نے کھانا کھاتے ہوئے بے اختیار ایک نوالہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ آخری لقمہ ہمیشہ اسے ہی کھلاتا تھا۔ ایک لمحے کے لئے وہ ٹھٹکی پھر اس نے لقمہ منہ میں لے لیا، لیکن وہ اسے چبا نہیں سکی۔ وہ لقمہ جیسے آخری حد ثابت ہوا، وہ بے اختیار رو پڑی۔ وہ پانی پیتے پیتے یک دم رک گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ ہکا بکا تھا۔ ہونٹوں پر ہاتھ رکھے وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی گئی۔
’’کیا ہو ا ہے امامہ؟‘‘ وہ بری طرح بدحواس ہوا۔ کم از کم اس وقت اس طرح کی گفتگو کے دوران آنسو…؟ وہ ان کی وجہ تلاش نہیں کرسکا۔
ایک دفعہ آنسو بہہ جانے کے بعد سب کچھ آسان ہوگیا تھا۔ مزید رونا، بے بسی کا اظہار اور کمزوری کا اعتراف ۔ اب مزید دیواریں کھڑی رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
’’فار گاڈسیک… تم پاگل کردوگی مجھے، کیا ہوا ہے…؟ سب کچھ ٹھیک رہا میرے بعد؟ کسی نے تمہیں پریشان تو نہیں کیا؟‘‘ وہ اب مکمل طور پر حواس باختہ تھا۔ ٹشو پیپر سے آنکھیں رگڑتے ہوئے امامہ نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے سرہلایا۔
’’تو پھر کیوں رو رہی ہو؟‘‘ سالار مطمئن نہیں ہوا تھا۔
’’ایسے ہی بس میں تمہیں بہت مس کرتی رہی اس لئے۔‘‘ وہ کہتے کہتے پھر رو پڑی۔