آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

آدم و حو ّا

اس کے پیروں کے نیچے وہ زمین جیسے سبز مخمل کی تھی… مخمل … یا کچھ اور تھا… تاحد نظر زمین پر سبزے کی طرح پھیلا ہوا … درختوں پر اُگنے والی پیلی کونپلوں جیسا سبز… اور پھر ایک دم سمندر کے اندر پیدا ہونے والی کائی جیسی رنگ لیے… نمی کے ننھے ننھے قطرے اپنے وجود پر لیے سبزے کی پتیاں معطر ہوا کے جھونکوں سے ہلتی جیسے کسی رقص میں مصروف تھیں… پانی کے ننھے شفاف موتی سبز پتیوں کے وجود پر پھسل رہے تھے، سنبھل رہے تھے یوں جیسے مخمور ہو کر بہک رہے ہوں… پتیوں کے وجود سے لپٹتے، ڈگمگاتے، سنبھلتے، پھسلتے…تیز ہوا کا ایک جھونکا چلتا، سبزے میں ایک لہر اُٹھتی، سمندر میں جوار بھاٹا کی پہلی لہر کی طرح اُٹھتی، رقص کرتی، لہراتی وہ سبزے کو سہلاتی، بہلاتی ایک عجیب سی سرشاری میں مبتلا کرتی ایک طرف سے دوسری طرف گزر جاتی۔ زمین جیسے رقص کرنے میں مصروف تھی۔
سبزے کا وجود ننھے ننھے پھولوں سے سجا ہوا تھا… ہر رنگ کے پھولوں سے… اتنے رنگ اور ایسے رنگ جو نظر کو ششدر کر دیں۔ سبزے کے وجود پر بکھرے وہ ننھے ننھے پھول یہاں سے وہاں ہر جگہ تھے۔ سبزے میں ہوا سے پیدا ہونے والی ہر لہر اور ہر موج کے ساتھ وہ بھی عجیب مستی اور سرشاری سے رقص کرنے لگتے۔
آسمان صاف تھا… آنکھوں کو سکون دینے والا ہلکا نیلا اور اب بھی کسی گنبد کی طرح پھیلا ہوا… گہرا اونچا… بہت اونچا… یہاں سے وہاں تک ہر طرف۔
ہوا معطر تھی، مخمور تھی، گنگنا رہی تھی۔ وہاں موجود ہر شے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ ہنستی، چھیڑ کر جاتی پھر پلٹ کر آتی… کبھی تھپکتی… کبھی تھمتی… پھر چلتی… پھر گنگناتی… پھر لہراتی… وہاں تھی، نہیں تھی… کہاں تھی؟
وہ کسی راستے پر تھا… کیا راستہ تھا…! وہ کسی انتظار میںتھا۔ کیا انتظار تھا…! اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس راستے کے دونوں طرف دو رویہ درختوں کی قطار کے ایک درخت کے ساتھ وہ ٹکا کھڑا تھا۔ سہارا لیے یا سہارا دیے۔
وہ آگئی تھی… اس نے بہت دور اس راستے پر اُسے نمودار ہوتے دیکھ لیا۔
وہ سفید لباس میں ملبوس تھی۔ بہت مہین، بہت نفیس … وہ ریشم تھا…؟ اطلس تھا…؟ کم خواب یا وہ کچھ اور تھا؟ اتنا ہلکا… اتنا نازک کہ ہوا کا ہلکا سا جھونکا اس سفید گاؤن نما لباس کو اڑانے لگا… اس کی دودھیا پنڈلیاں نظر آنے لگتیں۔ وہ ننگے پاؤں تھی اور سبزےپر دھرے اس کے خوب صورت پاؤں جیسے سبزے کی نرمی کو برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ وہ پاؤں رکھتی چند لمحوں کے لیے لڑکھڑاتی… جیسے مخمور ہو کر ہنستی… پھر سنبھل جاتی… پھر بڑے اشتیاق سے ایک بار پھر قدم آگے بڑھا دیتی۔
اس کے سیاہ بال ہوا کے جھونکوں سے اس کے شانوں اور اس کی کمر تک ہلکورے کھا رہے تھے۔ اس کے گالوں اور چہرے کو چومتے آگے پیچھے جا رہے تھے… اس کے چہرے پر آتے… اس کے سینے سے لپٹتے… اس کے کندھے پر، پھر ہوا میں لہرا کر ایک بار پھر نیچے چلے جاتے۔ وہ خوب صورت سیاہ چمک دار ریشمی زلفیں جیسے اس کے سفید لباس کے ساتھ مل کر اس کے وجود کے ساتھ رقص کرنے میں مصروف تھیں۔
اس کے مرمریں وجود پر وہ سفید لباس جیسے پھسل رہا تھا… سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا… ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ وہ اس کے جسم کے خدوخال کو نمایاں کرتا، اسے پیروںسے کندھوں تک چومتا… اس کے وجود کے لمس سے مخمور ہوتا… ہوش کھوتا… دیوانہ وار اس کے وجود کے گرد گھومتا… کسی بھنور کی طرح اس کے جسم کو اپنی گرفت میں لیتا اس سے لپٹ رہا تھا۔ ہوا کا دوسرا جھونکا اس کے سیاہ ریشمی زلفوں کو بھی اس رقص میں شامل کر دیتا… وہ اس کے کندھوں اور کمر پر والہانہ انداز میں پھسلتیں… ہوا میں ہلکا سا اڑتیں پھر نرمی اور ملائمت سے اس کے چہرے اور سینے پر گرتیں… اس کے وجود سے پھوٹتی خوشبو سے یک دم سرشار ہوتیں… پھر اس کے جسم کو جیسے اپنے وجود سے چھپانے کی کوشش کرنے لگتیں۔ ہوا کا ایک اور جھونکا انہیں ہولے سے اٹھا کر پھر پیچھے پھینک دیتا۔
اس رقص میں اب پھر اس کے سفید لبا س کی باری تھی… وہ آگے بڑھ آیا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ عجیب سی حیرت میں مبتلا وہاں کی ہر شے کو سحر زدہ انداز میں دیکھ رہی تھی… بچوں جیسی حیرت اور اشتیاق کے ساتھ۔
اس راستے پر چلتے چلتے اس نے اسے دیکھ لیا… اس کے قدم تھمے، دونوں کی نظریں ملیں پھر اس کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی… پہلے مسکراہٹ پھر ہنسی… اس نے اسے پہچان لیا تھا… وہاں موجود ہ واحد وجود تھا، جسے وہ پہچانتی تھی۔





اس نے ہاتھ بڑھایا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کے قریب آگئی۔ دونوں ایک عجیب سی سرشاری میں ایک دوسرے کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے۔
اس کی گہری سیاہ مسکراتی ہوئی آنکھیں، ہیرے کی کنیوں کی طرح چمک رہی تھیں اور یہ چمک اسے دیکھ کر بڑھ گئی تھی۔ اس کے خوب صورت گلابی ہونٹوں پر نمی کی ہلکی سی تہہ تھی، یوں جیسے وہ ابھی کچھ پی کر آئی ہو… اس کی ٹھوڑی ہمیشہ کی طرح اٹھی ہوئی تھی۔ اس کی صراحی دار گردن کو دیکھتے ہوئے اس نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے لیا… اس کی آنکھوں کی چمک اور اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی… وہ جیسے اس لمس سے واقف تھی، پھر وہ دونوں بے اختیار ہنسے۔
’’تم میرا انتظار کر رہے تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’بہت دیر کر دی؟‘‘
’’نہیں… بہت زیادہ نہیں۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامے اس راستے پر چلنے لگا۔
ہوا ابھی بھی ان دونوں کے وجود کے ساتھ اور وہاں موجود ہر شے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے میں مصروف تھی۔
وہ اب بھی بچوں جیسی حیرت اور خوشی کے ساتھ وہاں موجود ہر شے کو کھوجنے میں مصروف تھی۔ اس کی کھلکھلاہٹ اور شفاف ہنسی وہاں فضا کو ایک نئے رنگ سے سجانے لگے تھے۔ فضا میں یک دم ایک عجیب دلفریب سے ساز بجنے لگا تھا… وہ ٹھٹھکی، پھر بے اختیار کھلکھلائی… اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اس نے اس راستے پر قدم آگے بڑھائے، پھر مرد نے اسے دونوں بازو ہوا میں پھیلائے رقص کے انداز میں گھومتے دیکھا… وہ بے اختیار ہنسا۔ وہ اس راستے پر کسی ماہر بیلے رینا کی طرح رقص کرتی دور جا رہی تھی۔ اس کے جسم پر موجود سفید لباس اس کے گھومتے جسم کے گرد ہوا میں اب کسی پھول کی طرح رقصاں تھا۔ وہ اب آہستہ آہستہ ہوا میں اٹھنے لگی تھی… ہوا کے معطر جھونکے بڑی نرمی سے اسے جیسے اپنے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ وہ اب بھی اسی طرح ہنستی، رقص کے انداز میں بازو پھیلائے گھوم رہی تھی۔ وہ سحر زدہ اسے دیکھتا رہا… وہ اب کچھ گنگنا رہی تھی، فضا میں یک دم کوئی ساز بجنے لگا تھا۔ پہلے ایک … پھر دوسرا … پھر تیسرا… پھر بہت سارے… پوری کائنات یک دم جیسے کسی سمفنی میں ڈھل گئی تھی اور وہ اب بھی ہوا میں رقصاں تھی۔ کسی مخملیں پر کی طرح ہوا کے دوش پر اوپر نیچے جاتے، وہ سحر زدہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ساتھی رقص کرتے ہوئے ایک بار پھر اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسی، پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ بڑھایا یوں جیسے اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہی ہو۔ وہ ہنس پڑا وہ ہاتھ بڑھاتی اور وہ کھنچا نہ چلا آتا۔
وہ بھی اس کا ہاتھ پکڑے اب فضا میں رقصاں تھا… زمین سے دور… اس کے قریب … اس کے ساتھ … یک دم دور کی، جیسے کائنات ٹھہر گئی ہو۔ وہ اب آسمان کو دیکھ رہی تھی پھر یک دم آسمان تاریک ہو گیا… دن رات میں بدل گیا تھا… اور رات دن سے بڑھ کر خوب صورت تھی… سیاہ آسمان خوب صورت چمکتے ہوئے ستاروں سے سجا ہوا تھا… ہر رنگ کے ستاروں سے… اور ان سب کے درمیان چاند تھا… کسی داغ کے بغیر، روشنی کا منبع۔
دن کی روشنی اجلی تھی… سکون آور تھی… مدہوش کر دینے والی تھی۔ رات کی روشنی میں بے شمار رنگ تھے، کائنات میں ایسے رنگ انہوں نے کب دیکھے تھے… کہاں دیکھے تھے۔ زمین جیسے ہر رنگ کی روشنی میں نہا رہی تھی۔ ایک ستارہ ٹمٹماتا… پھر دوسرا… پھر تیسرا… اور زمین پر کبھی ایک رنگ بڑھتا، کبھی دوسرا، کبھی تیسرا… آسمان کو جیسے کسی نے روشنیوں میں پرو دیا تھا۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے جیسے سرشاری کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی… اس کی حیرت، اس کی سرشاری جیسے اسے محظوظ کر رہی تھی… گدگدا رہی تھی۔
وہ اب پھر زمین پر آگئے تھے۔ رات ایک بار پھر دن میں بدل گئی تھی… سبزہ، پھول، پتے، مہکتی معطر ہوا، سب وہیں تھے۔
اس کے ساتھ چلتے چلتے اس نے اپنے پیروں کے نیچے جاتے مخملیں سبزے پر سجے پھولوں کو دیکھا پھر ہاتھ بڑھایا۔ اس کے ہاتھ میں وہ پھول آگیا، پھر دوسرا، پھر تیسرا… پھر دور دور تک پھیلے سبزے کے سارے پھول جیسے کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف آئے تھے۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں… لاتعداد، بے شمار، اتنے کہ اس کے ہاتھ سنبھال نہیں پائے تھے۔ وہ اب اس کے ہاتھوں پر… اب اس کے بالوں پر، اب اس کے لباس پر، اب اس کے جسم پر… وہ خوشی سے بے خود ہو رہی تھی، سرشار ہو رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں ہوا میں اچھالا… وہ پلک جھپکتے میں آسمان کی طرف گئے… پورا آسمان پھولوں سے بھر گیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے پھر پھولوں کی بارش ہونے لگی تھی۔ وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ پھولوں کو بارش کے قطروں کی طرح مٹھیوں میں بھرتے اور چھوڑتے، بھاگتے، کھلکھلاتے وہ سب پھول زمین پر گر کر ایک بار پھر سبزے میں اپنی اپنی جگہ سج گئے تھے… وہاں جہاں وہ تھے… وہیں جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ ایک بار پھر آسمان کو دیکھ رہے تھے، وہاں اب بادل نظر آرہے تھے۔ روئی کے گالوں جیسے حرکت کرتے بادل، وہ سب بادل وہاں جمع ہو رہے تھے، جہاں وہ کھڑے تھے… پھر اس نے آسمان پر بارش کا پہلا قطرہ دیکھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی ہتھیلی پر لیا۔ اس قطرے کو دیکھ کر دوبارہ ہنستے ہوئے آسمان کی طرف اچھال دیا۔ اس بار وہ قطرہ اوپر جا کر اکیلا واپس نہیں آیا تھا۔ وہ بہت سارے دوسرے قطروں کو ساتھ لے کر آیا تھا… بہت سارے نرم لمس کے گدگدانے والے قطرے… بارش برس رہی تھی اور وہ دونوں بچوں کی طرح ہنستے، کھلکھلاتے پانی کے ان قطروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر ایک دوسرے پر اچھال رہے تھے… وہ بارش تھی۔ پانی تھا مگر وہ قطرے ان کے بالوں، ان کے جسم کو گیلا نہیں کر رہے تھے۔ وہ جیسے شفاف موتیوں کی بارش تھی، جو ان کے ہاتھ اور جسم کی ایک جنبش پر ان کے بالوں اور لباس سے الگ ہو کر دور جا گرتے… سبزے اور پھولوں کے اوپر اب بارش کے شفاف موتی جیسے قطروں کی ایک تہہ سی آگئی تھی، یوں جیسے کسی نے زمین پر کوئی شیشہ پھیلا دیا ہو… اور وہ اس شیشے پر چل رہے تھے۔ ان کو اپنے سائے میں لیے وہ رکتے، ہاتھ ہلاتے، آسمان پر بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے پھر اپنی طرف بلاتے وہ آسمان پر جیسے پانی سے مصوری کر رہے تھے۔
پھر جیسے وہ اس کھیل سے تھک گئی… وہ رکی… بارش تھمی… زمین سے پانی کے قطرے غائب ہونے لگے پھر بادل… چند ساعتوں میں آسمان صاف تھا۔ یوں جیسے وہاں کبھی بادل نام کو کوئی شے آئی ہی نہ ہو۔
وہ اب اس کا ہاتھ پکڑ رہا تھا۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’تمہیں کچھ دکھانا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’کچھ اور بھی؟‘‘ اس کی خوشی کچھ اور بڑھی۔
’’ہاں، کچھ اور بھی۔‘‘ اس نے اثبات میں سرہلایا۔
’’کیا؟‘‘ اس نے بے ساختہ اس سے پوچھا تھا… وہ خامو شی سے مسکرا دیا۔
’’کیا…؟‘‘ اس نے بچوں کی طرح اصرار کیا۔
وہ پہلے سے زیادہ پُراسرار انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسی نئے راستے کی طرف جا رہا تھا۔ پھر ان دونوں کو دور سے کچھ نظر آنے لگا تھا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!