آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

’’آج کل ویسے بھی نیٹ ورک اور سگنلز کا اتنا زیادہ مسئلہ ہے۔‘‘
’’عزت نفس‘‘ نے اسے جواباً ڈوب مرنے کے لیے کہا تھا۔
’’ارے بیٹا! میں تو کب سے تمہارے فون کے انتظار میں بیٹھی ہو۔ تمہیں اب یاد آئی سعیدہ اماں کی۔‘‘ سعیدہ اماں نے اس کی آواز سنتے ہی گلہ کیا۔
اس نے جواباً بے حد کمزور بہانے پیش کیے۔ سعیدہ اماں نے اس کی وضاحتوں پر غور نہیں کیا۔
’’سالار ٹھیک تو ہے نا تمہارے ساتھ؟‘‘
انہوں نے اس سوال کے مضمرات کا اس صورت حال میں سوچے بغیر پوچھا اور امامہ کے صبر کا جیسے پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ وہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ سعیدہ اماں بری طرح گھبرا گئی تھیں۔
’’کیا ہوا بیٹا؟… ارے اس طرح کیوں رو رہی ہو…؟ میرا تو دل گھبرانے لگا ہے… کیا ہو گیا آمنہ؟‘‘ سعیدہ اماں کو جیسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔
’’سالار نے کچھ کہہ دیا ہے کیا؟‘‘ سعیدہ اماں کو سب سے پہلا خیال یہی آیا تھا۔
’’مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ امامہ نے ان کے سوال کا جواب دیے بغیر کہا۔
سعیدہ اماں کی حواس باختگی میں اضافہ ہوا۔
’’میں نے کہا بھی تھا آپ سے۔‘‘ وہ روتی جا رہی تھی۔
’’کیا وہ اپنی پہلی بیوی کی باتیں کرتا رہا ہے تم سے؟‘‘
سعیدہ اماںنے سالار کے حوالے سے واحد خدشے کے بے اختیار ذکر کیا۔
’’پہلی بیوی…؟‘‘ امامہ نے روتے روتے کچھ حیرانی سے سوچا۔
لیکن سالار کے لیے اس وقت اس کے دل میں اتنا غصہ بھرا ہوا تھا کہ اس نے بلا سوچے سمجھے سعیدہ اماں کے خدشے کی تصدیق کی تھی۔
’’جی…!‘‘ اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
سعیدہ اماں کے سینے پر جیسے گھونسا لگا۔ یہ خدشہ تو نہیں تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ اپنے گھر لے جاتے ہی پہلے دن تو وہ کم از کم اپنی اس کئی سال پرانی منکوحہ کا ذکر نہیں کرے گا۔ امامہ کو سالار پر کیا غصہ آنا تھا جو سعیدہ اماں کو آیا تھا، انہیں یک دم پچھتاوا ہوا تھا۔ واقعی کیا ضرورت تھی یوں راہ چلتے کسی بھی دو ٹکے کے آدمی کو پکڑ کر یوں اس کی شادی کر دینے کی۔ انہوں نے پچھتاتے ہوئے سوچا۔
’’تم فکر نہ کرو… میں خود سبط علی بھائی سے بات کروں گی۔‘‘ سعیدہ اماں بے حد غصے میں کہا۔





سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے وہ اتنی دیر میں پہلی بار بہت اچھا محسوس کر رہی تھی، یوں جیسے کسی نے اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا ہو۔ اسے اس وقت جس ’’متعصب‘‘ جانب داری کی ضرورت تھی، انہوں نے اسے وہی دی تھی۔ ان سے بات کرتے ہوئے روانی اور فراوانی سے بہنے والے آنسو اب یک دم خشک ہو گئے تھے۔
وہاں سے دس میل کے فاصلے پر اپنے بینک کے بورڈ روم میں بیٹھیevaluation team کو دی جانے والی پریزینٹیشن کے اختتامیہ سوال و جواب کے سیشن پر credibility and trust factors سے متعلقہ کسی سوال کے جواب میں بولتے ہوئے سالار کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر پر موجود اس کی ایک دن کی بیوی اور نو سالہ ’’محبوبہ‘‘ گھر پر بیٹھی اس کی ’’ساکھ‘‘ اور ’’نام‘‘ کا تیاپانچہ کرنے میں مصروف تھی۔ جس کو اس وقت اس وضاحت کی اس ایویلیویشن ٹیم سے زیادہ ضرورت تھی۔
سونا ہو گیا… رونا بھی ہو گیا… اب اور کیا رہ گیا تھا… امامہ نے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور ناک رگڑتے ہوئے بالآخر ریسیور رکھتے ہوئے سوچا۔ اسے کچن کے سنک میں پڑے برتنوں کا خیال آیا، بڑی نیم دلی سے وہ کچن میں گئی اور ان برتنوں کو دھونے لگی۔
وہ شام کے لیے اپنے کپڑے نکالنے کے لیے ایک بار پھر بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اس نے اپنا سیل فون بجتے سنا۔ جب تک وہ فون کے پاس پہنچی، فون بند ہو چکا تھا۔ وہ سالار تھا اور اس کے سیل پر یہ اس کی چوتھی مسڈ کال تھی۔ وہ سیل ہاتھ میں لیے اس کی اگلی کال کا انتظار کرنے لگی۔ کال کے بجائے اس کا میسج آیا۔ وہ اسے اپنے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا رہا تھا کہ ڈاکٹر سبط علی کا ڈرائیور ایک گھنٹے تک اسے وہاں سے ڈاکٹر صاحب کے گھر جائے گا اور وہ افطار کے بعد آفس سے سیدھا ڈاکٹر صاحب کے گھر آنے والا تھا۔
چند لمحوں کے لیے اس کا دل چاہا، وہ فون کو دیوار پر دے مارے لیکن وہ اس کا اپنا فون تھا۔ سالار کو کیا فرق پڑتا۔
وہ اس سے رات کو اتنا لمبا چوڑا اظہار محبت نہ کرتا تو وہ آج اس سے توقعات کا یہ انبار لگا نہ بیٹھی ہوتی لیکن سالار کے ہر جملے پر اس نے لاشعوی طور پر پچھلی رات اپنے دامن کے ساتھ ایک گرہ باندھ لی تھی اور گرہوں سے بھرا وہ دامن اب اسے بری طرح تنگ کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر سبط علی گھر پر نہیں تھے۔ آنٹی کلثوم نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور وہ بھی جس حد تک مضنوعی جوش و خروش اور اطمینان کا مظاہرہ کر سکتی تھی، کرتی رہی۔ آنٹی کے منع کرنے کے باوجود وہ ان کے ساتھ مل کر افطار اور ڈنر کی تیاری کرواتی رہی۔
ڈاکٹر سبط علی افطار سے کچھ دیر پہلے آئے تھے اور انہوں نے امامہ کی سنجیدگی نوٹ کی تھی۔ مگر اس کی سنجیدگی کا تعلق سالار سے نہیں جوڑا تھا۔ وہ جوڑ بھی کیسے سکتے تھے۔
سالار افطار کے تقریباً آدھ گھنٹے بعد آیا تھااور امامہ سے پہلی نظر ملتے ہی سالار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرائی تھی، نہ ہی اس نے ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی کی طرح گرم جوشی سے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔ وہ بس نظریں چرا کر لاؤنج سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے سالار کو لگا کہ شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔ آخر وہ اس سے کس بات پر نارض ہو سکتی ہے۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے پاس بیٹھا ان سے باتیں کرتا ہوا اپنے ذہن میں پچھلے چوبیس گھنٹوں کے واقعات کو دہراتا اور کوئی ایسی بات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا جو امامہ کو خفا کر سکتی تھی۔ اسے ایسی کوئی بات یاد نہیں آئی۔ ان کے درمیان آخری گفت گو رات کو ہوئی تھی۔ وہ اس کے بازو پر سر رکھے باتیں کرتی سوئی تھی۔ خفا ہوتی تو… وہ الجھ رہا تھا…
’’کم از کم میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو اسے برا لگا ہو، شاید یہاں کوئی ایسی بات ہوئی ہو۔‘‘ سالار نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سوچا۔ ’’لیکن یہاں کیا بات ہوئی ہو گی…؟… شاید میں کچھ ضرورت سے زیادہ حساس ہو کر سوچ رہا ہوں، غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے مجھے۔‘‘
وہ اب خود کو تسلی دے رہا تھا لیکن اس کی چھٹی حس اسے اب بھی اشارہ دے رہی تھی۔ بے شک وہ اس سے نو سال بعد ملا تھا مگر نو سال پہلے دیکھے جانے والا س کا ہر موڈ اس کے ذہن پر رجسٹرڈ تھا اور وہ امامہ کے اس موڈ کو بھی جانتا تھا۔
ڈنر ٹیبل پر بھی زیادہ تر گفت گو ڈاکٹر سبط علی اور سالار کے درمیان ہی ہوئی۔ وہ آنٹی کے ساتھ وقفے وقفے سب کو ڈشز سرو کرتی رہی، خاموشی اب بھی برقرار تھی۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ مسجد میں تراویج پڑھنے آیا اور حفظ قرآن کے بعد آج پہلی بار تروایح کے دوران اٹکا۔ ایک بار نہیں دوبار… اس نے خود کو سنبھال لیا تھا لیکن وہ بار بار ڈسٹرب ہو رہا تھا۔
وہ ساڑھے دس بجے کے قریب ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے سعیدہ اماں کے گھر جانے کے لیے نکلے تھے اور سالار نے بالآخر اس سے پوچھ ہی لیا۔
’’تم مجھ سے خفا ہو؟‘‘
کھڑکی سے باہر دیکھتے وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی پھر اس نے کہا۔
’’میں تم سے کیوں خفا ہوں گی؟‘‘ وہ بدستور کھڑکی کی طرف گردن موڑے باہر دیکھ رہی تھی۔ سالار کچھ مطمئن ہوا۔
’’ہاں، میں بھی سوچ رہا تھا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی جس پر تمہار اموڈ آف ہوتا۔‘‘ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ نے اس کی بات سنی ور اس کی برہمی کچھ اور بڑھی۔
’’یعنی میں عقل سے پیدل ہوں جو بلا وجہ اپنا موڈ آف کرتی پھر رہی ہوں… اور اس نے میرے رویے اور حرکتوں کا نوٹس ہی نہیں لیا۔‘‘
’’میں تمہیں آج فون کرتا رہا لیکن تم نے فون ہی نہیں اٹھایا۔‘‘ وہ ڈرائیو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
امامہ کو سوچتے ہوئے عجیب سی تسلی ہوئی۔
’’اچھا ہوا نہیں اٹھایا یعنی اس نے محسوس تو کیا کہ میں جان بوجھ کر اس کی کال نہیں لیتی رہی۔‘‘
’’پھر میں نے گھر کے نمبر پر فون کیا۔ وہ بھی انگیجڈ تھا، تم یقینا اس وقت مصروف تھی اس لیے کال نہیں لے سکیں۔‘‘ وہ بے حد عام سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہاں بے نیازی کی انتہا تھی۔
امامہ کے رنج میں اضافہ ہوا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کے فون کا بیلنس ختم ہو چکا تھا۔
’’مجھے اپنے فون کے لیے کارڈ خریدنا ہے۔‘‘
سالار نے اسے ایک دم کہتے سنا، وہ اپنا ہینڈ بیگ کھولے اس میں سے کچھ نکال رہی تھی اور جو چیز اس نے نکال کر سالار کو پیش کی تھی، اس نے چند لمحوں کے لیے سالار کو ساکت کر دیا تھا۔ وہ ہزار وپے کا ایک نوٹ تھا۔ وہ اس کے تاثرات سے بے خبر اب ونڈ سکرین سے باہر کسی ایسی شاپ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں پر وہ کارڈز دستیاب ہوتے۔ سالار نے اپنی طرف بڑھے ہوئے اس کے ہاتھ کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
’’واپسی پر لیتے ہیں… اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’تمہیں آنکھیں بند کر کے اپنے سیل فون تھما دیا تھا جب تم میری کچھ نہیں تھی تو اب کیا پیسے لوں گا تم سے!‘‘
گاڑی میں کچھ عجیب سی خاموشی در آئی تھی۔ دونوں کو بیک وقت کچھ یاد آیا تھا اور جو یاد آیا تھا اس نے یک دم وقت کو وہیں روک دیا تھا۔
بہت غیر محسوس انداز میں امامہ نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے اس ٹکڑے کو بہت سی تہوں میں لپیٹنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کی ساری رقم لوٹا دی تھی، بلکہ اس سے زیادہ ہی جتنی اس نے فون، فون کے بل اور اس کے لیے خرچ کی ہو گی۔ مگر احسان… یقینا اس کے احسانوں کا وزن بہت زیادہ تھا۔ اس نے کاغذ کی لپٹی تہوں کو دوبارہ بیگ میں ڈال لیا۔ صبح سے اکٹھی کی ہوئی بدگمانیوں کی دھند یکدم چھٹ گئی تھی یا کچھ دیر کے لیے امامہ کو ایسا ہی محسوس ہوا۔
باہر سڑک پر دھند تھی اور وہ بڑی احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ امامہ کا دل چاہا، وہ اس سے کچھ بات کرے لیکن وہ خاموش تھا۔ شاید کچھ سوچ رہا تھا یا لفظ ڈھونڈ رہا تھا۔
’’آج سارا دن کیا کرتی رہیں تم؟‘‘
اس نے بالآخر گفت گو کا دوبارہ آغاز کرنے کی کوشش کی تھی۔ پورا دن فلیش کی طرح امامہ کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ امامہ کو ندامت ہوئی، وہ جو کچھ کرتی رہی تھی، اسے بتا نہیں سکتی تھی۔
’’میں سوتی رہی۔‘‘ اس نے پورے دن کو تین لفظوں میں سمیٹ دیا۔
’’ہاں، مجھے اندازہ تھا، جاگ رہی ہوتیں تو میری کال ضرور ریسیو کرتیں۔‘‘ ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
’’پاپا، ممی اور انیتا آرہے ہیں کل شام۔‘‘ سالار نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’تم سے ملنے کے لیے؟‘‘ اس نے مزید اضافہ کیا اور بالآخر سسرال کے ساتھ اس کا پہلا رابطہ ہونے والا تھا۔ امامہ کو اپنے پیٹ میں گرہیں لگتی محسوس ہوئیں۔
’’تم نے انہیں میرے بارے میں بتایا ہے؟‘‘ اس نے بے حد نپے تلے الفاظ میں پوچھا۔
’’نہیں، فی الحال نہیں، لیکن آج بتاؤں گا پاپا کو فون پر۔‘‘ وہ ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
امامہ نے اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔ کوئی پریشانی، تشویش، اندیشہ، خدشہ، خوف، پچھتاوا… وہ کچھ بھی پڑھنے میں ناکام رہی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا اور اگر اس کے دل میں کچھ تھا بھی تو وہ اسے بڑی مہارت سے چھپائے ہوئے تھا۔
سالار نے اس کو کھوجتی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے بے اختیارنظریں ہٹائیں۔
’’انیتا کی فلائٹ ساڑھے پانچ بجے اور پاپا کی سات بجے ہے… میں کل بینک سے جلدی ایئرپورٹ چلا جاؤں گا، پھر ممی اور پاپا کو لے کر میرا خیال ہے نو یا ساڑھے نو بجے تک گھر پہنچوں گا۔‘‘
’’یہ تم نے کہا پہنا ہوا ہے؟‘‘ سالار نے یک دم اس کے لباس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
تین گھنٹے پینتالیس منٹ کے بعد بالآخر اسے یاد آگیا کہ میں نے کچھ پہنا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر امامہ کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔
’’کپڑے۔‘‘ امامہ نے جواب دیا۔
سالار اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ’’جانتا ہوں کپڑے پہنے ہیں، اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں۔‘‘
امامہ گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کہ اب وہ تعریف کرے گا۔ اس نے سوچا۔ دیر سے سہی، لیکن اسے میرے کپڑے نظر تو آئے۔ اس کی خفگی میں کچھ اور کمی ہوئی۔
’’کون سا کلر ہے یہ؟‘‘ سالار نے اپنے پیروں پر پہلی کلہاڑی ماری۔
کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ کا دل چاہا، وہ چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر کود جائے۔ پونے چار گھنٹے میں وہ اس کے کپڑوں کا رنگ بھی نہیں پہچان سکا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس نے اسے غور سے دیکھا نہیں تھا۔
’’پتا نہیں۔‘‘ اس نے اسی طرح کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے بے حد سرد مہری سے کہا۔
’’ہاں، میں بھی اندازہ نہیں کر سکا۔ آج کل خواتین پہنتی بھی تو بڑے عجیب عجیب کلر ہیں۔‘‘ سالار نے اس کے لہجے پر غور کیے بغیر عام سے انداز میں کہا۔
وہ زنک اور کاپر کے سب سے زیادہ اِن شیڈ کو ’’عجیب‘‘ کہہ رہا تھا۔ امامہ کو رنج سا رنج ہوا۔ سالار شوہروں کی تاریخی غلطیاں دہرا رہا تھا۔ اس بار امامہ کا دل تک نہیں چاہا کہ وہ اس کی بات کا جواب دے، وہ اس قابل نہیں تھا۔ اسے یاد آیا، اس نے کل بھی اس کے کپڑوں کی تعریف نہیں کی تھی۔ کپڑے…؟ اس نے تو اس کی بھی تعریف نہیں کی تھی… اظہار محبت کیا تھی اس نے … لیکن تعریف… ہاں، تعریف تو نہیں کی تھی اس نے … وہ جیسے پچھلی رات کو یاد کرتے ہوئے تصدیق کر رہی تھی، اسے دکھ ہوا۔ کیا وہ اُسے اتنی بھی خوب صورت نہیں لگی تھی کہ وہ ایک بار ہی کہہ دیتا۔ کوئی ایک جملہ، ایک لفظ، کچھ بھی نہیں، وہ ایک بار پھر خود ترسی کا شکار ہونے لگی۔ عورت اظہار محبت اور ستائش کو کبھی ’’ہم معنی‘‘ نہیں سمجھتی۔ یہ کام مرد کرتا ہے اور غلط کرتا ہے۔




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!